پیام طیبہ:
خطبئہ عیدین سننے
کےعدم وجوب پر دلالت کرنے والی حدیث عبد اللہ بن السائب رضی اللہ عنہ کا تحقیقی جائزہ •…ابو
عبد العزیز محمدیوسف
عن عبد اللہ بن السائب قال: "شھدت مع
رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم العید ،
فلما قضی الصلاۃ ، قال: فمن أحب أن یجلس فلیجلس ، ومن أحب أن یذھب فلیذھب۔" یعنی عبد اللہ بن
سائب ۔ رضی اللہ عنہ سے ۔روایت
ہے انہوں نےکہا :" میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید میں حاضر ہوا ، جب آپ صلی
اللہ علیہ وسلم (عید کی نماز) پڑھا چکے تو
فرمایا:ہم خطبہ دیں گے تو جو خطبہ سننے کے
لیے بیٹھنا چاہے وہ بیٹھے اور جو جانا چاہے وہ جائے ۔"
تخریج: اس حدیث کو ابو داود نے اپنی
"سنن "(1155 )میں ، نسائي نے " سنن کبری "(1/48، ح:1779)، اور
" سنن صغری"(17/187،ح:1571،مع شرح الاثیوبی) میں ، ابن ماجہ نے اپنی
" سنن"(1290) میں ، ابن خزیمہ نے اپنی "صحیح
"(2/358،ح:1462)میں ،ابن الجارود نے "منتقی"(1/230۔231،ح:264،مع
غوث المکدود) میں، حاکم نے "مستدرک"(1/594،ح: 1133) میں ،طحاوی نے
"مشکل الاثار "(9/359، ح:3740) میں ، بیھقی نے " سنن
کبری"(3/301) میں اور ابن حزم نے " محلی"(5/86) میں ، متعدد طرق سے
عن فضل بن موسی السینانی عن ابن جریج عن عطاء عن عبد اللہ بن السائب ، مرفوعا
موصولا روایت کیا ہے ۔
درجہ
وعلت: اس حدیث کو امام حاکم نے بخاری ومسلم کی شرط پر " صحیح " کہا ہے ۔ اور علامہ البانی نے ان کی موافقت
کی ہے، (مستدرک1/594،نمبر:1133)صحیح ابو داودللالبانی:4/320، نمبر :1048، ارواء
الغلیل للا لبانی:3/96۔97، نمبر:629)۔ اور علامہ ابن الترکمانی نے اس کی تصحیح کر تے ہوئے لکھا ہےکہ : "فضل بن موسی جلیل
القدر ثقہ راوی ہیں ، اصحاب کتب ستہ نے ان
کی روایت لی ہے، اور ابو نعیم کا قول ہے:" ھو اثبت من ابن المبارک"(وہ
ابن مبارک سے زیا دہ قوی ہیں ) ۔ اور انہوں نے " عبد اللہ بن السائب" کی
زیادتی کی ہے، اس لیے ان کی زیادتی قبول کرنی واجب ہے۔۔۔۔ اسی وجہ سے ائمہ : ابو
داود ، نسانئ ، اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو بسند موصول ومسند، اپنی اپنی کتابوں
میں ذکر کیا ہے ۔ اور امام بیھقی نے جس مرسل روایت کا ذکر کیا ہے ، اس کی سند میں
قبیصہ واقع ہے ، جو سفیان سے روایت کرتا ہے۔۔۔۔۔ اور قبیصہ گرچہ ثقہ ہے
لیکن ابن معین اور احمد وغیرہ نے اس کی سفیان
سے روایت کی تضعیف کی ہے۔ اور اگر اس مرسل طریق کو صحیح تسلیم بھی کر
لیاجائے تو اس کے ذریعہ فضل کی روایت کو معلول قرار دینا صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ فضل
نے سند کو موصول بیان کیا ہے اور وہ ثقہ ہیں ۔(جو ہر نقی مع سنن کبری بیھقی:3/301)۔
اسی
طرح شارح سنن نسائي شیخ محمد بن علی الاثیوبی الولوی(ذخیرہ العقبی:17/189) ، شیخ
شعیب ارنووط (تخریج مشکل
الاثارللطحاوی:9/359)، ڈاکٹر بشار عواد (تحقیق سنن ابن ماجہ :2/439۔440، نمبر
:1290) اور کتاب بیان الوھم والایھام کےمحقق حسین
آيت ( بیان الوھم والایھام لابن القطان:5/418،نمبر:2587) نے حدیث مذکور کو
موصولا " صحیح" قرار دیاہے۔
لیکن
اس حدیث کا موصول ہونا صحیح نہیں ہے
کیونکہ تین ثقہ راویوں نے ابن جریج
سے اس کو موصول روایت کرنے میں فضل بن موسی سینانی کی مخالفت
کی ہے۔ چنانچہ امام عبد الرزاق
صاحب"مصنف"(3/164،نمبر:5687)،امام سفیان ثوری(سنن بیھقی:3/301) اور ہشام
بن یوسف صنعانی (علل بن ابی حاتم:1/449،نمبر:513)
نے عن ابن جریج عن عطاء عن البنی صلی اللہ
علیہ وسلم مرسلا روایت کیا ہے ۔اور اس میں
کوئي شک نہیں کہ ابن جریج نے مرسل روایت
کرنے والے ان تینوں کا درجہ حفظ وضبط میں فضل بن موسی سے بڑھا ہوا ہے، اس
لیے ان کی روایت کو فضل کی روایت
پر ترجیح حاصل ہوگي ۔ اس کی تائید
اور تو ضیح درج ذیل امورسے بھی ہوتی ہے:
()
فضل بن موسی سینانی گرچہ " ثقہ
ثبت" ہیں (تقریب:5454) مگر امام علی
بن المدینی نے ان کے بارے میں کہا
ہے کہ " روی أحادیث مناکیر"۔(
میزان الاعتدال:3/ترجمہ:6754)یعنی انہوں
نے منکر حدیثیں روایت کی ہیں ، اسی وجہ سے
حافظ ابن حجر نے " ثقہ ثبت" کے
ساتھ "ربما أغرب"(تقریب
:5454) کہا ہے یعنی وہ کبھی غریب حدیث بھی روایت کرتے ہیں ۔ جبکہ حافظ نے امام عبد الرزاق کو "ثقہ، حافظ،
مصنف شھیر، عمی فی آخر عمر ہ فتغیر ۔"(تقریب :4064) اور سفیان ثوری کو " ثقہ، حافظ،فقیہ ، عابد، امام،
حجۃ"۔(تقریب:2445) ، اور ہشام بن
یوسف کو "ثقہ"۔(تقریب :7309) کہا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ضبط واتقان میں فضل بن موسی کو وہ مقام
حاصل نہیں ہے جو ان تینوں کو حاصل ہے۔
(2)
فضل بن موسی سینانی کو حافظ ذہبی
نے "میزان الاعتدال "(3ترجمہ:6754)میں ذکر کیا ہے جو ان کے متکلم
فیہ ہونے کی دلیل ہے جبکہ ہشام
بن یوسف صنعانی کا معاملہ ایسا
نہیں ہے۔
(3)
امام ابن حزم کےبقول فضل بن موسی سے محمد بن الصباح البزاز
الدولابی(محلی:5/86)جیسے"ثقہ حافظ"(تقریب :5966) راوی نے اس حدیث کو
مرسلا بھی روایت
کیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہےکہ
فضل نے اس کو کبھی موصول روایت کیا ہے، اور کبھی مرسل ۔اس سے ان کے ضبط میں کمی کا
پتہ چلتا ہے۔ اور اس میں کوئي شک نہیں کہ
ان کی مرسل روایت کردہ حدیث ہی ثقات حفاظ کے موافق ہونے کی وجہ سے قابل قبول ولائق ترجیح ہے۔
(4)شیخ
ابو اسحاق حوینی اثری نے دو باتوں میں ابن الترکمانی کا تعاقب کرتےہوئے کہا ہے:
1۔
ابن الترکمانی کا یہ کہنا کہ " اسی وجہ ائمہ نے اس حدیث کو مسند ،
موصول طریق سے روایت کیا ہے،
۔۔۔۔۔۔۔الخ" محل نظر ہے کیونکہ ائمہ
نے اس کوروایت کرنے کے بعد سکوت اختیار
نہیں کیا ہےبلکہ اس بات پر تنبیہ کی ہےکہ یہ حدیث حقیقت میں مرسل ہے جیسا کہ امام ابو داود اور نسائي
وغیرہ نے کیا ہے۔
2۔قبیصہ
ثقہ ہیں اور ان کا سفیان ثوری سے سماع
صحیح ہے اور جن لوگوں نے ان کے سفیان سے
سماع کے بارے میں کلام کیا ہے وہ محض اس
بنا پر کہ انہوں نے ان سے صغر سنی میں سنا ہے ، لیکن یہ تعلیل
انتہائي کمزور ہے، جس جواب میں نے
"بذل الاحسان"(نمبر:37، نیز دیکھئے : الثقات الذین ضعفوافی بعض شیوخھم
لصالح الرفاعی :266) میں تفصیل سے دیا ہے
البتہ فضل کی روایت اس لیے قبول کی
جائیگي کہ انہوں نے سند میں " عبد
اللہ بن السائب " کی زیادتی کی
ہے جیسا
کہ ابن الترکمانی نے کہا
ہے۔"(غوث المکدودفی تخریج احادیث منتقی ابن الجارود:2/231)۔
راقم
السطور کہتا ہے :
اولا:
شیخ حوینی کا تعاقب صواب پر مبنی ہے البتہ ان کا یہ کہنا کہ فضل بن موسی کی زیادتی
مقبول ہے، محل نظر ہے جیسا کہ ان مذکورہ
بالا سطور سے واضح ہے۔
ثانیا:
ابن الترکمانی کا یہ کہنا کہ ابو نعیم نے فضل کو " أثبت من ابن المبارک"قرار دیا ہے کیا واقعی اس سے فضل کا امام ابن المبارک سے زیادہ قوی ہونا ثابت ہوتا ہے
؟اور ائمہ ونقادفن نے اس کو تسلیم کیا ہے ؟قطعا نہیں !چنانچہ حافظ ذھبی
نے فضل بن موسی کو " الامام
الحافظ الثبت"(سیر اعلام النبلاء :9/104) اور حافظ ابن حجر نے " ثقہ
ثبت، ربما أغرب"(تقریب :5454) سے متصف
کیا ہے تو ذھبی نے ابن المبارک کو "الامام شیخ الاسلام عالم
زمانه، أمیرالأتقیاء فی وقته ، الحافظ الغازی أحد الأعلام۔"(8/378)، اور ابن حبر نے : ثقہ ثبت، فقیہ عالم، جو اد،
مجاہد، جمعت فیہ جمیع خصال الخیر ۔"(تقریب:3595) جیسے الفاظ توثیق وتعدیل سے
موصوف فرمایا ہے ۔
(5)ائمہ
متقدمین ومتا خرین نے مرسل روایت کی تصویب وتصحیح
کرتے ہوئے اس کے ذریعہ سے موصول روایت کو معلول قراردیا ہے چنانچہ:
1۔
امام یحی بن معین کا کہنا ہے کہ " عبد اللہ بن السائب کی روایت صحیح نہیں ہے، کیونکہ یہ حدیث حقیقت میں عطاء سے
مرسلا مروی ہے،اس میں فضل بن موسی سینانی ، " عبد اللہ بن السائب" کی
زیادتی میں غلطی کا شکار ہے۔"(تاریخ الدوری :56، سنن بیھقی:3/301)۔
2۔
امام احمد نے اس کو مرسل قرار دیا ہے۔(فتح الباری لابن رجب :6/148)
3۔
اما م ابو زرعہ رازی کہتے ہیں :" اس حدیث
کا مرسل ہونا صحیح ہے۔ "(علل ابن ابی حاتم : 1/449)
4۔
امام ابو داود اس حدیث کو موصولا روایت
کرنے کے بعد لکھتے ہیں :"
عطاء عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل ہے ۔"(سنن ابو داود:1155)
5۔
امام نسائي نے بھی موصول روایت کو خطا
اور مرسل کو صحیح قرار دیا ہے ۔(تحفہ الاشراف للمزی:2/247)
6۔
امام الائمہ ابن خزیمہ فرماتے ہیں :" یہ خراسانی حدیث ہے انتہائی غریب ہے،
ہمارے علم کے مطابق فضل بن موسی سینانی کے علاوہ کسی نے اس کو (موصول) روایت نہیں
کیا ہے ۔ یہ حدیث ابو عمار ( حسن بن حریث/ثقہ) کے پاس فضل ہی کی طریق سے تھی مگر انہوں
نے نیشاپور میں اس کو ہم سے بیان نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے اس کو اہل بغداد سے بیان کیا ہے جیسا کہ بعض عراقیوں نے مجھے
خبردی ہے۔"(صحیح ابن خزیمہ :2/358)
7۔
حافظ دار قطنی نے حدیث مذکور کی روایت کے
بعد امام ابو داود کا قول نقل کر کے سکوت قرمایا ہے۔(سنن دار قطنی:2/50)
8۔
حافظ عبد الحق اشبیلی کا کہنا ہے :"
یہ حدیث عطاء عن البنی صلی اللہ علیہ وسلم
کے طریق سے مرسل روایت کی جاتی ہے۔"(الاحکام الوسطی:2/77، کمافی التعلیق علی
بیان الوھم والا یھام :5/419)۔
9۔حافظ
ابن القطان نےفضل بن موسی سینانی کی تغلیط میں امام ابن معین کا قول نقل کر کے سکوت اختیار کیا ہے۔"( بیان الوھم والا یھام :5/419)
10۔
امام نووی نے اس حدیث کو موصول سند کے
ساتھ "خلاصۃ الکلام "(2/836۔837نمبر:2956)،(فصل: ضعیف باب الخطبتین للعید بعد الصلاۃ) میں ذکر کر کے امام ابن معین اور
امام ابو داود کے اقوال کو نقل کر کے
ارسال کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے ۔
11۔صاحب"
عون المعبود" علامہ عظیم آبادی نے
بھی "التعلیق المغنی "(2/50مع سنن الدار قطنی) میں امام نسائي وابن معین
کے قول کے ذریعہ موصول طریق کو معلول قرار دیا ہے۔۔
12۔
محدث یمن علامہ مقبل بن ھادی وادعی فرماتے
ہیں :" حدیث بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ امام حاکم نے کہا ہے ، مگر
امام ابو داود۔رحمہ اللہ ۔(4/16) فرماتے ہیں : یہ حدیث عطاء عن النبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی طریق سے مرسل ہے۔ اور بیھقی
(3/301) نے اس حدیث کی روایت کے بعد ابن معین کا قول ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث موصولا خطا ہے، حقیقت میں یہ
عطاء سے مرسل مروی ہے اور " عبد
اللہ بن السائب " کی زیادتی فضل بن
موسی کی غلطی ہے۔۔۔۔پھر امام بیھقی نے
اپنی سند سے بطریق قبیصہ عن سفیان عن ابن جریج
عن عطاء :قال صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔ حدیث مذکور کو مرسلا روایت کیا ہے"اھ۔
اور
صاحب" عون المعبود" نے امام نسائي کا قول ذکر کیا ہے کہ موصول طریق خطا
ہے اور صحیح مرسل طریق ہے۔ لہذا " الجوھر النقی" میں ابن الترکمانی
کی نیز بعض معاصرین کی اس حدیث کو
موصول طریق سےقوی کہنے کی کوشش کو ان حفاظ حدیث: ابن معین ، ابوداود، نسائي اور بیھقی
کے مقابلہ میں کیا حیثیت حاصل ہوگي ؟۔
میں
کہتا ہوں: اللہ تعالی اس شخص پر رحم
فرمائے جس نے اپنی قدرومنزلت کو پہنچانا ،
ائمہ وحفاظ حدیث ، محدث کی اور اس کے شیوخ
وتلامذہ کی حدیثوں کو ایک ایک کر کے یاد رکھتےتھے ، اسی بناء پر وہ شیخ کے وہم سے
بخوبی واقف ہوتے ، بر خلاف کسی معاصر باحث کے، کہ وہ بس اپنے پاس
موجود سندوں ہی کی روشنی میں حدیث پر حکم لگاتا ہے ، تو پھر کیونکر کسی معاصر باحث اور متقدم حافظ
حدیث کے درمیان موازنہ کیا جاسکتا ہے؟"۔(احادیث معلۃ ظاھرھا
الصحۃ:ص185)
13۔شیخ
ابو اسحاق حوینی اثری حدیث مذکور پر کلام
کرتے ہوئے لکھتے ہیں:" مجھے اس سند
میں ، ابن جریج کی تدلیس کے علاوہ کسی اور علت کے ہونے کا خطرہ نہیں ہے،
کیونکہ کسی بھی طریق میں ابن جریج کی
تحدیث کی صراحت نہیں مل سکی ، لہذا اگر حقیقت ایسی ہی ہے تو
سند حدیث ضعیف ہے، واللہ اعلم۔"(غوث المکدود:2/231)
راقم
السطورکہتا ہے: ابن جریج کی تحدیث کی صراحت موصول سند میں تو نہیں مل سکی ، البتہ
مرسل سند میں موجود ہے جیسا کہ "مصنف عبد الرزاق"(3/164،نمبر:5687)میں
ہے۔
14۔شیخ
عمر وعبد المنعم سلیم ارسال والی سند کو راجح قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :" میں کہتا ہوں : فضل بن
موسی گرچہ ثقہ ہیں مگر ان کی بعض منکر
حدیثیں بھی ہیں اور ضبط میں ان کا مقام ہشام بن یوسف سے کم
ہے(پھر ابو داودونسائي کے قول نقل کر کے لکھتے ہیں ) اسی سے آپ کو معلوم ہوجانا
چاہئے کہ امام ابن القیم(1/448۔زاد
المعاد) نے جو یہ کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے نماز عید میں حاضر
لوگوں کو خطبہ سننے اور چلے جانے کی رخصت دی ہے ، تو یہ قول کمزور ومرجوح ہے۔"
15۔شیخ
محمد علی جانباز نے"سنن ابن ماجہ" کی شرح"انجاز
الحاجۃ"(5/47،ط/مکتبہ قدوسیہ ، لاہور) میں امام ابو داود کے قول کو ذکر کر
کےسکوت اختیار کیا ہے۔
ائمہ
حدیث ونقادفن اور علماء کے ان اقوال کے بعد کیا اس حدیث کے مرسل ہونے میں کوئي شک
وشبہ باقی رہ جاتا ہے؟۔
(6)فضل
بن موسی کی روایت کو ترجیح دینے کی
صورت میں تین اوثق راوی کی تغلیط لازم آتی ہے، جو بلا دلیل جائز نہیں ۔
ان
مذکورہ امور ووجوہ کی بناء پر حدیث کامرسل
ہونا اظہر من الشمس ہے، اور یہ معلوم ہے کہ مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے، اس لیے یہ حدیث ضعیف ہے، اس سے خطبئہ عیدین کے سننے کے اختیاری ہونے کی دلیل لینا درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
کتہ
:ابو عبد العزیز محمد یوسف بن الشیخ محمد عمر القاسمی ، پورنوی، مالدہی
سریش
بونا، ٹال بنگروا،ہریش چندر پور، مالدہ، مغربی بنگال، انڈیا۔
Comments
Post a Comment