Skip to main content

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک


تاریخ وسوانح:
 

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک
ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی"                                                                   

     ہندوستان  میں اسلام تو پہلی صدی ہجری  ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل  ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود  بنگال  میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ  کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں  سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی  روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،  اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا  کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی  مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی  توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر  بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا  اور پیروں سے مرادیں  مانگی  جانے لگیں،  احکام اسلام کی پابندی اور اعمال حسنہ کی کوئی اہمیت نہ  تھی بلکہ روحانی مدارج، مشرکانہ  وظائف، قبروں پر چلہ کشی اور مرشد کی توجہ کے محتاج ہو کر رہ گئے  یہ حالت  زار صرف ہندوستان ہی کی نہ تھی بلکہ عرب کی حالت  اس سے کہیں زیادہ ناگفتہ  بہ تھی ، چنانچہ  ایسے پر آشوب، پرفتن، ناموافق ماحول اور بگڑی ہوئی حالت میں جہاں بارہویں صدی کے آغاز1115ھ مطابق1703ء میں قلب دنیا نجد میں شیخ   الاسلام  محمد بن عبد الوہاب  رحمہ اللہ نے آنکھ کھولی ، اور تجدید واحیاء دین اور توحید خالص کا علم بلند کر کے تمام بدعات  وخرافات اور رسم ورواج کا قلع قمع کردیا ، وہیں بارہویں  صدی کے اواخر 74۔1175ھ مطابق 1764ء میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے ضلع  فرید پور کے گاؤں  بھاولپور میں حاجی شریعت اللہ پیدا ہوئے، اور غالبا 1781ء میں حج  کی نیت سے مکہ معظمہ گئے اورو ہاں  بیس سال مقیم رہے، یہ وہ زمانہ تھا کہ اس وقت شیخ الاسلام کی دعوتی  تحریک نصف النہارکو پہنچ چکی تھی اور آپ ابھی بقید حیات تھے، تاریخ میں اس بات کا سراغ نہیں  ملتا کہ حاجی  صاحب رحمہ اللہ کی آپ رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تھی یا نہیں؟ لیکن یہ ضرور ہے  کہ ان کی تحریک کے فیوض سے وہ تقریبا12 سال تک بہرہ مند ہوتے رہے ، کیونکہ  ہم دیکھتے ہیں کہ جب وطن واپس  آکر1802ء میں انہوں نے "فرائضی تحریک" کے نام سے جو اصلاح معاشرہ کی تحریک شروع کی تھی ، وہ بالکل  شیخ الاسلام کی تعلیمات اور ان کے افکار ونظریات کی بازگشت تھی ، یہ تحریک پورے بنگال  میں خوب برگ وبار لائی حتی کہ مالدہ ضلع میں بھی اس کا ایک اہم مرکز قائم ہوا، جہاں غیور اور صالح مسلمان اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت، اور بدعات وخرافات، اورہندوانہ رسم ورواج سے آلودہ سماج کو پاک اور ظالم انگریز حکومت کے خلاف جہاد کرتے رہے تاآنکہ تحریک  شہیدین کی آواز وہاں پہنچی ،  جس کے دعاۃ ومبلغین نے پورے بنگال میں دین کی نشر واشاعت کے بڑے پیمانے پر کارنامے انجام دیئے، اور بنگالی مسلمان خالص توحید کے ہتھیار سے لیس اور جذبۂ جہاد سے سرشار ہو کر آخر دم تک تحریک شہیدین سے منسلک رہے۔
    ہم ان بیانات کو ذرا تاریخ کے حوالے سے بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے سامنے یہ بالکل واضح ہوجائے کہ  بنگال  اور خصوصا مالدہ میں توحید کی دعوت کب ، اور کن کے ہاتھوں پہنچی اور  کیسے پھیلی پھلی ؟
    چنانچہ"ہندوستان میں وہابی تحریک" کے مصنف ڈاکٹر قیام الدین احمد(ص123۔124، طبع دوم1976ء کراچی  ) میں لکھتے ہیں :
    "فرائضی تحریک کے بانی (حاجی شریعت  اللہ ) ضلع  فرید پور کے گاؤں  بھاولپور کے ساکن تھے۔  یہ 1764ء میں پیدا ہوئے، اٹھارہ سال کی عمر میں حج کو روانہ ہوئے، اور بیس سال عرب میں مقیم رہے،  انہوں نے مسلم معاشرہ کی سماجی اصلاح کی تحریک جو 1802ء میں شروع کی تھی ،و ہ محمد بن عبد الوہاب نجدی (متوفی1206ھ) کی تحریک سے بالکل مشابہ تھی ۔ اسی تحریک  نے غیر اسلامی  بدعات اور رسوم ورواج کی مذمت کی ، اور انگریزوں کے زیر حکومت  بنگال  کو دار الحرب قرار دیا ۔ اس کے پیرو صرف قرآن کے بتائےہوئے  احکام الہی  کی سخت پابندی میں ممتاز تھے، اور تحریک  نے ان میں خالص توحید  وتقوی کی روح پھونک دی تھی ۔"
بنگالی مسلمانوں پر جبر وستم:
     "یہ تحریک   ، بانی کے جانشین اور فرزند مولوی محمد مسلم معروف بہ دادو میاں (1819تا1860) کے زمانے  میں مزید منظم ومستحکم ہوگئی، اور ان کی قیادت میں اسکا سیاسی پہلو زیادہ نمایاں ہوگیا ،  مشرقی بنگال کے مسلم مزارعین نیل کے انگریز کا شتکاروں اور نئے ابھرنے والے زمینداروں کے طبقے کے جبر وستم کا شکار تھے۔ انہوں نے ان کو ایک مضبوط نظام میں جکڑ دیا اور جیسور ، پبنہ، مالدہ، ڈھاکہ اور بارسٹیٹ کے اضلاع میں اپنے علیحدہ علیحدہ مرکزوں کے نظام  کی نگرانی کیلئے اپنے خلیفے مقرر کرائے، انہوں نے انگریزی عدالتوں سے کامیاب مقاطعہ بھی کرایا  اور ان کو آمادہ کیا کہ اپنے جھگڑوں کے اپنی پنچائیتوں میں فیصلے کرائیں"۔
داد ومیاں:
      "تمام بنی نوع انسان  کی سماجی مساوات اور ناجائز کثیر رقوم کے ٹیکسوں کی تنسیخ کے نظریہ کی جسکی  داد ومیاں نے   اشاعت کی ۔ سادہ  اور مظلوم کسانوں  نے گر مجوشی سے پذیرائی کی۔  ناجائز محصولات کے خلاف انہوں نے کسانوں کی حمایت کی۔نتیجہ یہ ہوا کہ مقامی زمینداروں کی کثیر التعداد رعایا اور نیل کے کاشتکار ڈنلوپ کے اسامی دادومیاں کے ساتھ ہوگئے ۔ مقامی زمینداروں پر یہ بہت شاق گزرا اور انہوں نے دادومیاں کے خلاف متعدد فواجداری مقامات دائر کردئے۔1847ء سے 1858ء تک فریقین کے درمیان  مقدمات اور جوابی مقدمات کا ایک سلسلہ جاری رہا ، آخر داد ومیاں ریاستی  قید ی کی حیثیت سے علی پور جیل میں نظر بند کردئے گئے "۔
مؤرخ اہلحدیث علامہ محمد اسحاق بھٹی صاحب" بر صغیر
میں اہلحدیث کی اولیات" کے ص121۔122پر "بنگال کی فرائضی تحریک" کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں :
    "سید احمد  شہید بریلوی کی تحریک  سے چند سال پیشتر بنگال میں "فرائضی" کےنام سے ایک جماعت قائم ہوئی تھی ۔ اس کے بانی مولانا  شریعت اللہ تھے، جو ضلع  فرید پور کے موضع بہادر پور کے رہنے والے تھے۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں حج بیت اللہ کے لیے گئے  اور بیس سال مکہ معظمہ میں مقیم رہے اور شیخ طاہر مکی شافعی سے استفادہ کیا ۔ 1802ء میں وہ ہندوستان آئے اور 1804ء(1) میں فرائضی جماعت  کے نام سے بنگال میں اسلام کی تبلیغ  واشاعت میں مشغول ہوئے اور رسوم وبدعات کی بیخ کنی کی تحریک شروع کی۔ مولانا  شریعت اللہ نامور عالم  دین تھے۔ ان کی تحریک بھی تحریک  مجاہدین  کی طرح وہا بیت کے نام سے معروف ہوئی۔ فرائضی تحریک  کے بانی نے کاشت کاروں اور مزارعوں میں بالخصوص بہت کام کیا ۔ وہ پیر اور مرید کے بجائے استاد اور شاگرد کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔  "الارض للہ" ان کا نعرہ تھا، یعنی  زمین اللہ کی ہےاور جو شخص اس میں کام کرتا ہے وہی اس کا مالک ہے۔ مولانا  شریعت اللہ نے 1840ء میں وفات پائی۔
  ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حاجی محسن میاں (2)

نے فرائضی تحریک کی قیادت  سنبھالی  ۔ بنگال کے عام مسلمان ان کو پیار سے "دودھومیاں" کے نام سے پکارتے تھے۔ باپ کی طرح یہ بھی سرگرم اور فعال کا رکن تھے۔ فرائضی تحریک کے مقاصد میں انگریزوں کو بنگال سے نکالنا بھی شامل تھا ۔ اس کے لیے انہوں نے بڑی قربانیاں دیں اور انگریزوں کے ہاتھوں بہت تکلیفیں اٹھائیں"۔
(1) ڈاکٹر قیام الدین احمد نے "فرائضی تحریک " کی ابتداء1802ء لکھا ہے جیسا کہ گزرا۔واللہ اعلم بالصواب۔
(2) ڈاکٹر قیام الدین احمد نے ان کا کام (مولوی محمد مسلم معروف  بہ داد ومیاں) لکھا ہے  جیسا کہ  اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سا نام صحیح ہے !!۔
نثارعلی عرف ٹیٹو میر:
    " بعد کے مرحلوں میں فرائضی  تحریک اور میر نثار علی عرف تیتومیر کے زیر قیادت ایک مقامی  معاصر تحریک میں ضم ہوگئی، نثار علی ضلع باراسٹیٹ کے ایک گاؤں چاند پور کے باشندہ تھے وہ ایک اوسط درجہ کے زمیندار خاندان کے فرد تھے۔اور جوانی میں انکا  کردار متنوع تھا ۔ دلی کے شاہی  خاندان کےکچھ افراد سے ملاقات ہوئی اور ان کے ساتھ سفر حج میں مکہ معظمہ چلے گئے ، وہاں سید احمد سے ملاقات ہوگئی  اور ان کے مرید ہوگئے ۔1827ء میں ہندوستان واپس آکروہ اپنے پرانے مسکن کے قریب حید ر پور میں سکونت پذیر ہوگئے اور اپنے عقائد کی تبلیغ شروع کردی، جنکی امتیازی خصوصیت  سید احمد کے نظریوں سے مما ثلت تھی ۔ انہوں نے کامیابی کے ساتھ کلکتہ کے شمال اور مشرق کے اضلاع کے دورے کیے اور کثیر التعداد پیرو بنالیے،  بہت جلد پیروں کی ایک کثیر تعداد جمع کرلی، اور چوبیس پرگنہ، ندیا اور فرید پور کے تین ضلع ان کے زیر اثر  آگئے"۔(ہندوستان میں وہابی تحریک ص 123۔124)
   علامہ اسحاق بھٹی صاحب "برصغیر میں اہلحدیث کی اولیات" ص122 میں لکھتے  ہیں:
    "جس زمانے میں سید احمد شہید بریلوی اور مولانا اسماعیل شہید  دہلوی  آزاد قبائل میں مصروف جہاد تھے، اسی زمانے میں بنگال میں ایک شخص نثار علی نمایاں ہو کر ابھرا، جو "ٹیٹومیر" کے عرف سے معروف تھا ۔ یہ شخص کا شت کار تھا اور ایک زمیندار کے گھر اس کی شادی ہوئی تھی ۔ سید احمد بریلوی  کا عقیدت مند تھا ۔ ٹیٹومیر کاشت کاروں کا حامی تھا اور ہزاروں کاشت کار اس کے ساتھ تھے، جو غیر مسلم زمینداروں کے جور وستم سے تنگ آچکے تھے۔ فرائضی تحریک  بنگال کے مسلمانوں کی پہلی تحریک تھی ، جس کا آغاز اس وقت کے اہل حدیث علماء نے وہاں کے حالات  کے مطابق ایک خاص انداز میں کیا ۔
1831ء میں موضع پورنیا  کے ایک زمیندار کشن رائے سے لوگ متعارف  ہوئے ۔ اس نے یہ ستم ڈھایا کہ اپنے ہر مسلمان کاشت کار پر جسے وہ و ہابی  کہتا تھا ، ڈھائی  روپے کا محصول  لگا دیا اور  اس میں مزید اشتعال اس طرح پیدا کیا کہ اس محصول کووہ "ڈاڑھی کا ٹیکس" کہہ کر وصول کرتا تھا۔ اپنے گاؤں میں تو اس نے یہ ٹیکس بغیر کسی جھگڑے کے وصول کر لیا ، لیکن جب اس کے کارندے قریب کے گاؤں موضع سرفراز پور پہنچے تو  وہاں اتفاق سے نثار علی عرف ٹیٹو میر اپنے معتقدین  کے ساتھ موجود تھا ۔ اس نے کشن رائے کے کارندوں کو گرفتار کر لیا ۔ اس کےبعد فریقین میں سخت لڑائی ہوئی اور خوں ریزی تک نوبت پہنچی اور ٹیٹو میر اور اس کے بہت سے ساتھی جام شہادت نوش کرگئے۔ "مزید تفیصل کے لیے دیکھئے "ہندوستان میں وہابی تحریک "ص124۔132 مطبوعہ کراچی۔
     ان دونوں اقتباسوں سے سے معلوم ہواکہ میر نثار علی کے توسط سے 1827ء میں سید احمد رحمہ اللہ اور شاہ اسماعیل رحمہ اللہ کی تحریک  بنگال میں پہونچی  لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس سے تقریبا 8/سال قبل راج محل (ضلع مالدہ) کے ایک شخص میرٹھ میں سید احمد شہید سے بیعت کر چکے تھے۔چنانچہ "ہندوستان میں وہابی تحریک" کے ص 64و 72۔73 کا خلاصہ یہ ھیکہ : "سید احمد شہید سفر حج شوال 1236ھ(30/جولائی1821) کی آخری تاریخ میں بریلی  سے بحری راستہ سے شروع کیے، اسی راستہ سے کلکتہ جانا تھا ، چنانچہ اس طویل سفر میں کلکتہ  وارد ہونے سے پہلے راستہ میں کئی جگہ آپ نے پڑاؤ ڈالا۔ان میں ایک جگہ راج محل بھی تھا ۔ راج محل میں جس وقت آپ پڑاؤ ڈالے تو آپ کی خدمت میں ایک شخص محمدی انصاری حاضر ہوا  جو میرٹھ میں آپ سے بیعت کر چکا تھا ۔اور اس نے سید صاحب کو اپنے گاؤں جانے کیلئے آمادہ کیا ، چنانچہ  آپ تشریف لے گئے، وہاں اس کے تمام افراد خاندان سے بیعت کی۔ ان میں سر بر آوردہ منشی شاہ محمد  ، منشی رؤف الدین،حسن علی ، مخدوم بخش، فضل الرحمن اور عزیز الرحمن تھے، شاہ محمد حج میں سید صاحب کے ہمراہ ہوگئے، اور یہ قافلہ کئی دوسری جگہ میں قیام کرتے ہوئے صفر 1237ھ مطابق ستمبر1821 ء کو کلکتہ پہنچے، یہاں پر تین ماہ سے زیادہ قیام فرمایا ، اس مدت میں مضافاتی گاؤں اور دور دراز مقامات جیسے سلہت اور چاٹگام سے لوگ بیعت کیلئے حاضرہوتے رہے، حج سے واپسی کے وقت 1239ھ مطابق اکتوبر1823ء کو کلکتہ  پہنچے جہاں دو ماہ سے زیادہ مقیم رہے پھر 29شعبان1239 ھ کو اپنے وطن بریلی تشریف لے گئے "۔
مالدہ  تحریک شہیدین کا سرگرم مرکز:
     سید صاحب کے اس طویل سفر حج میں بہت سارے بنگالی  مسلمان آپ کی تحریک سے پورے طور پر وابسطہ ہوچکے تھے اور اس کیلئے اپنی جان ومال تک قربان کردینے پر بیعت بھی کر چکے تھے اور مالدہ  میں جہاں پہلے ہی سے" فرائضی  تحریک" کے کارندے بڑے  گرمجوشی سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے  ہوئے تھے۔ وہاں راج محل کے راستہ سے محمدی انصاری اور دوسرے لوگوں کے توسط سے سید صاحب کی تحریک بھی پہنچ چکی تھی ، اور کچھ سالوں بعد مولوی  عبد الرحمن لکھنوی کی کوشش سے 1840ء میں  تو ضلع مالدہ باقاعدہ ایک سرگرم مرکز کی صورت  اختیار کر چکا جہاں  سے مجاہدین کیلئے  رقمیں وصول کر کے   اور رنگروٹ تیار کر کے سرحد بھیج دیا جاتا تھا اس موقعہ پر   ہنٹر نے جو بیان دیا ہے اس کا مفاد یہ ہےکہ :
    " مولانا ولایت علی کے ایک خلیفہ عبد الرحمن لکھنوی ضلع مالدہ میں تشریف لائے، انہیں حالات سازگار معلوم ہوئے تو اسی ضلع کے ایک گاؤں میں مدت تک ٹھہرے رہے، ایک  آسامی خاتون سے شادی کرلی اور مدرس کی حیثیت میں کام کرتے رہے ، گاؤ ں میں  چھوٹے چھوٹے زمیندار رہتے تھے ، ان کے بچے مولوی عبد الرحمن  کے پاس تعلیم پانے لگے  ، آپ بڑے پر جوش اور پرتاثیر انداز میں لوگوں کو جہاد کی دعوت  دیتے اور ان سے باقاعدہ  اعانتی رقمیں وصول کرتے، سال بہ سال  جمع شدہ رقمیں اور فراہم شدہ آدمی اس غرض سے عظیم آباد بھیج دیتے کہ انہیں سرحد میں پہنچانے کا انتظام کردیا جائے "۔ (سرگزشت مجاہدین ص362 مؤلفہ مولانا غلام رسول مہر)
    فراہمی  زر میں مولوی صاحب کے دوش بدوش رفیق منڈل نامی ایک شخص کام کرتا رہا پھر ان کے  بعد یہ ذمہ داری منڈل صاحب کے فرزند ارجمند مولوی امیر الدین  صاحب نے اٹھالی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی مبارک  کام میں صرف کردی  اور آخر ایام میں ظالم  انگریز کے قید وبند سے دو چار ہوگئے ، پھر اس کام کو آپ کی طرح کسی نے وسیع پیمانے پر انجام دیا یا نہیں ؟کچھ معلوم نہیں، تاہم قرین قیاس یہی ہےکہ مالدہ اور دوسرے اضلاع  کے باشندے اپنی جان ومال کے ساتھ تحریک سے آخر دم تک وابسطہ رہے، چنانچہ  "ہندوستان میں وہابی  تحریک ص141" کے مؤلف ، مولانا عنایت  علی کی بنگال میں  حکمت عملی کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:
    "وہابیوں کا یہ نظام پیشتر کے فرائضی  دستور کا مرہون منت تھا ۔ یہ زیادہ تر عنایت علی  کی کامیاب تبلیغی  کارروائی ہی کا نتیجہ  تھا کہ بعد کے مراحل میں سر حد پر جنگ جاری رکھنے کیلئے بنگال  سب سے آگے تھا"۔
   اور علامہ محمد اسحاق بھٹی صاحب"برصغیر میں اہلحدیث کی اولیات" کے ص 130۔132 "پر "مالدہ کا مقدمہ بغاوت" کے زیر عنوان رقمطراز ہیں:
    "ہندوستان کے مختلف  علاقوں اور شہروں میں مجاہدین کے جو مراکز قائم تھے، ان میں ایک مرکز مالدہ تھا ۔یہ مرکز صوبہ بنگال  میں تھا ۔ " ہمارے ہندوستانی  مسلمان" کا انگریز مصنف ڈاکٹر ہنٹر 1870ء کے واقعات بیان کرتے ہوئے (کتاب کے صفحہ119پر) لکھتا ہے کہ وہابیوں کی تحریک جہاد کا یہ مرکز"تقریبا  تیس سال " پہلے قائم ہوا تھا۔ اس حساب سے اس مرکز کی بنیاد 1840ء کے لگ بھگ پڑی۔ اس مرکز میں  ضلع مالدہ کے علاوہ اس کے متصلہ اضلاع مرشد آباد  اور راج شاہی  کے بعض حصے بھی شامل تھے۔۔۔۔ اس کے بانی مولانا ولایت علی عظیم آبادی  کے ایک خلیفہ مولانا  عبد الرحمن لکھنوی تھے، جو مجاہدین کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اس سلسلے میں جنوبی بنگال کے ضلع مالدہ میں گئے  تو وہاں خدمت مجاہدین کے لیے حالات سازگار معلوم ہوئے اور اس ضلع کے ایک گاؤں میں سکونت اختیار کر لی۔ شادی بھی وہیں کی اور مدرس کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ گاؤں کےچھوٹے  بڑے زمینداروں اور دیگر لوگوں نے ان سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی ۔ ہنٹر کے بقول وہ انتہائی پر جوش تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کثیر تعداد میں نوجوان ان کے حلقۂ عقیدت میں شامل  ہوگئے۔ وہ لوگوں سے باقاعدہ  رقوم وصول کر کے عظیم آباد  (پٹنہ) کے مرکز میں بھیجتے تاکہ یہ رقوم سر حد پار کے مجاہدین  کو پہنچائی جائیں۔
     جو لوگ مولانا عبد الرحمن لکھنوی  کے ماتحت بنگال کے مختلف  مقامات سے رقوم فراہم کرنے پر متعین  تھے، ان میں ایک شخص رفیق منڈل تھے، کئی سال  وہ یہ خدمت انجام دیتےرہے۔ 1853ء میں حکومت کو رفیق منڈل کے متعلق اعانت مجاہدین  کا شبہ ہوا ، ان کی تلاشی لی گئی تو کچھ ایسے خطوط بر آمد ہوئے، جن سے یہ بات ثابت  ہوگئی کہ ان کا تعلق مجاہدین  سے ہے۔ چنانچہ انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔کچھ عرصے بعد وہ رہا ہوئے تو تمام جماعتی کاروبار جو وہ خود انجام دیتے تھے، اپنے بیٹے مولوی امیر الدین کے سپرد کر دیا ۔
     مولوی امیر الدین  انتہائی سرگرم آدمی تھے اور انکا حلقۂ اثر بہت وسیع تھا ۔ دریاے گنگا کے دونوں کناروں اور اس کے جزیروں میں آباد مسلمانوں اور اضلاع مالدہ ، مرشد آباد اور راج شاہی  میں وہ نہایت اثر ورسوخ کے مالک تھے۔ ان کے  اخلاص اور قوت کار کی وجہ سے سب لوگ ان کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔۔۔مولوی امیرالدین  نے جو لوگ جہاد کے لیے سرحد بھیجے ان کی صحیح تعداد بتانا تو مشکل  ہے،البتہ ہنٹر کا کہنا ہے کہ مجاہدین  کی ایک سرحدی  چوکی کے چار سو تیس  آدمیوں میں سے کم وبیش دس فی صد وہابی  مجاہد انہی کے بھیجے ہوئے تھے۔
   بنگالی  مسلمانوں کے دلوں میں مجاہدین  کے لیے بے حد تکریم کے جذبات پائے  جاتے تھے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ  تھی کہ اس سے قبل مولانا عنایت علی عظیم آبادی اس علاقے میں بہت  کام کر چکے تھے اور لوگو ں پر ان کی نیکی  اور مخلصانہ کار کردگی کا بے پناہ اثر تھا ۔
      مولوی امیر الدین  پر انگریزی حکومت کے خلاف سازش اور بغاوت کا مقدمہ1870ء میں مالدہ میں قائم ہوا۔ انہیں ضبطی جائداد اور حبس دوام  بہ عبور دریاے شور کی سزا ہوئی۔ مارچ 1872ء میں وہ کالا پانی پہنچے ۔ دس گیارہ سال کی سختی اور جلاوطنی  کے بعد 1883ء (1300ھ) میں کالا پانی سے رہا ہو کر واپس وطن آئے۔
     یہ تیسرا مقدمہ تھا جو انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت اور اعانت مجاہدین کے جرم میں وہابیوں کے خلاف قائم ہوا۔ انگریزوں کے نزدیک اسے "مقدمۂ بغاوت مالدہ" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ "
    یہ  تھی مرکز مالدہ میں ایک صدی قبل کے دینی ، دعوتی، تبلیغی  اور جہادی سرگرمیوں پر ایک طائرانہ نظر،  مگر صد افسوس  کے ہمیں اس دور کے مجاہدین ، مبلغین اور علماء کی حالات زندگی صفحات تاریخ میں نہیں ملتی، چند ہی بزرگوں کے ناقص احوال معلوم ہیں۔ اسی طرح ماضی قریب  کے  مدرسین  اور مبلغین کا حال بھی اچھی طرح معلوم نہیں، در اصل سرزمین بنگال کا یہ المیہ رہا ہے کہ اس نے تو بہت سارے  نابغۂ روز گار علماء اور مدرسین  کو پیدا کیا ، مگر انہوں نے اپنے اور اپنے پیشرؤوں کی تاریخ صفحۂ ہستی  پر بر قرار رکھنے کیلئے  تحریری  میدان میں کوئی خاص کارنامہ انجام نہیں دیا ، جبکہ  فی الحال ضلع مالدہ ہی میں بڑے  بڑے ذی صلاحیت  ولیاقت علماء ومدرسین اور دعاۃ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ۔ نیز دینی مدرسے اور ادارے کا ایک لمبا جال پور ے ضلع میں  پھیلا ہوا ہے۔ مگر تصنیف  وتالیف کے میدان میں سب سے زیادہ  متخلف ہیں۔ ناچیز کے نزدیک  اس تخلف وپچھڑا ؤ کے کئی اسباب وموانع ہیں۔ جن میں سب سے بڑی اہم وجہ جو کہ سب کی  اصل جڑ ہے، یہ ہےکہ یہاں کے لوگ  عام طور پر معاشی  زبوں حالی کے شکار رہے ہیں خصوصا علماء طبقہ کی معاشی واقتصادی  حالت انتہائی ناگفتہ بہ رہی ہے۔ دوسری وجہ  کہ اس دور  تحقیق میں ان کے پاس علمی مصادر ومراجع کا مہیا نہ ہونا۔ بہت ہی کم علماء ایسے ہیں جن کے پاس درسی  کتب کے  علاوہ کوئی دوسری کتاب موجود  ہو۔ البتہ  موجودہ طلبہ بہت حد تک مختلف  فنون میں کتابیں خرید نے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ تیسری یہ کہ فراغت کے بعد  علماء  کا پورے  طور پر درس وتدریس کے کام میں منہمک ہوجانا اور چوتھی وجہ  یہ کہ ان علماء اور ملک وبیرون ملک کے دیگر علماء کے درمیان علمی روابط وتعلقات  کا کم ہونا ۔ان کے علاوہ بھی دوسرے اسباب وعوائق ہوسکتے ہیں۔
     البتہ یہ حقیقت ہےکہ درس وتدریس، دعوت وتبلیغ  اور اصلاح معاشرہ  وسماج کے میدان میں ان علماء کا بہت بڑا اور وسیع  پیمانہ پر علمی کردارو  کارنامہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ آج ہمیں  ضلع مالدہ  میں اہلحدیث علماء وعوام کی اکثریت نظر آرہی ہے، نیز ان علماء کے مساعی جمیلہ  کی وجہ سے ان کے اندر دینی حمیت وغیرت اور جوش وولولہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔
    لیکن مقام حیرت وتعجب اور باعث صد افسوس  امر یہ ہےکہ آج تک کسی نے مالدہ کے ان علماء اہلحدیث ودعاۃ کی سوانح عمری پر جو تحریک شہیدین سے وابسطہ  تھے ، قلم نہیں اٹھایا ہے اس طرح نہ  ماضی قریب   کےعلماء کی حیات پر اور نہ ہی موجودہ علماء کی خدمات پر  کسی نے خامہ فرسائی کی کوشش کی ہے!۔

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے