Skip to main content

مولانا محمد ابراھیم صاحب شیر شاھی


سیرت وسوانح:
 

علماء اہلحدیث مالدہ اور ان کی دینی خدمات
(1)" مولانا محمد ابراھیم صاحب شیر شاھی"
ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی"                                                                    

 نام ونسب: آپ کا اسم گرامی  محمد ابراھیم ہے ۔ لقب"شیر بنگال" ہے ، نہ آپ کے والد کا نام معلوم ہوسکا اور نہ آپ کا نسب نامہ ۔ البتہ آپ بنگالی  الاصل ہیں اور ضلع مالدہ کے شیر شاھی  نامی گاؤں (کلیا چوک کے  رہنے والے ہیں جس کی جانب منسوب  ہو کر شیر شاھی کہے جاتے ہیں ۔
پیدائش : آپ کی جائے ولادت اپنا مادر وطن  شیر شاھی ہی ہے ، غالبا سن ولادت 1856ء ہے۔
پرورش وابتدائی تعلیم : آپ کی پرورش وپرداخت  اپنے والدین کے ہاتھوں ہوئی تھی ، چونکہ آپ بچپن ہی سے ہوشیار اور ذہین تھے اس لئےآپ کے والد محترم  نے آپ کو ہوش سنبھالنے کے بعد مکتب میں داخل کردیا جہاں  آپ اپنی مادری زبان بنگلہ کی ابتدائی کتابیں اور اردو عربی کی بھی ابتدائی  کتابیں پڑھی، پھر جب کچھ بڑے ہوئے اور گھر سے باہر دور مدرسہ میں رہنے کی ہمت ہوگئی  تومالدہ ضلع ہی کے کسی مدرسہ میں ایک دو سال رہ کر ادنی الف وغیرہ  درجہ  کی کتابیں پڑھی اور عربی فارسی  کی ابتدائی  کتابیں خوب اچھی طرح پڑھ لی ۔
 تحصیل علم کیلئے سفر:  اس کے بعد آپ  نےاپنا مادر وطن ترک  کر کے تحصیل علم  کی خاطر  یو پی کیلئے رخت سفر باندھا  اور یہاں پہنچ  کر کسی مدرسہ میں داخلہ  لیکر  درجہ  ادنی "ب" سے لیکر فراغت تک کی تعلیم  حاصل کی ، اس مدرسہ کا نام  معلوم نہ ہوسکا  اور  نہی اس کے اساتذہ کے بارے میں علم ہوا ، البتہ یہاں سے فارغ  التحصیل  ہونے کے بعد آپ دہلی کیلئے  عازم سفر  ہوئے جہاں اس وقت شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی  کے درس حدیث کا دور دورہ  تھا اور پوری دنیا میں اس کی شہرت تھی ۔ چنانچہ  آپ مزید اعلی تعلیم  اور علمی تشنگی  کو بجھانے کیلئے دہلی  پہونچ کر میاں صاحب کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئے  اور ایک مدت تک اس درس گاہ  کے خوشہ چیں رہے اور بالآخر صحیحین وغیرہ پڑھ کر فارغ ہوگئے۔ ہمیں اس بارے میں کوئی بات معلوم نہ ہوسکی  کہ آپ کس عمر میں میاں صاحب  کے پاس تشریف  لے گئے تھے ، اور وہاں آپ کی مدت تعلیم  کیا رہی ؟ اور پھر کس سال فارغ ہوئے؟ بہر حال بروایت مولانا عبد الوھاب رحمانی : آپ شیخ الکل کے آخری  تلامذہ میں سے ہیں ،نیز آپ شیخ الکل کی وفات  کے وقت دہلی ہی میں تھے اور آپ کے کفن دفن میں موصوف شریک بھی تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ 19ویں صدی کے بالکل اواخر میں دہلی  پہنچے ہونگے  اور کئے سال  تحصیل علم میں مشغول ومنہمک رہ کر اپنے استاذ محترم کی وفات کے بعد 1902ء میں اپنا وطن واپس ہوئے ہونگے  یا یہ کہ آپ پہلے ہی فارغ ہو کر وطن لوٹ گئے ہوں اور پھر شیخ الکل کی وفات کے وقت دہلی گئے ہوں۔ بہر حال سید صاحب  کے تلامذہ میں سے ہیں۔
وطن واپسی اور دو مدرسوں کا قیام :آپ دہلی  سے فارغ  ہو کر وطن لوٹے  تو آپ کے دل کے اندر خدمت  دین  کا جذبہ  موجزن تھا ، سید صاحب  سے جو علم حاصل کیا تھا اس کو پھیلانے اور دوسروں تک پہونچانے کادل  کے اندر امنگ اور آرزو تھی ، چنانچہ  گھر پہنچ کر سب سے پہلے مالدہ ٹاؤن میں ایک عالیہ مدرسہ کے قیام کا منصوبہ بنایا  اور بالآخر  مولانا  دوست محمد ندوی، مولانا سلیمان صاحب پیغمبر پوری اور مولانا عبد التواب صاحب پرانپوری  وغیرہ کے ساتھ ملکر اس کو قائم کیا  اور چند دن کے اندر اندر اس میں سبھوں نے ملکر باقاعدہ  درس وتدریس  کا آغاز بھی کردیا ، جس کی شہرت  سنکر اقصائے بنگال سے طلبہ آکر علم دین کے اس چشمۂ صافی سے سیراب ہونے لگے اور ان فاضل روز گار سے اپنی علمی پیاس بجھانے  لگے، مگر چند سالوں بعد اس درس گاہ کوبرے دن دیکھنا  پڑا، ہوایہ کہ ایک روز مدرسہ کے سکریٹری  طلبہ کو بلا کر کہنے لگے کہ بچو ! مدرسہ کے سامنے کچھ زمین  خالی پڑی ہے، اسے آباد کر کے اور کھود کر اس میں پھول وغیرہ کے پیڑ لگانا ہے اور یہ کام تمہیں لوگوں کو کرنا ہے لیکن لڑکوں میں سے کوئی بھی تیار نہ ہوا اور سکریٹری صاحب  سے اختلاف  پیدا ہوگیا ،  اس پر موصوف کو غصہ آیا اور سارے طلبہ  کااخراج کرکے مدرسہ  کوبند کر دیا، چنانچہ سارے طلبہ اپنے اپنے گھر چلے گئے اور استاتذہ  بھی مدرسہ چھوڑ دیئے ، انہیں میں مولانا شیر شاھی صاحب بھی تھے موصوف وہاں سے اپنے گاؤں آکر "شیر شاھی " کے ایک ٹولہ "لکھی پور " میں جہاں اب ایک سنئر  مدرسہ قائم ہے ، ایک نظامیہ مدرسہ کی سنگ بنیاد ڈالی  جو چند ایام میں بن کر تیار ہوگیا  ، اس کے بعد وہیں درس وتدریس  کا آغاز کردیئے اور کئے سال  تک مسلسل جدوجہد  کے ساتھ پڑھاتے رہے، طلبہ اس مدت میں آپ سے خوب مستفید  ہوتے رہے ، آپ کے علاوہ دو ایک  اور مدرس  تھے جن میں ایک سے ایک مولانا جشیم الدین صاحب تھے جو فی الحال مدرسہ مظہر العلوم بٹنہ مالدہ کے صدر مدرس ہیں۔مگر اس مدرسہ  کو بھی کئی سال بعد بند  ہوجانا پڑا کیونکہ کچھ باتوں کی وجہ سے بستی  کے لوگ دو گروہ میں تقسیم ہوگئے تھے ، اور ان کے مابین واقع اس  نزاع کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدرسہ ہی بند ہوگیا ۔ خیر مدرسہ  بند ہوگیا  اور مولانا شیر شاھی  اس کے بعد سے گھر ہی میں رہنے لگے  اس کے بعد کسی  دوسری جگہ  ملازمت اختیار نہیں کئے، بس دعوت وتبلیغ  کےفرائض کو انجام دیتے رہے، پھر کئے سال بعد جب دار الحدیث رحمانیہ دہلی جنگ آزادی  کی نذر ہوگیا  اور طلبہ بنگال  وبہار کیلئے  طلب علم ایک معمہ بن گیا ، ان کیلئے کوئی قابل  ذکر مدرسہ نہیں رہ گیا ، جس کی وجہ  سے ان کو بڑی پریشانیوں کا سامنا  کرنا پڑا، جسے وقت کے بڑوں نے سمجھا  اور ان کی توجہ اس مسئلہ  کو حل کرنے کی جانب مبذول  ہوئی چنانچہ  مولانا  عبد الحکیم  صاحب ناظم مدرسہ مظہر العلوم بٹنہ مالدہ کے دل میں سب سے پہلے یہ بات پیدا ہوئی  اور احساس ہوا کہ ہمارے یہاں کوئی ایسا بڑا ادارہ ہونا چاہئے  کہ جس میں چیدہ چیدہ علماء وفضلا اکٹھا ہوں اور ان سے صوبہ بنگال  وبہار کے طلبہ آکر علم حاصل کریں اور مستفید ہوں، چنانچہ آپ اور اس مدرسہ کے اراکین  مدرسہ کی ترقی اور اسے ایک امتیازی شان عطا کرنے کے لیے وقت کے بڑے بڑے علماءو فضلا کی تلاش میں نکلے،  اسی وقت مولانا نے مولانا  شیر شاھی  کو دعوت خدمت دی اور مولانا موصوف  اسے قبول فرما کر بٹنہ چلے آئے اور سہ بارہ  درس وتدریس میں لگ گئے، آپ کی عمر اس وقت بہت زیادہ ہوگئی  تھی اس کے باوجود آپ  بڑی محنت اور عرق ریزی سے طالبان علوم نبوت  کو مختلف علوم سے بہرہ ور کرتے رہے، یہاں پر آپ 8یا10سال تک بحیثیت مدرس۔ بڑے حسن وخوبی  کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے، اس درمیان  مدرسہ میں پنج وقتہ نماز کی امامت کا منصب بھی آپ کے سپرد تھا ، فجر کی نماز اکثر آپ ہی پڑھا تے تھے مگر کبھی کبھی مولانا عبد التواب کو مالدہی بھی پڑھا دیا کرتے تھے۔چنانچہ ایک روز مولانا  موصوف
آپ ایک مناظر: فجر کی نماز پڑھائی  مگر حسب عادت  سورہ کی تلاوت نہ کر کے ترتیب میں الٹ پھیر  کردی یعنی آپ نے پہلی رکعت  میں ایک مکمل سورہ کی تلاوت  کی اور ایک دوسری سورہ  کے کچھ حصہ کی اور پھر دوسری رکعت میں بھی ایک مکمل سورہ کی  تلاوت کی اور ایک دوسری سورہ کے کچھ حصہ کی ، اور اس طرح نماز پڑھا دی ، نماز سے فارغ ہو کر مولانا ظہور احمد سیتاپوری (سیتامڑھی)  دربھنگوی  صاحب جو ان دنوں مظہر العلوم بٹنہ کے شیخ الحدیث تھے انہوں نے کہا کہ : شیر شاھی  صاحب اگر ثابت  کردیں کہ آج  انہوں نے سنت کے مطابق نماز پڑھائی ہے تو میں  اپنی ایک ماہ کی تنخواہ چھوڑ دونگا (اس وقت ان کی تنخواہ/175 تھی اور 12 روپیےمن  دھان تھا)۔بس اتنی سے بات تھی جو آگے چل کر ایک نزاع کی صورت اختیار کر لی  اور دونوں حضرات  کے مابین  ایک مناظرہ ہونے کا فیصلہ ہوا ،چنانچہ  مناظرہ کی تیاری مکمل ہوگئی  اور  قریب تھا کہ فریقین مقابلہ  کیلئے سامنے  آئیں مگر مولانا  عبد الحکیم  ناظم مدرسہ بیچ میں آڑے آئے  اور معاملہ  کو رفع دفع کردیا ، اس وقت مولانا  شیر شاھی  صاحب فرماتے تھے کہ اگر مولانا سیتاپوری(پاستیا مڑھی)  صاحب میرے مقابل میں آئیں تو میں انہیں پانی  کی طرح نگل لونگا ، اور مناظرہ میں شکست دے دونگا ۔ مولانا  عبد الوھاب صاحب رحمانی  کا بیان ہےکہ کچھ دنوں بعد ہم نے استاد محترم مولانا شیر شاھی  صاحب سے عرض کیا کہ مولانا  آپ نے جس طرح نماز پڑھائی تھی ، اس کو کوئی بھی سنت کے مطابق نہ کہے گا ، اس کے باوجود آپ فرماتے تھے کہ مولانا  سیتا پوری صاحب کو پانی  کی طرح نگل لونگا ،یہ کیسے؟ اس پر  انہوں نے فرمایا تھا کہ  دیکھو بیٹے ! مناظرہ میں دعوی پر دلیل دینی ہوتی ہے ، تو اگر مسئلہ مذکور ہ میں ، میں دعوی کیا ہوتا کہ میں نے سنت کے مطابق نماز پڑھائی ہے تو کوئی بات تھی،  مجھے دلیل کی ضرورت پڑتی، لیکن جب میں نے سرے سے دعوی ہی نہیں کیاہے تو پھر کس بات پر دلیل دیتا،بس اتنی سی بات سے میں ان کو شکست دیدیتا "۔
     اللہ تعالی  نے آپ کے اندر مناظرہ اور بحث ومباحثہ کی صلاحیت  ودیعت کی تھی ، اپنے حریف کو بڑی زیر کی اور ہوشیاری  سے زیر کردیتے تھے ، آپ نے اپنی  زندگی میں کئی ایک مناظر ے کئے  اور آپ کو ہر جگہ  فتح نصیب ہوئی، آپ کے مقابل  پورے بنگال میں کوئی نہ تھا ، اسی وجہ سے آپ کو "شیر بنگال " کا خطاب ملا تھا ۔ مگر افسوس کہ ان مناظرے و مباحثےکے  روداد ہم تک پہنچ نہ سکے، پھر بھی دو مناظرے کا ذکر ملا ہے ایک بروایت مولانا عبد الوھاب رحمانی (حفظہ  اللہ وشفاہ )اور دوسرا بروایت  شیخ عبد المتین صاحب سلفی مدنی رحمہ اللہ (سابق چیرمین توحید ایجو کیشنل ٹرسٹ) وہ یہ ہیں۔
(1) آپ جس وقت  مظہر العلوم بٹنہ میں بحیثیت مدرس تھے اس وقت رنگائی  پور مالدہ کے چند لوگوں کے درمیان  یہ مسئلہ  چھڑا کہ زردہ میں سکر (نشہ)ہے یا نہیں ؟اور یہ کہ وہ حرام ہے یا حلال ؟ اور اس میں علماء دو گروپ میں تقسیم ہوگئے ایک گروہ کا کہنا تھا کہ زردہ میں سکر نہیں ہے اسلئے حلال ہے ، یہ گروہ در اصل زردہ خور تھا اور دوسرا گروہ اس کی حرمت  کا قائل تھا۔ بہر حال بات آگے بڑھتے بڑھتے  یہ طئے  پایا کہ ایک مناظرہ ہو  جس میں بڑے بڑے علماء شریک  ہوں اور اس کی حلت  وحرمت کا فیصلہ  کریں چنانچہ  ایک مناظرہ ہوا جس میں مولانا شیر شاھی  صاحب بھی شریک  ہوئے تھے اور آپ ہی کی صدارت  تھی، اس وقت موصوف کی عمر 95 سال تھی، آپ خود بھی زردہ خور تھے مگر آپ کو حرمت زردہ کے قائل گروہ میں شامل کیا گیا ، آپ نے معذرت بھی کی کہ میں خود زردہ  کھاتا ہوں کیونکر اس کی حرمت کی جانب رہوں، اس پر مولانا  عبد الحکیم صاحب نے ان سے  اصرار کر کے فرمایا کہ آپ اگر آج فریق مخالف کا طرفدار بن جائیں تو معاملہ بہت برا ہوگا، اور  ممکن ہے حلت کی جانب فیصلہ چلا جائےلہذا مہربانی  کر کے حرمت زردہ کے قائلین کی طرف رہیں، چنانچہ مولانا تیار ہوگئے  اور مناظرہ کی کاروائی  شروع ہوگئی پھر بحث ومباحثہ شروع ہوا، اس وقت  سب سے پہلے جو مسئلہ زیر  بحث آیا وہ یہ تھا کہ زردہ کے اندر سکر ہے یا نہیں ؟ اس کا پہلے  حل ہو، لیکن فیصلہ ہو ؟ سارے لوگ متفکر ہوگئے، جب لوگوں کی یہ حالت دیکھی مولانا شیر شاھی  صاحب نے  تو بولے کہ بھائی ہمارا تو دعوی ہے کہ اس کے اندر سکر پا یا جاتا ہے اسلئے حرام ہے ،مگر جن لوگوں کا کہنا ہے کہ سکر نہیں ہے اسلئے حلال ہے، ان سے گذارش ہیکہ ایک کپ بھر کرزردہ  ان میں سے کوئی ایک شخص ایک ہی بار کھا جائے تو ہم شکست تسلیم کر لیں گے کہ واقعی  اس میں سکر نہیں ہے، اور اگر کوئی بھی کھا نہ سکا تو ان سب کو شکست تسلیم کرنی  اور اس کی حرمت کا قائل ہونا پڑیگا، چنانچہ مولانا کی یہی بات فیصل ٹھہری اور اس پر سارے لوگ رضامند ہوگئے ، پھر مخالفین  سے مطالبہ ہوا کہ کھا کے دیکھا ئیں مگر کوئی بھی  تیار نہ ہوا ،  اس طرح ان لوگو ں نے شکست تسلیم  کر لی اور مولانا شیر شاھی وغیرہ کو فتحیابی ہوئی، اور میدان ان کے ہاتھ رہا۔
   اس مناظرہ میں مولانا نذیر حسین مرشدآبادی، مولانا عبد الجلیل دیوی پوری  اور مولانا کعبۃ اللہ صاحب  بین نگری  وغیرہ جیسے افاضل روز گار شریک ہوئے تھے اور سبھی حضرات  زردہ خور تھے جیسا کہ  مولانا شیر شاھی  صاحب خود تھے، مگر اس مناظرہ کے بعد اسی مجلس میں سبھوں نے توبہ نصوحہ کر لیا  اور ان کے ساتھ ساتھ عوام  کی ایک بڑی جماعت بھی  تائب ہوئی، کہ آج سے زردہ نہیں کھائیں گے۔ مولانا عبد الوھاب صاحب رحمانی  کا بیان ہے کہ ایک روز مدرسہ بٹنہ میں ہم لوگ مولانا کے حلقہ درس میں بیٹھے تھے کہ استاذ محترم نے مجھ سے فرمایاکہ بیٹا دو کان سے ایک پان  لے آؤ!چنانچہ  میں ایک پان لے آیا اور ان کے ہاتھ میں رکھ دیا  اس پر مولانا  نے دریا فت کیا کہ بابو کہیں زردہ ڈال کر تو لے نہیں آئے ہو ۔ رحمانی صاحب بیان کر تے ہیں کہ اس پر  میں  نے کہا کہ حضرت تھوڑا ڈالنے سےکیا حرج ہے ، اس پر  مولانا نے فرمایا کہ نہیں بیٹا ! جب ہم نے ایک بار توبہ کر لیا ہے تو پھر دو بارہ اس چیز کو منہ نہیں لگا سکتے، اس پر مولانا  رحمانی صاحب نے عرض کیا کہ نہیں حضرت کچھ بھی نہیں ڈالا ہے ، لیکن اس پر  ان کو تشفی نہ ہوئی خود سے انہوں نے پان کی پوڑیہ کھولکر دیکھا پھر کھایا، چنانچہ رحمانی  صاحب کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم نے سمجھا کہ یقینا آپ نےخالص توبہ کر لی ہے۔
(2) ایک بار کسی مسئلہ میں اہلحدیثوں اور حنفیوں کے درمیان مناظرہ ہونا طئے پایا ، اہلحدیثوں کی جانب سے بحیثیت  مناظر مولانا شیر بنگال  ہی مدعو تھے، میدان مناظرہ میں لوگ مجتمع تھے اور آپ کی آمد کا انتظار تھا ، کچھ دیر بعد آپ اسٹیج پر تشریف لائے تو اپنے بغل میں جوتا دبائے  ہوئے تھے یہ دیکھ کر سارے لوگ تعجب اور سخت حیرت زدہ ہوئے، آپ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے جواب  دیا کہ بھائیو! عہد رسالت  میں حنفی لوگ بڑے چور ہواکر تے تھے ، لوگوں کے جوتے خوب چراتے تھے ، اسی ڈر سے میں نے جوتا اپنے پاس رکھنا مناسب سمجھا تاکہ یہاں بھی کوئی  حنفی چرانہ لیجائے ، یہ سن کر لوگوں نے کہا کہ مولانا، اللہ کے رسول کے زمانہ میں تو حنفی لوگوں کا وجود ہی نہ تھا تو کیونکر وہ چوری کرتے تھے ، اس پر  مولانا نے بھری مجلس میں اعلان کیا کہ لوگو! جب اللہ کے رسول کے زمانہ میں حنفیوں کا وجود نہیں تھا تو آج کہاں سے یہ لوگ آگئے، اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ یہ بعد  کی پیداوار ہے جس کی کوئی  حقیقت نہیں ، لہذا ایسے لوگوں سے مناظرہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے، یہ کہنا تھا کہ اسی پر مناظرہ ختم ہوگیا ، اور مناظرہ نہ ہوا،اہلحدیثوں کی جیت ہوگئی اور حنفی لوگ اپنا سامنہہ لیکر چلے گئے۔
آپ کے محاسن: آپ جملہ معقولات ومنقولات کے ماہر اور ہر فن میں دسترس رکھتے تھے ، مولانا رحمانی  صاحب کا بیان ہے کہ "موصوف مولانا بہت بڑے اور اچھے مناظر تھے، منطقی وفلسفی بھی تھے ، حدیث وقرآن کے ماہر تھے "، اور مولانا عبد المتین سلفی صاحب کا بیان ہے کہ "آپ اچھے محقق اور عالم تھے، آپ  کی قابلیت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ  مولانا عبد اللہ  الباقی قریشی اور شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی، تو قریشی صاحب نے عرض کیا کہ مولانا مجھے ایک ایسے عالم اور  شیخ الحدیث کی ضرورت ہے جو ہر فن میں یکساں قابلیت وصلاحیت رکھتا ہو اور  جملہ منقولات ومعقولات میں خوب دسترس رکھتا ہو، اس پر شیخ الحدیث صاحب نے فرمایا کہ آپ تا زندگی اس وقت دنیا میں ایسی شخصیت نہیں پاسکتے ہیں، ایسی شخصیت کا وجود تو ہمیں بہت زمانہ سے نظر نہیں آتا، یہ سن کر مولانا قریشی صاحب نے کہا کہ مولانا ایسی شخصیت کو لا کر میں آپ کی خدمت میں حاضر کرتا جسے بنگال کی سرزمین  نے جنم دیا تھا اور جو ان مذکورہ علوم میں خوب خوب ماہر تھے لیکن افسوس کہ کچھ ایام پہلے ان کا انتقال ہوگیا ہے، یہ سن کر شیخ الحدیث صاحب  بہت متعجب ہوئے۔ مولانا قریشی  صاحب کا اشارہ شیر بنگال  مولانا محمد ابراھیم صاحب شیر شاھی  کی جانب تھا"۔"نیز آپ اس وقت بھی سارے اساتذہ کے مرجع تھے جب مدرسہ مظہر العلوم بٹنہ کا عروج کا زمانہ تھا "۔
    آپ انتہائی منکسر المزاج، حلیم اور شائستہ عادات وبلند اخلاق کے مالک تھے ، طلبہ کےساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے اور بڑے نرم لہجہ میں ان سے بات چیت کرتے، بڑے ہی شفیق اور رحیم انسان تھے ، علماء سے آپ کو غایت درجہ محبت تھی ، (بقیہ صفحہ29پر)
      سماجی خدمات بھی انجام دیتے۔آپ تہجد گذار تھے، نماز کی حالت میں روتے روتے ہچکیاں بند ہ جاتیں لیکن  ناٹے قد کے تھے، دو یا تین شادیاں کئے تھے، اولاد کے سلسلہ میں کچھ علم نہ ہوسکا۔
پیرانہ سالی اور وفات: آپ کو اللہ تعالی نے بڑی لمبی  عمر عطا کیا تھا ، ایک سو دس سال کی عمر  میں آپ کی  وفات ہوئی  ، جب آپ کی عمر کافی زیادہ ہوگئی تو آپ نے درس وتدریس ترک کر کے گھر ہی میں چند سال گزارا، آپ پرذھول ونسیان کا غلبہ ہونے لگا تھا حتی کہ جب قضائے حاجت کے لئے  تشریف لے جاتے تو ضرورت پوری کرلینے کے بعد اسی جگہ  لوٹا چھوڑآتے اور باہر آکر تلاش کرتے، اور پریشان  ہوجاتے، پھر کوئی شخص ان کو لوٹا لا کر دیتا تب آپ مطمئن ہوتے۔ مولانا رحمانی  کا بیان ہے کہ مولانا سے ہم لوگ کہا کر تے تھے کہ آپ شیر شاھی والے ماشاء اللہ بڑے  پیر مانتے ہیں ، تو اس پر  مولانا فرماتے کہ ہاں بیٹا کبھی تو پیر مانتے ہیں اور کبھی پیر۔(ازراہ ہنسی مذاق ایسا کہا کرتے تھے ) آخر کار اس پیکر علم ومعرفت اورخادم علوم نبوت نے بھی دنیا والوں کو داغ مفارقت دے گیا اور اپنی عمر کے ایک سو دس بہاریں دیکھ کر 1966ء میں وفات پائی۔ اناللہ وانا الیہ واجعون۔
اللہ تعالی موصوف کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ آمین!


Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ