Skip to main content

اونٹ کا گوشت ناقض وضو ہے


پیام حدیث:
 

اونٹ کا گوشت ناقض وضو ہے
                                                                                                       " ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی

  عن البراء بن عازب قال:سئل رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم عن الوضوء من لحوم الإبل؟فقال:"توضئوا منھا"، وسئل عن لحوم الغنم؟،فقال:"لاتوضئو منھا"۔وسئل عن الصلاۃ فی مبارك الإبل؟۔فقال:لاتصلوا فی مبارك  الإبل،فانھا من الشیطان"وسئل عن الصلاۃ فی مرابض الغنم؟ فقال:"صلوفیھا،فانھا برکة"۔
(سنن ابوداود:1/202/184۔مترجم اردو۔ط:دار السلام،ریاض، سنن الترمذی:الطھارۃ،باب ماجاء فی الوضوء من لحوم الابل،ج:81،سنن ابن ماجہ:494، ولہ شاہد عندمسلم من حدیث جابر بن سمرہ:360)۔
شرح کلمات:(1) مبارک: جمع مبرك بفتح المیم وکسر الراء وھو موضع بروك الابل،یعنی مبارک،مبرک کی جمع ہے اونٹ کے بیٹھنے کی جگہ(باڑا)
(2)مرابض:جمع مربض، بفتح المیم وکسرالباء، وھو موضع ربوض الغنم ای ماوی الغنم۔یعنی مرابض مربض کی جمع ہے: بکری کے بیٹھنے کی جگہ(باڑا)
(مرعاۃ المفاتیح:2/24،مصباح اللغات)
ترجمہ: براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا :ایااونٹ کا گوشت کھانے سے وضولازم آتاہے؟آپ نے فرمایا: "اس سے وضو کیا کرو" سوال کیاگيا کہ بکری کے گوشت سے؟آپ نے فرمایا:"اس سے وضو نہ کرو" اور سوال ہوا کہ کیا اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھیں؟ فرمایا: "اونٹوں کے باڑے میں نماز نہ  پڑھا کرو، بیشک یہ شیطانوں میں سے ہیں" اور پوچھا گیا کہ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھوں یا نہ ؟آپ نے فرمایا:" اس میں نماز پڑھ لیا کرو۔ بیشک یہ مبارک ہیں"۔
فوائد حدیث:حدیث مذکور سے درج ذیل مسائل وفوائد اخذ کئے گئے ہیں:
(1)وضو کے بعد اونٹ کا گوشت کھانے سے (نمازوغیرہ) کے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری ہےیعنی اونٹ کا گوشت ناقض وضو ہے۔
(2)وضو کے بعد بکری کا گوشت کھانے سے (نماز وغیرہ) کے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔
(3) اونٹ کے باڑے(بیٹھنے کی جگہ) میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔
(4)بکری کے باڑے(بیٹھنے کی جگہ) میں نمازپڑھنا جائز ہے۔
(5) حلال جانور کی لیدوگوبروغیرہ کے ذریعہ بطور ایندھن کھانا پکانا جائزہے۔
(6) کسی مسئلہ کے بارے میں شرعی حکم معلوم نہ ہونے کی صورت میں علماء کرام سے دریافت کرلینی چاہئے۔
(7) نقصان اور ضرر کی جگہوں سے دور رہنا چاہئے۔
(8) بکری پالنا باعث برکت ہے۔(دیکھئے:المنھل العذب المورود:2/208)
اونٹ کا گوشت کھانا ناقض وضو ہے: حدیث مذکور کے اندر ایک اہم مسئلہ کو"توضئوامنھا" کہہ کر بیان کیا گيا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوضو ہو کر اونٹ کے گوشت کھانے والے کو وضو کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ یہاں دو باتیں قابل غورہیں :(1) وضو کا حکم دیا گیا ہے جس سے شرعی وضو یعنی نماز والا  وضومراد ہے اور شریعت میں یہی اس کا حقیقی  معنی ہے،یہاں وضو کا مجازی معنی یعنی ہاتھ منہ  دھونا اور کلی کرنا مراد لینا صحیح نہیں ہے ،کیونکہ  یہ شرعی حقائق کے خلاف ہے۔ مجازی معنی مراد لینے کے لیے کوئي دلیل یا قرینہ  چاہئے جو یہاں ناپیدہے۔(2)دوسری بات یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنے کا  امر یعنی حکم فرمایا  ہے اور اصول فقہ کا یہ مشہورقاعدہ ہےکہ الا صل فی الامر انہ للوجوب، امر وجوب کے لیے آتا ہے اور بلا کسی دلیل یا قرینہ کے اسے استحباب وغیرہ پر محمول نہیں کرسکتے اور یہاں ایسی کوئي دلیل یا قرینہ نہیں ہےکہ جس کی بناپر استحباب پر  محمول کیا جاسکے!لہذا باوضو شخص اگر اونٹ کا گوشت کھاتا ہے تو اس کا وضو ٹوٹ جائیگا اب اگر وہ نماز پڑھنا یاطواف کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم وواجب ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔ خواہ یہ گوشت پکا کر کھائے یہ کچا،بہر صورت وہ ناقض وضو ہے کیونکہ یہاں ناقض وضو ہونے کی وجہ آگ میں پکنا نہیں ہے بلکہ اونٹ کا گوشت ہونا ہی وجہ ہے، یہی امام احمد،اسحاق بن راھویہ وغیرہ کا  مذہب ہے،امام بیھقی نے اسے اختیار کیاہے اور اسے مطلق طور پر محدثین کا مذہب قرار دیا ہے۔ اور صحابہ کرام کی ایک جماعت سے اس کی حکایت کی ہے، شافعیہ  میں سے نووی وغیرہ نے اور مالکیہ میں سے  ابن العربی اور حنفیہ میں سے شیخ عبد الحئی لکھنوی نے اسی قول کو راحج وقوی قرار دیا ہے۔ شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ مبارکپوری فرماتے ہیں : "ھذاالقول ھو المعول علیه، الصحیح عندنا وان کان الجمہور علی خلافه"یعنی یہی قول ہم اہلحدیثوں کے نزدیک قابل اعتماد وصحیح ہے گرچہ جمہور علماء اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں"!(مرعاۃ المفاتیح:2/24)
     میں کہتا ہوں: ہمارے علم کے مطابق کسی بھی اہلحدیث عالم سے اس سلسلہ میں کوئي اختلاف منقول ومعروف نہیں ہے ۔البتہ اونٹ کا گوشت ناقض وضو نہ ہونے والا قول کو خلفاء راشدین کی طرف منسوب دیکھ کر شاید بعض لوگوں پر ہیبت طاری ہوجائے اور اسے ناقض وضو ماننے میں  ہچکچاہٹ محسوس کریں اس لئے اس سلسلہ میں یہ وضاحت ضروری ہےکہ علماء نے خلفاء راشدین کی طرف اونٹ کے گوشت کے ناقض وضونہ ہونے والا قول کو منسوب ضرور کیا ہےمگر ابو بکرصدیق وعثمان رضی اللہ عنھما سے منسوب قول کی کوئي  سند نہیں مل سکی جبکہ عمر فاروق وعلی  رضی اللہ عنہما کے عمل کی سند مصنف ابن ابی شیبہ  میں مذکور ہے مگر دونوں سند یں نہایت ضعیف ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
(1) امام ابن ابی شیبہ  کہتے ہیں:حدثناوکیع عن سفیان عن جابر عن ابی سبرۃ النخعی ان عمر بن الخطاب اکل لحم جزور،ثم قام فصلی ولم یتوضا۔(المصنف:1/396/521، ط:عوامة)اس سند میں کئي علتیں ہیں:(1) ابو سبرہ النخعی متکلم فیہ راوی ہے، ابن حبان نے اسے "ثقات" (5/569) میں ذکر کیا ہے اور ذھبی نے"کاشف" (2/428) میں ثقہ کہا ہے جبکہ امام ابن معین نے "لااعرفہ"(میں اسے نہیں پہنچانتا ہوں) اور ابن حجر نے"مقبول" کہا ہے۔ اور حافظ مزی کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہےکہ ابوسبرہ نخعی کی عمربن الخطاب سے روایت مرسل یعنی منقطع ہے۔(الجرح والتعدیل:(19ترجمہ: 1800) تھذیب الکمال:33/340،تقریب مع تحریر:4/201،تحفۃ التحصیل ص365۔)
(2) جابر یہ جابر بن یزید الجعفی ہے جو مشہور ضعیف راوی ہے (التقریب مع التحریر:1/207)
(3) اور سفیان یہ سفیان بن سعید بن مسروق الثوری ہیں جو مدلس ہیں اور یہاں تحدیث کی صراحت نہیں کی ہے۔
(2) امام ابن ابی شیبہ کہتے ہیں :حدثناوکیع عن شریك عن جابر عن عبد اللہ بن الحسن ان علیا اکل لحم جزور ثم صلی ولم یتوضا۔(المصنف:1/396/522)۔
   اس کی سند میں بھی کئي علتیں ہیں:(1) عبداللہ بن الحسن یہ عبد اللہ بن الحسن بن حسن بن علی بن ابی طالب ہیں جو 145ھ میں وفات پائے ہیں اور اس وقت ان کی عمر 75سال تھی۔ اور یہاں وہ علی بن طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کررہے ہیں جن کی وفات40ھ میں ہوئي ہے اس طرح علی رضی اللہ  عنہ کی وفات اور عبد اللہ بن حسن کی ولادت کے درمیان تیس سال کا وقفہ ہے لہذا یہ سندمنطقع ہے۔
(2) عبد اللہ بن حسن سے روایت کرنے والا جابر بن یزید الجعفی ہے جو ضعیف ہے جیسا کہ گزرا۔
(3) اور جابر جعفی سے روایت کرنے والا شریک بن عبد اللہ النخعی ہیں جوگرچہ صدوق ہیں لیکن بہت زیادہ خطا کرتے ہیں اور قاضی کوفہ بنائے جانے کے بعد تغیرحفظ کا شکار ہوگئے تھے(التقریب مع التحریر:2/113/2787)۔
      ثابت یہ ہوا کہ عمروعلی رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب دونوں اثر سخت ضعیف ہیں اور ابو بکروعثمان رضی اللہ عنہما سے کوئی صریح وواضح قول یا فعل اس سلسلہ میں سند کے ساتھ منقول نہیں ہے یہی وجہ ہےکہ جن علماء نے خلفاء راشدین اور جمہور صحابہ کی طرف اونٹ کے گوشت کے ناقض وضو نہ ہونے والا قول کو منسوب کیا ہے ان کا رد کرتےہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کہا "واما من نقل عن الخلفاء الراشدین او جمہور الصحابۃ خلاف ھذہ المسائل وانھم لم یکونوا یتوضئوون من لحوم الابل فقد غلط علیھم۔۔۔"یعنی جن لوگوں نے خلفاء راشدین اور جمہور صحابہ سے نقل کیاہے کہ وہ لوگ اونٹ کے گوشت کھانے کےبعد وضو نہیں کرتے تھے تو ان علماء سے اس نسبت میں غلطی واقع ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔۔" (بقیہ صفحہ 17پر)
       (القواعد النورانیۃ:ص31ط:دار ابن الجوزی )،شیخ البانی نے ابن تیمیہ کی تائيد کرتے ہوئے تمام المنۃ(ص104۔ 106) میں اس پر اچھی بحث کی ہے۔
اس کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہےکہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح مروی ہے انہوں نے کہا:"کنا نتوضا من لحوم الابل ولا نتوضا من لحوم الغنم"(مصنف ابن ابی شیبہ:1/395/518)۔ہم صحابہ کرام اونٹ کے گوشت کھانے کے بعد وضو کرتے تھے جبکہ بکری کے گوشت کھانے کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔ اس میں جابر بن سمرہ نے کسی بھی صحابی کا استثناء نہیں کیا ہے گویا وہ صحابہ کرام کا اجماع یا اتفاق نقل کر رہے ہیں۔ اس لئے صحیح بات یہی ہےکہ اونٹ کا گوشت کھانا ناقض وضوء ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔
اس سلسلہ میں تفصیلی معلومات  کیلئے دیکھئے: المغنی لابن قدامۃ:1/250۔254تحقیق عبد اللہ ترکی،المجموع للنووی:1/56۔60،طبعہ قدیم، اعلام الموقعین:1/ 310۔312مترجم ارود،تحقۃ الاحوذی :ص371۔ 373ط: دار ابن حزم۔

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        ت...

کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟

  پیام حدیث:   کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟ … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          عن أبی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال:"اذا سمعتم الإقامة فامشوا إلی الصلاۃ وعلیکم بالسکینة والوقار،ولا تسرعوا،فماأدرکتم فصلوا، وما فاتکم فأتموا"۔     ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے(معمولی چال سے)چل پڑو،سکون   اور وقار کو (بہرحال) لاز م پکڑے رکھو، اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے...

رؤیت ھلال میں اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں ؟

تحقیقی مقالہ :   رؤیت ھلال میں اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں ؟   تحریر: الشیخ احمدبن عبد اللہ بن محمد الفریح                         ● …ترجمہ: ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی                     اولا : محل اختلاف کی تعیین : اماکن بعیدہ میں مطلع ہلال مختلف ہونے کی صورت میں جس شہروالوں نے چاند نہیں دیکھا ہے کیا ان پر دوسرے شہر والوں کی رؤیت پرعمل کرناضروری ہے ؟ ثانیا : اختلاف کا ذکر :زمانۂ قدیم ہی سے اس مسئلہ   میں اختلاف موجود ہے، اوریہ ان اجتہادی   مسائل میں سے ہے   جن میں اختلاف کرنے کی گنجائش وجواز ہے جبکہ ہر   قول کی اپنی اپنی   دلیل موجود ہے۔ قول اول : چنانچہ اس سلسلہ میں فقہاء کی ایک جماعت   کا کہنا ہےکہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائیگا   یہ قول بعض احناف وموالک اور جمہو...