Skip to main content

بعدتدفین ہاتھ اٹھاکردعاکرنےکی ایک دلیل کا تحقیقی جائزہ


Rounded Rectangle: تحقیقی مقالے 
بعدتدفین ہاتھ اٹھاکردعاکرنےکی ایک دلیل کا تحقیقی جائزہ

                                                                                                    ابو عبد العزیز محمد یوسف

               عن الحصین بن وحوح ان طلحة بن البراء مرض فاتاہ النبی صلی اللہ علیه وسلم یعودہ فی الشتاءفی بردوغیم۔۔۔۔فاخبر النبی صلی  اللہ علیه وسلم حین اصبح  ،فجاء حتی وقف علی قبرہ فی قطارہ بالعصبة، فصف وصف الناس معه، ثم رفع یدیه وقال: اللھم الق طلحه تضحك الیه ویضحك الیك ثم انصرف"حصین بن وحوح بیان کرتے ہیں کہ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، موسم ٹھنڈا تھا اور بدلی چھائي ہوئي تھی ، جب نبی پاک  ﷺ واپس جانے لگے تو طلحہ کے گھر والوں سے فرمایا : مجھے لگتا ہےکہ طلحہ کو موت آکر ہی رہیگي ، (جب وفات پاجائے ) تو مجھے اس کی اطلاع دینا  تاکہ ان کے جنازہ میں شریک ہو سکوں اور نماز جنازہ پڑھوں  اور ان کی  تکفین وتدفین  میں جلدی کرنا ، کیونکہ کسی مسلمان میت کو اس کے اہل خانہ کے درمیان(زیادہ دیر) روکے رکھنا مناسب نہیں ہے، نبی کریم ﷺ نبی سالم کے محلہ تک پہنچے ہی تھے کہ طلحہ کی وفات ہوگئي اور کافی رات ہوچکی، طلحہ نے وفات سے قبل جو آخری بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ مجھے دفن کردینا اور اپنے رب کے ساتھ ملا دینا اور رسول اللہ ﷺ کو نہ بلانا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہود آپ ﷺ کو کوئي تکلیف نہ پہنچا ئیں! چنانچہ اگلے دن صبح کو نبی کریم ﷺ کو ان کی وفات کی خبر دی گئي تو آپ تشریف لے آئے یہانتک کہ ان کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے قباء کے مقام عصبہ میں اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی صف لگائي(پھر آپ نے نماز جنازہ پڑھائي ) اور پھر دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر یہ دعا کی :" اللھم الق طلحۃ تضحک الیہ ویضحک الیک"۔
  اے اللہ ! تو طلحہ سے اس حال میں ملاقات کر کہ تو اسے دیکھ کر ہنس رہا ہو اور وہ تجھے دیکھ کر  ہنس رہا ہو " پھر آپ واپس چلے گئے " یہ التھمید لابن عبد البر کے الفاظ ہیں ۔    
تخریج حدیث:  اس حدیث کوطلحہ بن براءرضی اللہ عنہ سے  چار راویوں نے روایت کیا ہے(1)حصین بن وحوح(2)محمد بن کعب(3)ابو مسکین(4)رجل من نبی عم طلحہ بن البراء۔
حصین بن وحوح کی روایت:اسے  ابو داود نے اپنی "سنن"(5/71/3159 مختصرا بدون ذکر الشاھد) میں ،اور ان کے طریق سے بیھقی نے اپنی "سنن کبری"(3/386۔387) میں ، بغوی نے "معجم الصحابۃ"(3/415۔416/1351مختصرابذکرالشاھد)میں،ابن ابی عاصم نے "السنۃ مع ظلال الجنۃ"(1/246/558مختصرابدون ذکر رفع الیدین) اور "الآحاد والمثانی"(3/633/2139 مختصرابدون ذکر رفع الیدین) میں اور ان کے طریق سے مزی نے"تھذیب الکمال" (6/549 من غیر ذکر رفع الید) میں ، طبرانی نے"معجم کبیر"(4/29/3554 مطولا بذکر  الشاھد)، و"معجم اوسط"(8/125۔126/8168۔تحقیق طارق عوض اللہ،مطولا بدون ذکر رفع الیدین ) اور "کتاب الدعاء"(2/1358/1189۔مختصرابدون ذکر رفع الیدین)میں ، اور ان کے طریق سے اصبھانی نے "الحجۃ فی بیان المحجۃ"(1/432۔433/266 مطولا بذکر الشاھد) میں ، کلا باذی نے "بحرالفوائد المسمی بمعانی الاخبار "(1/248/163)میں،ابن بطہ نے "الابانۃ"(3/99۔101/72 بذکر الشاھد )میں ، ابو نعیم نے "معرفۃ الصحابۃ"(3/1552/3930 رقم الترجمۃ 1527 مطولا مع الشاھد) میں اور ابن عبد البر نے"التمھید "(6/273 مطولا بذکرالشاھد ) میں عیسی بن یونس عن سعید بن عثمان البلوی عن عروۃ بن سعید الانصاری عن ابیہ عن حصین بن وحوح ان طلحہ بن البراء ۔۔ کی سند سے روایت کیا ہے۔
حافظ نے "الاصابۃ" (5/409۔410۔تحقیق ترکی) میں اسے ابن ابی خیثمۃ ،ابن شاھین اور ابن السکن سے منسوب کیا ہے۔
درجہ اسناد: یہ سند نہایت ضعیف ہے، مندرجہ ذیل اسباب وعلل کی بنا پر:
          (1) حصین بن وحوح سے روایت کرنے والے اور عروہ (اسے عزرۃ بھی کہا جاتا ہے )کے والد سعید الانصاری مجہول ہیں۔(تہذیب الکمال:11/126، الکاشف:1/447/1984 تقریب التہذیب ص237 ،مطبوعہ  بیت الافکار الدولیۃ)
(2) عروۃ- عزرۃ-بن سعید الانصاری مجہول ہے ، (تہذیب الکمال :20/25، الکاشف: 2/19/3776، المغنی:1/611/4095، تقریب التہذیب ص 426/4562، تحریر التقریب:3/9)۔
(3) اورعروہ انصاری سے روایت کرنے والاسعید  بن عثمان البلوی بھی مجہول ہے۔ اس سے صرف اور صرف عیسی بن یونس روایت کرتے ہیں  اور ابن حبان کےعلاوہ کسی اور نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔(تہذیب الکمال:11/5، الکاشف :1/441/1932، تقریب التہذیب ص230/2364، تحریر التقریب:2/38)۔
     شیخ الحدیث علامہ  عبید اللہ مبارکپوری فرماتے ہیں :" اس میں عروہ بن سعید انصاری  اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں "(مرعاۃ المفاتیح :5/317)
 شیخ البانی رقم طراز ہیں :" وھذا اسناد ضعیف مظلم ، من دون حصین بن وحوح لا یعرفون وقد قال الحافظ فی کل من عروۃ بن سعید الانصاری وابیہ " مجہول " وفی البلوی  "مقبول " مع انہ لم یرو عنہ غیر عیسی بن یونس ، ولم یوثقہ غیر ابن حبان " یعنی یہ سند ضعیف ہے، راویوں کی حالات تاریکی میں ہیں، چنانچہ حصین بن وحوح کے بعد کے روات غیر معروف ہیں ، اور حافظ نے عروۃ انصاری اور ان کے والد سعید انصاری کو مجہول اور بلوی کو مقبول قرار دیا ہے باوجو د یکہ بلوی سے عیسی بن یونس تنہا روایت کرتے ہیں اور صرف ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے!!(الضعیفۃ:7/223/3232)
محمد بن کعب قرظی کی روایت:اسے ابن ابی الدنیا نے "کتاب الاولیا"(ص 31۔32 /74) میں اور ابو نعیم نے " معرفۃ الصحابۃ "(3/1552/393۔جامع المسانید والسنن :6/ 492/4607) میں  ابو معشر عن محمد بن کعب عن طلحہ بن البراء کی سند سے روایت کیا ہے:
واضح رہے کہ اس میں صرف دعا کا ذکر ہے ، رفع الیدین اور طویل  قصہ کا ذکر موجود نہیں ہے ۔ البتہ یہ سند بھی ضعیف ہے، اس میں دو علتیں ہیں :
(1)حافظ ابن کثیر کہتے ہیں :" وھذا منقطع بین محمد بن کعب  وبین طلحہ بن  البراء "یعنی محمد بن کعب اور طلحہ بن براء کے درمیان انقطاع ہے۔
(2)ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن السندھی ضعیف ومختلط راوی ہے۔(تہذیب الکمال: 29/322۔331، الکاشف :2/317/5802، تقریب التہذیب ص 627/7100 "الابانۃ" (3/100) کے محقق لکتھے ہیں : محمد بن کعب قرظی نے طلحہ بن براء سے نہیں سنا ہے کیونکہ طلحہ کی وفات عہد نبوت  میں ہوچکی تھی جبکہ قرظی کی ولادت سنہ چالیس ھجری میں ہوئي ہے ، جیساکہ تقریب  میں ہے ۔ بنابریں یہ حدیث مرسل /منقطع ہے، نیز اس کی سند میں ابو معشر نجیح سند ھی ضعیف سئی الحفظ ہے۔
ابو مسکین کی روایت:اسے طبرانی نے "معجم کبیر"(8/372۔373/8163جامع المسانید والسنن 6/491/4605) میں ، ابو نعیم نے "معرفۃ الصحابۃ " (2/1442/، فذکرنحو روایۃ محمد بن کعب) میں اور ابن السکن نے "صحیح" (کمافی الاصابۃ 5/410 ،تحقیق ترکی) میں عبد ربہ بن صالح عن عروۃ بن رویم عن ابی مسکین عن طلحہ  بن البراء کے طریق سے روایت کیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں :"۔۔۔۔ فلما صلی   البنی صلی اللہ علیہ وسلم  الصبح سال عنہ فاخبروہ بموتہ وما قال، فرفع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یدہ ثم قال: اللھم القہ وھو یضحک الیک وانت تضحک الیہ"۔
 اس میں نماز جنازہ کا ذکر نہیں ہے! مگریہ سند بھی کئی  علتوں کی بناپر ضعیف ہے۔
(1)ابو مسکین اور طلحہ بن براء کے درمیان انقطاع ہے کیونکہ ابو مسکین کا شمار تابعین میں ہے جبکہ طلحہ کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں ہی ہوگئي تھی لہذا دونوں کی ملاقات کا سوال ہی نہیں آتا !! اسی لئے امام ابو حاتم رازی ، حافظ ابن کثیر اور  علامہ ھیثمی نے اسے منقطع قرار دیا ہے۔(الجرح والتعدیل :4/472،جامع المسانید :6/492/4607،مجمع الزوائد :9/610/15968۔بغیۃ الرائد)
       (2)ابو مسکین کا ذکر "الجرح والتعدیل"(4/472/2076) اور"المقتنی فی سرد الکنی "(2/75/5736) کے علاوہ کسی دوسری کتب جرح وتعدیل کے اندر راقم السطور کو نہیں ملا لہذا ظاہر یہ ہے کہ یہ مجہول راوی ہے واللہ اعلم۔
 (3)عبد ربہ بن صالح القرشی الدمشقی کا ترجمہ" الجر ح والتعدیل :(6/44)، التاریخ الکبیر" (6/79) ،ثقات ابن حبان "(7/155) اور ، تاریخ دمشق "(34/109/3729) میں موجود ہے، وہ کئي شیوخ سے روایت کرتا ہے اور اس سے مروان بن محمد  ، سلیمان بن عبد الرحمن الدمشقی ، ولید بن مسلم، ھشام بن عمار اور ہشام بن خالد روایت کرتے ہیں البتہ اس کی توثیق یا تخریج سوائے توثیق ابن حبان کے کسی اور سے منقول نہیں ہے، اسی لئے شیخ ابو عبد اللہ محمد بن احمد المصنعی العنسی نے " مصباح الاریب فی تقریب الرواۃالذین لیسوافی تقریب التہذیب" (2/222/15137) میں اسے "مجہول الحال" لکھا ہے۔ اور ھیثمی نے "مجمع الزوائد"(9/610/15968۔بغیۃ الرائد ) میں "لم اعرفہ" کہا ہےیعنی میں نے اسے نہیں  پہنچانا۔
رجل من بنی عم طلحہ بن البراء کی روایت: اسےابو نعیم نے "معرفۃ الصحابۃ" (3/1553) میں اور ان سے علی بن عبد العزیز نے اپنی "مسند" (کما فی الاصابۃ : 5/411) میں بطریق ابو بکر بن عیاش ثنا رجل من بنی عم طلحہ بن البراء من بلی ان طلحہ۔۔۔۔۔ فذکر نحوہ باختصار ۔ روایت کیا ہے۔
لیکن یہ سند بھی دو علتوں  کی وجہ سے ضعیف ہے۔
(1)رجل من بنی عم طلحہ مجہول العین راوی ہے۔
(2)ابو بکر بن عیاش الاسدی الکوفی گوثقہ ہیں لیکن عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے انکا حافظہ خراب ہوگیا تھا ۔ (تہذیب الکمال:33/129۔135،تقریب التہذیب ص693/7985)۔
حدیث مذکور کی تضعیف کرنے والے علماء کرام:
(1)شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ مبارکپوری(مرعاۃ المفاتیح :5/317)
(2)محدث عصر علامہ البانی(الضعیفۃ:۷/٢٢٣/٣٢٣٢،نیزدیکھئے:احکام الجنائزص13۔14حاشیہ،
ظلال الجنۃ:1/246،
تحقیق المشکاۃ:1/510/1625،سنن ابی داود ص 568مطبوعہ مکتبۃ المعارف)
(3)شیخ شعیب ارنووط(تحقیق سنن ابی داود"(5/71/3159)۔
(4) شیخ حافظ زبیر علی زئي( انوار الصحیفۃ ص116 ،تحقیق سنن ابی داود:3/538۔ دار السلام ریاض)۔
(5)شیخ حمدی بن عبد المجید سلفی  (تحقیق معجم کبیر طبرانی :4/29) ۔
(6) شیخ محمد بن ربیع بن  ھادی عمیر مدخلی (تحقیق الحجۃ  فی بیان المحجۃ للاصبھانی:1/432۔433) ۔
(7) شیخ عبد القدوس بن محمد نذیر (تحقیق مجمع البحرین :6/391۔392/3882) ۔
(8) شیخ ڈاکٹر محمد سعید بن  محمد حسن البخاری (تحقیق کتاب الدعاء للطبرانی:2/1358/1189) ۔
(9) شیخ عبد اللہ الدرویش (بغیۃ الرائد فی تحقیق مجمع الزوائد:3/146) ۔
(10)شیخ ماھریاسین الفحل (تحقیق ریاض الصالحین :ص 283/944)۔
خلاصہ یہ کہ یہ حدیث اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ، ناقابل حجت ہے، اس کے ہر طریق میں ایک سے زائد علت قادحہ موجود ہے نیز ان طرق میں انقطاع وجہالت ہے جس کی وجہ سے اس بات کا قوی احتمال ہےکہ یہ طرق ایک دوسرے سے ماخوذہیں ۔ لہذا حافظ ھیثمی کا اس کی سند کو "حسن" (مجمع الزوائد:3/146-147مع بغیۃ الرائد) کہنا اور اسی طر ح محترم مولانا مشتاق احمد کریمی سلفی صاحب ( مؤسس ورئیس الہلال ایجو کیشنل سوسائٹی کٹیہار) کا یہ کہنا" مگر اس کے متعدد طرق ومتابعات ہیں جن سے قوت پاکریہ حدیث  حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی  ہے" تحقیق سے بعید بات ہے۔
     اس کے علاوہ اس حدیث کے متن میں بھی اضطراب معلوم ہوتا ہے چنانچہ کسی میں "رفع الیدین" کا ذکر ہے تو کسی میں "رفع" کا ذکر ہی نہیں ہے، کسی میں دعا کے الفاظ نہایت مختصر ہیں تو کسی میں اس سے قدرے طویل ، کسی میں پورا قصہ مذکور ہے تو کسی میں اختصار  کے ساتھ جبکہ کسی میں صرف دعا کا ذکر ہے، بنابریں  یہ اضطراب بھی اس کے ضعیف ہونے کا ایک قوی سبب ہے اور اس  سےاستدلال غلط ہے ۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کے قائلین  اس روایت کو تدفین کے بعد کی  دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جب کہ  اس کے اندر تدفین کے بعد کا ذکر نہیں ہے بلکہ تدفین کے بعد والے دوسرے دن  صبح کے وقت کا ذکرہےجو ازقبیل زیارت ہےاور اس میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاکرمیت کے لیے دعا کرنامحل نزاع نہیں ہے لہذا اس روایت سے بعد تدفین اجتماعی دعاکااثبات ہرگز درست نہیں ہے واللہ اعلم ۔

ءءءنرکمو

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        ت...

کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟

  پیام حدیث:   کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟ … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          عن أبی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال:"اذا سمعتم الإقامة فامشوا إلی الصلاۃ وعلیکم بالسکینة والوقار،ولا تسرعوا،فماأدرکتم فصلوا، وما فاتکم فأتموا"۔     ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے(معمولی چال سے)چل پڑو،سکون   اور وقار کو (بہرحال) لاز م پکڑے رکھو، اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے...

رؤیت ھلال میں اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں ؟

تحقیقی مقالہ :   رؤیت ھلال میں اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں ؟   تحریر: الشیخ احمدبن عبد اللہ بن محمد الفریح                         ● …ترجمہ: ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی                     اولا : محل اختلاف کی تعیین : اماکن بعیدہ میں مطلع ہلال مختلف ہونے کی صورت میں جس شہروالوں نے چاند نہیں دیکھا ہے کیا ان پر دوسرے شہر والوں کی رؤیت پرعمل کرناضروری ہے ؟ ثانیا : اختلاف کا ذکر :زمانۂ قدیم ہی سے اس مسئلہ   میں اختلاف موجود ہے، اوریہ ان اجتہادی   مسائل میں سے ہے   جن میں اختلاف کرنے کی گنجائش وجواز ہے جبکہ ہر   قول کی اپنی اپنی   دلیل موجود ہے۔ قول اول : چنانچہ اس سلسلہ میں فقہاء کی ایک جماعت   کا کہنا ہےکہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائیگا   یہ قول بعض احناف وموالک اور جمہو...