Skip to main content

دو سجدوں کے درمیان جلسہ میں کونسی دعا پڑھی جائے ؟



پیام حدیث:
دو سجدوں کے درمیان  جلسہ میں کونسی  دعا پڑھی جائے ؟
ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی"                                                                    

   عن حذیفة رضی اللہ عنه ان النبی صلی اللہ علیه وسلم کان یقول بین  السجد تین:"رب اغفرلی، رب اغفرلی"۔
   حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان یوں کہا کرتے تھے:[ رب اغفرلی، رب اغفرلی]" اے میرے رب مجھے بخش دے، اے میرے رب ! میری مغفرت فرما"۔
(سنن ابو داود:1/645/884 مطولا، سنن النسائی : 13/211/1069 مع ذخیرۃ العقبی للا ثیوبی، سنن ابن ماجہ : 2/162/897 بتحقیق  بشار عواد، واللفظ لہ، وانظر صحیح مسلم مع منۃ المنعم:1/490/1814)
فقہ الحدیث:(1) دونوں سجدوں کے درمیان دعاء مذکور "رب اغفرلی ، رب اغفرلی " کا پڑھنا سنت ہے۔
(2) کتنی بار پڑھنا ہے ؟ تو واضح رہے کہ سنن ابو داود میں  اس حدیث کے مطول لفظ میں مذکور ہے (ثم یسجد، فکان سجودہ نحوا من قیامہ۔۔۔۔وکان یقعد فیما بین السجد تین نحوا من سجودہ ۔۔)  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سجدہ کیا تو آپ کا سجدہ بھی آپ کے قیام کی مانند (طویل) تھا ۔۔۔۔ اور سجدوں  کے درمیان بیٹھے، اتنی دیر  جتنی کہ سجدے میں لگائی ۔۔)، اس سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان  لمبی دیر تک بیٹھے رہتے اور "رب اغفرلی ، رب اغفرلی " پڑھتے  رہتے، ورنہ یہ غیر معقول سی بات ہے کہ اتنی دیر تک  بیٹھے  رہتے اور صرف دوبار ہی" رب اغفرلی ، رب اغفرلی" کہنے پر اکتفا کرتے!! اس لئے جتنی بار پڑھنا ممکن ہو پڑھے۔ علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مسئلہ: 13: سجدوں کے درمیان  کی دعا کتنی بار پڑھنی چاہئے ؟ اس بارے میں حدیث میں کوئی صراحت نہیں ہے، اس لیے ایک سے زائد بار پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ مگر اس بات کو ذہن میں  رکھیں کہ اللہ تعالی کو طاق (بے جوڑ) تعداد پسند ہے، نسائی، ابو داود ، ترمذی، (مقالات راشدیہ 5/29)
(3) شیخ عطاء اللہ ساجد حدیث مذکورکے فوائد ومسائل (سنن ابن ماجہ : 2/77، دار السلام ، ریاض) کے تحت فرماتے ہیں : "شیخ ابن باز رحمہ اللہ اور کچھ دیگر علماء اور ائمہ کم از کم [رب اغفرلی ، رب اغفرلی] پڑھنے کوواجب قرار دیتے ہیں "۔ لیکن ہمیں اس کے واجب ہونے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ملی ! واللہ اعلم۔ (دیکھئے  صفۃ الصلاۃ للالبانی:811)
(4) اس دعا کا پڑھنا  سنت ہے، مگر کچھ لوگ اس سے غافل ہیں ، بلکہ زیادہ  ہی غافل ہیں ، شیخ شوکانی  رحمہ اللہ اس پر اس انداز میں افسوس کا اظہار کرتے ہیں : " لوگوں نے صحیح احادیث  سے ثابت شدہ  سنت کو چھوڑ رکھا ہے ۔ اس میں ان کے محدث ، فقیہ ، مجتہد اور مقلد سبھی شریک ہیں ، نہ معلوم لوگ کس چیز پر تکیہ کیے ہوئے ہیں"۔(نیل الاوطار:2/293)، دیکھئے : سنن ابو داود مترجم: 1/629 مطبوعہ دار السلام ، ریاض، وسنن ابن ماجہ : 2/77 مطبوعہ دار السلام ، ریاض)
(5) اما م طحاوی  حنفی " مشکل الآثار "(1/308۔309)  میں اس دعا کو روایت کرنے اور اس پر بعض محدثین کا عمل نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :" وھذا عند نا من قوله حسن، واستعماله احیاء لسنة من سنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، والیه نذھب، وایاہ نستعمل ، وقدوجد نا القیاس یشدہ۔۔۔"۔
   ہمارے نزدیک  ان کا یہ قول اچھا ہے، اس پر عمل کرنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرنا ہے، ہم بھی اسی کے قائل ہیں ، اور اسی پر  ہی ہمارا عمل ہے، اور قیاس بھی اس کا مؤید ہے۔۔۔۔"۔(دیکھئے : صفۃ الصلاۃ للالبانی ص811۔812)۔
(6) دو سجدوں کے درمیان دعا مذکور کے علاوہ ایک اور دعا پڑھی جاتی ہے جو کہ نہایت ہی مشہور ہے اور وہ یہ ہے : "اللھم اغفرلی وارحمنی وعافنی واھدنی وارزقنی "۔(سنن  ابودواد:1/628۔629/850۔ مطبوعہ دار السلام  ، ریاض ، سنن الترمذی: 2/76/284۔285تحقیق شیخ احمد شاکر ،سنن ابن ماجہ : 2/76/898 مطبوعہ دارالسلام  ریاض، مستدرک حاکم: 1/313/967  تحقیق الشیخ مقبل الوادعی ، نیز1/262 طبعہ اولی ، الاوسط لابن المنذر:3/190،سنن کبری  بیھقی:2/122، الدعوات الکبیر لہ:1/163، مسند احمد 5/73/2895 مطبوعہ  الرسالۃ، نیز1/315و317  طبعہ  قدیمہ، المعجم الکبیر:12/20/12349،و12/25/12393، المختارۃ للضیاء لمقدسی  کما فی صفۃ الصلاۃ ص 809، شرح السنۃ للبغوی: 3/163، المجروحین لابن  حبان:2/227، الکامل لابن عدی :6/82 من طریق حبیب ابی ثابت عن سعید بن جبیرعن ابن عباس مرفوعا)۔
 کتب مذکورہ کے علاوہ یہ دعا درج ذیل کتابوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے:
 مشکاۃ المصابیح تحقیق الالبانی :1/283/900، تخریج ھدایۃ الرواۃ : 1/405 ۔ 406/861، الکلم الطیب تحقیق الالبانی  ص106 رقم: 98، خلاصۃ  الاحکام للنووی: 1/415 تحقیق حسین اسماعیل الجمل،  الشرح الممتع لابن عثیمین :3/130، المسلم لسعید القحطانی تحقیق حافظ زبیر علی زئی ص 59، اسلامی وظائف لعبد السلام بستوی ص129 تحقیق حافظ ندیم ظہیر، الاذکار للنووی مع نتائج الافکار لابن حجر:2/118۔119، مقالات راشدیہ  از سید محب اللہ شاہ الراشدی :4/350،  مقالات راشدیہ  ازسید بدیع  الدین شا ہ  الراشدی :5/ 28۔29۔ فقہ کتاب وسنت  از محمد صبحی حسن حلاق ص 222، مطبوعہ  دار السلام ریاض، نماز مصطفی  از ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی  ص 388 ، نماز میں کی جانے والی غلطیاں  اور کوتاہیاں از ابو صالح غلام رسول ص 44، نماز نبوی از ڈاکٹر  شفیق الرحمن ص 235 ،صلاۃ الرسول از صادق سیالکوٹی  مع القول المقبول ص441 وغیرہ ۔
    اس حدیث کو حاکم  نے صحیح کہا ہے،  نووی نے "مجموع" (3/437) میں اس کی سند کو " جید " اور "اذکار" (56) میں " حسن" کہا ہے، مبارکپوری  نے کہا ہے کہ یہ حدیث اگر صحیح نہیں تو حسن درجے سےکم بھی نہیں، عبد القادر ارناؤوط نے "کلم طیب"(حدیث 96) کی تخریج میں اس کو "حسن " کہا ہے اور شیخ البانی نے"الکلم الطیب" کی تخریج اورصفۃ الصلاۃ : ص810(97) میں اس کو "جید" ، صحیح سنن ابی داود: (3/436/796) میں " حسن " اور تحقیق المشکاۃ (1/283) و تخریج ھدایۃ الرواۃ : 1/405۔(406) میں امام حاکم  کی موافقت میں صحیح قرار دیا ہے ۔ شیخ شعیب ارنووط نے مسند احمد کی تحقیق  (2/64/898 مطبوعہ  دار الرسالۃ العالمیۃ)، اور سنن ترمذی کی تحقیق (1/339/283) مطبوعہ الرسالۃ ) میں اورڈاکٹر  بشار عواد نے ابن ماجہ کی تحقیق (2/163) میں اس کی سند کو " حسن " کہا ہے۔
   لیکن واضح  رہے   کہ اس کی سند نہ تو صحیح،   نہ جید اور نہ ہی حسن ہے جیسا کہ شیخ عبد الرؤوف بن عبد الحنان نے " القول المقبول" ص441 میں تحریر فرمایا ہے ، کیونکہ اس میں دو علتیں ہیں :
پہلی علت:  اس کی سند میں حبیب بن ابی ثابت  مدلس ہیں اور انہوں نے سماع کی صراحت نہیں کی ہے۔ ان کو ابن خزیمہ ، ابن حبان اور دار قطنی  وغیرہ نے مدلس کہا ہے۔ حافظ ابن حجر نے ان کو "کثیر الارسال والتدلیس  " قرار دیا ہے۔ دیکھئے : الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین للحافظ زبیر علی زئی ص 49۔ 50(69/3) ، تقریب التھذیب مع تحریر التقریب: 1/245/1084، ھدی الساری مقدمہ  فتح الباری : ص 395۔
   حبیب  بن ابی ثابت  کا عنعنہ ہی  اس حدیث کی اصل علت ہے۔ اس حدیث کو درج ذیل علماء کرام نے  ضعیف قرار دیا ہے۔ (1) امام ترمذی نے "غریب " کہہ کر اس کی تضعیف کی ہے۔
(2) امام بغوی  نے بھی "ھذا حدیث غریب" یہ حدیث غریب یعنی ضعیف ہے کہا ہے۔
(3) علامہ ابن قدامہ (المغنی : 2/207) (4) حافظ ابن حجر (نتائج الافکار : 2/122) (5)  علامہ عبید اللہ مبارکپوری  (مرعاۃ المفاتیح : 3/222) (76) شعیب ارنووط وزھیر شاویش (تحقیق شرح السنۃ : 3/163)، (8) شیخ زکریا  بن  غلام  قادر پاکستانی  (الاخبار بما لا یصح من احادیث الاذکار ص 43) (9) شیخ سلیم الھلالی  (نیل الاوطار فی تخریج احادیث الاذکار للنووی 1/172۔ 173) (10) شیخ مقبل بن ھادی الوادعی  (تحقیق مستدرک حاکم : 1/383/967)۔(11) شیخ بدر بن عبد اللہ البدر (تحقیق الدعوات الکبیر للبیھقی: 1/163) (12) حافظ  زبیر علی زئی  (تسھیل الوصول الی تخریج صلاۃ الرسول ، ص 283/441، انوار الصحیفۃ ص43، مختصر صحیح نماز ص19۔20، تحقیق سنن ابی داود:1/628 مطبوعہ دار السلام  ، ریاض)(12) شیخ حافظ ندیم ظہیر (تحقیق اسلامی  وظائف از بستوی  ص 129) (13) شیخ حسین اسماعیل  الجمل (تحقیق خلاصۃ الاحکام للنووی 1/415) (14) شیخ عبد الرؤوف بن عبد الحنان سند ھو ( القول المقبول  ص440۔ 441، مسنون نماز ص 91، اور احناف کی چند کتب پر ایک نظر ص 93۔ 106 میں تفصیل سے کلام کیا ہے )۔
 دوسری علت: اس کی سند میں حبیب بن ابی ثابت سے اس حدیث کا راوی  کامل ابو العلاء ہے جسے بعض محدثین  نے ثقہ کہا ہے تو بعض نے اس میں کلام وطعن بھی  کیا ہے اسی لیے حافظ ابن حجر نے "نتائج الافکار " (2/123) میں  " ھو مختلف فی توثیقہ" اور "تلخیص"(1/258) میں " ھو مختلف فیہ " اور تقریب " (2/191/5604 مع تحریر التقریب ) میں "صدوق یخطی " کہا ہے۔
     جن علماء نے اس کامل کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے یا اس کی سند میں کلا م کیا ہے ان کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں :
(1) حافظ ابن حبان (المجروحین :2/226۔227)، (2) ابن ترکمانی  (الجو ھر النقی : 2/121۔122) (4) شیخ مفلح بن سلیمان الرشیدی (منابر الھدی  العدد 3، منبر السنۃ : 24) ۔دیکھئے : " احناف کی چند کتب ص 103۔104۔
   شیخ البانی کا اس دعاء کے لیے اثر علی رضی اللہ عنہ  کو شاہد کے طور پر ذکر  کرنا دو وجوہ کی بنا پر درست نہیں ۔
(1) اس اثر میں ان کے اپنے عمل کا ذکر ہے لہذا یہ مرفوع حدیث نہیں کہ مرفوع حدیث کے لیے اس کو شاہد  بنایا جائے ۔
(2) یہ اثر دو سندوں سے مروی ہے : پہلی سند میں حارث بن عبد اللہ  اعور ہے جو سخت ضعیف راوی ہے۔ اس  سند کے ساتھ یہ اثر مصنف عبد الرزاق: 2/187، مشکل الآثار:1/308، دعاء الطبرانی (615) معرفۃ السنن للبیھقی 2/20 اور نتائج الافکار لابن حجر 2/125،126 میں ہے۔
   دوسری سند سلیمان تیمی  کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ   بین السجد تین "رب اغفرلی " کہتے تھے (سنن کبری  بیھقی : 2/122، نتائج الافکار لابن حجر:2/125)
یہ سند منقطع ہے کیونکہ  سلیمان تیمی  کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے اور ممکن  ہے کہ تیمی  اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان  حارث  اعور کا ہی واسطہ ہو اور اس کی طرف بیھقی  نے بھی اشارہ کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں : " ورواہ الحارث الاعور عن علی " اس کو حارث اعور نے علی سے راویت کیا ہے۔
   یہ ہے اس اثر کی حقیقت  جس کی بنا پر شیخ البانی  اس حدیث کو جید کہہ رہے ہیں (دیکھئے : احناف کی چند کتب ص104۔ 105)
    یہی دعاء  بریدہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جسے امام بزار (رقم 527۔ کشف الاستار ) نے روایت کیا ہے ، مگر  اس کی سند بھی انتہائی ضعیف ہے ، کیونکہ  اس میں بزار کا شیخ عباد بن احمد عزرمی متروک ہے اور جابر جعفی متہم راوی ہے۔ (القول المقبول ص441)
     تفصیل  بالا کا حاصل یہ ہےکہ دونوں سجدوں کے درمیان پڑھی جانے والی مشہور دعا والی حدیث صحیح نہیں ہے لہذا صرف "رب اغفرلی " پڑھنے پر اکتفا کرنا چاہئے  جیسا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ  کی حدیث سے ثابت ہے۔ واللہ اعلم ۔

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        ت...

کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟

  پیام حدیث:   کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟ … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          عن أبی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال:"اذا سمعتم الإقامة فامشوا إلی الصلاۃ وعلیکم بالسکینة والوقار،ولا تسرعوا،فماأدرکتم فصلوا، وما فاتکم فأتموا"۔     ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے(معمولی چال سے)چل پڑو،سکون   اور وقار کو (بہرحال) لاز م پکڑے رکھو، اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے...

رؤیت ھلال میں اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں ؟

تحقیقی مقالہ :   رؤیت ھلال میں اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں ؟   تحریر: الشیخ احمدبن عبد اللہ بن محمد الفریح                         ● …ترجمہ: ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی                     اولا : محل اختلاف کی تعیین : اماکن بعیدہ میں مطلع ہلال مختلف ہونے کی صورت میں جس شہروالوں نے چاند نہیں دیکھا ہے کیا ان پر دوسرے شہر والوں کی رؤیت پرعمل کرناضروری ہے ؟ ثانیا : اختلاف کا ذکر :زمانۂ قدیم ہی سے اس مسئلہ   میں اختلاف موجود ہے، اوریہ ان اجتہادی   مسائل میں سے ہے   جن میں اختلاف کرنے کی گنجائش وجواز ہے جبکہ ہر   قول کی اپنی اپنی   دلیل موجود ہے۔ قول اول : چنانچہ اس سلسلہ میں فقہاء کی ایک جماعت   کا کہنا ہےکہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائیگا   یہ قول بعض احناف وموالک اور جمہو...