Skip to main content

قادیانیت کے بارے میں جماعت اہلحدیث کا موقف



قادیانیت کے بارے میں جماعت اہلحدیث کا موقف
                                                                  ابو عبدالعزیز محمد یوسف
               ضلع  پورنیہ ،  بہار  میں واقع "شہریا"  نامی مقام  میں " رد قادیانیت " کےزیر موضوع مورخہ 4/5فروری 2013ء میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے موقع پربیسویں صدی کے ایک عظیم  فتنہ" قادیانیت   کے  بارے میں  جماعت اہل حدیث کا موقف" کےزیرعنوان  یہ چند صفحات ترتیب دیئےگئے تھے۔ارادہ یہ تھا کہ رسالہ کی شکل میں چھاپ کر اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کیاجائےمگرکچھ اسباب کی بنا پریہ ممکن نہ ہوسکا،اب افادہ عام کی خاطرہدیہ قارئین کیاجاتا ہے۔
        اس کانفرنس کے انعقادکے اغراض ومقاصد میں جہاں  سیمانچل  کے اندر فتنہ قادیانیت کے روز بروز بڑھتے قدم کو روکنا ، اس فتنہ کی  حقیقت سے واقفیت  نہ رکھنے والے دینی علم وبصیرت سے عاری ومحروم مسلمانوں کو جوچند  ٹکوں کےعوض دین ، ایمان  اور ضمیر کو بیچتے ہوئے  اس فتنہ کے چنگل  میں آئے دن پھسنتے  جارہے ہیں  اس کے بدنما چہرہ اوراصل حقیقت سے روشنا س کرانا ، اورقادیانیت کے بارے میں جماعت اہلحدیث کے دوٹوک موقف کو واضح کرنا تھا،وہیں ایک عظیم مقصد یہ بھی تھا کہ علاقہ کے عوام کو اس واضح حقیقت سے آگاہ اور باخبر کیا جائے کہ اہلحدیث  اور قادیانیت دو الگ الگ چیزیں ہیں در اصل آج کل جب کسی گم گشتہ راہ کو قرآن وصحیح حدیث کے صاف وشفاف چشمہ سے سیراب ہونے کی توفیق الہی نصیب ہوتی ہے، اور اس کے نتیجہ میں یہ خوش نصیب وخوش بخت  اپنی پچھلی خوشنماراہ وڈگر کو خیر باد کہتا ہوا اہلحدیث بن جاتا ہے تو اس راہ ورسم کےعلماء وگروحضرات اس کو وہابی ہونے کے ساتھ ساتھ قادیانی  ہونے کا بھی طعنہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں اور اپنی لفاظیوں اور خاص قسم کی چالباز یوں اور حرکتوں کے ذریعہ اپنے عوام کو بھی وہی کچھ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،نتیجتا لوگ چشمہ حق سے دور رہ جاتے ہیں۔ بہر حال اب اس کانفرنس کے ذریعہ اس علاقہ کے عوام تک یہ بہترین تاثر اور واضح پیغام پہنچ چکا ہےکہ اہلحدیث کا مطلب قادیانیت نہیں ہے جیسا کہ ہمارے علماء کہا کرتے ہیں بلکہ قبول قادیانیت  کا معنی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجانا ہے جبکہ اہلحدیث ہونے کا مطلب اصل اسلام سے ہمکنار ہونا اور راہ حق وصراط مستقیم کے پانے سے سرفراز ہونا ہےجو کہ ہر مومن ومسلمان کا مقصود اصلی اور مطلوب اساسی ہے۔  تو آیئے  سب سے پہلے ہم " قادیانیت  اور اس کے بانی  " پر ایک طائرانہ  نظر ڈالتے ہیں تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے  کہ  یہ کونسا شجرۂ ممنوعہ ہے؟
 قادیانیت کا تعارف: قادیانیت ، دین اسلام سے قطعی جدا گانہ  ایک نیا مذہب   ودین ہے ، اور امت قادیانیہ ، امت مسلمہ سے الگ تھلگ ایک نئي  اور مستقل امت وقوم ہے، جسے متحدہ ہند  پر قابض انگریزی سامراج  نے انیسویں  صدی کے آخر میں اپنے مشہور فلسفہ  "پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو " کے تحت وجود بخشا ہے ، انگریز کے کاشت کردہ (1)اس شجرہ  خبیثہ کی حقیقت  سے آگاہی کا انحصار  اس کے بانی سے واقفیت  پر ہے، لہذا سطورذیل میں  اس کا مختصر  تعارف  پیش  خدمت ہے:
بانی قادیانیت کا تعارف: لاہور  سے کوئي 50/55 میل شمال مشرق میں واقع  ، ضلع گورداس پور، پنجاب، ہند کے "قادیان" نامی قصبہ میں سنہ 1839ء یا 1845 میں سے (2) کسی سال، فارسی  ، اسرائيلی  ، چینی  ، فاطمی  اور قرا چار برلاس نامی قوم(3) جیسی مختلف نسلوں   سے مرکب ومخلوط النسل اورمرزا غلام  مرتضی  (4)نامی باپ  اور "چراغ بی بی"(5) ماں  کے گھر وگود میں جنم لینے والا ، مالیخولیا ،  ہسٹریا، مراق ،تشنج دل،  بد ہضمی، اسہال، دوران سر،  کثرت بول حتی کہ  رات یا دن کو سوسو دفعہ پیشاب  کرنے پر مجبور ، (6)جیسی ڈیڑھ درجن  سے زیادہ خطرناک قسم کی جسمانی ودماغی امراض کا شکار دائم المریض ، افیوں کا دلدادہ  (7)مرد  نا کام ونامراد جسے لوگ  "مرزا غلام احمد قادیانی"   کے نام سے یاد کرتے ہیں اس ملت قادیانیت  کا بانی  وموجد ہے۔
قادیانی عقائد وتعلیمات: اس شخص نے "انگریزی منصوبہ "کی تنفیذ کا کام"  اسلام کی خدمت  ودفاع"  کے نام  سے شروع کیا  اور جب کچھ لوگ  اس کے دام فریب میں آچکے  اور اس کا گرویدہ ہوگئے  تو پھر کیا تھا، اس نےبتدریج اپنے عقائد اور دین جدید کے اصول  وضوابط اور احکام وتعلیمات کا انکشاف واظہار شروع کردیا  چنانچہ"مجدد"(8)" مہدی موعود "(9)"مسیح موعود"(10" وہ اللہ کی طرف سے بھیجا  ہوا  نبی ہے "(14)" وہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے بھی افضل نبی ہے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو صرف تین ہزار معجزے دیئے گئے  تھے جبکہ  اسے دس لاکھ معجزے دیئے گئے ہیں(15)کادعوی جیسی ہرزہ سرائياں اور یاوہ گوئیاں کرتا ہوا شرم وحیا کی چادرکو تار تار کرنے کے بعداسلامی احکام وتعلیمات کا مذاق اڑاتا ہوا کہا کہ " جہاد مسلمانوں کے ایجاد کردہ خرافات   میں سے ہے بلکہ یہ سب سے خطرناک قسم کا فساد ہے "(20)اوروہ افیون کو دوا کے بہانے اپنے لئے حلال کیا(21) اور اپنے پیروکاروں کو مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرتا رہا(22) اور کہا کہ "مسلمانوں کا اسلام اور ہے اور ہمارا  اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور، اور ہمارا حج  اور ہے ان کا حج اور، اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے "۔(23)
یہ تھی  ایک جھلک ملت قادیانیت  کے بانی مرزاغلام  احمد قادیانی  کے دعووں ، عقیدے اور تعلیمات  واحکام کی۔ انہی چیزوں کے ماننے والوں کوقادیانی احمدی کہا جاتا  ہے ،جن کا نبی ورسول  مرزاغلام احمد قادیانی  ہے اور اس ملت کا نام "قادیانیت/مرزائيت اور /احمدیت ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت  اور نصوص شریعت
 آپ نے دیکھا  کہ "خاتم  الانبیاء  والرسل"  ماں آمنہ کے لال تاجدار مدینہ ، مجبوب الہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی چادر رسالت ونبوت کو کس طرح تار تار کرنے کی اس منحوس شخص نے  جسارت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ناموس اقدس پر دست درازی کی ناپاک کوشش کرتا ہوا آپ کی توہین کی ہے حالانکہ تمام مسلمانوں  کا یہ متفقہ ومسلمہ عقیدہ وایمان ہے  کہ کوئی شخص اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ نبی ورسول عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر آخری  وخاتم الانبیاء  والرسل  ہونے کی حیثیت  سے ایمان نہ لائے  اور صحابہ کرام رضوان  اللہ علیہم اجمعین سے لے کر آج تک پوری امت اس بات پر متفق ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکاہے اورجو شخص آپ  کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعوی کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کذاب اور دجال قرار دیا ہے اور اس کی سزا قتل ہے۔
 اس عقیدۂ ختم نبوت  پر قرآن مجید کی کم وبیش  سو آیتیں  اور کتب احادیث  میں موجود تقریبا دو سو سے زائد حدیثیں  دلالت  کرتی ہیں جن کی تفصیلات  مولانا  مفتی محمد شفیع  صاحب رحمہ اللہ کی کتاب "ختم نبوت" میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ،یہاں پر ہم  اختصار کے پیش نظر صرف دو آیتوں  اور دو حدیثوں  کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں ۔
1۔رب ذو الجلال  فرماتا ہے : (الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی  ورضیت لکم الاسلام دینا ) آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا ۔(المائدہ:3)۔
 اور فرمایا: (ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین وکان اللہ بکل شئي  علیما ) لوگو! تمہارے  مردوں میں سے کسی کے باب محمد صلی اللہ  علیہ وسلم نہیں ،لیکن  آپ اللہ تعالی  کے رسول ہیں اور تمام  نبیوں کے ختم کرنے والے، اور اللہ تعالی  ہر چیز کا (بخوبی) جانے والا ہے۔ (الاحزاب:40)۔
واضح رہے کہ" خاتم" مہر کو کہتے ہیں اورمہر آخری عمل ہی کو کہا جاتا ہے ، یعنی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر نبوت و رسالت کا خاتمہ کردیا گيا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا ، وہ نبی نہیں کذاب ودجال  ہوگا "(تفسیراحسن البیان ص1182۔مجمع ملک فہد)۔
2۔اور خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء،کلماھلک نبی خلفہ نبی آخر،وانہ لانبی بعدی،وسیکون الخلفاءفیکثرون"کہ بنی اسرائيل کی نگہداشت انبیاء کی ذمہ داری تھی جب ایک نبی رخصت ہوتا تو دوسرااس کی جگہ لے لیتا لیکن میرے بعد کوئي  نبی نہیں۔البتہ نائبین کثرت سے ہونگے۔(بخاری:حدیث 3268،ابن ماجہ:حدیث2871،باب الوفاء بالبیعۃ)۔
        مزیدفرمایا:"ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتافاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ؟ فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین" یعنی میری اورمجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے،جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائي اور نہایت خوبصورت بنائي مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، لوگ اس عمارت کے گردپھرتےاور اس کی خوبی پراظہارتعجب کرتے تھے مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئي تو وہ اینٹ میں ہوں اورمیں خاتم النبیین ہوں اورمسلم کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں "فجئت فختمت الانبیاء" پس میں آیااورمیں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔(بخاری :حدیث 3342باب خاتم النبیین،مسلم :حدیث 6101،6103،باب ذکرکونہ خاتم النبیین)۔
        پہلی حدیث میں وارد لفظ"بعد"کے معنی پیچھے کے ہیں خواہ وہ کسی صورت میں ہو یعنی نہ آپ کونبوت عطاہونے کے فورابعد کوئي نبی بن سکتا ہے اورنہ آپ کی زندگي میں۔نہ مدینہ طیبہ سے غیرحاضری کے وقت اورنہ ہی رحلت کے بعد قیامت تک کوئي نبی ہو سکتاہے۔اورآپ کی شریعت چونکہ دائمی اور قیامت تک کے لیے ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے خاتمہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔(24)
خودمرزاغلام لکھتا ہے :" میں جناب خاتم الانبیاء کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں"(تبلیغ رسالت ص20۔21ج3)۔
جماعت اہلحدیث کا موقف اور خدمات: گزشتہ سطورہی سے یہ بات عیاں ہو جانی چاہئے کہ قادیانیت  ومرزائیت کے سلسلہ میں جماعت اہلحدیث کے علماء وعوام کا کیا موقف ورای ہے ؟ اس کے باوجوددو ٹوک الفاظ میں ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا موقف وہی ہے جس پر قرآن وصحیح احادیث اور اجماع امت قائم ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کوئي بھی نبوت کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا،کذاب اور دجال ہوگا،دائرہ اسلام سے خارج ،واجب القتل مرتداور اس پر ایمان لانے والے بھی مرتد ۔چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کو نبی ورسول ماننے والے مرتدوکافرہیں، اس میں کوئي شک وشبہ نہیں،بلکہ اس سلسلہ میں شک وشبہ کرنے والا بھی کافر ہے اور بفضلہ تعالی جماعت اہلحدیث وہ واحد جماعت ہے جس کے یہاں ختم نبوت ورسالت کو کھولنے کیلئے چور دروازہ بھی نہیں ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں کوئي بھی جماعت ثبوت ودلائل کے ساتھ اس کا دعوی نہیں کرسکتی ہے ۔ اسی لئےعدل وانصاف کی نظرسے اس فتنہ کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والےپریہ بات مخفی نہیں ہے کہ فتنہ قادیانیت کے ردوتردید، اس کی سرکوبی اور اسے بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنے کے سلسلہ میں اولیت بھی اسی جماعت اہلحدیث ہی کے علماء کو حاصل رہی ہے چنانچہ یہ فتنہ جس وقت اپنے پخت وپزکے مرحلے میں تھا اور 1882ء میں پہلی بار مرزا غلام کا دعوائے الہام، الہامی نمونوں سمیت سامنے آیا تو اس وقت کے دور اندیش علمائے اسلام نے اپنی فراست مومنانہ سے خطرے کی بو سونگھ لی تھی اور وہ موقع بہ موقع اس کا اظہاربھی کرتے رہتے تھے۔(25)
چنانچہ مرزا صاحب خود لکھتے ہیں:
       "شہاب الدین نامی ایک شخص۔۔۔۔ نے آکربیان کیا ہےکہ مولوی غلام  علی صاحب امرتسری (معروف اہلحدیث عالم) اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری (معروف اہلحدیث عالم) اور مولوی عبد العزیز صاحب( ان کا حال معلو م نہیں) اور دیگر دوسرے صاحب اس قسم کے الہام سے جو رسولوں  کی وحی کے مشابہ ہے باصرار تمام انکار کررہے ہیں بلکہ ان میں سے بعض مولوی صاحبان مجانین (پاگلوں) کے خیالات سے اس کو منسوب کرتے ہیں"(براہین احمدیہ ج4ص544۔545)۔
اور اسی کی بابت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری رقم طراز ہیں:
       "مولانا حافظ عبد المنان مرحوم محدث وزیرآبادی(بلند پایہ اہلحدیث عالم وحافظ الحدیث)سے میں نے خود سنا کہ مجھے شبہ ہوتا ہےکسی دن یہ شخص(مرزا) نبوت کا دعوی کرےگا۔۔۔۔"(تاریخ مرزاص10)۔
   اور 1891ء کے آغاز میں جب یہ فتنہ کھل کر سامنے آگیا اور مرزا صاحب نے مسیح موعودہونے کے دعوے کا اعلان کردیا تو فوراعلمائے اسلام اس فتنے  کے خلاف سینہ سپرہوگئے۔(26)
مرزا غلام احمد قادیانی پر سب سے پہلا فتوی کفر:
چنانچہ مرزا صاحب پرکفر کا سب سے پہلا فتوی مشہور اہلحدیث عالم حضرت مولانا  محمدحسین بٹالوی رحمہ اللہ  نے تیارکیا تھا اور اسے اپنے استادعالی مرتبت حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کر کے اس پر ان کے دستخط کرائے تھے، اور پھر انہوں نے ہندوستان کے دور دراز مقامات میں رہنے والے  دو سو معروف وممتاز علمائے عظام سے خودمل کر یا اپنے نمائندے بھیج کر اس فتوی پر ان کے تائیدی دستخط کرائے تھے اور اس پر انہوں نے اپنی مہر ثبت  فرمائي تھیں۔ مرزا صاحب اور ان کے ساتھی اس فتوائے تکفیر سے نہایت پریشان ہوئے تھے چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
    "علمائے پنجاب اور ہندوستان کی طرف سے فتنہ تکفیروتکذیب حدسے گزرگیا ہے اور نہ صرف علماء بلکہ فقراءاور سجادہ نشین بھی اس عاجز کےکافر اور کاذب ٹھہرانے میں مولویوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، ان لوگوں کے اغواء سے ہزاروں لوگ ایسے پائے جاتے ہیں کہ وہ ہمیں نصاری اور ہنودسے بھی اکفر سمجھتے ہیں اگرچہ اس تکفیر کا بوجھ نذیرحسین دہلوی کی گردن پر ہے مگر تاہم دوسرے مولویوں کا یہ گناہ ہے کہ انہوں نے اس نازک امر تکفیر میں اپنی عقل اور اپنی تفتیش سے کام نہیں لیا بلکہ نذیر حسین کے دجالانہ فتوے کو دیکھ کر جو محمد حسین بٹالوی نے تیار کیا تھا ،بغیر تحقیق کے ایمان لے آئے"(انجام آتھم ازمرزا غلام احمد قادیانی ص45مطبوعہ 1897ء)۔
اس فتوے کے سلسلہ میں دوسری جگہ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
        "مولوی محمدحسین نے یہ فتوی لکھا اور میاں نذیر حسین دہلوی سے کہا کہ سب سے پہلے اس پر مہر لگا دے اور میرے کفر کی با بت فتوی دے دے اور تمام مسلمانوں  میں کافر ہونا شائع کردے۔سواس فتوے اور میاں صاحب مذکورکی مہرسے بارہ برس پہلے یہ کتاب (براہن احمدیہ)تمام پنجاب اور ہندوستان میں شائع ہوچکی تھی  اور مولوی محمدحسین جو بارہ برس بعداول المکفرین بنے، بانی تکفیر کے وہی تھے اور اس آگ کو اپنی شہرت کی وجہ سے تمام ملک میں سلگانے والے میاں نذیر حسین دہلوی تھے"(تحفہ گولڑویہ ازمرزا قادیان ص121مطبوعہ قادیان1914ء)۔
        مرزا صاحب کے ان الفاظ نے بات بالکل صاف کردی ہے کہ ان کی "تکفیر کے بانی" مولانا  محمد حسین تھے اور حضرت میاں صاحب اس تکفیر کی "آگ کو اپنی شہرت کی وجہ سے تمام ملک میں سلگانے والے تھے"
   فتوائے تکفیر کے علاوہ مولانا بٹالوي نے براہ راست مرزا صاحب سے مباحثہ بھی کیا ، اسے مباہلے کی دعوت بھی دی اور  اس کی تحریروں کا جواب بھی تحریری صورت میں دیا ۔ بلا شبہ اس دور کے برصغیر کی جماعت علماء میں مولانا بٹالوی  پہلے عالم تھے جنہوں نے مرزا قادیانی  کے مقابلے میں محاذ کھولا  اور ہرمحاذمیں اسے شکست دی۔
         اس کے بعدمختصر الفاظ میں ہم ایک دوسرے بلند پایہ اہلحدیث عالم حضرت مولاناثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا ذکرکرنا چاہتے ہیں:
       مولانا امرتسری نے اس عہد میں جس انداز سے مرزائیت کا مقابلہ کیا اس کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی ہے۔تحریری،تقریری اور مناظرانہ رنگ میں ہرمحاذپر انہوں نے مرزائیوں کو للکارا۔مرزا غلام احمد سے لے کر نیچے درجے کے مرزائی مبلغوں تک انہوں نے نہایت جرات سے ٹکرلی۔۔۔ وہ پہلےعالم دین ہیں، جنہوں نے برسرعام مرزائیوں سے مناظرے  کی طرح ڈالی۔1902ء میں مرزا صاحب نے "اعجازاحمدی" کے نام سے ایک کتاب لکھی ،اس میں مولانا  ثناء اللہ امرتسری کو چیلنج دیا کہ وہ قادیان آئیں اور میرے الہامات کو غلط ثابت کریں۔۔۔۔۔
     مرزا صاحب کے چیلنج کے جواب میں 11جنوری1903ءکو مولانا رحمہ اللہ قادیان پہنچے اورمرزا صاحب کو مقابلے میں آنے کی دعوت دی لیکن وہ مقابلے میں نہیں آئے اور محمد احسن امروہوی کے ہاتھ رقعہ لکھ کر بھیجوا یا کہ وہ قسم کھا کر  اللہ سے عہد کر چکے ہیں کہ وہ کسی سے مناظرہ نہیں کریں گے۔ یہ رقعہ پڑھکر مولانانے قادیان میں تقریر کی اور مرزا صاحب کو ان کے گھر میں بار بار سامنے آنے کی دعوت دی لیکن وہ نہیں آئے۔
        مرزا صاحب کا مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس پامردی اور تسلسل کے ساتھ پیچھا کیا کہ وہ شدید گھبراہٹ میں مبتلا ہوگیا اورپکار اٹھاکہ  جھوٹا سچے کی زندگی میں مرجائے۔15/اپریل1907ء کو اس نے"مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ" کے عنوان سے اشتہار شائع کیااور اس سے تقریبا گیارہ مہینے بعد وہ 24/مئي1908ء کو احمدیہ بلڈنگس لاہور میں ڈاکٹر مرزایعقوب بیگ کے مکان پر ہیضے کی بیماری سے مرگیا ۔یہ اس کی واحد دعاء یا بددعاء تھی جو قبول ہوئي۔حضرت مولاناثناء اللہ صاحب نے اس سےچالیس برس بعد 15/مارچ1948ء کو سرگودھا میں وفات پائي" (27)
         مولاناامرتسری صاحب"ردقادیانیت "کے سلسلہ میں 34سےزائدکتب ورسائل تحریر کئے، اور جریدہ"اہلحدیث"کے علاوہ خصوصی طورپر قادیانیت کی تردیدکیلئے معرکہ الاراء اور لاثانی جریدہ"مرقع قادیانی" کا اجرا فرمایا، جو مرزا قادیانی  کی موت کے بعدبھی تقریبا نصف سال تک جاری رہا،بے شمار مناظرے کئے اور کئي سو تقریریں بھی کیں اور شاگردوں کو اس محاذ پر کام کرنے کیلئے تیار کردیا یہاں تک کہ قادیانیوں کی وہ تعداد جسے قادیانی حضرات نو لاکھ تک بتایا کرتے تھے1935 تک سمٹ سمٹا کر خود قادیانی خلیفہ دوم مرزا بشیر الدین کے حسب اقرار ایک لاکھ بھی نہیں رہ گئي تھی۔ (قادیانیت اپنے آئینے میں ص 262)۔
مولانا بٹالوی وامرتسری کے علاوہ اہلحدیث کے دیگر بلند پایہ اور چوٹی کے علماء اس وقت سے لیکر آج تک اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے کمربستہ رہے ہیں اور ہیں لیکن تمام علماء کے مابین انہی دو حضرات کو سالار قافلہ ہونے کا شرف حاصل رہا ہے ، ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔ اور اسکا اعتراف علامہ سید سلیمان ندوی اور سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمھما اللہ جیسے اکابر علماء کو بھی رہا ہے چنانچہ سید سلیمان ندوی صاحب رقم فرماتے ہیں:
"۔۔۔۔۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعووں سے پنجاب میں فتنہ پیدا ہوگيا تھا انہوں (امرتسری )نے مرزا صاحب کے خلاف صف آرائي کی اور اس وقت سے لیکر آخر دم تک اس تحریک اور اس کے امام کی تردید میں پوری قوت صرف کردی۔۔۔۔(28)
اور حضرت علی میاں صاحب تحریر فرماتے ہیں:
"۔۔۔۔۔ ان مجاہد ین اسلام میں سرفہرست ان چار حضرات کے نام ہیں :
مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا محمدعلی مونگیری (بانی ندوۃ العلماء)،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مولانا انور شاہ کشمیری (شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند) رحمھم اللہ تعالی۔۔۔۔"(29)
خلاصہ یہ کہ (1) "مرزاغلام احمد پر تکفیر کا فتوی سب سے پہلے حضرت مولانا محمد حسین بٹالوی نےتیار کیا اور اس پر اپنے استاذ عالی قدر حضر ت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے دستخط کرائے اور پھر پنجاب وہندوستان کے تقریبادو سو مشاہیر علماء کرام کی خدمت میں اس فتوے کا مضمون پیش کیا اور ان سے اس طرح اس کی تصویب وتصدیق کرائي کہ انہوں نےاس پر دستخط ثبت فرمائے یا اپنی مہر یں لگائیں۔
(2) مرزا صاحب سے مقابلے کے لئے سب سے پہلے عالم جو قادیان گئےوہ حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری تھے، یہ جنوری 1903ء کا واقعہ ہے، انہوں نے مرزا صاحب کے گھر جاکر انہیں للکارا،لیکن مرزا صاحب مقابلے کے لئے نہیں نکلے۔
(3) مرزائیوں سے مباحثوں اور مناظروں کا سلسلہ سب سے پہلے مولانا محمدحسین بٹالوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری نےشروع کیا۔
(4) جس تعداد میں مولانا ثناء اللہ صاحب نے مرازئیوں سے مناظرےکئے اس تعداد میں کسی نے نہیں کئے۔
(5) مسلمانان برصغیرکی طرف سے "فاتح قادیان" کا لقب مولانا ثناء اللہ  ہی کو دیاگیا۔
(6)مرزا صاحب کو مباہلے کا چیلنج سب سے پہلے اہلحدیث علمائے کرام نے دیا۔
(7)مرزائیت کے خلاف سب سے زیادہ کتابیں اہل حدیث مصنفین نے لکھیں۔
(8)قیام پاکستان کے بعد ملک کے دستورمیں مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ تحریری صورت میں سب سے پہلے اہل حدیث عالم مولانا محمدحنیف ندوی نے کیا۔
(9)مرزائیت کے خلاف جتنی تحریکیں چلیں،ان میں سب سے زیادہ اہل حدیث علماء اورعوام نے حصہ لیا اور اس کے نتیجے  میں حکومت نے انہیں گرفتارکیا(30)
علماء عرب کا فتوی: اب اخیر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ "اسلامی فقہی کونسل "جدہ کی طرف سے صادر فتوی کا آخری اقتباس بھی ہدیہ ناظریں کردوں تاکہ مرزائيت اورقادیانیت کے بارے میں عصرحاضرکے علمائے عرب اور خصوصی طورپر  سعودی علماء کی رای سے بھی عوام کو واقفیت حاصل ہوجائے کیونکہ مسلمانان عالم کے قلوب واذھان میں ان علماء عظام کی ایک خاص قدر وعظمت اور احترام وعزت اب بھی موجود ہے، ملاحظہ ہو وہ اقتباس!
     " قادیانیت کے بارے میں نہایت ثقہ اورقابل اعتمادلٹریچر کے مطالعہ کےبعد اور قادیانیوں کے عقائد،بانی قادیانیت کے حالات،قادیانیت کے اغراض ومقاصد اور اہداف کے مطالعہ کے بعد کونسل اس نتیجہ پر پہنچي ہے کہ  قادیانی  معتقدات، صحیح  اسلامی عقائد کے بالکل خلاف ہیں ۔قادیانیوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ان کے عقائد سے دورہٹاکرگمراہ کردیں، اس لئے کونسل نے باتفاق رائے یہ قرار دادپاس کی ہے کہ قادیانی  یا احمدی جماعت بلاشک وشبہ مکمل طور پر دائرہ اسلام سے خارج ہے قادیانی  کافر اور مرتد ہیں،ان کا اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنا دھوکہ وفریب ہے، لہذا اسلامی فقہی کو نسل یہ اعلان کرتی ہے کہ تمام مسلمانوں پر، ان کی حکومتوں، علماء،مصنفین،مفکرین، اور دعاۃ ومبلغین پر یہ فرض ہے کہ وہ دنیا کے ہر کونے اور گوشے میں اس گمراہ فرقے اور اس سے وابستہ لوگوں کی تردید میں کوئي دقیقہ فروگذاشت نہ کریں، وباللہ التوفیق۔
 دستخط:چیئرمین عبد اللہ بن حمید چیف جسٹس سپریم کورٹ سعودی عرب۔
دستخط: وائس چیئر مین محمد علی الحرکانی،سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی۔
دستخط ارکان: عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز،ڈائریکٹر ادارت بحوث علمیہ وافتاء ودعوہ وارشاد،سعودی عرب۔
مصطفی الزرقاء،محمدمحمودصواف،محمدبن عبداللہ سبیل،محمدرشید(دستخط کرنے سے پہلے سفر پر روانہ ہوگئے) ابوبکرجومی،صالح بن عثیمین،محمدرشیدقبانی،عبدالقدوس ہاشمی ندوی۔(فتاوی اسلامیہ1/233۔234مطبوعہ دارالسلام ریاض)۔
حوالہ جات:
(1)عرض بحضور گورنرپنجاب بتاریخ 14فروری1898ء تفصیل کیلئے دیکھئے"تبلیغ ورسالت " کی ساتویں جلد از میر قاسم۔
(2)کتاب البریہ ص146،کتاب تریاق القلوب ص68۔
(3)کتاب البریہ ص134،135 حاشیہ، 142، رسالہ اربعین نمبر 2 ص17،اشتہار ایک غلطی کاازالہ، تحفہ گولٹرویہ ص26،40 ضمیمہ حقیقۃ الوحی ص77۔
(4) کتاب البریہ ص134۔146،ستارہ قیصریہ ص3، تحفہ قیصریہ ص 14
(5)سیرۃ المھدی جط ص 7۔
(6)سیرۃ المھدی ج 1ص13،تشحیذالاذہان بابت 7/جون1906ءص5،بدر جون1906، ص5،ریویومئي 1927،ریویو اگست 1926، ص9۔10 بیاض نور الدین جز و اول ص211، ضمیمہ اربعین نمبر 3،4 ص 4۔
(7) الفضل قادیان 19/جولائي 1929ء۔
(8)مجموعہ اشتہارات مسیح موعود حصہ اول ص4،5۔
(9)سیرۃالمھدی ص31۔
(10) ازالۃ الاوھام ص 683، الاستفتاء ص 13،22،29،71۔
(14)مواہب الرحمن ص43۔
(15)تذکرۃ الشہادتین ص41۔
 (20)ستارہ قیصریہ ص3، مواھب الرحمن ص47۔
(21)اخبار الفضل مورخہ 19/6/1929ء۔
(22)اخبار الحکم مورخہ 7/2/1903م۔
(23)اخبار الفضل 21/اگست 1917ء
(24)قادیانی کافر کیوں؟از ارشاد الحق اثری ص15،مطبوعہ ضلع بدایوں
(25)قادیانیت اپنے آئینے میں۔از صفی الرحمن مبارکپوری ص255۔256،مکتبہ اسلامیہ ،لاہور۔
(26)کتاب  مذکور ص257۔
(27)مولانا محمد حنیف ندوی کی کتاب "مرزائیت نئے زاویوں سے" پر مقدمہ بقلم مورخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ص 20۔25۔
(28)یادرفتگان ص369۔371،مجلس نشریات اسلام،کراچی1983۔
(29)قادیانیت اسلام اور نبوت محمدی کے خلاف ایک بغاوت۔سید ابو الحسن علی ندوی ص14
(30)مرزائیت نئےزاویوں سے ص28۔30۔گزرگئي گزران از مولانا محمد اسحاق بھی ص 335۔336












Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ