|
احکام ومسائل:
|
روزے کے مختصر احکام
ومسائل
◙…ابو عبدالعزیز محمد یوسف مدنی
روزہ اسلام کا انتہائی اہم رکن ہے (بخاری) اور
یہ 2ھ میں فرض کیا گیاہے۔
روزہ
کی فضیلت:(1) روزہ دنیا میں شہوات سے اور آخرت میں جہنم کی آگ سے ڈھال کا کام دیتا
ہے ۔(بخاری:1904،)۔(2) رزہ دار کا اجر بلا
حساب وکتاب ہوگا۔(بخاری:1904)۔(3) روزہ قیامت کے دن روزہ دار کی سفارش کریگا۔(احمد:6626)(4)
روزہ داروں کے لئے جنت کا مخصوص دروازہ"ریان"ہے۔
بخاری:2/189)
رمضان کے روزں کی خصوصی فضیلت: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے ایمان وثواب کی
امید کے ساتھ رکھا،اس کے سارے گناہ بخش دئے جاتے ہیں ۔(بخاری:195)۔ (2) ارشاد نبوی
ہے :" ماہ رمضان کے ہر شب وروز اللہ
تعالی اپنے بے شمار بندوں کو جہنم سے آزاد
کردیتے ہیں ۔ " (احمد :4/254)۔
روزہ نہ رکھنے والے کی سزا : رسول
اللہ ﷺ ایک خواب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :" پھر مجھ کو لے کر آگے بڑھے ہی
تھے کہ میں نے چند لوگوں کو دیکھا جو اپنی
ایڑیوں کی رگوں کے بل الٹے لٹکائے گئے تھے
۔ (جیسے جانوروں کو قصائي لٹکاتا ہے ) اور ان کے پھٹے ہوئے جبڑوں سے خون ٹپک رہا تھا میں نے کہا : یہ کون لوگ ہیں ؟ تو کہا
گیا : یہ وہ لوگ ہیں جو ناحق افطار کر لیتے ہیں (یعنی روزوں کی فرضیت کے باوجود انہیں ترک کردیتے ہیں ) (ابن حبان:1800)"۔
روزے کے ضروری احکام:(1) نیت کا حکم :
فرض روزوں کے لئے رات کو طلوع فجر سے پہلے
پہلے روزے کی نیت کرلینی واجب ہے۔(دیکھئے:ابو داود:2454)۔ واضح رہے کہ نیت کا محل
دل ہے نہ کہ زبان ، اس لئے زبان سے ان الفاظ (وبصوم غدنویت من شھر رمضان) کا ادا
کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کے الفاظ نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہیں ۔(2)
روزہ کا مقررہ وقت : طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے (دیکھئے :سورۂ بقرہ:187) ۔( 3) سحری کے
احکام : سحری ضرور کھائی جائے ، کیونکہ
ہمارے اور اہل کتا ب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز ، سحری کا کھانا ہے۔ (مسلم:1096)۔سحری کھا نا برکت کا باعث ہے،
(دیکھئے : بخاری :1923)۔ سحری میں جتنی
دیر کی جائے اتنا ہی افضل ہے، کیونکہ یہی
سنت رسول ہے (دیکھئے : بخاری :4/118،مسلم:1097)۔نوٹ: سحری کی کوئي مخصوص دعا کسی
صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔(4)روزہ کھولنے میں جلدی کرنا
چاہئے:(دیکھئے:بخاری:1957،مسلم:1097) جلدی کا مطلب ، سورج کے غروب ہونے سے قبل
روزہ کھولنا نہیں ہے، بلکہ سورج کے غروب ہونے کے بعد بلا تاخیر فورا روزہ کھولنا ہے،جیسے
بعض لوگ سورج غروب ہونے کے بعد اتنا
اندھیرا چھا جانے
کو ضروری سمجھتے ہیں کہ تارے نظرآنے
لگ جائیں ۔ نبی ﷺ کے زما نے میں یہود ونصاری کا یہی معمول تھا۔ جلد افطار کرنا دین کے غلبہ
کا بھی باعث ہے، (دیکھئے: ابو داؤد :2353)۔(5) کس چیز سے افطار کرے: رسول اللہ ﷺ
کا معمول تھا کہ نماز مغرب سے پہلے تازہ
کھجوروں سے روزہ افطار کرتے ، اگر تازہ
کھجوریں نہ ہوتیں تو چھواروں سے روزہ
کھولتے ۔ اگر چھوارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ نوش فرمالیتے ۔(ابو داؤد:2356)۔(6) افطاری کے وقت کون سی دعا پڑھی جائے ؟ : نبی ﷺ افطاری کے وقت یہ دعا ء پڑھتے تھے ؟(ذھب الظماءوابتلت العروق وثبت الاجر انشاء اللہ)۔(ابو داؤد:2357،مشکواۃ للالبانی1/261) اس لئے بہتر ہے کہ
افطاری کے وقت یہی دعا پڑھی جائے ، اور اس کے علاوہ جو دعائیں مشہور ومروج ہیں وہ ضعیف ہیں ۔(7)
روزہ کھلولنے کا ثواب : نبی کریم ﷺ نے فرمایا : " جس نے کسی روزے دار کا روزہ
کھلوایا ، یا کسی غازی کو تیار کیا ، تو اس کے لئے
بھی ا س کے برابر اجر ہے۔"(شرح
السنۃ: 1819)۔ (8) میزبان یا افطار کروانے
کے لئے دعا:( أکل طعا مکم الابراروصلت علیکم الملائکۃوافطر عندکم
الصائمون)(احمد: 3/118)
(9) روزے دار کے لئےجائزکام:
(1) مسواک کرنا (بخاری:2/311،مسلم:252)،
(2) جنابت کی حالت میں سحری کھانا
پھر بعد میں غسل کرلینا،(بخاری 4/123،مسلم:1109)(3) بیوی سے ملاقات وبوسہ لینا بشرطیکہ اپنے اوپر کنٹرول ہو۔
(بخاری:4/131،مسلم:1106) (4) حالت روزہ میں سینگی
لگوانا۔(بخاری 4/155)(5) کسی چیزکو چکھنا جو حلق میں داخل نہ ہو۔(بخاری 4/154)(6)
سرمہ لگانا اور ناک میں دوا ڈالنا ۔(بخاری 4/153)(7)غسل کرنا ۔(ابو داؤد:2365)(8) بھیگا کپڑا اوڑھنا۔(بخاری4/153)(9)
گرد وغبار یا مکھی وغیرہ کا حلق میں چلے جانا ۔(فتح الباری 1/155) قئے کا آجانا(ترمذی1/90)(10)
بھول کرکھا پی لینا۔ (بخاری 4/135)(11)
خون کا چیک اپ کرانا یا غیر مقوی انجکش
لگانا۔(فتاوی ابن باز:15/258)۔
(10) روزہ دار پر حرام چیزیں: (1) جھوٹ اور برے
اعمال ۔ (بخاری :1903)۔(2) لڑائي اور گالی
گلوج ۔(ابن خزیمہ :996)، (3) ناک میں پانی ڈالتے وقت مبالغہ کرنا۔(ابو داؤد:2366)
(11) روزہ فاسد کرنے والے کام:(1)عمدا کھانا
پینا ہاں اگر غلطی سے یا بھول کر کھا پی لے یا اس کو مجبو رکیا گيا ہو تو اس
پر کوئي حرج نہیں ، (بخاری :1933،حاکم)
(2) جان بوجھ کر قئے کرنا ۔(ابو
داؤد:2380)، (3) حیض ونفاس کا آنا، (مسلم:79:08)(4) مریضوں کو طاقت اور غذائیت
والے انجکشن دئے جاتے ہیں جیسے گلوکوزیا سلائن وغیرہ ، ان سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، وہ رگوں میں
دیا جائے یا خون میں (کیونکہ یہ کھانے
پینے کے قائم مقام ہے)،(5) دن میں ہمبستری کرنا ، اور اس کا کفارہ ایک گردن آزاد کرنا ، یا بلاناغہ مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنا، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا
کھلانا۔(بخاری1936)
(12) جن کے لئے روزہ نہ
رکھنے کی رخصت ہے:
(1) مسافر(بقرہ:185)، لیکن جو شخص سفر میں تکلیف محسوس کرے اس کے حق میں
روزہ چھوڑدینا متعین ہے۔(بخاری:1946) ایسا
شخص بعد میں قضاء کریگا،
(2) بیمار: ایسا بیمار جس کو روزہ کے سبب نقصان پہنچے یا بیماری اور بڑھ جانے کا خطرہ ہو یا کمزوری کا ڈر ہو تو اس کے لئے روزہ چھوڑنے کی اجازت
ہے۔ (دیکھئے: البقرہ:185) یہ بعد میں قضاء کرلے۔(3) حائضہ اور نفاس والی عورت : ان
دونو ں پر روزہ رہنا حرام ہے اور بعد میں قضا ء واجب ہے۔ (مسلم؛80:79)۔(4) کھوسٹ
بوڑھا ،بوڑھی اور دائمی مریض : یہ لوگ
چونکہ روزہ نہیں رکھ سکتے ،اس لئے
یہ ہرروز ایک مسکین کو کھانا کھلادیا کریں (تقریبا ایک کلو بیس گرام اناج،) اور ان پر بعد میں قضاء نہیں ہے۔ (دیکھئے
: بخاری :4505،دارقطنی :2/207)(5) حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت : ایسی عورت اگر روزہ
رکھنے میں تکلیف محسوس کرے یا
بچے کی بابت انہیں کوئي
اندیشہ ہو یاڈاکٹر اس قسم کی ہدایت
دے ، تووہ روزہ چھوڑ سکتی ہے لیکن بعد میں
قضاء ضروری ہے۔(دیکھئے:ابو داؤد:2308)
(13) لیلۃ القدرکے مسائل:(1) اس رات کی فضیلت: ارشاد
باری تعالی ہے: شب قدر ایک ہزار مہینوں سے
بہترہے((القدر:3)،(اور اسی رات میں ہرحکمت بھرا کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے،اور اسی رات
میں ہر ایک مضبو ط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ہمارے پاس سےحکم ہوکر)
(الدخان:4،5)۔ اور ارشاد نبوی ہے : "
ایمان وثواب کی امید سے جس نے لیلۃ القدر میں قیام کیااس کےپچھلے تمام گناہ معاف
کردیئے جاتے ہیں "(بخاری:901)۔
(2) یہ رات رمضان کے عشرہ اخیرہ کی طاق
راتوں (29،27،25،23،21) میں سے ایک
ہے (دیکھئے : بخاری :2015،2017) اس رات یہ
دعا کثرت سے پڑھنا چاہئے :(اللھم
انک عفو تحب العفو فاعف عنی )(ترمذی:3760)
(14) باجماعت تراویح کی
مشروعیت: سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے
کہ تراویح ، تہجد اور قیام اللیل تینوں ایک ہی نماز کے نام
ہیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : آپ ﷺ نے تین رات باجماعت نماز پڑھائي اور
لوگوں میں کافی شوق وجذبہ تھا پھر آپ نے اس ڈر سے کہ کہیں یہ نماز فرض نہ ہوجائے باجماعت پڑھانا چھوڑدیا
۔(بخاری :1129) ، اس میں باجماعت تراویح کی مشروعیت کی دلیل موجود ہےاسی لئے عمر بن الخطاب رضی اللہ
عنہ نے اس خوف کے ختم ہونے
کے بعد اس سنت کو دوبارہ
زندہ کردیا۔(بخاری :2010)
(15) رمضان میں زیادہ سے
زیادہ سخاوت کرنا سنت نبوی ہے۔ (بخاری :6)،
ماہ رمضان ، ماہ قرآن ہے لہذا اس ماہ میں بکثرت قرآن کی تلاوت کرنا چاہئے ، آخری سال آپ ﷺ نے جبریل کو دومرتبہ قرآن سنایا ۔(بخاری :6)
(16) زکاۃ الفطر: ہر مسلمان مرد، عورت، چھوٹے ، بڑۓ غلام اور آزاد ہر ایک پر ایک صاع (ڈھائي کلو) اناج بطور صدقہ فطرادا کرنا
فرض ہے۔(دیکھئے:مسلم:984)
(اور یہ پیٹ میں بچہ پر واجب
نہیں ۔)، اگر گیہوں دے تو آدھا صاع کافی ہے،(احمد5/432)(2) صدقہ فطرکےحقدار: اس
کےحقدار صرف فقراء مساکین ہیں ۔(ابن ماجہ :1827) ،(3) ادائيگي کا وقت: عیدکی نماز سے پہلےپہلے حقدار تک
پہنچا دینا ضروری ہے ،البتہ عید
سے دو یا تین دن پہلے ادا کیا جاسکتا ہے ۔(ابن ماجہ :1827)(4) صدقہ فطر میں اناج متعین اور واجب ہے
،اس کی پیسوں کی شکل میں ادائيگي خلاف
سنت ہے،ہاں اس آدمی کو جو اناج خرید کر تقسیم کرنے والا ہو رقم دے کر اپنا نائب بنایا جاسکتاہے(فتاوی ابن باز:14/208)۔ اللہ تعالی
ہمیں ماہ رمضان کے روزے رکھنے کی توفیق دے،اور ہمارے نیک اعمال
کوقبول فرمائے۔ آمین۔
Comments
Post a Comment