|
پیام حدیث:
|
روزہ
کی حفاظت کیجئے
… ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی"
"عن
ابی ھریرۃ رضی اللہ عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم :"من لم یدع
قول الزور،والجھل، والعمل به، فلا حاجة للہ فی ان یدع طعامه وشرابه"۔(صحیح
بخاری: 1903، سنن ابن ماجه:1689 واللفظ له)
ابو
ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"
جس نے جھوٹ اور بیہودہ باتوں اور بیہودہ اعمال سے
اجتناب نہ کیا ، اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ شخص کھانا پینا ترک
کردے"۔
شرح مفردات:(1) یدع: ودع یدع الشئ ودعا، چھوڑنا،ترک کرنا ،باب فتح یفتح سے
مضارع ہے۔
(2) الزور:
باطل،باطل گواہی ، جھوٹ، جعل سازی، شھادۃ زور:جھوٹی گواہی ۔
(3) الجھل: نادانی، ناواقفیت، بے خبری، بے وقوفی، بیہودہ،۔ باب سمع
یسمع۔
فوائدو مسائل: ماہ رمضان کے روزے رکھنا عظیم عبادت ہے اور دین اسلام کے
پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ اس مہینہ
میں روزے رکھنے کے کچھ آداب ہیں جن میں سے چند کا ذکر اس حدیث پاک کے اندر کیا گیا
ہے۔ ان کا پاس ولحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے ورنہ روزہ دار کی محنت وکوشش اور
بھوکا پیاسا رہنا بالکل رائیگا جائیگا۔
مولانا عطاء اللہ
ساجد صاحب اس حدیث کے "فوائد
ومسائل" کے تحت لکھتے ہیں :
(1) روزے کا بنیادی
مقصد تقوی کا حصول ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا :(یاایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون)[
البقرۃ:183]
"اے ایمان والو!
تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گيا تھا تاکہ تم متقی بن جاؤ"۔(2) تقوی کے حصول کے لیے
صرف کھانے پینے سے پرہیز کافی نہیں بلکہ
ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی شعوری کوشش مطلوب ہے ۔ روزہ رکھ کر ہم اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے بھی اللہ کے حکم کے مطابق پرہیز کرتے ہیں تو جو کام
پہلے بھی ممنوع ہیں ، ان سے بچنا زیادہ
ضروری ہے تاکہ مومن ان سے پرہیز کا عادی ہوجائے ۔
(3) شریعت اسلامیہ
میں روزے کے دوران میں بات چیت کرنا جائز ہے بلکہ چپ کا روزہ شرعا منع ہے ۔ دیکھئے : صحیح البخاری،
الایمان والنذور، باب النذر فیما لا یملک
وفی معصیتہ، حدیث:6704) (4) عبادات انسان کے روحانی اور جسمانی فائدے
کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ وہ ان اعمال پر آخرت میں
بھی عظیم انعامات عطا فرماتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ مترجم: 2/598، دار السلام ریاض)۔ (6) جھوٹ، غیبت،
چغلخوری، بیہودہ اور فحش باتوں وغیرہ جیسے گناہوں سے ایک روزہ دار کو حتی الامکان
بچنے اور پرہیز کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تاکہ روزہ کے مقصود ومطلوب سے بہرہ ور
ہوسکے۔ واللہ اعلم۔
Comments
Post a Comment