Skip to main content

الصلاۃ خیر من النوم" کس اذان میں کہا جائے؟



تحقیقی مقالے:
 

"الصلاۃ خیر من النوم" کس اذان میں کہا جائے؟
 ایک تحقیقی جائزہ
                                                                  ابوعبدالعزیزمحمدیوسف

              امام ابو حنیفہ  اور امام محمدبن الحسن ۔رحمھما اللہ ۔ کے علاوہ تمام فقہاء کے نزدیک یہ ثابت ہے کہ فجر کے لیے دو اذانیں مشروع ہیں (1)ایک اذان کے وقت سے قبل (2) اور دوسری ، وقت شروع ہونے کے بعد (موسوعہ فقہیہ کویتیہ :10/185،اردو ترجمہ اسلامک  فقہ اکیڈمی ، انڈیا، فتح الباری لابن رجب :5/338)
 امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی "صحیح " کے اندر ان دو اذانوں  کو ثابت کرنے کیلئے دو ابواب قائم  کیے ہیں (1)باب الاذان بعد الفجر، اور اس کے تحت ابن عمر اور عائشہ ۔ رضی اللہ عنھما ۔ سے مروی تین حدیثوں کو روایت کیاہے(2) باب الاذان قبل الفجر اور اس کے تحت ابن مسعود اور ابن عمر  وعا‏ئشہ  ۔ رضی اللہ عنھم۔ سے مروی دو حدیثوں  کو لایا ہے۔ دیکھئے : فتح الباری  لابن حجر(2/201۔204ح618۔623)
   لیکن سوال  یہ ہیکہ  مذکورہ دو اذانوں میں سے کس اذان میں اس کا کہنا مشروع ہے ، آیا اس اذان میں جو دخول وقت سے پہلے رات میں دی جاتی ہے یا طلوع فجر پر دی جانے والی اذان میں تو اس سلسلہ میں  جمہور فقہاء کے چار اقوال ہیں :
پہلا قول: مذکورہ دو نوں اذانوں میں 'الصلاۃ خیر من النوم" کہنا مشروع ہے، یہ شافعیہ  کا ایک قول (وجہ ) ہے اور بعض متاخر حنابلہ کی رای ہے۔
دوسرا قول: اگر مؤذن نے اذان اول میں " الصلاۃ خیر من النوم " کہدیا ہے تو دوسری اذان میں نہیں کہیگا ۔یہ شافعیہ کا دوسرا قول (وجہ )ہے ۔
تیسرا قول: طلوع فجر سے قبل جو پہلی اذان کہی جاتی ہے ، صرف اسی میں "الصلاۃ خیرمن النوم "کہنا مشروع ہے،یہ بعض حنابلہ کی راے ہے۔
چوتھا قول: طلوع فجر صادق کے بعد جو دوسری  اذان دی جاتی ہے،صرف اس میں کہنا مشروع ہے  ، یہ حنابلہ کا مذہب ہے۔(المجموع :3/101،شرح منتھی الارادات:1/134، الدرر السنیۃ فی الاجوبۃ النجدیۃ4/207۔209،احکام الاذان والنداء والاقامۃ :دراسۃ فقھیۃ مقارنۃ لسامی بن فراج الحازمی۔ص88۔89،طبع دار ابن الجوزی)
مذکورہ  اقوال کے دلائل اور ان کا جواب:
        پہلے قول کی دلیل یہ ہیکہ  اس صورت میں اس سلسلہ میں وارد تمام آثار واحادیث کے درمیان جمع وتطبیق ہوجاتی ہے اورسب پرعمل ہوجاتا ہے ۔(الدرر السنیۃ:4/210) اس دلیل کا جواب یہ ہیکہ  اس بارے میں موجود آحادیث آپس میں متعارض ومخالف نہیں ہیں کہ جمع وتطبیق  کی ضرورت پیش آئے !
 دوسرے قول کی تائید میں کوئي بھی دلیل نہیں مل سکی ہے!
تیسرے قول والوں نے اپنے موقف  کےاثبات وتائید کیلئے نقلی وعقلی  ہر دو طرح کی دلیلیں  پیش کی ہے جو کہ حسب ذیل ہیں:
نقلی دلائل:(1) عن ابی محذورۃ "ان النبی صلی اللہ علیه وسلم علمه فی الأذان الأول من الصبح:الصلاۃ خیرمن النوم،الصلاۃ خیرمن النوم" "ابومحذورہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو سکھلایا کہ صبح کی پہلی اذان میں الصلاۃ  خیر من النوم ، الصلاۃ خیرمن النوم کہے۔(طحاوی:1/82،نسائي:1/106،احمد:3/408، التلخیص:3/172،سبل السلام:1/167،دیکھئے:الثمرالمستطاب:1/129)
(2)عن ابن عمر رضی اللہ عنھما قال: کان فی الأذان الأول بعدالفلاح : الصلاۃ خیرمن النوم ،الصلاۃ خیرمن النوم " ابن عمررضی اللہ عنھما نے کہا: فلاح کے بعد اذان اول میں الصلاۃ خیرمن النوم ،الصلاۃ خیرمن النوم کہا جاتا تھا۔(طحاوی:1/82،سراج ، طبرانی، بیھقی ، التلخیص الحبیر:3/169دیکھئے:الثمرالمستطاب:1/131)
(3) عن انس قال: من السنة اذا قال المؤذن فی اذان الفجر:حی علی الفلاح قال: الصلاۃ خیرمن النوم ،الصلاۃ خیرمن النوم"مرتین" انس رضی اللہ عنہ  نےکہا: سنت یہ ہیکہ جب مؤذن فجر کی اذان میں حیی علی  الفلاح کہے تو  دو بار الصلاۃ خیرمن النوم ، الصلاۃ خیرمن النوم کہے ۔(دارقطنی:90،ابن خزیمہ، بیھقی :1/423،دیکھئے :الثمرالمستطاب:1/132)
عقلی دلیل: اذان اول کا ایک مقصد سوتے ہوئے کو بیدار کرنا ہے جیسا کہ حدیث "لیرجع قائمکم و لینبہ نائمکم"(بخاری:621) یعنی جو لوگ عبادت کے لیے جاگے ہیں وہ آرام کرنے کےلیے لوٹ جائیں اور جو ابھی سوئےہوئے ہیں وہ ہوشیار  اور بیدار ہوجائیں ۔ اور یہی مقصد "الصلاۃ خیرمن النوم" کہنے کا ہے ، لہذا پہلی  اذان ہی میں یہ الفاظ کہے جائیں جبکہ دوسری اذان کا مقصدلوگوں کو وقت کے داخل ہونے کے بارے میں مطلع کرنا اور انہیں نماز کے لیے بلانا ہے۔ لہذا یہ اذان "الصلاۃ خیر من النوم" کا محل نہیں !(دیکھئے: شیخ سامی بن فراج الحازمی کی کتاب "احکام الأذان والنداء والاقامۃ ص90،طبع دار ابن الجوزی)
       مذکورہ دلائل  کا جائزہ لینے  سے پہلے ایک حقیقت کی وضاحت کردوں کہ متقدمین  محدثین و فقہاء میں سے کوئي بھی اس قول کا قائل   ہمیں نہیں ملا البتہ سب سے پہلےعلامہ ابن رسلان( 844ھ) کے حوالہ سے شارح بلوغ  المرام علامہ امیر صنعانی  نے اس قول کو ذکر کیا ہے،اس کے دلائل  لائے ہیں اور اسے راحج قرار دیا ہے اور پھر ان کے بعدامام  العصر محدث دوراں علامہ محمدناصر الدین البانی نے اس موقف کی پرزور تائيد فرمائي ہے حتی کہ آپ نے "تمام المنۃ" ص146۔148 میں فجر اذان کے بجائے "اذان عرفی" میں "الصلاۃ خیرمن النوم " کہنے کو صراحت کے ساتھ "بدعت  "قرار دیا ہے!! دیکھئے: سبل السلام للصنعانی :1/358۔360،تحقیق الالبانی ،دوسرا نسخہ :2/46۔47 ،تحقیق صبحی حسن حلاق ،صحیح الترغیب والترھیب :1/216۔طبع المعارف، تحقیق المشکاۃ :1/304،تخریج ھدایۃ الرواۃ إلی تخریج أحادیث المصابیح والمشکاۃ:1/310،تخریج فقہ السیرۃ للغزالی ص203،ط اولی،دار الریان، صحیح سنن أبی داود:2/415۔ط۔غراس،الثمرالمستطاب:1/129۔132،أحکام الاذان والاقامۃ للالبانی:ص23۔25،صحیح فقہ السنۃ:1/283۔284)
دلائل کا جائزہ: اب ملاحظہ فرمائیں اوپر مذکور دلائل کا جائزہ اور اسی سے قول رابع والوں کے دلائل کے بھی پتہ چل جائیگا :
حدیث محذورۃ: اس حدیث سے استدلال کی حیثیت کی وضاحت سے پہلے اس کے متعلق  کئی امور پیش نگاہ رہنے چاہئیں :
1۔ یہ روایت کئی طرق سے مروی ہے اور کوئی بھی طریق کلام سے خالی نہیں  ہے،اس کے الفاظ بھی مختصر ومطول اور متعدد وارد ہوئے ہیں ، چنانچہ کسی طریق میں سرے سے "الصلاۃ خیرمن النوم" کا ذکر نہیں ہے جبکہ  کسی طریق میں " ان کا ن صلاۃ الصبح قلت: الصلاۃ خیرمن النوم" کا ذکر ہے اور بعض میں " فی الاولی من الفجر" اور بعض میں "فی الاول " کی قید کے ساتھ مذکور ہے۔ اس اجمال کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
(1)"الصلاۃ خیرمن النوم" کے بغیر ابومحذورہ کی اس حدیث کو ابوداود )1/376/503، 1/378/505،طبع الرسالۃ)،نسائي (سنن صغری :2/5۔6/632۔تحقیق ابوغدہ، سنن کبری :2/233۔ 234/1608۔طبع الرسالۃ )، ابن ماجہ (1/454/708،طبع الرسالۃ)شافعی (1/168/177مع شفاء العی)،احمد(3/409، دوسرا نسخہ :24/97۔98۔15380)، ابن خزیمہ (1/ 196/379)، ابن حبان (4/574/1680) ،دار قطنی (1/133)، طبرانی(7/204/6731،معجم کبیر) ، بغوی (407) بیھقی(1/392)،ابن حزم(3/151۔محلی)،بخاری تاریخ کبیر:1/83/256،تخریخ الاحادیث المرفوعۃ المسندۃ فی التاریخ الکبیر:1/378/113،خلق افعال العباد :2/100/190،تحقیق فھد بن سلیمان الفھید ۔ط۔ دار اطلس الخضراء)، اور ابن عبد البر (الاستیعاب:12/136) نے عبد العزیزبن عبدالملک بن ابی محذورہ الجمحی المکی عن عبد اللہ بن محیریزعن ابی محذورہ کی سند سے روایت کیا ہے۔
       یہ سند ضعیف ہے ،اس میں عبد العزیز بن عبد الملک کو حافظ ابن حجرنے"مقبول" اور صاحب "تحریر التقریب"(2/369/4190) نے"مستور" یعنی مجہول الحال قرار دیا ہے، لیکن مکحول نے اس کی متابعت کی ہے، چنانچہ مسلم(2/3،دوسرانسخہ :1/252/842۔منۃ المنعم)،ابو داود(1/375۔376/502)، نسائي (سنن صغری:2/4۔5/631، سنن کبری:2/232۔233/1606۔1607۔ط۔الرسالۃ)،ابن ماجہ(1/455۔456/709)، احمد(3/6409/401،دوسرا نسخہ:24/99۔100/15381)، دارمی (1/271/1199۔1200)،ابن خزیمہ(1/195/377)، ابن حبان(4/577/1681، موارد الظمآن :288)، ابوعوانہ (1/330) طبرانی(7/203۔204/6728۔6729)،ابن ابی شیبہ(1/203)،بیھقی (1/393)اور ابن حزم (3/150) نے عامر الاحول عن مکحول عن ابن محیریزعن ابی محذورہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔
 البتہ معجم ابن الاعرابی(1/390۔391/745) میں عبد الملک بن ابی محذورہ نے عبد العزیز بن عبد الملک کی مخالفت کرتے ہوئے اس روایت میں " الصلاۃ خیرمن النوم" کا ذکر کیا ہے۔ اور عبد الملک "حسن الحدیث " راوی ہے (الکاشف :1/668/3475، تحریر التقریب :2/388/4207)لیکن عبد الملک تک سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں سلیمان بن فضل الزیدی ہے اور ابن عدی نے اس کے بارے میں "لیس بمستقیم الحدیث، قدرایت لہ غیرحدیث منکر" کہا ہے، یعنی حدیث میں قوی نہیں ہے، میں نے اس کی ایک سے زائد منکرحدیثیں دیکھی ہے۔(الکامل:3/291۔292طبع دارالفکر۔
(2)"ان کان صلاۃ الصبح ، قلت: الصلاۃ خیرمن النوم"  اس لفظ کے ساتھ ابوداود(1/373و377/500و504)،احمد(3/408۔409،دوسرانسخہ:24/95/15379)، دارقطنی(1/235،دوسرانسخہ: 1/444/912)۔ابن حبان (4/578/1682،موارد الظمآن :289)،طبرانی:7/207/6735)تاریخ کبیر:(1/145/486، تخریج الاحادیث المرفوعہ :1/466۔467/198)، بغوی(1/117/408)، شرح  المشکل :(15/362/6179)، ابن ابی شیبہ (1/204/2136)، دولابی(1/488/274) اوربیھقی(1/394، 421۔422) نے عبد الملک بن  ابی امحذورہ عن ابی محذورہ سے کئي طرق سے روایت کیا ہے۔
           اور طحاوی (شرح المعانی:1/137/770،شرح المشکل :15/361/6078)، دارقطنی(1/237/4) اور طبرانی (7/209/6739) کے یہاں عبد العزیز بن رفیع اور فضل بن دکین (کتاب الصلاۃ ص183/245 ) اور عقیلی(1/253۔صعفاء ) کے نزدیک ابو صالح میناءنے عبد الملک بن ابی محذورہ کی متابعت کر رکھی ہے ، عبد العزیز ثقہ ہے لیکن ابو صالح میناء مجہول  ہے (الکاشف:2/435، تحریر التقریب: 4/217/8175)۔ واضح رہے کہ ابن ابی شیبہ  کے یہاں " فی أذان الاولی من الفجر" کے الفاظ ہیں ۔
 فی الأولی من الفجر/الصبح: اس لفظ کے ساتھ ابو داود (1/373۔374/501)، نسائی (سنن صغری :2/807/633،سنن کبری :2/234۔235/1609،دوسرا نسخہ:1/498/1597)، احمد (3/408،دوسرا نسخہ : 24/91/15376)، ابن خزیمہ (1/200/385)، طحاوی(شرح المعانی : 1/136/786) طبرانی(7/173۔657)، دارقطنی (1/234۔235) عبد الرزاق (1/475/1779)، سحنون (مدونہ 1/61)، بیھقی (1/393)، فاکہی (اخبار مکہ: 3/ 407/1252)، حازمی (الناسخ  والمنسوخ ص137) اور ابن الجوزی (التحقیق 1/311/382) نے عثمان بن السائب عن ابیہ  وام عبد الملک عن ابی امحذورہ کی سند سے روایت کیا ہے۔
 اس سند میں تین راوی مجہول ہیں (1)عثمان بن السائب(تہذیب الکمال:19/374،تحریر التقریب: 2/437)(2) السائب(تہذیب الکمال:10/196، تحریر التقریب :2/11)(3) اور ام عبد الملک (تہذیب الکمال:35/394،تحریر التقریب :4/442)۔
فی أذان الفجر الأول :اس لفظ کے ساتھ نسائي (سنن صغری:2/13/647، سنن کبری:2/24/1623۔1624)،مسدد (2/114/1311-اتحاف الخیرۃ المھرۃ)، احمد (3/408 ،دوسرانسخہ:24/94/15378) ، طحاوی ( مشکل الآثار:15/363-364/6080-6081)، فضل بن دکین ( کتاب الصلاۃ:ص 177/246 )، طبرانی (7/208/6738)، ابن المنذر (الاوسط : 4/5/1129)، دولابی(1/196 الکنی  والاسماء) ابن حزم (3/151۔152)، ابن ابی یعلی (المعجم:1/142/133)اور بیھقی (1/422 معلقا) نے سفیان الثوری عن ابی  جعفر عن ابی سلمان  المؤذن عن ابی محذورہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔
      یہ سند بھی ضعیف ہے ، ابو جعفر یہ اگر ابو جعفر الفراء ہے تو ثقہ ورنہ مجہول الحال ہے (تہذیب التہذیب: 12/59، تحریر التقریب:4/171/8020،4/1724/2023) اور ابو سلمان المؤذن بھی مجہول الحال ہے (تحریر التقریب :4/206/8139)۔
     آپ نے دیکھا اس حدیث کا کوئي بھی طریق کلام   سے خالی نہیں ہے،لیکن چونکہ اس میں راویوں کی جہالت کے تعلق سے کلام ہے جو خفیف جرح ہے اس لئے یہ طرق آپس میں ملکر قابل حجت بن جاتی ہیں اسی لئے کئي  علماء نے اس حدیث  کی تحسین یا تصحیح کی ہے۔اس کی مفصل تخریج کیلئے  درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں:نصب الرایۃ(1/264۔265)،التلخیص الحبیر(1/360۔362مؤسسۃ قرطبہ )، صحیح سنن ابی داود(2/415۔ط۔غراس )، الثمرالمستطاب (1/129۔132)، نزھۃ الالباب فی قول الترمذی"وفی الباب" لحسن بن محمد بن حیدر الوائلی(2/495)، التبیان فی تخریج وتبویب احادیث بلوغ المرام وبیان ماورد مافی الباب لخالد بن ضیف اللہ الشلاحی (3/131۔133)، شفاء العی بتخریج وتحقیق مسند الامام الشافعی لابی عمیر مجدی بن محمد المصری الاثری(1/169۔171)، المسند الجامع (16/430۔436)، کتاب الاذان لابی حاتم اسامہ بن عبد اللطیف القوصی (ص62۔64)۔
حدیث مذکور سے استدلال کی پوزیشن
 اس حدیث  سے "سحری کی اذان" میں الصلاۃ خیر من النوم کہنے کی دلیل لینی کئي وجوہ کی بناپر درست نہیں ہے۔
1۔ ابو محذورہ کی اس حدیث کےعلاوہ کسی دوسری صحیح روایت سے فجرکی  "اذان اول" کا ثبوت نہیں ملتا ہے  اب  اس حدیث میں مذکور" اذان اول " سے فجر کی  کونسی اذان مراد ہے: سحری کی اذان جو رات میں کہی جاتی  ہےیا نماز فجر کے وقت بتلا نے کے لیے دی جانی والی " اذان عرفی" مراد ہے ؟
     علامہ ابن رسلان ، علامہ امیر صنعانی اور شیخ البانی  وغیرھم نے اس اذان اول سے سحری کی اذان مراد لیا ہے جبکہ جمہور علماء نے " اذان عرفی" مراد لیا ہے، اور دونوں فریقوں کی یہی  ایک حدیث دلیل ہے، اب ظاہر ہے کسی ایک قول کو راجح قرار دینے کیلئے  دوسرے دلائل وقرائن  کی ضرورت ہے اور یہاں کچھ قرائن ایسے موجود ہیں جن سے واضح طور پرپتہ چلتا ہےکہ حدیث مذکور کے اندر "اذان اول " سے مراد  اذان عرفی جودخول وقت  کے بعد دی جاتی ہے، ہی مراد ہے نہ کہ " رات کی اور سحری کی اذان" کیونکہ جانب ثانی کی  ترجیح کے لیے کوئي بھی قرینہ موجود نہیں ہے۔ اب بالترتیب قرائن مرحجہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔
(1)فجر کے وقت سے پہلے ، رات میں سحری کےوقت دی جانے والی اذان کو کسی بھی صحیح  روایت کے اندر " اذان فجر" نہیں کہا گیا  ہے کیونکہ وہ تو فجر سے پہلے ہوتی ہے ، من ادعی خلاف ذلک فعلیہ بیان الدلیل! جبکہ  کئي صحیح  احادیث  سے اس  اذان کا " اذان اللیل" رات کی اذان یا " اذان السحور" سحری کی اذان ہونا ثابت ہوتا ہے، چنانچہ  امام بخاری نے اپنی"صحیح" کے اندر دو باب باندھا ہے (1)باب الاذان  بعد الفجر (طلوع فجر کے بعداذان دینے کا بیان ) (2) باب الاذان قبل الفجر ( طلوع فجر سے پہلے اذان دینے کا بیان )، اور اس باب کے تحت عبد اللہ بن مسعود اور عائشہ  وعبد اللہ بن عمر سے مروی حدیثیں ذکر کی ہے۔  
    حدیث عبد اللہ بن مسعود کےالفاظ یہ ہیں :" لا یمنعن احدکم اذان بلال من سحورہ ، فانہ  یؤذن بلیل ،لیرجع قائمکم ولینبہ نائمکم " یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے  سے نہ روک دے کیونکہ وہ رات رہےسے  اذان دیتے ہیں تاکہ جو  لوگ عبادت کے لئے جاگے ہیں وہ آرام کرنے کےلیے لوٹ جائیں اور جو ابھی سوئے ہوئے ہیں  وہ بیدار اور ہوشیار ہو جائیں ۔ (صحیح بخاری :621)
       اور عائشہ  وابن عمر کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : " ان بلالا یؤذن بلیل ، فکلوا واشربوا حتی  یؤذن ابن ام مکتوم " یعنی نبی پا ک صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ بلال رات رہے  میں اذان دیتے ہیں ،عبد اللہ بن ام مکتوم کی اذان  تک تم  (سحری) کھاپی سکتے ہو۔(صحیح بخاری:622۔623)۔
       ان دونوں حدیثوں کے اندر طلوع فجر سے قبل دی جانے والی اذان کو "رات کی اذان" کہا گيا ہے اور چونکہ "سحری " کا ذکر ہے اس لئے علماء نے  اسے "سحری کی اذان" بھی  کہا ہے البتہ بعض لوگوں کا اس اذان کو "تہجد کی اذان" کہنا درست نہیں ہے کیونکہ  نماز تہجد کے لیے یہ اذان نہ دی جاتی تھی بلکہ تہجد گزار لوگوں کو آرام کرنے کیلئے لوٹانے  کی غرض سے دی جاتی تھی ۔○○○
(2) ابو محذورہ مؤذن رسول کے بارے  میں یہ ثابت نہیں ہےکہ وہ دو اذانیں دیتے تھے  ، ایک فجرکے وقت سے پہلے اور دوسری وقت کے بعد ،جبکہ یہ ثابت ہےکہ آپ فجر کی نماز کے لیے اذان دیتے تھے  لہذا ثابت ہوا کہ " الصلاۃ خیر من النوم"  بھی اسی اذان میں کہتے  تھے ،دیکھئے : مجموع فتاوی ابن عثیمین:12/183)
(3) حدیث ابومحذورہ کے بعض طرق میں" فان کان صلاۃ الصبح قلت: الصلاۃ خیر من النوم ۔۔" یعنی اگر فجر کی نماز ہو تو کہو : نماز نیند  سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہترہے "(ابو داود:500، بیھقی:1/394 وغیرہ ) ۔ یہ لفظ اس بات پر بصراحت  دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد وہ اذان ہےجو طلوع  فجر صادق پر دی جاتی ہے  کیونکہ  اسے "صلاۃ الصبح "یعنی فجرکی نمازکےوقت کی اذان کہا گياہےاور فجر کی نماز کی ادائيگي طلوع فجرصادق کے بعد ہی درست ہوتی ہے نہ کہ اس سے پہلے ، اس لئے جس وقت نماز فجرادا کرنا صحیح ہوگا اسے کے لیے اسی وقت اذان دی جائيگي  اور وہ وہی اذان ہے جو ہمارے زمانہ میں معروف ہے لہذا اسی میں الصلاۃ خیر من النوم کہا جائیگا۔
(4) اسی ابو محذورہ کی ایک روایت جسے  دنیوری نے " المجالسۃ وجواھر العلم" (3/317۔318/947) میں  حدثنا احمد ،نا ابراھیم بن اسماعیل بن تمیم الخراسانی ، نا عباد بن العوام عن الحجاج  عن عطاء عن ابی محذورہ کی سند سے روایت کیا ہےاور یہ سند متابعت میں حسن ہے ، اس کے الفاظ ہیں : " انہ کان لا یؤذن لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  الا فی الفجر،وکان لایؤذن حتی یطلع الفجر، وکان یقول فی اذانہ : الصلاۃ خیر من النوم ، وکان یختم اذانہ : اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ  "۔  اس روایت کے اندر  بھی صراحت موجود ہےکہ ابو محذورہ طلوع فجر کےبعد  ہی اذان کہتے تھے اور اسی میں الصلاۃ خیر من النوم کہتے تھے۔
(5) جن روایتوں  میں تثویب یعنی الصلاۃ خیر من النوم کہنے کی مشروعیت آئي ہے ان میں اس اذان کو ": صلاۃ فجر "  یا "الفجر"یا " الصبح" کی قید کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، اور یہ وہ الفاظ ہیں جواپنے حقیقی معنوں میں اسی اذان کے لیے  بو لے جاتے ہیں  جو دخول وقت پر  دی جاتی ہے اور یہ متفق علیہ اذان ہے۔
(6) روایت ابو محذورہ کے بعض طرق میں اذان کے ذکر کےبعد "واذا اقمت فقلھا مرتین ۔۔" یعنی  جب تو نماز کی اقامت کہے تو دو بار"قدقامت الصلاۃ۔۔۔"کہہ، کا ذکرہے۔ (سنن ابو داود :501، صحیح ابن  خزیمہ :1/201وغیرہ) تو اس میں اذان کے بعد اقامت کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ اس اذان سے مراد وہی اذان ہے جو اقامت  سے قبل کہی جاتی ہے اور وہ وہی ہے جو دخول وقت پر دی جاتی ہے اور اسی میں الصلاۃ خیرمن النوم بھی کہا جاتا ہے۔۔
(7) ہمارے علم کے مطابق پوری دنیا میں فجر کی اسی اذان میں " الصلاۃ خیر من النوم" کہا جاتا ہے جو طلوع فجر صادق کے بعد دی جاتی  ہے حتی کہ حرمین  شریفین میں بھی یہی  صورتحال ہے اور یہ کہنا کہ حرمین شریفین میں " رات کی اذان" میں  ہی " الصلاۃ خیر من النوم" کہا جاتا تھا مگر بعد میں اس میں تبدیلی لا کر اسے طلوع فجر کے بعد والی اذان میں کہا جانے لگا !!  یہ کہنا  تو آسان ہے مگر اسے تاریخی دلائل سے ثابت کرنا جوئے شیر لانا ہے، کیونکہ  اگر ایسا ہوا ہوتا تو علماء ومورخین کی کسی کتاب میں اس کا ذکر یقینا ہوتا لیکن بات ایسی نہیں ہے !!
(8)بقىى بن مخلد نے ابو محذورہ  کی  اس حدیث کو یوں روایت کیا ہے:
" ثنا یحی بن عبد الحمید: ثنا ابوبکربن عیاش : ثنی عبد العزیز بن رفیع : سمعت ابا محذورہ قال: کنت  غلاما صبیا فأذنت بین یدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  الفجر یوم حنین ، فلما انتھیت إلی : حی علی الفلاح قال: " ألحق فیھا : الصلاۃ خیر من النوم" (التلخیص الحبیر :3/172،الثمر المستطاب:1/129) اسے اسی طریق سے دار قطنی (1/237/4) اور طبرانی (7/175/6739) نے اور طحاوی نے علی بن معبد عن  الھیثم بن خالد بن یزید عن ابی بکر بن عیاش بہ  کےطریق سے روایت کیا ہے، شیخ البانی نے طحاوی کی سند کو "جید" قرار دیا ہے۔
         اس حدیث میں اس بات کا ذ کر ہے کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ  حنین کے دن فجر کی اذان دی ، ظاہرہےکہ اس سے فجر کی " اذان عرفی" ہی مراد ہے کیونکہ  ہمارے علم کی حدتک سفر کی حالت میں فجر کے لیے دو اذانوں کا ثبوت نہیں ہے، بنابر  یں انہوں نے جو اذان کہی تھی وہ طلوع فجر صادق کےبعد والی  اذان تھی اور اسی میں انہوں نے الصلاۃ خیر من النوم کہا تھا واللہ اعلم۔
(10) سب سے زیادہ قوی اور صریح قرینہ   یہ ہے کہ طلوع فجر صادق سےقبل دی جانے والی " رات یا سحری کی اذان" کو دوسری کسی بھی صحیح روایت میں " اذان اول" نہیں کہا گیاہے جبکہ طلوع فجر صادق کے بعد دی جانے والی " اذان عرفی" کو ایک سے زائد احادیث کے اندر اذان اول کہا گیا ہے ، ملاحظہ ہو۔
عن عبد اللہ بن مغفل المزنی أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال:" بین کل اذانین صلاۃ۔ ثلاثا۔ لمن شاء"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین مرتبہ فرمایا کہ ہر دو اذانوں (اذان و اقامت)کے درمیان ایک نماز (کا فصل ) دوسری نماز سے ہونا چاہئے ۔(تیسری مرتبہ فرمایا کہ  )جو شخص ایسا کرنا چاہے !(صحیح بخاری ، ترجمہ داود راز:1/600/624/602/627)۔
   اس حدیث کے اندر اقامت (تکبیر) کو بھی اذان کہا گیا ہے جو ترتیب کے لحاظ سے دوسری ہے جبکہ دخول وقت کے بعد دی جانے والی اذان پہلی اذان ہے،اس اعتبار سے طلوع فجر صادق کے بعد والی اذان پہلی اذان ہے، یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ  اقامت کو اذان کہنا " من باب التغلیب" نہیں ہے،کیونکہ اگر بات ایسی ہوتی تو اقات کو دوسری  اذان کہے جانے کے اعتبار  سے " اذان " کو "اول" کہا جاناصحیح نہ ہوتا  جیسے " العمران" کہا جاتا ہے اور مراد ابو بکر وعمر رضی اللہ عنھما ہوتے ہیں لیکن یہاں تنہا ابوبکر کو عمرکہا جانا صحیح  نہیں ہےکیونکہ ابو بکر کو تغلیبا  عمر کہد یا گیا ہے حقیقت کے اعتبار سے نہیں ، لیکن تنہا اقامت کو اذان کہنا جائز ہے اس اعتبار سے کہ اس کے ذریعہ جماعت کھڑی ہوجانے کی اطلاع دی جاتی ہے ۔ بنابریں اذان کو اذان اول اور اقامت کو اذان ثانی کہنا جائز ہے ۔ اسی وجہ سے بعض صحابہ نے ۔جیسا کہ صحیحین  میں ہے۔ جمعہ کے دن عثمان رضی اللہ عنہ کی زیادہ  کی ہوئی اذان کو " اذان ثالث" سے تعبیر کیا ہے۔(کتاب الاذان لابی حاتم اسامہ القوصی ص74)
عن عائشه قالت: "کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا سکت المؤذن بالأولی من صلاۃ الفجر قام فرکع رکعتین خفیفتین قبل صلاۃ الفجر بعد أن یستبین الفجر، ثم اضطجع إلی شقه الأیمن حتی یاتیہ المؤذن للإ قامة"۔ مؤذن جب نماز فجر کی ، پہلی اذان کہہ کر خاموش ہوجاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہوجاتے اور نماز فجر سے پہلے صبح ہوجانے کے بعد دو ہلکی رکعتیں پڑھ لیتے ، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ مؤذن نماز قائم کرنے کے لیے  آپ کو بلانے آجاتا "(صحیح بخاری  ، کتاب الاذان ، باب من انتظر الاقامۃ ح:626)۔
(3) عن عائشه قالت: کان ینام أول اللیل ویحی آخرہ ثم ان کانت له حاجة إلی أھله قضی حاجته ثم ینام ، فإذا کا ن عند النداء الأول قالت :وثب ، ولا واللہ ، ما قالت : قام، فأفا ض علیه الماء، ولاواللہ ، ماقالت : اغتسل ، وأنا اعلم ماترید ، وإن لم یکن جنبا توضا وضوء الرجل للصلاۃ ثم صلی رکعتین"۔
   عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سورہتے اول  رات میں ، اور جاگتے آخر رات میں ، پھراگر آپ کو حاجت ہوتی اپنی بیبیوں  سے تو حاجت روا کرتے پھر سورہتے  پھر جب " پہلی اذان  ہوتی" یعنی صبح کے وقت کی اذان تو جھٹ  اچھل پڑتے   اور قسم ہےاللہ کی  کہ انہوں نےیہ نہیں کہا کہ اٹھتے  ، پھر آپ اپنے  اوپر  پانی بہاتے ،اور اللہ کی قسم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ نہاتے  ،( راوی حدیث اسود بن یزید کہتے ہیں ) اور میں خوب جانتا ہوں جو   آپ  کی مراد ہے ، یہ اس لیے کہا کہ شرم کی بات ہے،اور اگر جنبی نہ ہوتے تو وضو کرتے جیسے لوگ  نماز کے لیے  وضو کرتے ہیں ، پھر دورکعت پڑھتے یعنی صبح کی سنت " (صحیح مسلم ترجمہ وحید الزماں:2/257/1728)۔
(4)یقول السائب بن یزید:" إن الأذان یوم الجمعة کان أوله حین یجلس الإمام یوم الجمعة علی المنبر فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم  وأبی بکر وعمر رضی اللہ عنھما ، فلما کان فی خلافة عثمان رضی اللہ عنه ۔وکثروا ، أمر عثمان یوم الجمعة الأذان الثالث ، فاذن به علی  الزوراء ،فثبت الأمر علی ذلك"۔
سائب  بن یزید رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں : جمعہ کی " پہلی اذان"رسول اللہ ﷺ  اور ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے زمانے میں اس وقت  دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا جب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ  کا دور آیا  اور نمازیوں کی تعداد بڑھ گئي تو آپ نے جمعہ کے دن  ایک " تیسری اذان" کا حکم دیا ، یہ اذان مقام  زوراء پر دی گئي اور بعد میں یہی دستور قائم رہا ۔ (صحیح بخاری ترجمہ داود راز :2/91/916)۔ اس حدیث کے اندر وقت کے داخل ہونے پر جو اذان دی جاتی ہے اسے اذان اول  اور اقامت کو اذان ثانی "اور عثمان رضی اللہ عنہ  کی اضافہ شدہ اذان کو " اذان ثالث" سے تعبیر کیا گیا ہے، حالانکہ وقوع کے اعتبار سے یہ پہلی اذان ہے لیکن   چونکہ وقت سے قبل دی جاتی ہے اس لئے حقیقت کی رو سے " اذان  اول " نہیں ہے ، ٹھیک اسی طرح فجر کی اذان کا معاملہ ہے، وقت کے  داخل ہونے پر جو " اذان عرفی " دی جاتی ہے وہ " اذان اول "  ہے، اقامت " اذان ثانی" ہےاور رات میں جو اذان دی جاتی ہے وہ " رات کی اذان" یا "سحری کی اذان" ہے جسے  " اذان ثالث" کہنا  زیادہ مناسب ہے نہ کہ " اذان اول "  باوجود یکہ وہ ترتیب کے لحاظ سے پہلے واقع ہوتی ہے ٹھیک اذان جمعہ کی طرح۔
      خلاصہ یہ کہ ان احادیث  میں نہایت وضاحت کے ساتھ یہ بات موجود ہےکہ اذان اول یا اولی سے مراد  وہ اذان ہے جوو قت کے داخل  ہونے پر اور نماز فجر کے لیے لوگوں کو بلانے  کے لیے کہی جاتی ہے، توجب اسی اذان کا " اذان اول " ہونا ثابت ہوگیا توحدیث ابو محذورہ سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اسی " اذان اول "  میں " الصلاۃ خیر من النوم" کہا جائيگا نہ کہ " رات  کی اذان" میں  فالحمد للہ علی ھذا الا یضاح والتبیین۔
      رہی بات عبد اللہ بن عمر رضی اللہ کے اس قول کی کہ " فلاح کے بعد "پہلی اذان"  میں الصلاۃ خیر من النوم"،الصلاۃ خیر من النوم، کہا جاتا تھا (طحاوی ، سراج ، طبرانی ، تلخیص حبیر : 3/169 الثمرالمستطاب :1/131) تو واضح رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے گر چہ کئي علماء  نے اس کو صحیح قرارد یا ہے، کیونکہ  اس کی سند میں محمدبن عجلا ن واقع ہے جوگرچہ صدوق راوی ہے مگر مدلس ہے  اور یہاں نافع سے سماع کی صراحت نہیں کی ہے۔ "ثقات"(7/386۔387) میں ابن حبان کا کلام اس کے مدلس ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے ، اور طحاوی نے " شرح المشکل " (1/236۔237/259۔260) میں اسے تدلیس سے متصف کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے" طبقات المدلسین " (ص60/98/3۔ الفتح المبین) کے مرتبہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے، نیزحافظ علائي (ص 109) ۔ ابوزرعہ ابن العراقی (56)، سیوطی (50)، حلبی (ص52)، ذھبی ، مقدسی اور دمینی (145/3) نے اسے مدلسین میں شمار کیا ہے۔  دیکھئے :  الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین " للشیخ حافظ زبیر علی زئي ص60۔
      اور اگر اس لفظ کے ساتھ اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو بھی  یہ ہمارے  موقف کی دلیل بنے گي وہ اس طرح کہ اس میں "فلاح" کے بعد دی جانے والی اذان میں "الصلاۃ خیر من النوم" کہنے کا ذکر ہے اور یہ وہی اذان ہے جو وقت کے داخل ہونے پر دی جاتی ہے ، کیونکہ " فلاح" کامعنی "سحور" یعنی سحری کا بھی آتا ہے اور ظاہر ہے سحری کے بعد " اذان عرفی"  ہی دی جاتی ہے، "فلاح: کا معنی سحور /سحری ہے اس کی دلیل ابو ذر رضی اللہ عنہ  سے مروی وہ طویل حدیث ہے جس میں ہے کہ "۔۔۔ فقام بنا حتی خشینا ان یفوتنا الفلاح، قال :قلت : وما الفلاح ؟ قال السحور ، ثم لم یقم بنا بقیۃ الشھر"۔
       یعنی  آپﷺنے ہمیں قیام کرایا، یہاں تک کہ ہمیں فکر ہوئي کہ کہیں ہماری "فلاح" ہی نہ رہ جائے۔( جبیرنے کہا) میں نے پوچھاکہ "فلاح" سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا :" سحری" پھر بقیہ  راتوں میں آپ نے ہم کو قیام نہیں کرایا ۔(سنن ابو داود :2/526/1375۔الرسالۃ ، مسند احمد :35/352/21447)نیز دیکھئے: تاج العروس (7/26)، لسان العرب : (2/547مکتبہ شاملہ)۔
 اور تیسری  دلیل فرمان انس رضی اللہ عنہ  کا جواب یہ ہیکہ  اس میں " فجرکی اذان" کا ذکر ہے اور اوپر کی تفصیل سے یہ بات اظہر من الشمس ہوچکی  ہےکہ " فجر کی اذان" سے مراد وقت کے داخل ہونے پر دی جانے والی  اذان ہی ہے۔
 اور عقلی دلیل کا جواب یہ ہیکہ اس میں ان کے لیے دلیل نہیں ہے بلکہ ان کے خلاف  دلیل ہے وہ اس طرح کہ رات کے آخر میں جو اذان اول دی جاتی ہے وہ صلاۃ صبح کیلئے نہیں ہوتی  ہے، وہ در حقیقت سوئے ہوئے  کو بیدار کرنے اور تہجد گزار کو لوٹانے کی غرض سے دی جاتی ہے، اس میں کوئی اختلاف  نہیں ، اور تثویب یعنی الصلاۃ خیر من النوم کہناصلاۃ صبح کی اذان کیلئے  ۔ جیسا کہ  حدیث " فی الاولی من الصبح"  دلالت کرتی ہے۔ مشروع ہوا ہے، لہذا "رات کی اذان  " میں الصلاۃ  خیر من النوم  کہنے کا کوئي مطلب نہیں ہوتا ہے۔
دیکھئے : الشرح الممتع :2/57، أحکام الاذان والنداء والاقامۃ لسامی الحازمی ص90۔91۔
 تفصیل مذکور سے مسئلہ  اتنا  واضح ہوگیا ہےکہ مزید لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے مگر مزید  اطمینان کے لیے کچھ محدثین  کرام  وفقہاء  عظام کے اقوال ذکر کیے جاتے ہیں :
1۔امام ترمذی " باب ماجاء فی التثویب فی الفجر" (فجرکی اذان میں تثویب /الصلاۃ خیر من النوم کہنے کا باب ) میں لکھتے ہیں ۔۔۔ والذی فسر ابن المبارک و احمد : ان التثویب ان یقول المؤذن فی اذان الفجر: " الصلاۃ خیرمن النوم " وھو قول صحیح  ، ویقال لہ :" التثویب " ایضا وھو الذی اختارہ اھل العلم وراؤہ"۔
" اور ابن المبارک اور احمد نے "تثویب" کی جو تفسیر کی ہےکہ فجر کی اذان میں مؤذن الصلاۃ خیر من النوم کہے، یہی قول صحیح ہے اور اسی کو "تثویب " بھی  کہا جاتا ہے اور اسی کو  علماء نے اختیار کیا ہے" ۔(سنن الترمذی مع تحفہ الاحوذی : 1/595۔طبع دار الفکر)
2۔امام ابو بکر ابن المنذر کہتے ہیں :"۔۔۔ ولا اری  التثویب الا فی اذان الفجر خاصة ، یقول بعد قولہ" حیی علی الفلاح ": الصلاۃ خیر من النوم مرتین"
 یعنی میرے نزدیک تثویب (الصلاۃ خیر من النوم کہنا ) " فجر کی اذان " کے ساتھ خاص ہے  " اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ  سے لیکر ان کےزمانہ تک اسی پر اہل حرمین شریفین کا عمل  نقل کیا ہے۔(الاوسط:3/23۔24)۔
3۔ علامہ ابن عبد البرفرماتے ہیں :"۔۔۔ لان التثویب فی صلاۃ  الصبح ۔ ای قول المؤذن  : الصلاۃ خیر من النوم ۔ اشھرعند العلماء والعامۃ ۔۔۔۔" یعنی " صلاۃ  صبح" میں مؤذن کا تثویب /الصلاۃخیر من النوم کہنا علماء وعوام کے نزدیک  مشہور  ترین امر ہے ۔(الاستذکار:4/75،تحقیق قلعجی)۔
4۔ ابن حزم  کہتے ہیں :" وان زاد فی صلاۃ الصبح بعد حی علی الفلاح : الصلاۃ خیر من النوم ، فحسن " اگر نماز فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد الصلاۃ خیر من النوم کا اضافہ کیا جائے توبہترہے ۔( المحلی 3/150)
5۔ امام ابن رجب فرماتے ہیں :" کان التثویب فی ھذا الاذان سنۃ " فجر کی اس اذان میں تثویب / الصلاۃ خیر من النوم  کہنا  سنت ہے ۔(فتح الباری : 5/239)
6۔ علامہ محمد عبد الرحمن  مبارکپوری تحریر فرماتےہیں  :" والتثویب یطلق علی الاقامۃ کما فی حدیث " حتی  إذاثوب أدبر حتی اذا فرغ أقبل حتی یخطر بین المرء ونفسہ"، وعلی قول المؤذن فی أذان الفجر: الصلاۃ  خیر من النوم ، وکل من ھذین  تثویب  قدیم ثابت من وقتہ صلی اللہ علیہو سلم إلی یومنا ھذا۔۔۔"
        تثویب کا اطلاق اقامت پر ہوتا ہے  جیساکہ حدیث میں  ہےکہ جب اقامت کہی جاتی ہے تو شیطان بھاگ جاتا ہے، لیکن جب مؤذن اقامت سے فارغ ہوجاتا ہے تو پھر آجاتا ہے اور آدمی کے دل میں برابر وساوس  پیدا کرتا رہتا ہے ۔اور تثویب کا اطلاق فجر کی اذان میں مؤذن کا  الصلاۃ خیر من النوم کہنے پر بھی ہوتا ہے، اور یہ دونوں تثویب قدیم  ہیں عہد نبوت سےلیکر ہمارے زمانہ  تک ثابت ہے۔(فتح الو دود ) دیکھئے  : تحفۃ  الاحوذی : 1/592، طبع دار الفکر ، عون المعبود :2/242 طبع المکتبۃ السلفیہ بالمدینۃ۔
      اور موسوعہ فقہیہ کویتیہ " (10/185) کے حاشیہ میں مرقوم ہے:" کمیٹی کی رائے یہ ہے کہ اس وقت فجر کی اذان ثانی کے ساتھ تثویب کو مخصوص کرنے کا عمل زیادہ قوی ہے ، کیونکہ  مسلمانوں کے عمل کا تسلسل یہی رہا ہے جو اس کوراجح قرار دیتا ہے"۔
        اب اخیر میں پاکستان کے ایک عظیم محقق، مشہور عالم حدیث شیخ حافظ زبیر علی زئي کا فتوی نقل کیا جاتا ہے، آپ تحریر فرماتے ہیں :
" فجر کی دو اذانیں ہیں : ایک طلوع فجر کے بعد اور دوسری اقامت صلاۃ کے وقت جسے اقامت بھی کہتے ہیں  ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :" بین کل اذانین صلاۃ" ہر دو اذانو ں کے درمیان نماز ہے ،(صحیح بخاری: 624،صحیح مسلم :838)  ایک تیسری اذان  ہے جو طلوع فجر سے پہلے دی جاتی ہے،اسے رات کی اذان کہتے ہیں جیسا کہ  فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہے :" ان بلالا یؤذن بلیل " بے  شک رات کی اذان  بلا ل  دیتے ہیں  ۔ (صحیح بخاری :622، صحیح مسلم :1092)۔
     جن احادیث میں آیا ہےکہ " الصلاۃ خیر من النوم " کے الفاظ صبح کی پہلی  اذان  میں ہیں ، ان کا مطلب  یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد صبح کی دو اذانوں (اذان  واقامت ) میں سے پہلی اذان (یعنی اذان  عرفی ) میں یہ الفاظ کہے جائیں گے  نہ کہ اقامت میں ۔
      رہی  رات کی اذان جو صبح سے پہلے دی جاتی  ہےتو اس میں " الصلاۃ  خیر من النوم" کے الفاظ ثابت نہیں  ہیں ، صحیح ابن خزیمہ  (1/202) ، سنن الدار قطنی (1/243) اور السنن الکبری للبیھقی (1/423)  میں صحیح سند کے ساتھ  سیدنا انس رضی اللہ عنہ  سے روایت  ہے کہ " من السنۃ إذا قال المؤذن فی أذان الفجرحیی علی الصلاۃ قال: الصلاۃ خیر من النوم " سنت میں سے یہ ہےکہ  جب مؤذن صبح کی اذان میں  حیی علی الصلاۃ  کہے تو  الصلاۃ خیرمن النوم کہے۔  صحابی کا من السنۃ کہنا ، مرفوع حدیث کہلاتا  ہے جیسا کہ اصول حدیث  میں مقرر ہے۔
سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ  فجرکی اذان میں الصلاۃ خیرمن النوم کہتے تھے ۔ دیکھئے سنن ابی داود (504 وسندہ صحیح)
      خلاصہ یہ کہ طلوع فجر  کے بعد صبح کی اذان اول میں " الصلاۃ  خیر من النوم" کے الفاظ کہنے   چاہئیں۔ طلوع فجر سے پہلے تہجد  (صحیح سحری یا رات) والی اذان میں  یہ الفاظ قطعا ثابت نہیں ہیں ۔
        اس سلسلہ  میں شیخ امین اللہ البشاوری حفظہ اللہ نے لکھا ہے :  " وان قول الشیخ  الالبانی حفظہ اللہ ضعیف فی ھذہ ۔" اور بے شک اس مسئلے  میں شیخ البانی  حفظہ اللہ  (رحمہ اللہ ) کا قول ضعیف ہے۔ (فتاوی  الدین  الخالص 3/225)۔  شیخ ثناء  اللہ مدنی ، شیخ محمد منیر قمرسیالکوٹی  اور حافظ عبد الرؤف سندھو حفظھم اللہ نے اس مسئلے میں  (شاید) بغیر تحقیق کے شیخ  البانی حفظہ اللہ (رحمہ اللہ ) کی پیروی  کی ہے۔  واللہ اعلم  وسبحان من لا یسھو۔(شہادت ،اکتوبر2000ء ، فتاوی علمیہ، المعروف توضیح الاحکام /247۔248۔طبع مکتبہ اسلامیہ )۔
         اس مسئلہ   کی مزید تحقیق وتفیصل کے خواہشمند حضرات کے لیے درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا ۔
(1)المجموع للنووی:3/102،طبع مکتبۃ الارشاد ، (2)البیان للعمرانی :2/64طبع دار المنھاج(3)شرح منتھی الارادات :1/266،طبع الرسالۃ (4) موسوعۃ فقھیہ کویتیہ:10/185اردو ترجمہ اسلامک  فقہ اکیڈمی (5) فتاوی اللجنۃ الدائمۃ:6/58۔62(6)مجموع فتاوی ومقالات متنوعہ لابن باز:10/341۔344۔(7) الشرح الممتع :2/61۔64(8)مجموع فتاوی ورسائل ابن عثیمین:12/176۔188،(9)غایۃ المرام شرح مغنی ذوی الافھام للشیخ عبد المحسن بن ناصر آل عبیکان ، طبع الرسالۃ (10) کتاب الاذان لابی حاتم اسامہ بن  عبد اللطیف القوصی ص 62۔79،طبع مؤسسۃ قرطبہ(11) احکام الاذان والنداء والاقامۃ لسامی الحازمی ص88۔92،طبع دار ابن الجوزی (12) فقہ کتاب وسنت از شیخ صبحی حسن حلاق ص193 ۔ 195،طبع دار السلام(13)فتاوی اصحاب الحدیث از شیخ ابو محمد حافظ عبد الستار حماد:1/83۔85،2/133،طبع مکتبہ اسلامیہ لاہور۔ھذا واللہ اعلم ۔○○○



Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        ت...

کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟

  پیام حدیث:   کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟ … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          عن أبی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال:"اذا سمعتم الإقامة فامشوا إلی الصلاۃ وعلیکم بالسکینة والوقار،ولا تسرعوا،فماأدرکتم فصلوا، وما فاتکم فأتموا"۔     ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے(معمولی چال سے)چل پڑو،سکون   اور وقار کو (بہرحال) لاز م پکڑے رکھو، اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے...

رؤیت ھلال میں اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں ؟

تحقیقی مقالہ :   رؤیت ھلال میں اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں ؟   تحریر: الشیخ احمدبن عبد اللہ بن محمد الفریح                         ● …ترجمہ: ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی                     اولا : محل اختلاف کی تعیین : اماکن بعیدہ میں مطلع ہلال مختلف ہونے کی صورت میں جس شہروالوں نے چاند نہیں دیکھا ہے کیا ان پر دوسرے شہر والوں کی رؤیت پرعمل کرناضروری ہے ؟ ثانیا : اختلاف کا ذکر :زمانۂ قدیم ہی سے اس مسئلہ   میں اختلاف موجود ہے، اوریہ ان اجتہادی   مسائل میں سے ہے   جن میں اختلاف کرنے کی گنجائش وجواز ہے جبکہ ہر   قول کی اپنی اپنی   دلیل موجود ہے۔ قول اول : چنانچہ اس سلسلہ میں فقہاء کی ایک جماعت   کا کہنا ہےکہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائیگا   یہ قول بعض احناف وموالک اور جمہو...