Skip to main content

خادم علم مولانا عبدالحکیم صاحب بٹنوی


سیرت وسوانح:
 

علماء اہلحدیث مالدہ اور ان کی دینی خدمات
(2)" خادم علم مولانا عبدالحکیم صاحب بٹنوی"
ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی"                                                                    

نام ونسب:آپ کا نام نامی اسم گرامی عبد الحکیم ہے، آپ کے والد ماجد کا نام عبد الشکور ہے، سلسلۂ نسب  غیر معلوم۔
ولادت وپرورش: آپ کی ولادت باسعادت ضلع مالدہ، رتوا تھانہ کے اندر واقع چرخی نامی بستی میں ہوئی، یہ بستی مدرسہ مظہر العلوم بٹنہ سے کچھ فاصلہ پر غالبا مغرب جانب واقع ہے، تاریخ ولادت غالبا1888ء ہے۔ مولانا کی ابتدائی پرورش وپرداخت اپنے والدین کے ہاتھوں ہوئی، آپ کا خاندان نیک اور اس کا  ہر فرد صوم وصلاۃ کا پابند تھا ، آپ کے والدین اسلامی شعائر کے پابند تھے ، متقی وپرہیزگار تھے، چنانچہ اس صالح ماحول ومعاشرہ میں آپ کی تربیت وپرورش ہوئی، بچپن ہی سے آپ تحصیل علم کی جانب راغب تھے، رواج کے مطابق سب سے پہلے  مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔
تعلیم کی غرض سے مولانا رضاء اللہ صاحب کی خدمت میں:
چنانچہ مکتب کے بعد آپ  مولانا رضاء اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، جو رتوا تھانہ ہی کے اندر واقع "بابلہ بونا" نامی بستی  کے رہنے والے تھے اور وہیں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے تھے ، موصوف کا اس وقت کے بڑے علماء میں شمار ہوتا تھا ، مشہور اور ذی علم تھے، فارسی زبان میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی ، طلبہ دور دراز علاقے سے آکر آپ کے حلقہ درس میں داخل ہوتے تھے اور آپ سے خوب خوب استفادہ کرتے تھے ۔ چنانچہ مولانا عبد الحکیم صاحب بھی ان کی شہرت سن کر  ان کے حلقۂ درس میں داخل ہوئے اور چھے سال تک مسلسل جدو جہد کے ساتھ عربی  وفارسی کی ٹھوس تعلیم ان سے حاصل کی ، لیکن یہاں آپ کی طبیعت مطمئن نہ ہوئی بلکہ مزید علمی شوق دل میں موجزن ہونے لگا۔
کانپور (یوپی) کا سفر!چنانچہ ا علی تعلیم کیلئے  آپ نے اپنا وطن ترک کیا اور کانپور کی جانب عازم سفر ہوئے، اس وقت اعلی تعلیم کی غرض سے علماء وطلبائے بنگال عموما کانپور اور دہلی کے مدارس کا رخ کیا کرتے تھے ، اسی رواج کے مطابق مولانا موصوف کانپور پہونچے اور یہاں کے کسی مشہور مدرسہ  میں داخل ہوگئے، ہمیں اس مدرسہ کا نام معلوم نہ ہوسکا، غالبا آپ یہاں تین چار سال تک زیر تعلیم رہ کر فارغ التحصیل ہوئے۔
وطن واپسی اور قیام مدرسہ وتدریس! کانپور میں جب آپ کی تعلیم مکمل ہوگئی تو آپ وہاں سے وطن واپس ہوئے،17/18سال کی عمر ہی میں آپ سارے علوم  وفنون میں اچھی خاصی سترس حاصل کرچکے تھے  ،خصوصا صرف،نحو،فقہ، اصول فقہ، منطق، فلسفہ، حدیث، علوم حدیث اور تفسیر واصول تفسیر ان سب میں آپ ماہر تھے ۔ ابتداء ہی سے آپ کے دل کے اندر خدمت علوم دین کا شوق وجذبہ موجزن تھا، آپ سوچاکرتے تھے کہ مالدہ ضلع کے اندر کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہئے جس میں بنگالی  طلبہ اپنی علمی تشنگی بجھا سکیں، چنانچہ یہی فکر وسوچ لیکر گھر پہونچ کر سب سے پہلے آپ نے ایک مدرسہ کی داغ بیل ڈالنے کیلئے لوگوں سے مشورہ شروع کیا اور ان کو خدمت دین پر ابھارنے لگے ، اس زمانے میں لوگ قیام مدرسہ  کو ایک مصیبت خیال کرتے تھے اور بیکار سمجھتے تھے، اسی وجہ سے کسی مدرسہ کا وجود نہیں تھا بلکہ علماء اپنے اپنے گاؤں میں ہی حلقۂ درس قائم کئے ہوئے تھے جہاں علاقے کے طلبہ آکر علم دین حاصل کرتے تھے، لیکن مولانا برابر گاؤں وعلاقہ کے عوام کو برانگیختہ کرتے رہے، آخر کار اس  کار خیر کیلئے لوگوں کو شرح صدر حاصل ہوا اور ایک مدرسہ کے قیام کیلئے تیار ہوگئے، چنانچہ1905ءمیں آپ اور حاجی سوداگر علی صاحب دونوں ملکر بٹنہ میں مدرسہ مظہر العلوم کی سنگ بنیاد ڈالی اور کچھ ہی دنوں کے اندر مدرسہ کی عمارت بن کر تیار ہوگئی اور تعلیم کا باقاعدہ آغاز بھی ہوگیا، مولانا موصوف تاحیات اس مدرسہ کے ناظم رہے اور ایک مدرس  کی حیثیت سے بھی وقتا فوقتا کام کرتے رہے، لوگوں کی رضامندی کے باوجود تنخواہ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ سے مدرسین کو بڑی کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، خود مولانا کی کل تنخواہ13روپیے تھی، سات روپیے گاؤں کے لوگ دیتے تھے اور یونین بورڈ کی طرف سے چھے روپیے، موصوف تقریبا  دس پندرہ سال تک لگاتار اسی میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اس کےبعد آپ نے سیاسی میدان میں قدم رکھا، اور یونین بورڈ کے صدر منتخب کیےگئے،کچھ دن بعد بورڈ کا چیرمین بنے  پھر کچھ ایام بعد کورٹ جج کے جوڑی کا حاکم بنے۔ مولانا عبد المتین سلفی صاحب کا بیان ہے کہ مولانا سرکاری سطح پر بہت مقبول انسان تھے ، قاضی کے عہدہ پر فائز ہوئے تھے اور سول کورٹ کےجج کے اڈبھائزر بھی بنے تھے ۔ اس طرح آپ نے اس میدان میں 27سال گزر ا، اس عرصہ میں بھی آپ برابر مدرسہ کی خبر گیری کرتے رہے، اور اس کی ترقی کیلئے سوچتے  رہے نیز اپنی جانی مالی تعاون سے اساتذہ کے ہاتھ بٹاتے رہے،  کبھی کبھار کسی مدرس کی عدم موجودگی میں خود ہی درس دینےبیٹھ جایا کرتے تھے ۔ 27سال بعد جب 1947ء میں ہندوستان پنجۂ فرنگی سے آزاد ہوا تو جنگ آزادی میں جہاں مسلمانوں کی بیشمار جانی ومالی نقصانات ہوئے وہیں دارالحدیث رحمانیہ دہلی جوہندوستانی اہلحدیثوں کا روحانی مرکز تھا اس منحوس جنگ کی نذر ہوگیا، اور طالبان علوم نبوت کے سامنے طلب علم ایک مشکل امر بن گیا ، ان کیلئے کوئی ایسا ادارہ نہ رہا کہ جس میں رہ کر وہ کتاب وسنت کی صاف ستھری تعلیم حاصل کرسکیں تو اس پر آشوب وقت میں مولانا بٹنوی صاحب کے  دل میں یہ خیال آیا کہ اب بنگال وبہار کے طلبہ کیلئے  کوئی ایسا بڑا ادارہ قائم ہونا چاہئے کہ جس میں وہ بلامشقت اور دور دور کے سفر کے مصائب برداشت کئے بغیر آرام وچین کے ساتھ تحصیل علم میں مشغول ومنہمک رہ سکیں، چنانچہ اسی خیال کے پیش نظر آپ نے مدرسہ مظہر العلوم کی توسیع وترقی کی جانب عنان توجہ مبذول کی جس کی وجہ سے سرکاری ملازمت ترک دی، آپ کو ہر وقت یہ فکر ستاتی رہتی کہ کیونکر اس مدرسہ کو ترقی کی اعلی منزل پر پہونچایا جائے اور باصلاحیت اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائے کہ جن سے ہمارے وطن کے طلبہ خاطر خواہ کسب علم اور استفادہ کرسکیں، چنانچہ  آپ کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور ایک ہی سال کے اندر مدرسہ اتنا ترقی کرگيا کہ اس وقت پورے بنگال میں اتنا بڑا دینی ادارہ موجود نہ تھا  اور نہ ہی اسکے اساتذہ کے مانند قابل وباصلاحیت اساتذہ تھے۔
اس کی شہرت دور دور تک  پھیل گئی۔اور طالبان علوم نبوت اس کا رخ کرنے لگے،مولانا موصوف نے اس میں دار الحدیث رحمانیہ کے نصاب تعلیم کو جاری کیا ، آپ جب  کبھی سنتے کہ فلاں جگہ ذی علم باصلاحیت اور مشہور عالم ہیں تو ان کی خدمت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش فرماتے خواہ تنخواہ کتنی ہی زیادہ دینی  پڑتی، اس کی آپ کو کوئی پرواہ نہ ہوتی، در اصل آپ کی دلی خواہش تھی کہ مدرسہ مذکور کو پورے بنگال میں سب سے بڑا ادارہ بنایا جائے، اسی وجہ سے ہندوستان کے کونے کونے سے مشہور ومعروف علماء کی خدمات حاصل کرنے کی سعی کرتے، چنانچہ اسی سلسلہ میں شیخ الحدیث علامہ  عبید اللہ عنبری، علامہ سلیمان پیغمبر پوری، مولانا ظہور احمد نیستاپوری دربھنگوی، مولانا دوست محمد ندوی مالدہی، مولانا جمال الدین رحمانی، شیر بنگال مولانا ابراھیم صاحب، مولانا عبد الوھاب غازی خراسانی (عرف باگ مولوی) ،مولانابرھان الدین دیوبندی، مولانا ابوبکر ھارونی، مولانا عبد الجلیل دیوبندی، مولانا ابوبکر گیاوی، مولانا عبد التواب پرانپوری مالدہی، مولانا عبد التواب کو سولی مالدہی رحمھم اللہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد مسلم رحمانی وغیرھم جیسے اساطین علم وفضل اور چیدہ چیدہ علماء ومشائخ کی خدمات مختلف اوقات میں اس مدرسہ کیلئے حاصل کی گئیں، اور مولانا نے اپنی مساعی جمیلہ سے واقعۃ مدرسہ ھذا کو مغربی بنگال کے اندر سب سے بڑا ادارہ بنادیا۔اطراف  واکناف سے اچھے اچھے ،ذہین وفطین طلبہ تحصیل علم کی خاطر، اس کی شہرت وناموری سن کر جوق در جوق آنے لگے، اور کسب علم میں مستغرق ہوگئے اور اپنی مسلسل سعی وپیہم کوشش سے علوم مختلفہ حاصل کر کے فارغ ہو کر کوئی تو اپنے علاقہ کے مدرسہ وجامعہ کے شیخ الحدیث بنےتو کوئی مفتی، اور کوئی تبلیغ واشاعت دین کی ذمہ داری سنبھالی اور کوئی میدان خطابت میں مشہور  ونامور ہوئے ، غرضیکہ مولانابٹنوی صاحب اس کا ر خیر میں پوری زندگی وقف کردی اور دن رات اسی مدرسہ کی خدمت میں گزار دیئے، نیچے درجےکے طلبہ کو پختہ بنانے اور عربی وفارسی قواعد مضبوط کرنے کی خاطر قواعد کی چھوٹی چھوٹی کتابیں   اپنی پیری  کےباوجود پڑھاتے تھے ، آپ کےاندرخدمت علم کیلئے  ایک تڑپ ،ایک لگن اور ایک جذبہ وشوق تھا ، اخلاص وللہیت اور دیانتداری کے پیکر تھے، جامع اعظم  دہلی کے صدر مدرس علامہ احمد قریشی صاحب کو بھی آپ نے مدعو کیا ، آپ نے اس دعوت پر لبیک کہا اور مدرسہ مظہر العلوم میں تقریبا تین سال تک تدریسی خدمت انجام دیتے رہے ، پھر اپنا وطن واپس چلےگئے۔
تلامذہ:آپ کے بیشمار تلامذہ  وشاگرد ہیں ، بقول  شیخ عبد المتین سلفی"اکثر وبیشتر علماء بنگال بلاواسطہ یا بالواسطہ آپ سے مستفید ہوئے ہیں بلکہ بنگال کے سارے علماء ، آپ کے شاگرد ہیں"۔مولانا عبد الوھاب صاحب رحمانی شیخ الحدیث  جامعۃ الامام البخاری کشن گنج، اور مولانا عبد الرحمن مظہری والد مولانا عبد المتین سلفی صاحب وغیرہ آپ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔
اخلاق وعادات:آپ بلند پایہ اخلاق والے تھے ، خاضع وخاشع انسان تھے ، طلبہ سے محبت کے ساتھ ملتے جلتے اور دریافت حال کرتے، پورے علاقے کے حاکم رہے ، آپ کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تھا ، آپ نے عوام کی بہت زیادہ خدمات کی ، کریم النفس اور سلیم الفطرت اور عالم باعمل آدمی تھے، موصوف درمیانی عمر میں دنیاداری میں مشغول ہوگئے تھے،مگر پھر اس کو ترک کر کے دینداری، دیانتداری، امانتداری، پرہیزگاری، میں مشغول ہوگئے اور زاھد قسم کے آدمی بن گئے، آپ کو فارسی زبان میں خاص مہارت تھی، اشعار پڑھاتے تو اوزان پر تقطیع کراکے پڑھاتے۔
وفات:بروایت مولانا عبد الوھاب رحمانی صاحب جب موصوف مولانا بستر مرگ پر لیٹے ہوئے موت  کا انتظار کررہے تھے ، اس وقت موصوف اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں سے فرماتے کہ دیکھو یہ سارے مہمان کھڑے ہیں ان کو بیٹھنے دو، غالبا آپ کی وفات  کے وقت فرشتے یا جنات کی جماعت حاضر ہوئی تھی جسے دیکھ کر آپ نے فرمایا تھا کہ ان کو بیٹھنے دو جبکہ وہاں موجود لوگوں کوکوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔بہر حال لوگوں سے آپ اسی قسم کی باتیں کررہے تھے اور کلمۂ توحیدوردزبان تھا کہ علم وعمل کا یہ پیکر اخلاص 75 سال کی عمر میں 1963 ء میں  موت کے آغوش میں جاپہنچے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ