Skip to main content

عقیدۂ توحیدکےچندبنیادی مسائل پرمختلف مکاتب فکر کے علماءکرام کے متفق بیانات


اصلاح معاشرہ:
عقیدۂ توحیدکےچندبنیادی مسائل پرمختلف مکاتب فکر کے علماءکرام کے متفق بیانات
                                                                                                                        ترجمانی:ابوعبدالعزیز محمدیوسف محمدعمر

        (قارئین کرام !دراصل عربی چینل"مستقلہ"ازلندن نے حق کے تلاش واظہارواحیاء اور باطل کو غلط ٹھہرانے اور اس سے لوگوں کو متنبہ کرنے کے عظیم جذبہ کے تحت مختلف مکاتب فکر کے ممتاز علماء کرام اور اسکالرز کو ایک اسٹیج پر جمع کر کے پوری دنیا کے سامنے درج ذیل مسائل پر مباحثہ کے لئے دعوت دی تھی جس میں شرکت کرنے والوں میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے نقطۂ نظرکو ثابت کرنےکے لئےدلائل کو سامنے رکھنے اور دوسرے نقطۂ نظرکے دلائل کا توڑ پیش کرنے کی کوششیں کیں، بالآخرصحیح دلائل کی روشنی میں تمام شرکاء نے درج ذیل بیانات جاری کرنے پر اتفاق کیا جو مذکورہ  چینل کے اسکرین کے علاوہ اس کے ویب سائٹ                             پر بھی نشر کئے گئےہیں،افادہ عام کی خاطر انہی متفقہ بیانات کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ اس سے اس بات کا واضح طورپر انکشاف ہوجاتا ہے کہ آج بھی دنیا میں حق کے متلاشی علماء کرام موجود ہیں کہ جن کے سامنے  جب حق واضح ہوجاتا ہےتو اسے قبول کرنے اور عوام  کے سامنے اسے بیان کرنے میں ذرا برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں ،لہذاایسے علماء کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے دعوت مباحثہ دینی چاہئے اور ہر ایک کو دلائل کی روشنی میں اپنے نقطۂ نظر بیان کرنے اور دوسرے کے نقطۂ نظر کو سننےسمجھنے اور اس سلسلہ میں غور وفکر کرنے پھر اظہار خیال کا موقع دینا چاہئے  اور اسے تمام لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے تاکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو ان کا متاع گم گشتہ نصیب ہوسکے اور وہ نور ہدایت سے سرفرازہو سکیں۔اللہ تعالی ہرجگہ کے دینی غیرت وحمیت رکھنے والے مسلمانوں کو اس طرف قد م اٹھانے کی توفیق عطا کرے!۔تو ملاحظہ کیجئے علماء کرام کےمتفقہ بیانات)
پہلا بیان
دعا کے وقت اللہ سبحانہ وتعالی ہی کی طرف توجہ کرنا واجب ہے اس سلسلہ میں سلفی،اخوانی،اورشیعی کا ایک متفقہ بیان
عربی چینل "مستقلہ" ازلندن اپنے ثقافتی پروگراموں کے یومیہ سیریل کے ضمن میں اپنے سربراہ ڈاکٹر محمد ہاشمی حامدی کی نگرانی میں ازیکم تاچھ رمضان1430ھ مطابق22تا27اگست2009ء"الحوارالصریح بعد التراویح"(تراویح کے بعد صریح مباحثہ)کے نام سے ایک پروگرام نشر کیاہے۔
          مباحثہ کا محور تھا: عقیدہ اور سیاست کے مابین تعلق ،بالخصوص توحید کے موضوع کے سلسلہ میں صوفی، سلفی اور اخوانی (جماعت اخوان المسلمین ) مکاتب فکر کا نظریہ ۔اس مذاکرہ میں تینوں مکاتب فکر کے نمائندوں نے حصہ لیا۔اور چھ رمضان 1430ھ بوقت شام پروگرام میں حصہ لینے والے  نمائندوں نے ناظرین کے سامنے درج ذیل متحدہ بیان جاری کرنے پر اتفاق کیا:
   "اس بناپر کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے فرمان (ادعونی استجب لکم) یعنی مجھ سے سوال کرو میں تمہاری مانگ کو قبول کرونگا،کے ذریعہ مسلمانوں کو اسی سے سوال کرنے اور اسی کی طرف متوجہ  ہونے کا حکم دیاہے۔لہذا مسلمان پر واجب ہےکہ  اپنے تمام امور وحالات میں اللہ سبحانہ وتعالی ہی  کا سہارا لے کیونکہ  وہی سبحانہ وتعالی بخشش وعطیات کا منبع وسرچشمہ ہے۔اور جب کوئي جاہل مسلمان غلطی کرے اور غیر اللہ سے دعا کا قصد کرے تو ایسی صورت میں علماء پرواجب ہےکہ اسے کافر قرار دینے کے بجائے اس کے سامنے صحیح  طریقہ کی وضاحت کریں۔
ہم اپنے تمام دینی بھائیوں سے عرض کرتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سےیہ مطالبہ ہے کہ اپنے سارے امور واحوال میں اللہ سبحانہ وتعالی کا سہارا لیں۔
      قابل غور حالت یہ ہےکہ بعض لوگ غیر اللہ کو پکار کر غلطی کا شکار ہوتےہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں اور ہم نے اپنےباپ داداؤں کو ایسے ہی کرتےہوئے پایاہے، حالانکہ یہ خطا ہے۔
     مسلمان کے لئے ضروری ہےکہ وہ اپنے دین کا جانکار ہو ،نیزاس بات کی معرفت حاصل ہو کہ  اس پر اپنے تمام امور وحالات میں اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف اپنے دل سے رجوع کرنا واجب ہے،اور اس کے علاوہ کسی اور کا سہارا پکڑنا اس کے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ اسی کے ہاتھ میں نفع ونقصان  کی قدرت ہے۔
صلی اللہ علی سید نا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم والحمد للہ رب العالمین"
بیان پردستخط کرنے والے مہمانوں کے اسماء گرامی:
1۔ شیخ جمعہ امین، عضومکتب الارشادا لجماعۃ الاخوان المسلمین ،جمہوریہ مصر۔
2۔ ڈاکٹر عبد الرحیم ملازادہ بلوشی، ایرانی اسکالروفاضل اسلامی اسٹڈیز،(نمائندہ ازسلفی مکتب فکر)
3۔ڈاکٹرجلال الدین محمد صالح اریتری،پروفیسر،فاضل اسلامی اسٹڈیز،(نمائندہ ازسلفی مکتب فکر)
4۔ شیخ محمدیحی کتانی، امام جامع سیدی یاقوت العرش،اسکندریہ، جمہوریہ مصر،(نمائندہ ازصوفی مکتب فکر)
5۔علامہ مجتہد سید علی الامین، سابق مفتی صور الجعفری نے پروگرام ہی میں بیان مذکورپر بذریعہ ٹیلیفون اپنی موافقت ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ اسے سراہا ،اور دستخط کرنے والوں کے ضمن میں اپنے نام کے اضافہ کی درخواست کی۔
دوسرا بیان
نبیوں اور ولیوں سے فریاد ومدد طلب کرنے کی عدم صحت پر سلفی،اخوانی،اورشیعی کا ایک متفقہ بیان
   عربی چینل"مستقلہ" ازلندن اپنے ثقافتی پروگراموں کے یومیہ سیریل کے ضمن میں اپنے سربراہ ڈاکٹر محمد ہاشمی حامدی کی نگرانی میں ازیکم تاپندرہ رمضان1430مطابق22اگست تا5ستمبر2009ء"الحوارالصریح بعد التراویح"(تراویح کے بعدصریح مباحثہ) کے نام سے ایک پروگرام نشرکیاہے۔
      مباحثہ کا محور تھا :عقیدہ اور سیاست کے مابین تعلق، اور بالخصوص توحید کے موضوع کے سلسلہ میں صوفی،سلفی،اخوانی(جماعت اخوان المسلمین)اور شیعی مکاتب فکر کانظریہ۔اس مذاکرہ میں مذکورہ مکاتب فکرکے نمائندوں  نے حصہ لیا۔
اور سلفی، اخوانی اور شیعی مکاتب فکر کے نمائندوں نے درج ذیل متحدہ بیان جاری کرنے پراتفاق کیا:
         چینل"مستقلہ" کےپروگرام"الحوار الصریح بعد التراویح"(تراویح کے بعد صریح مباحثہ) میں شرکت کرنے والے مہمانوں نے بروز سنیچر15رمضان 1430ھ کے پروگرام میں اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی دوسرے سے دعاکے قصدکرنےکے صحیح نہ ہونے پراتفاق کیا۔
      نیز اس بات پر بھی اتفاق  کیا کہ غیر اللہ سے مدد طلب کرنا صحیح نہیں ہے۔اور استغاثہ کی ایسی صورت جس میں داعی یہ کہے کہ مدد یا رسول اللہ ، یا مددیاعلی مدد، مدد یا جیلانی مدد،مددیا بدوی مدد،یا رسول اللہ میری مدد کیجئے،یاعلی مجھے بچائیں،یاجیلانی میری مدد کیجئے وغیرہ صیغوں کی عدم صحت پر اتفاق کیا کیونکہ یہ الفاظ اپنے لغوی دلالت  کے اعتبار سے "منادی"(جس  کو پکارا جارہا ہے ) سے براہ راست بمدد طلب کرنے کے سلسلہ میں ظاہرہے۔اور ان صیغوں میں یہ منادی غیراللہ ہے۔
        اور جب کوئي مسلمان نبیوں اور ولیوں سے فریاد ومدد طلب کرنے کے سلسلہ میں غلطی کرے تو علماء پر واجب ہےکہ اسے کافر قرار دینے کے بجائےاس کے لئے صحیح طریقہ کی وضاحت  کریں۔
صلی اللہ علی سیدنا محمدوعلی آلہ وصحبہ وسلم والحمد للہ رب العالمین
بیان مذکور پر دستخط کرنے والے مہمانوں کے اسمائے گرامی: 1۔ شیخ جمعہ امین، عضومکتب الارشاد لجماعۃ الاخوان المسلمین ،جمہوریہ مصر۔
2۔علامہ مجتہد سیدعلی الامین ،سابق مفتی صور الجعفری۔
3۔ ڈاکٹر عبد الرحیم ملازادہ بلوشی، ایرانی اسکالروفاضل اسلامی اسٹڈیز،(نمائندہ ازسلفی مکتب فکر)
4۔ڈاکٹرجلال الدین محمد صالح اریتری،پروفیسر،فاضل اسلامی اسٹڈیز،(نمائندہ ازسلفی مکتب فکر)
5۔الشریف عبد الحلیم عزمی، مصری رائٹر،ایڈیٹرآف میگزین"الاسلام وطن"،صوفیا کے عزمیہ کے نمائندہ،شیخ عزمی نے مباحثہ کے ایک دن بعد 16رمضان کو موافقت کی۔
6۔شیخ نبیہ الاسماعیل:شیخ طریقہ قادریہ، دمشق،موصف نے بذریعہ ٹیلیفون مداخلت کر کے بلا کسی پیش بندی کے موافقت ظاہرکی۔
7۔ شیخ عامر شعبان :ڈپٹي صوفی سپریم کونسل، جمہوریہ مصر، انہوں نے بھی بذریعہ ٹیلیفون بیان مذکور پر بلا کسی احتیاط کے اپنی مواقفت کا اعلان کیا۔
تیسرا بیان
قبروں پر مسجدوں کی تعمیر کی ممانعت کے سلسلہ میں سلفی،اخوانی،اورصوفی کا ایک متفقہ بیان

    عربی چینل"مستقلہ" ازلندن اپنے ثقافتی پروگراموں کے یومیہ سیریل کے ضمن میں اپنے سربراہ ڈاکٹر محمد ہاشمی حامدی کی نگرانی  میں ازیکم تابیس رمضان1430ھ مطابق 22اگست تا11ستمبر2009ء"الحوار الصریح بعد التراویح"(تراویح کے بعدصریح مباحثہ) کے نام سے ایک پروگرام نشرکیاہے۔
        مباحثہ کا محور تھا :عقیدہ اور سیاست کے مابین تعلق، اور بالخصوص توحید کے موضوع کے سلسلہ میں صوفی،سلفی،اخوانی(جماعت اخوان المسلمین)اور شیعی مکاتب فکر کانظریہ۔ اس مذاکرہ میں تینوں مکاتب فکر کے نمائندوں نے حصہ لیا۔ اور ان مہمانوں نے درج ذیل متحدہ بیان جاری کرنے پر اتفاق کیا:
       اللہ تعالی  نے مسجدوں کو اپنی عبادت وذکر اور ان میں اقامت نماز کے لئے تعمیر کرنے کو مشروع قرار دیا ہے،فرمان الہی ہے: {وان المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا}(سورہ جن:18) اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالی  کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔فرمایا{فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ، یسبح لہ فیھا بالغدووالاصال، رجال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورۃ النور:36۔37)ان گھروں میں جن کے بلند کرنے ،اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے،وہاں صبح وشام اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر اور نماز کے قائم کرنے اورزکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔
        اور یہ بات صحیح ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سابقہ امتوں کے بعض ان دیندار لوگوں پر سخت نکیر فرمائي جنہوں نے قبروں پرمسجدیں بنا ڈالی تھیں  اور ان میں تصویریں  رکھ دی تھیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:(اولئک اذامات فیھم الرجل الصالح نبوا علی قبرہ مسجداوصوروافیہ تلک الصور اولئک شرارالخلق عند اللہ) یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئي نیک آدمی مرجاتا تو ان کی قبر پر مسجد بنالیتے ،اور اس میں ان کی تصویریں بنا کر رکتھے،یہ لوگ اللہ تعالی  کے نزدیک سب سے بری مخلوق ہیں۔
         نیز یہ بھی پائيہ  ثابت ہےکہ نبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم  نے اپنی رفیقۂ حیات ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا یا اپنے لخت جگرابراھیم یا بدرواحدیا آپ کی حیات مبارکہ میں پیش آنے والے معرکہ جہاد میں شہیدہونے والوں میں سے کسی بھی شہید کی قبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مسجد نہیں بنائي۔
     اسی طرح یہ بھی پایۂثبوت کو پہنچي ہوئي بات ہے کہ خلفاء راشدین نےکبار صحابہ کرام کی قبروں پر مسجدیں نہیں بنائي۔سید نا علی رضی اللہ عنہ  نے بھی ان اہل بیت کی قبروں پر مسجدیں نہیں  تعمیر کو جن کی وفات ان کی زندگی میں ہی ہوگئي تھی ۔
       نیز یہ کہ اسلامی تاریخ کے مشہور ترین ائمہ فقہ نے قبروں پر مسجدوں کی تعمیر کو سخت ناپسند قرار دیاہے۔چنانچہ اما م شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اور میں قبر پر مسجد تعمیر کرنے کو ناپسند کرتا ہوں ،اور اسے برابر کردی جانی چاہئے،یا ایسی قبر کےاوپر نماز پڑھی جائے جس کا قبر ہونا واضح ہویا قبر کی طرف رخ کر کےنماز پڑھی جائے۔"
     اور جب قبر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے تو پھر یہ بات صاف ہے کہ امام شافعی اپنے مذکورہ پیراگراف میں کراہت تحریمی ہی کی بات کررہے ہیں۔
موصوف امام مزید فرماتے ہیں :" اور میں کسی مخلوق کی یوں تعظیم کرنے کو حرام سمجھتا ہوں کہ اس کی قبر کو مسجد بنالی جائے، اس خوف سے کہ کہیں وہ یا دوسرے لوگ فتنہ میں گرفتار نہ ہو جائیں۔"
        خود احناف سے بھی قبر پر مسجد تعمیرکرنے کے مکروہ  تحریمی ہونے کا قول ثابت ہے، چنانچہ امام محمد حسن رحمہ اللہ۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ  کے شاگرد رشید۔ فرماتے ہیں :"ہم قبر کی مٹی سے زائد مٹی ڈالنے کو جائز نہیں سمجھ تے ہیں اور قبر کو چونا گچھ کرنے ،لیپا پوتی کرنے اور اس کے پاس مسجدبنانے کو حرام سمجھ تےہیں۔"
         یہی رائے علماء مالکیہ سے بھی منقول ہے، چنانچہ امام قرطبی مالکی فرماتےہیں:" انبیاء اور علماء کی قبروں کو مسجدیں بنانامسلمانوں پر حرام ہے۔:"اسی کے قائل ہیں دور حاضر کے علماء مالکیہ میں سے شیخ طاہر بن عاشور تونسی۔
        حنابلہ سے بھی یہی منقول ہے، چنانچہ امام ابن القیم فرماتے ہیں:"امام احمد وغیرہ نے اس کی حرمت پر نص پیش کیا ہے،خلاصہ یہ کہ دین اسلام کے اندر مسجد اور قبر یکجا نہیں ہوسکتے ، بلکہ ان میں سے جو بھی دوسرے پر غالب آئیگا اس سے روک دیا جائیگا، اور فیصلہ پہلے کے حق میں ہوگا۔"
       اور یہی رائے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے، چنانچہ"وسائل الشیعہ" نامی کتاب میں محمد بن علی بن حسین کی سند کے حوالہ سے موجودہے کہ سماعہ بن مھران نےابو عبد اللہ علیہ السلام سے قبروں کی زیارت اور ان پر مسجدوں کی تعمیرکےبارے میں سوال کیا؟ تو امام جعفرنےفرمایا:قبروں کی زیارت میں کوئي حرج نہیں ہے، لیکن ان کے پاس مسجدیں  تعمیر نہیں کی جائیں گي۔اسے روایت کیا ہے کلینی  نے احمد بن محمدسے اس نے عثمان بن عیسی  سے وہ سماعہ سے ،سماعہ نے کہا:میں نے ان(جعفر)سے پوچھا۔۔۔۔۔
      اور علماء معاصرین کی ایک بڑی تعداد جن میں ازھر شریف کے مشائخ کی ایک خاصی تعداد بھی ہے ان سب کی یہی رائے ہے،انہوں نے سختی کے ساتھ قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنے سے روکاہے۔اور یہ واضح بات ہے کہ قبروں پر مسجدوں  کی تعمیر کی مما نعت کی حکمت یہ ہے کہ صالحین کی تعظیم میں گرفتار نہ ہو۔ جائے،اور ان کے سلسلہ میں حد سے تجاوز کرجانے کے وسائل کا سد باب کیا جائے،اور نفع ونقصان پر ان کی قدرت کا اعتقاد رکھنے کو باطل قرار دیا جائے کیونکہ  یہ عقیدہ توحید خالص کا مخالف ہے یا اسکے صاف وشفاف چہرہ کو داغدارکرتاہے۔
      سطوربالا کی بناپر ہم تمام مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنے سے پرہیز کریں اور صالحین وغیر صالحین کو مسجدوں میں دفن نہ کریں ہمارے اعتقاد میں یہی طریقہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کے موافق ہے۔
       اسی طرح ہمارے خیال میں یہی رائے اس مسلمان کے لئے زیادہ قابل احتیاط ہے جو شبہات سے دور رہنے کا عزم رکھتاہو،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مشہور  حدیث پر عمل کرتے ہوئےکہ " حلال چیزوں کا حکم بالکل واضح ہےاورحرام چیزوں کا حکم بھی واضح ہے ان دونوں حلال وحرام کے درمیان کچھ امور ہیں جنکی حلت وحرمت کو اکثر لوگ نہیں جانتے،پس جو شخص اس قسم کی غیر واضح اشیاء سے بچ گيا اس نے اپنے دین اور عزت کوبچالیا۔اور جو شخص اس قسم کے امورکو اختیار کرنے لگے وہ حرام میں جاپڑےگا جیسا کہ کوئي  چراوہا چراگاہ کے آس پاس جانوروں کو چرائے تو ہوسکتا ہےکہ جانورچراگاہ میں جاپہنچیں۔خبردار!ہربادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالی کی چراگاہ سے مراد اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں۔خبردار!جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے۔خبردار گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔(صحیح بخاری:52/2051،صحیح مسلم:1599)
      دنیا کے ہر کونہ میں بسنے والے مسلمانوں  میں سےاگر کوئي یہ سمجھتا ہو کہ قبروں پر مسجد یں تعمیر کرنا صرف مکروہ ہے نہ کہ حرام تو ہم ان سے بطور نصیحت عرض کرتے ہیں کہ مکروہ (ناپسندیدہ)چیز کے ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالی کا تقرب حاصل نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اللہ تعالی ایسے بندہ کو ثواب عطا کرتا ہے جو اس کی رضا کی خاطرمکروہ چیز کو چھوڑدیتاہے۔
       اور جو لوگ صالحین کی قبروں پر ان کی یاد گار کی خاطر مسجدیں بنانے کو جائز سمجھتے  ہیں ان سے ہم عرض کرتے ہیں کہ مسجدوں کے علاوہ دوسرے کئي متبادل چيزیں موجود ہیں جن کی مشروعیت  میں کوئي شک وشبہ نہیں ہے مثال کے طور پر صالحین کے نام سے رفاہی ادارے یا علمی مراکزقائم کرنااور ان اداروں اور سینٹروں سے معاشرہ کی خدمت،علم کی نشرواشاعت اور صالحین کے علمی سرمایہ کی حفاظت کا کام لینا۔
صلی اللہ علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وسلم، وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
بیان مذکور پر درج ذیل علماء کرام نے دستخط فرمایاہے:
1۔شیخ جمعہ امین،عضومکتب الارشاد لجماعۃ الاخوان المسلمین ،جمہوریہ مصر۔
2۔شیخ نبیہ الاسماعیل:شیخ طریقہ قادریہ،دمشق۔
3۔ڈاکٹر عبد الرحیم ملازادہ بلوشی۔ایرانی اسکالر وفاضل اسلامی اسٹڈیز،(نمائندہ از سلفی مکتب فکر)
4۔ڈاکٹر جلال الدین محمد صالح اریتری، پروفیسر، فاضل اسلامی اسٹڈیڑ،(نمائندہ از سلفی مکتب فکر)

علامہ سید علی امین کا موقف
     شیعی  علامہ ومجتہد سید علی امین نے اس تیسرے بیان پر دستخط نہیں کئے، لیکن بیان سے قریب تر رائے کا اظہارفرمایا، چنانچہ انہوں نے کہا کہ : بیان کا نص یوں ہونا چاہئے: الحوار الصریح بعد التراویح کے اختتام پر مباحثہ میں شریک علماء کرام نے مسلمانوں کو درج ذیل نصیحت کی:
          اللہ تعالی کے گھروں اور اس کی مسجدوں میں اولیاءصالحین اور مسلمانوں کے دوسرے مردوں کو دفنا یا نہ جائے،اور ضریحوں اور قبروں پر مسجدیں نہ بنانا ہی اولی وبہتر ہے،والحمدللہ رب العالمین۔"












Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ