تمباکو،سگریٹ وبیڑی:تاریخ،نقصانات،شرعی
حکم
◙…ابو عبد
العزیزمحمدیوسف
تمباکو کی مختصر تاریخ: تمباکو کا اصل وطن بر اعظم
امریکہ ہے۔ نوممبر1492ءمیں اسپانوی کرسٹوفرکولمبس نے امریکہ کے جزیرہ کوبا(ٹوباکو)
میں ریڈانڈین لوگوں کو تمبا کو نوشی کرتے ہوئے دیکھا ، اور واپسی پر اس نے اس شجر
ممنوعہ کو اپنے ساتھ اسپین لے آيا۔پھر1559ء میں فرانس کا سفیر جین نیکوٹ نے اسپین
سے فرانس لے آيا اور ملکہ کیتھرین ڈی میڈیسی کوبطور ہدیہ پیش کیا ، اسی جین نیکوٹ
کے نام سے کیمیائي مادہ نیکوٹین ماخوذ ہے،اور 1600ء میں پورے یورپ میں اس کی زراعت
پھیل گئي ۔ جبکہ گیا رھویں صدی ہجری کے آخر میں شامیوں اور ترکیوں کے واسطے سے
ایشا میں پہنچا۔ اور ستر ھویں صدی عیسوی کے آخر تک تمباکو کی عالمی تجارت شروع
ہوگئي۔
حیرتناک انکشاف:(1)80ملکو ں میں پچاس ہزار سے زائد سائنسی تحقیقات کی
جاچگی ہیں اور سب نے تمباکو اور سگریٹ نوشی کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس کا صحت کے لئے
مضر اور مہلک ہونے کی تاکید کی ہے۔اور
انیسویں صدی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہوگئي ہے کہ تمبا کو اور کینسرکے درمیان چولی
دامن کا رشتہ ہے۔
(2)1761ء میں برطانوی ڈاکٹر
جون ہیل نے انکشاف کیا کہ پہلا کینسر(ناک کے کینسر) کا سبب تمباکو ہے۔(3)1859ءمیں
ایک فرانسی ڈاکٹر نے منھ کے کینسر کے جن 68 کیسوں کا انکشاف کیا تھا ، اس کا سبب
بھی سگریٹ نوشی ہی تھا۔ (4)1938ءمیں پیرل نے قدیم جنگجوؤں میں سے سگریٹ پینے والے
اور نہ پینے والے کےدرمیان موازنہ کرکے اس حقیقت کا سراغ لگایا کہ سگریٹ نوشوں کی
موت سگریٹ نہ پینے والوں سے سات سال پہلے واقع
ہوجاتی ہے۔ (5)1961ء میں لندن کے کنگ کالج برائے اطباء نے ایک دستاویز شائع
کیا جس میں سگریٹ وتمباکو کو بے شمارنقصانات کی نشان دہی کی گئي ۔اور اس کے بعد
پوری دنیا میں ایک ہلچل مچ گئي ، پھر انٹرنیشل قانون کے تحت تمباکو اور سگریٹ تیار
کرنے والے تمام کمپنیوں پر لازم قرار دیا گیاکہ ہر پیکٹ پر لکھا جائے کہ "تمباکو اور سگریٹ
نوشی صحت کے لئے انتہائي مضراورنقصان دہ ہے۔
سگریٹ اور
کیمیکل: سگریٹ وغیرہ کی تیاری میں
دو سو زہریلے کیمیکل ملائےجاتے ہیں ، ان میں بائیس سخت قسم کے زہر یلے ہوتے ہیں
جبکہ چالیس مادے کینسر کا سبب بنتے ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور مہلک مادہ
نیکوٹین ہے، جس کا 50 ملی گرام ایک انسا ن کو چند لمحوں میں موت کے گھاٹ اتاردینے
کے لئےکافی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان مواد کی بھی آمیزش کی جاتی ہے: امونیا جسےباتھ
روم اور لیٹرین روم وغیرہ کی صفائي وستھرائي کےلئے۔ڈی،ڈی،ٹی: کیڑے مکوڑے اور حشرات
مارنے کے لئے۔فینول :زمین اور آلات نظافت کی صفائي کے لئے اور ٹار(تارکول) سڑکوں
کی پیچنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح یوریتھین ، پولونیم، نفتھایل امین،
پایرین ، ڈائي میتھایل نٹروس امین، بینز پایرین اور ڈی بینز اکریڈین جیسے کیمیکل
ملائےجاتے ہیں جو کینسر کا سبب بنتے ہیں ، ٹولو ین ، ارسین ،بیوٹن، ہیڈروجن
سیانیڈ،اسیٹون، میتھانول، نفتھالین،کاڈمیوم ،کاربون مونواکسائڈ،فینایل کلوریڈ اور اس
طرح کے دیگر دسیوں زہریلے کیمیکل سے مرکب سامان ہلاکت وبربادی کا نام سگریٹ ،چرس ،وغیرہ
ہے۔
سگریٹ نوشی کے جسمانی نقصانات : ماہرین اطباء نے سگریٹ نوشی کے بیسیوں نقصانات کی نشا
دہی کی ہے۔ ذیل میں چند مسلمان ڈاکٹروں کے اقوال پیش کئے جاتے ہیں :(1) قاہر ہ
یونیورسٹی ، طب کالج کے سابق پرنسپل، اور امراض صدریہ کے ٹیچر پروفیسر ڈاکٹر عبد
العزیز فرماتے ہیں : "پینسٹھ سال کی عمر سے قبل وفات پانے والوں میں سگریٹ
نوشوں کی تعداد دوگنی ہوتی ہے۔ اور غیر سگریٹ نوشوں کے مقابلہ میں سگریٹ نوشوں کے
اندر 70سے 90فیصد کے تناسب سے پھیپھڑے کا کینسر پایا جاتا ہے"۔(2) ادارہ
عالمی اتحاد کی کمیٹی برائے کینسر کے ممبر پروفیسرڈاکٹر اسماعیل السباعی کا کہناہے:"سگریٹ
نوشی پر مرتب ہونے والے امراض ہی ، موجودہ وقت میں انسانی وفات کے سب سے اہم اور
خطر ناک اسباب مانے جاتے ہیں ۔ کسی بھی ترقی یا فتہ ملک میں وفیات کی مجموعی تعداد
کے اندر تیس فیصد کینسر سے اور پچاس فیصد
بھیجہ،دل اور خونی سسٹم کی بیماریوں سے مرنے والے ہوتے ہیں ، جبکہ سگریٹ نوشی ان
امراض تک لے جانے والے اہم ترین اسباب وعوامل میں سے ہے"۔(3) قاہرہ یونیورسٹی
کے کینسر آپریشن کے پروفیسر ڈاکٹر شریف عمر کا کہنا ہے :"یقینا سگریٹ نوشی
صحت کے لئے زبردست نقصان دہ ہے،اس لئے کہ یہ کینسر اور امراض قلب وغیرہ جیسی
بیماریوں کا سبب ہے۔جیسے : پھیپھڑا، حنجرہ،منھ، مری،مثانہ ، کڈنی اور پنکر یاس کا
کینسر ،دل کے امراض ، خون کا بستہ اور خونی نالیوں کا سخت ہوجانا وغیرہ۔سگریٹ نوشی
سے جنین (پیٹ کے بچہ) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے، چنانچہ سگریٹ نوش حاملہ
عورت کے بچہ کی نشو ونما اور وزن میں کمی آجاتی ہے، ولادت سے پہلے یا اثناء ولادت
سگریٹ نوش عورتوں کے بچوں کی موت، سگریٹ نوشی نہ کرنے والی عورتوں کے بچوں کے
مقابلہ میں اٹھائيس فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ سگریٹ پینے والی عورتوں کو سگریٹ نوشی بہت
جلد نا امیدی کی عمر تک پہنچادیتی ہے"۔(4) پروفیسرڈاکٹر محمود محمد المرزبانی
کہتے ہیں کہ" اس کے نقصانات صرف پینے والے ہی پر مرتب نہیں ہوتے بلکہ دوسروں
پر بھی مرتب ہوتے ہیں "۔(5) ڈاکٹر کنعان الجابی کہتے ہیں :" میں گذشتہ
پچیس سال سے کینسر ہی کا علاج کررہا ہوں ، اس دوران جو بھی کینسر کا مریض آیا وہ
سگریٹ نوش تھا"۔
سگریٹ نوشی کے مالی نقصانات: اس عادت خبیثہ میں جسمانی وجانی نقصان کے علاوہ زبردست
مالی نقصان بھی ہے۔ذرا غور کریں:اگر کوئي شخص روزانہ ایک پیکٹ سگریٹ پیتا ہے، جس
کی قیمت فی پیکٹ 35روپئےہے اس طرح مہینہ میں ایک ہزارپچاس روپئے اور سال میں بارہ
ہزارچھ سوروپئے خرچ کرتا ہے ، جس میں اسے نقصان کے علاوہ ذرہ برابر فائدہ نہیں
ہے،جبکہ بسا اوقات اتنی بڑی رقم کی خود اسے یا اس کے بچوں کو ضرورت ہوتی ہے، ذرا
بتائیں کیا یہ فضول خرچی نہیں؟۔
سگریٹ نوشی کی شرعی حیثیت: طبی
اور سائنسی تحقیقات کے سامنے آجانے کے بعد سگریٹ نوشی کے حکم میں اب علماء دین کے
درمیان کوئي اختلاف نہیں ہے یا نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ طبی نقطۂ نظرسے یہ بات
یقینی حد تک پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس میں سوائے نقصان کےکوئي فائدہ نہیں
ہے، اس لئے جن علماء نے تمباکو، سگریٹ،زردہ،حقہ اور چرس وغیرہ کے حرام ہونے کا
فتوی دیا ہے ان کی بات صحیح ہے،ان علماء کرام
نے درج ذیل شرعی دلیلوں سے استدلال کیا ہے:
(1)اللہ تعالی نےفرمایا:(ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکة)"
اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو"۔(البقرہ:195) نیزفرمایا:(ولا تقتلو اانفسکم)"اور
اپنے آپ کو قتل نہ کرو"۔(النساء:29) اور طبی طور پر جیسا کہ گذرا ثابت ہوچکا
ہے کہ ان چیزوں کا استعمال باعث ہلاکت اور موت اور بتدریج خود کشی ہے۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد ہے:(لاضررو لاضرار)"نہ کسی کو نقصان
پہنچاؤ اور نہ کسی سے نقصان اٹھاؤ"۔(سنن ابن ماجہ:2340)۔ اس میں شک نہیں کہ
ان اشیاء کا استعمال موجب ضرر بھی ہے۔
(3) اللہ تعالی کا ارشاد ہے:(یسئلونك ماذ ا احل لھم قل احل لکم الطیبات)،" آپ سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں؟ کہہ دیجئے کہ سب پاکیزہ چیزیں
تمہارے لئے حلال ہیں"۔ (مائدہ :4) دوسری جگہ فرمایا:(ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث)،" اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پاک چیزوں کو ان کے
لئے حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔(اعراف:157)سگریٹ
وحقہ نوشی کی تمام صورتیں ان اشیاء میں سے ہیں جو انتہائي خبیث اورانسان کیلئے نقصان
دہ ہیں لہذا یہ سب حرام ہیں۔
(4) اللہ تعالی کا فرمان ہے:(ولا تبذرتبذیرا ، ان المبذرین
کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفورا)، اور اسراف وبیجا خرچ سے بچو، بیجا
خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائي ہیں۔ اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے"۔(اسراء:26۔27)،
اس سے فضول خرچي کا حرام ہونا واضح ہے اور اس میں کوئي شک نہیں کہ سگریٹ نوشی میں
اسراف ضرور ہے۔
(5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(کل مسکرحرام
)"ہر نشہ آورچیزحرام ہے"(ترمذی:3685)، اور تمباکو اور سگریٹ میں مستی
اور نشہ پیدا ہونا یقینی ہے۔
(6) سگریٹ کی بو انتہائي
ناپسند اور اذیت ناک ہوتی ہے،اس سے دوسرے لوگوں کو یہاں تک کہ فرشتوں تک کو اذیت اور تکلیف ہوتی ہے،اور مذہب اسلام نے دوسروں کو
اذیت دینے اور تکلیف پہنچانے سے منع کیا ہے، چنانچہ ایک موقعہ پر رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :(اجلس فقد آذیت)،"بیٹھ جاؤ تم نے (لوگوں کو) اذیت
دی"۔(ترمذی:1118)۔
(7) تمام شریعتوں کے اند ر ہر انسان پر پانچ چیزوں کی حفاظت
لازم ہے:
(1)
دین(2)جان(3)عقل(4)نسل(5)مال۔
سگریٹ اور تمباکو نوشی سے یہ پانچوں چیزیں متاثر ہوتی ہیں۔ انسان کا دین اس
طرح متاثر ہوتا ہےکہ بعض لوگ رمضان کا روزہ اس لئے نہیں رکھتے کہ سگریٹ نوشی سے رک
نہیں سکتے۔ اور اولاد اس طرح متاثر ہوتی ہے کہ بسا اوقات ماں کی سگریٹ نوشی کی وجہ
سے بچہ ولادت کے وقت سے قبل ساقط ہوجاتا ہے، یا اس کی شکل وصورت بگڑ جاتی ہے۔اور
جان ، عقل اور مال کے متاثر ہونے کا انکار کی کوئي گنجائش نہیں جیسا کہ اس کی
تفصیل اوپر گذرچکی ہے۔بنابریں سگریٹ وغیرہ کے حرام ہونے میں کوئي کلام نہیں رہ
جاتا ہے۔انہیں مذکورہ دلائل وبراہین کی وجہ سے ہرمکتب فکر کے علماء اور فقہاء نے
سگریٹ ، تمباکو،حقہ،زردہ اور چرس وغیرہ کے استعمال اور اس کی تجارت کے حرام ہونے
کا فتوی دیا ہے، ان میں سے بعض علماء کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں:
اکابر
علماء اہلحدیث:ہندوستان کے ممتاز وسرکردہ علماء اہلحدیث میں سے شیخ الکل
فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی،محدث ہند علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری صاحب
تحفۃ الاحوذی، علامہ ثناء اللہ امرتسری اورمولانا عبد الحکیم صاحب ناظم جامعہ
مظہرالعلوم بٹنہ ،مالدہ رحمھم اللہ۔وغیرہم کے فتاوی ہمارے سامنے موجود ہیں۔دیکھئے:فتاوی
نذیریہ:3/324۔325لاہور،تحفۃ الاحوذی3/44،فتاوی ثنائیہ:2/112۔117۔
اسی طرح علماء احناف میں سے شیخ شر نبلالی،شیخ اسماعیل نابلسی،شیخ
مسیری،شیخ عمادی،شیخ محمد علاء الدین حصکفی،شیخ رجب بن احمد،شیخ محمد بن صدیق
زبیدی،شیخ محمدبن سعد الدین،شیخ محمد عبد العظیم مکی،محمد عبد الباقی مکی،شیخ
محمدسندھی،شیخ محمد عینی اور شیخ ابو الحسن مصری وغیر ھم کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
ان کے علاوہ عرب کے ممتاز علماء کرام نے بھی
حرمت کا فتوی دیا ہے، جن میں شیخ محمد بن ابراھیم آل شیخ سابق مفتی سعودی عرب ،
شیخ عبد العزیز بن باز سابق مفتی سعودی
عرب، سعودی مجلس افتاء ،علامہ محمدبن صالح
بن عثیمین ، ازھریونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرجاد الحق علی جاد الحق ، ڈاکٹر یوسف
القرضاوی، شیخ محمدمتولی شعراوی مصری،جامعہ ازہر کی مجلس افتاء ،یہ اور ان کے
علاوہ بے شمار علماء وفقہاء نے حرمت کا فتوی دیا ہے، جس کےبعد ان چیزوں کے استعمال
اور تجارت کے حرام ہونے میں کوئي شک وشبہ نہیں رہ جاتا ۔
بیڑی وتمباکو کے تعلیمی نقصانات: یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ مذکورہ نشہ آور اشیاء اور
خصوصا بیڑی کی تجارت نے ہماری دینی تعلیم کو بھی بے حد اور ناقابل تلافی نقصان
پہنچا یا ہے ، چنانچہ ہمارے علاقہ کے اکثردینی مدارس کے ذمہ دار حضرات چندہ
وصولیابی کی خاطر بیڑی تاجروں کے در پر ضرور حاضری دیتے ہیں اور یہ حضرات ذرہ
نوازی سے دریغ بھی نہیں کرتے ہیں، اسی مال حرام کی وجہ سے ہمارے ان دینی تعلیمی
اداروں سے تعلیمی برکت بالکل ختم ہوتی جارہی ہے اور ترقی کے بجائے تنزلی ان کا
مقدر بنتی نظرآرہی ہے، چنانچہ ایک اندازہ کےمطابق صرف ضلع مالدہ کے مدارس نظامیہ میں ہر سال دوسوسے
زیادہ طلبہ سند فراغت لیتے ہیں اور ان کی دستاربندی ہوتی ہے مگر ایک تجزیہ کے
مطابق ان فارغ التحصیل طلبہ کا ایک فیصد بھی
علمی اعتبار سے اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ کسی مدرسہ میں تدریسی خدمت پر
مامور ہوکر اونچی جماعت کے طلبہ کو پڑھاسکے حتی کہ ادنی جماعتوں میں بھی قاعدے سے تدریس کے لائق نہیں ہوتا، اسی لئے
آپ دیکھیں گے کہ یہاں کے مدارس سے فراغت کے بعد بہت سے طلبہ اپنے اندر علمی اہلیت
وقابلیت پیدا کرنے کی غرض سے یوپی وغیرہ کے مدارس کا رخ کرتے ہیں تاکہ اس کے بعد
کسی مدرسہ میں مدرس کی حیثیت سے قبول کیے جاسکیں ۔یہ صورت حال آخر کیوں ؟یقینا اس
کے کئي اسباب ووجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک اہم سبب مال حرام سے مدرسہ کے اخراجات پوری
کرنا ہے ، ورنہ اگر ان مدارس کے ماضی پر
نظر ڈالیں گے تو ضرور دیکھیں گے کہ انہی میں سے ایسے طلبہ فارغ التحصیل ہوتے تھے
جو جید علماء کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔
میرے ہم زلف شیخ ابو فوزان
انیس الرحمن مدنی صاحب(بھولکی۔ اتردیناجپور)کایہ تاثر واحساس بالکل حقیقت پر مبنی
ہے، کہتے ہیں :" میں نے دیکھا ہے کہ جب سے اس مدرسہ نے بیڑی تاجروں سے چندہ لینا شروع کیا ہے تب سے
اس کی تعلیمی معیار مسلسل زوال پذیر ہے،اورتعلیمی برکت ناپید ہوتی نظرآرہی
ہے"۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اور دینی تعلیمی ادارے کے ذمہ دار حضرات یا در
کھیں کہ اگر وہ محض اللہ کی رضا کی خاطر حرام مال لینا چھوڑ دیں گے تو اللہ تعالی ایسی
برکت عطا فرما ئے گا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگی۔
یہاں پر فضیلۃ الشیخ ابو محمد حافظ عبد
الستار حماد( پاکستان) کی یہ تحریر یقیناباعث عبرت ونصیحت ہوگي کہ "سودی کا
روبار کرنے والے حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ اس حرام کمائي سے تھوڑا بہت اللہ کی
راہ میں دینا، اس سے وہ گناہ معاف ہوجاتا ہے ، جس کا وہ سودی کاروبار کی شکل میں
ارتکاب کرتے ہیں ۔ اہل مدارس کو اللہ پرتوکل کرتے ہوئے ان حضرات کی حوصلہ شکنی
کرنی چاہئے اور ان سے صدقہ ہرگز قبول نہ کیاجائے ، اللہ تعالی اس غیرت وحمیت کے
بدلے بہت سے ایسے راستے کھول دے گا جن کا اہل مدارس کو وہم و گمان بھی نہیں
ہوگا۔تحدیث نعمت کے طور پرعرض کیا ہےکہ راقم الحروف نے اپنے ادارہ کے لئے ایسے
کاروباری حضرات کا بائيکاٹ کیا ہے جو سود لیتے دیتے ہیں۔ اللہ کا دین ایسی گندگي
اور نحوست کا قطعا محتاج نہیں ہے اسی بائيکاٹ کی برکت سے ہمیں ادارے کے سلسلہ میں کبھی مالی پریشانی کا
سامنا نہیں کرنا پڑا۔ صورت مسئولہ میں بنک
سے سودی شرح پر قرضہ لے کر کاروبار کرنے والے کا مالی تعاون قبول نہیں کرنا چاہئے
اور نہ ہی ان کی دعوت کو قبول کرنا چاہئے۔حدیث میں ہے :" جو چیز تجھے شک میں
ڈالے اسے چھوڑ کر اس چیز کو اختیار کیا جائے جو شک میں نہیں ڈالتی "(مسنداحمد
ص153ج3)
البتہ اسے وعظ وتبلیغ کے ذریعے اس کا روبار کی سنگینی سے
ضرورآگاہ کرتے رہنا چاہئے۔(فتاوی اصحاب الحدیث:2/263)
اور
اخیر میں یہ حدیث پاک بھی ان حضرات کے پیش نگاہ رہنی چاہئے کہ :
"انك لن تدع شیئا للہ عزوجل الابدلك اللہ به ماھو خيرلك منهیعنی تم اللہ تعالی کی رضا کی خاطر کوئي چيز ترک کردوگے تو اللہ تعالی تمہیں
اس کےبدلہ میں اس سے بہترعطاکرےگا"(مسنداحمد:5/363۔بروایت عبد اللہ بن عمر،الضعیفۃ:1/61۔62)فقط۔
Comments
Post a Comment