|
احکام ومسائل:
|
عیدالاضحی اورقربانی کے
مختصرمسائل
●…ابوعبدالعزیز محمدیوسف مدنی
عبدالاضحی:(1)نمازعید کےلئے غسل کرناعبد اللہ بن
عمررضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔(مسندشافعی مع شفاءالعی:1/298)،۔
(2)بہترین کپڑے پہن کر عیدکےلئے جانامستحب ہے۔ (بخاری:948)اوربہترین
خوشبولگانا چاہیئے۔
(3)عید کی نماز گاہ
میں ادا کریں ۔(بخاری:956)۔
(4)عورتیں اور بچے بھی
عیدگاہ جائیں حتی کہ حائضہ بھی
لیکن وہ نماز سے علیحدہ رہیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔(بخاری:974)۔
(5)عید الاضحی کی نمازعید الفطر کی بہ نسبت جلدی ادا کرنا
چاہیئے ۔(ابوداؤد:1135)
(6) عبد اللہ بن مسعود اور علی رضی اللہ عنھما سے عرفہ کے
دن کی صبح سے 13ذی الحجہ کی شام تک تکبیر کہنا ثابت ہے۔(الاوسط لابن المنذر:4/300)۔
(7)عیدگاہ جس راستہ سے جائیں واپسی پر راستہ بدل لیں۔(بخاری:986)۔
(8)عید کی نماز کے لئے نہ اقامت ہے اور نہ اذان۔ (مسلم:887)۔
(9) عید کی نماز بارہ زائد تکبیروں سے اداکریں،پہلی رکعت
میں قرأٔت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرأٔت
سے پہلے پانچ۔(ابو داؤد:1151،ابن ماجہ :
1278)۔
(10) نمازعید کی
پہلی رکعت میں (سورہ اعلی ) اور دوسری رکعت (سورہ غاشیہ )،یاپھرپہلی رکعت میں (سورہ ق ) اور دوسری رکعت میں(سورہ قمر)
پڑھیں۔(مسلم:978، 891)۔
(11)ذی الحجہ کے دس دن میں کئے گئے نیک اعمال اللہ کو سب سے
زیادہ محبوب ہیں حتی کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی اتنا پسندیدہ نہیں ،سوائے اس جہاد
کے جس میں انسان شہید ہی ہوجائے۔(بخاری:969)۔
(12)عرفہ کا روزہ دوسال (گزشتہ وآئندہ)کے گناہوں کا کفارہ
ہے۔(مختصر مسلم:620)۔
(13)عید اور ایام تشریق(11، 12، 13ذی الحجہ) میں روزہ رکھنا
منع ہے۔(ابوداؤد:2478)۔
(14)نمازعیدالاضحی کے لئے کچھ کھائے پئے بغیرعیدگاہ جانا
سنت ہے،(ترمذی:542) لیکن اسے روزہ کہنا اور سمجھنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ عیدین میں روزہ رکھنا منع ہے۔(بخاری:1990)۔
قربانی کا حکم:قربانی
سنت مؤکدہ ہے۔ صاحب قدرت کو قربانی ترک
نہیں کرنا ہیئے ۔ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں : جو آدمی قربانی کی استطاعت رکھتا ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے وہ ہمارے عید گاہ میں نہ آئے ۔ (المتھید
لا بن عبدالبر:23/190۔191)۔
(2) ایک بکری تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہوجاتی ہے ۔(ابن
ماجہ :3147)۔
(3) گائے میں سات اور اونٹ میں دس گھرانے شریک ہوسکتے ہیں ۔(ابن
ماجہ :3131)۔
(4)جسے قربانی دینی
ہو وہ ذی الحجہ کے چاند دیکھنے کے
بعدقربانی کرنے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ
کاٹے۔ (مسلم:5089)۔
(5)جس کے پاس جانور نہ
ہو وہ اگر نماز عید کے بعد اپنے بال اور ناخن تراش لے،مونچھیں کاٹ لے اور
زیر ناف کے بال مونڈھ لے تو اس کو
قربانی کا ثواب مل جائیگا۔(ابوداؤد:
2789)۔
قربانی کا جانور:(1) قربانی صرف اونٹ
،گائے،بھیڑ اور بکری ہی میں جائز ہے خواہ
نرہوں یا مادہ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:( اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا کہ وہ ان چوپایوں پر
اللہ کا نام لے جو اس نے ان کو عطا کیا ہے )۔(الحج :34)۔نوٹ :چوپایوں سے مراد سورہ
انعام (143، 145)میں اونٹ ،گائے،بھیڑ اور بکری کا ذکر کئے گئے ہیں ۔
(2) قربانی کا
جانور موٹا تازہ بے عیب پاک اور عمدہ ہونا چاہیئے ۔
(3) خصی کردہ جانور
کی قربانی مسنون ہے ۔•••
(4) بھیڑ کی قربانی بہتر ہے۔
(5)ایک سے زائد کی قربانی
جائز ہے۔ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
جب بھی قربانی کا ارادہ
فرماتے تو دو موٹےتازے سینگوں والے سیاہ رنگ دار خصی کردہ مینڈھے خریدتے ۔( ابن ماجہ:3122)
(6)قربانی کا جانور دانت والا (دودھ کے دانت گرنے کے بعد)
ہونا ہیئے اگر ملنا مشکل ہو تو ایک سال کا بھیڑ قربانی کے لئے جائزہے۔
(7) ایک سالہ بکری کی قربانی ، کسی بھی حالت میں جائز نہیں ۔جابر
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
دانتا جانور ہی کی قربانی کرو، اگر اس کا
ملنا دشوار ہوجائے تو بھیڑ کا جذعہ(کھیرا:سال بھرکا)ذبح کرلو۔(مسلم:1963)۔(نیزدیکھئے
:بخاری: 5556،مسلم:1961)۔
(8) قربانی میں کسی بھی انداز کا واضح عیب دار جانورذبح
کرنا جائز نہیں ۔ ہاں اگر معمولی عیب ہوتو
معاف ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار قسم کے جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے:(1)لنگڑا جس کا لنگڑا پن
ظاہر ہو ۔(2) کانا(بھینگا ) جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو۔
(3) بیمار جس کی بیماری واضح ہو۔(4) کمزور جانور جس کی ہڈیوں
میں بالکل گودانہ ہو۔(ترمذی:1497)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہےکہ ہم جانور کی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔(ترمذی:1498،ابوداؤد: 2804)۔•••
قربانی کا وقت:(1)
قربانی کا وقت نماز عید کے بعدشروع ہوتا ہے اور یہی افضل وقت ہے ۔ براء بن عازب
رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے نماز سے
پہلے ذبح کیا اس نے اپنے لئےذبح کیا اور جس نے
نماز کے بعد ذبح کیا، اس کی عبادت پوری ہوگئي اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ اپنایا۔ (بخاری :5546)۔
(2)13ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک رات ودن کسی بھی وقت قربانی کی جاسکتی ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سارے ایام تشریق ذبح کے دن ہیں
۔ (بیھقی:5/295)۔
جانور ذبح کرنے کے آداب:(1)جانور
ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :(سو جس جانور پر اللہ تعالی کا نام لیا جائے اس میں سے
کھاؤ اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو۔)[انعام:118]۔
(2) قربانی کرتے
وقت جانور کو قبلہ رخ کرنا مسلمانوں کا طریقہ
رہا ہے۔
(3) پھر یہ دعا پڑھتے ہوئے چھری چلائے :(بسم اللہ ،اللہ اکبر۔)(مسلم:5063)۔یا (بسم اللہ،اللھم تقبل منی واھلی۔)(مسلم:5064)۔
اگردوسرے کی طرف سے ذبح کررہا ہے تو اس طرح کہے:(بسم اللہ اللھم تقبل من (یہاں اس کا نام لیں )۔ ومن اھل بیته)۔
(4) افضل ہے کہ قربانی کرنے والا خود جانور ذبح کرے ۔
(5)جانور
ذبح کرتے وقت اپنا پیراس کے پہلو پررکھے۔انس
رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے دو
سینگ والے مینڈھے کی قربانی کی تو میں نے
دیکھا کہ آپ نے اپنے قدم ان کے پہلووں پر رکھا اور بسم اللہ ،اللہ اکبرکہا اور
اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ۔(بخاری:5565)۔
(6)
جانور ذبح کرتے وقت چاقو خوب تیز کر لے اور دباؤ
ڈال کر جلدی جلدی ذبح کرے ، نبی ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تعالی نے ہر چیز
پر احسان کرنا واجب ٹہرایا ہے، لہذا جب تم کسی کو قتل کرو تو اچھے ڈھنگ سے قتل کرو اور جب جانور کو
ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور چاہیئے کہ تم میں کا کوئي اپنی چھری کو گھس کر تیز
کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۔(مسلم:5028)۔
(7) ہر دھار دار آلہ سے ذبح کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ ناخن اور دانت
نہ ہو۔(بحاری :5503)۔
(8) عورت کے ہاتھ سے ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے۔(بخاری :5501،فتح
الباری :10/25)۔
(9) جو جانور قابو سے باہر ہوجائے تو اس کے جسم کے کسی حصہ پر زخم لگانے سے وہ حلال ہوجاتا ہے ، لیکن زندہ مل جائے
تو ذبح کرنا ضروری ہے۔ (بخاری :
5544)۔
قربانی
کا گوشت اور کھال:(1) قربانی کا گوشت خود کھائے اور دوسروں کو کھلائے ،
اگربچاکر رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے۔(بخاری :5569)۔•••
(2) عید الاضحی کے دن نماز کے بعد قربانی کے گوشت سے کھانے کی ابتدا کرنا مسنون ہے۔(ترمذی:542)۔
(3) اگر کوئي شخص نماز عید الاضحی سے پہلے کچھ کھا لے تو اس
پر کوئي گناہ نہیں ہے۔(بخاری :5556)۔
(4) مادہ جانور کے پیٹ سے ذبح کے بعد اگر مردہ بچہ نکلے تو
اس بچہ کا بھی کھانا حلال ہے۔(ابو داؤد:2827)۔
(5)بہتے ہوئے خون کے علاوہ حلال جانور کی ہرچیز حلال
ہے۔اللہ تعالی کا فرما ن ہے :( تم پر مردہ جانور اور خون(بہتاہوا )حرام ہے۔[مائدہ
:3]۔
(6) قربانی کی کھال
خود استعمال کرے یا صدقہ کردے، البتہ
قربانی کی کھال یا گوشت قصاب (قصائي ) کو
اجرت میں دینا جائز نہیں ۔ (بخاری
:1717،نیزدیکھئے:مسلم: 5076)۔
تنبیہات:ایک جانور میں قربانی اور عقیقہ کی
نیت کرنا حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
(2) جانور کی قربانی دینے کے بجائے اس کی قیمت صدقہ کردینا حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
(3)حلال جانور کے کپورے، پتہ،غدود،بکری کی شرمگاہ، اورمثانہ
وغیرہ کا حرام یا مکروہ ہونا صحیح حدیث سے ثابت
نہیں ہے۔
(4) ذبح کرتے وقت (انی وجھت وجھی للذی۔۔۔) والی مشہور دعا
جس حدیث میں مروی ہے وہ ضعیف ہے، اس کی
سند میں ابو عیاش معافری مصری ہیں ، جن کو کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے ، بلکہ حافظ ابن
حجرنے ان کی حدیث کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے،
نیزاسماعیل بن عیاش ایک راوی ہے جن کی روایت شامیوں کے علاوہ سے ضعیف ہوتی ہے، اور یہ روایت اسی قبیل کی ہے۔ (دیکھئے :ھدایۃ الرواۃ للالبانی :2/128)۔
(5) ذبح کرتے وقت
اگر جانور کا سر تن سے جدا ہوجائے تو کوئي
عیب نہیں ہے۔
(6) قربانی کے لئے رات اور دن کی تفریق صحیح نہیں ہے البتہ دن میں کرنا افضل ہے۔
(7) قربانی کے گوشت کو باقاعدہ تین حصوں میں تقسیم کرنا اور اسے دین سمجھنا درست نہیں ہے۔
(8)غیر مسلموں کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے۔(دیکھئے :سورۂ حج:36)۔
(9) ذبح کے بعد کسی دعا کا ثبوت نہیں ہے اور یہ دعا جو بیان کی جاتی ہے (اللھم تقبله منی کماتقبلت من حبیبك محمدومن خلیلك۔۔۔)تو
جاننا چاہئے کہ یہ من گھڑت ہے۔
(10)کسی بھی صحیح
حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے نام پر یا کسی بھی میت کے نام پر قربانی کرنا ثابت نہیں ہے۔
وصلی اللہ علی نبینا محمدوعلی آلہ وسلم۔•••
Comments
Post a Comment