Skip to main content

کیا سورۃ فاتحہ کے بعد بھی امام سکتہ کرے گا



پیام حدیث:
کیا سورۃ فاتحہ کے بعد بھی امام سکتہ کرے گا؟
ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی"                                                                    

     عن ابی ھریرۃ قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا کبر فی الصلاۃ سکت بین التکبیر و القراءۃ فقلت له: بابی انت وامی ارایت سکوتك بین التکبیر والقراءۃ ، اخبر نی ماتقول؟ قال: اللھم باعد بینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب۔ اللھم انقنی من خطایای کا لثوب الابیض من الدنس،اللھم اغسلنی بالثلج والماء والبرد"۔
   حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز کے لیے تکبیر کہہ لیتے تو تکبیر اور قراءت شروع کرنے کے درمیان  قدرے خاموش رہتے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان !تکبیر اور قراءت کے درمیان اپنے سکوت کے متعلق ارشاد فرمائیں کہ اس میں آپ کیا پڑھتے ہیں ؟فرمایا :اللھم باعدبینی۔۔۔الخ]"اے اللہ !میرے  اور میرے گناہوں کے درمیان  دوری کردے، جیسے کہ  تونے مشرق اور مغرب کے درمیان  دوری اور فاصلہ رکھا ہے۔اے اللہ! مجھے میرےگناہوں  سے ایسے صاف فرمادے جیسے کہ سفید کپڑا میں سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ ! مجھے برف،پانی اور اولوں سے دھودے"۔(صحیح بخاری :744، صحیح مسلم:598، سنن ابو داود مترجم:1/585/781 واللفظ لہ ۔ مطبوعہ دار السلام ، ریاض)۔
فقہ حدیث: شیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :(1) ثنا کی دعاؤں میں سے یہ دعا سب سے صحیح  اسانید سے ثابت ہے۔ الفاظ میں قدرے فرق بھی مروی ہے۔(2) ثنا کو خاموشی سے پڑھنا  مسنون ہے۔ (3)آخری جملہ "اے اللہ ! مجھے برف، پانی اور اولوں سے دھودے" اس میں برف اور اولوں کا ذکر یا تو تاکید کے لیے ہے یا اس معنی میں ہے کہ یہ پانی زمینی آلود گیوں سے پاک اور صاف ہوتا ہے تو اس سے صفائی اور بھی عمدہ ہوگی۔ اور صفائی کے لیے " برف اور اولوں" کے ذکر میں حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ الفاظ بطور تفاؤل ہیں۔یعنی اے اللہ !گناہوں کے باعث جو آگ کی حرارت کا سزاوار بن رہا ہوں،اس سے محفوظ رکھ اور میری خطاؤں کو ٹھنڈی برف اور اولوں سے دھو اور آگ کی جلن سے بالکل مامون ومحفوظ فرمادے۔ واللہ اعلم۔ (4)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احوال کا تتبع فرمایا کرتے تھے ۔ خواہ وہ ظاہر ہوتے یا مخفی، اس طرح اللہ تعالی نے  ان کے ذریعے سے دین کو محفوظ کردیا ہے۔
(رضی اللہ عنہم وارضاھم)۔(سنن ابو داود:1/586، مطبوعہ دار السلام ۔ ریاض)
(5) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا  کہ تکبیر تحریمہ   اور قرات کے درمیان سکتہ کرنا مسنون ہے ۔  حالت قیام میں اسی ایک سکتہ کا ثبوت صحیح حدیث سےملتا ہے ۔اور یہ متفق علیہ سکتہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سکتہ کا ذکر جن روایتوں میں آیا ہے ، وہ روایتیں  سب کے سب ضعیف  وناقابل حجت ہیں ۔ ان میں سے ایک  بطریق حسن البصری عن سمرہ بن جندب مروی ہے ، سمرہ نے کہا: مجھے نماز میں دو سکتے یاد ہیں (1) ایک تو جب امام تکبیر کہتا ہے تو قراءت شروع کرنے تک ۔(2) اور دوسرا جب وہ فاتحہ اور سورت کی قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنا چاہتا ہےاور قتادہ کی ایک روایت میں ہے کہ دوسرا سکتہ سورہ فاتحہ کی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد۔(سنن ابو داود:777، 778، 778، 78، سنن ترمذی:215، التمھید لابن عبد البر:11/42)
   یہ حدیث حسن ازسمرہ بن جندب  کی سند سے مروی ہے، اور حسن کا سمرہ سے سماع کے بارے میں اختلاف ہے ، امام  ترمذی رحمہ اللہ نے اسی اختلاف  کی وجہ سے اس حدیث کو حسن کہا ہے، اور جامع ترمذی کے شارح اور محقق احمد محمد شاکر رحمہ اللہ  کے نزدیک حسن بصری  کا سماع حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ،اس لیے انہوں نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور دیگر محققین (شیخ زبیر علی زئی سمیت) کے نزدیک بھی یہ حدیث صحیح ہے،(دیکھئے: سنن ابو داود مترجم:1/586) تاہم شیخ البانی رحمہ اللہ  نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ہمارے نزدیک یہی رای راجح ہے کیونکہ حسن بصری مدلس ہیں اور انہوں نے  سمرہ  سے یہاں سننےکی صراحت نہیں کی ہے۔ رہی حسن بصری کا نسخہ سمرہ بن جندب سے وجادہ کے طریق پر روایت کرنے کی بات  کہ جس کو بنیاد بنا کر کئی علماء نے اس حدیث کی تصحیح یا تحسین کی ہے تو اس حدیث کے سلسلہ میں یہ بات اس وقت درست تسلیم کی جاسکتی ہے جب کہ اس  حدیث کا نسخہ سمرہ میں موجود ہونا ثابت ہوجائے! کیونکہ  حسن بصری نسخۂ سمرہ سے بھی روایت کیا ہے اور براہ راست سمرہ سے بھی ، لہذا جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ سکتتین والی حدیث کو انہوں نے اسی نسخہ سے روایت کیا ہے تب تک  بلا تصریح سماع کے اس پر صحیح یا حسن ہونے کا حکم لگا یا نہیں جاسکتا ہے! ۔
   نسخہ سمرہ بن جندب سےحسن بصری کی روایت کے تعلق سے تفصیلی معلومات کے لیے "المرسل الخفی وعلاقتہ بالتدلیس" از شریف حاتم بن عارف العونی ص1174۔ 1305 کی طرف رجوع کریں۔
    علامہ البانی  حدیث مذکور کے تعلق سے فرماتے ہیں :" اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ  حسن بصری  اپنی جلالت شان کے باوجود مدلس  ہیں،اور یہاں اس حدیث میں سمرہ سے سننے کی صراحت نہیں کی ہے۔امام دار قطنی نے  کہا کہ حسن کا سمرہ سے سماع مختلف فیہ ہے،انہوں نے  ان سے صرف ایک ہی حدیث عقیقہ  کے بارے میں سنا ہے ۔ علاوہ ازیں اس کے متن میں حسن بصری  پر اختلاف واقع  ہوا ہے۔ چنانچہ  یونس بن عبید البصری اور اشعت بن عبد الملک یہ دونوں حسن بصری سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دوسرا سکتہ اس وقت کرتے جب  رکوع سے پہلے پوری قراءت سے فارغ ہوجاتے، جبکہ قتادہ بن دعامہ سدوسی نے حسن سے روایت کرتے ہوئے ایک روایت میں کہا: دوسرا سکتہ  اس وقت کرتے جب سورہ فاتحہ  کی قراءت سے فارغ ہوتے۔ حالانکہ  پہلی بات صحیح ہے، اور اسے ہی ابن تیمیہ  وابن قیم نے راجح قرار دیا ہے۔ اور ابو بکرالجصاص کہتے ہیں :" یہ حدیث ثابت نہیں ہے" ۔ (ضعیف سنن ابی داود:1/299۔300/135)۔
   لہذا امام کا سورہ فاتحہ  کی تلاوت یا دوسری سورت کی تلاوت کے بعد اس قدر وقفہ وسکتہ اختیار کرنا کہ اس دوران مقتدی حضرات سورہ فاتحہ  پڑھ سکیں ۔ اس کا جواز کسی بھی صحیح حدیث سے منقول نہیں ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں : "جمہور علماء کے نزدیک  امام کا مقتدی کے لیے پڑھنے کی غرض سے سکتہ کرنا مستحب نہیں ہے۔ یہی ابو حنیفہ  ،مالک اور احمد وغیرھم کا مذہب ہے۔۔۔" (الفتاوی الکبری:2/292، مجموع الفتاوی:23/ 275)۔
   امام  ابن القیم رقمطراز ہیں : "خلاصہ یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح سند سے اور نہ ہی ضعیف سند سے یہ منقول ہے کہ آپ سورہ فاتحہ  پڑھنے کے بعد سکتہ کرتے  تاکہ  آپ کے پیچھے موجود مقتدی لوگ فاتحہ پڑھ لیں ، اس جگہ آپ کے سکوت کے تعلق سے صرف یہی ایک مختلف فیہ حدیث مروی ہے،لہذا اگر آپ یہاں اتنا لمبا سکتہ  کرتے کہ جس میں مقتدی فاتحہ پڑھ لیتا، تو یہ چيز صحابہ کرام پر پوشیدہ  نہ رہتی بلکہ سکتہ افتتاح کے بجائے اس سکتہ کی معرفت اور اس کے نقل کو زیادہ اہمیت دیتے"۔ (الصلاۃ  وحکم تارکھا ص 230)۔
    علامہ مبارکپوری تحفۃ الاحوذی(1/285) میں فرماتے ہیں : قراءت فاتحہ کے  بعد امام کا سکتہ کرنا محتاج دلیل ہے"۔علامہ ابن باز فرماتے ہیں : جہری نماز میں مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ  کی قراءت کی غرض سے امام کا سکتہ کرنےکی مشروعیت پر دلالت کرنے والی کوئی بھی صحیح دلیل نہیں ہے"۔(مجموع الفتاوی:11/235) ۔جبکہ علامہ البانی  نے تمام المنۃ (ص 156 )کے اندر صراحت کےساتھ اسے بدعت قرار دیا ہے۔(نیز دیکھئے:الضعیفۃ:2/124)۔
   البتہ اگر امام فاتحہ  اور دوسری  سورت کے بعد اتنا وقفہ کرے کہ جس سے فاتحہ کا اختتام ، آمین، دوسری قراءت کی ابتداء اور انتہا واضح رہے اور اس کے بعد ہی رکوع کے لیے تکبیر کہی جائے  تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ واللہ اعلم ۔
(دیکھئے :سنن ابو داود مترجم:1/585،مطبوعہ دار السلام ریاض)۔

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ