Skip to main content

سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ {1}

 

تحقیقی مقالہ:

 


سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ

                                                                  ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی


 حدیث :"ماہرین انساب غلط کہتے ہیں ":

قولہ:"عدنان، نبیﷺ کے سلسلۂ نسب میں اکیسویں پشت پر پڑتے ہیں ، بعض روایتوں میں بیان کیا گیا ہےکہ آپ ﷺ جب اپنا سلسلۂ نسب ذکر فرماتے تو عدنان پر پہنچ کر رک جاتے اور آگے نہ بڑھتے ، فرماتے کہ ماہرین انساب غلط کہتے ہیں مگر علماء کی ایک جماعت کا خیا ل ہے کہ عدنان سے آگے بھی نسب بیان کیا جاسکتاہے، انہوں نے اس روایت کو ضعیف  قرار دیا ہے، ان کی تحقیق کے مطابق عدنان اور حضرت ابراھیم علیہ السلام  کے درمیان چالیس پشتیں ہیں"تاریخ الامم والملوک للطبری 2/1991۔194،الاعلام:5/6،(الرحیق المختوم ص29)

تحقیق: حدیث موضو ع ہے:

    واضح رہے کہ یہ موضوع حدیث ہے،چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ "سلسلہ ضعیفہ"(1/228/111)میں فرماتے ہیں :

"کذب النسابون ، قال اللہ:( وقرونابین ذلک کثیرا)[الفرقان:38]

    موضوع ہے-اسے سیوطی نے "جامع صغیر" کے اندر ابن عباس سے ،ابن سعد اور ابن عساکر کے حوالہ سے ذکر کیا ہے، اور پھر اس کے بعدبھی بایں لفظ (کان اذا انتسب لم یجاوز فی نسبتہ معد بن عدنان بن آد، ثم یمسک ویقول: کذب النسابون۔۔۔)ذکر کیاہے۔

    (شیخ البانی نے ) فرمایا:اسے ابن عباس سے ابن سعد نے روایت کیا ہے،اور "جامع صغیر" کے  شارح علامہ مناوی نے دونوں جگہ (اس حدیث کی صحت وضعف کے تعلق سے ) سکوت اختیار کیا ہے ، معلوم ہوتا ہےکہ وہ اس کی سند پر مطلع نہ ہوسکے تھے  ورنہ ان کیلئے  یہ سکوت روانہ تھا ، اور اس پوری روایت کو ابن سعد نے "طبقات "(1/1/28)میں:قال: اخبرنا ھشام قال: اخبرنی ابی عن ابی صالح عن ابن عباس " کی سند سے مرفوعا روایت کیا ہے۔

    میں(البانی) کہتا ہوں : ہشام ، یہ ابن محمدبن السائب الکلبی ماہر علم الانساب اور مفسر ہے لیکن متروک راوی ہے جیسا کہ دار قطنی وغیرہ  نے کہا ہے۔

      اور اس کا باپ محمد بن السائب اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے، جوزجانی وغیرہ کا کہنا  ہے  کہ  وہ پر لے درجہ کا جھوٹا تھا ۔ اور اس نے جھوٹ  بولنے کا خود اعتراف کیا ہے چنانچہ بخاری نے صحیح سند کے ساتھ سفیان  ثوری کا یہ قول نقل کیا ہےکہ کلبی نے مجھ سےکہا کہ: " کل ماحدثتک عن ابی صالح فھوکذب " ! میں نے ابو صالح کے واسطہ سے تم  سے جو روایتیں بیان کی ہے وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے"۔

  میں (البانی) کہتاہوں : سفیان کا یہ قول  :میزان" میں اسی طرح منقول ہے مگر اس میں ایسا سقط یا اختصار واقع ہوا ہے   جو کلبی کی طرف اعتراف جھوٹ کی نسبت کو غیرصحیح ٹھہراتا ہے جیسا کہ حدیث(5449)کےتحت اس کی تفصیل آئيگي۔

      اور ابن حبان کہتے ہیں! کلبی کا دینی رویہ اور کذب بیانی اتنا ظاہر وباہر ہے کہ اس کی مزید وضاحت وبیان کی چندہ ضرورت نہیں ہے، ، وہ ابو صالح کے توسط سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے "تفسیر" روایت کرتا ہے حالانکہ ابو صالح نے ابن عباس کو دیکھا تک نہیں  ہے، اور نہ ہی کلبی نے ابو صالح سے سنا ہے سوائے   چند حروف کے ( اور یہ ایک ایسا راوی ہے کہ) کتابوں کے اندر اسکا ذکر  کرنا ہی حلال نہیں ہے  تو پھر کیونکر اس سے احتجاج کیا جاسکتاہے؟! اور اسی طریق سے ابن عساکر نے اسے "تاریخ دمشق"(1/197/1،198/2 مخطوطہ ظاہر یہ دمشق)[3/52و59۔60مطبوعہ دار الفکر]میں روایت کیاہے۔

حدیث" اللہ تعالی نے مجھے سب سے اچھے گروہ میں بنایا۔۔"

 قولہ:" ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیا ن ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا : اللہ تعالی نے خلق  کی تخلیق فرمائي تو مجھے سب سے اچھے گروہ میں بنایا پھر ان کے بھی دو گرہوں میں سے زیادہ اچھے گروہ کے اندر رکھا پھر قبائل کو چنا تو مجھے سب سے اچھے قبیلے  کے اندر بنایا پھر گھرانوں کو چنا تومجھے سب سے اچھے  گھرانے میں بنایا، لہذا میں اپنی ذات کے اعتبار سے بھی سب سے اچھا ہوں اور اپنے گھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر ہوں ۔ (ترمذی:2/201)(الرحیق المختوم ص30)

تحقیق: یہ حدیث ضعیف ہے۔

    اسے ترمذی(کتاب: المناقب عن رسول اللہ ﷺ ، باب : ماجاء فی فضل البنی ﷺ حدیث(3607)نےعباس بن عبد المطلب سے روایت کیا ہے،   انہوں کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ قریش بیٹھ کر آپس میں حسب کا ذکر کرنے لگے تو آپ ﷺ کی ایسے درخت سے مثال دی جو گھورے پر ہو۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے ساری مخلوق کو پیدا  کیا اور مجھے سب سے اچھے  گروہ میں پیدا کیا ۔۔۔۔الحدیث۔

      ابوعیسی ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن ہے اور عبد اللہ بن حارث ، ابو نوفل ہیں  ۔ امام ترمذی نے قریب قریب انہی الفاظ کے ساتھ اسے اس کے بعد (حدیث:3608)کے ضمن میں اور امام احمد نے "مسند"(1788)میں مسند عباس بن عبد المطلب کے ضمن میں روایت کیا ہے۔

     مسند احمد کے محقق شیخ شعیب ارناؤو ط نے اس حدیث کو "حسن لغیرہ" قرار دیا ہے۔اور  شیخ البانی نے اسے "صحیح الجامع"(1472)میں پہلے صحیح کہا تھا لیکن پھر  اس سے رجوع فرما کر " ضعیف الترمذی"اور "ضعیفہ"(3073)میں اس کی تضعیف کردی ہے چنانچہ امام ترمذی کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

"ترمذی  نے ایسا  ہی کہا ہے !( یعنی اس حدیث کی تحسین کی ہے ) حالانکہ یزید بن ابی زیاد ھاشمی مولاھم کے بارے میں حافظ نے "ضعیف، کبر فتغیر، صاریتلقن " کہا ہے  یعنی یزید ضعیف ہے، بوڑھاپے  کیوجہ سے تغیر کا شکار ہوگیا تھا اور پھر تلقین قبول کرنے لگا تھا"۔

     میں (البانی) کہتا ہوں : یزید اس کی سند  میں اضطراب کا شکار ہے چنانچہ ایک مرتبہ اس نے "عبد اللہ بن الحارث عن عبد المطلب بن ابی وداعہ"   کی سند سے روایت کیا ہے، اور ایک مرتبہ "عبد اللہ بن الحارث عن العباس بن عبد المطلب قال: قلت: یا رسول اللہ ۔۔۔ الحدیث نحوہ "کے طریق سے بیان کیا (سنن ترمذی) اور  کبھی اس نے "عبد اللہ بن الحارث بن عبد المطلب عن ربیعہ قال۔۔فذکر نحوہ" کہااوراس طریق سے اسے حاکم (3/247) نے  روایت کیا ہےاور انہوں  نے اور ذھبی نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے"۔

      میں (الملاح ) کہتا ہوں : مؤلف رحمہ اللہ یعنی شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کے ذکر کردہ  (عربی) متن حدیث میں غورکرنے سے آپ درج ذیل امور  پائیں گے :

٭ انہوں نے "من خیرھم " کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے۔

٭ "۔۔۔ فجعلنی من خیرالقبیلۃ " میں "القبیلۃ" کو معرفہ بنا کر ذکر کیا ،جس کا معنی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو قبیلہ پر فضیلت حاصل ہے، حالانکہ بعد میں حدیث کے اندر خود یہ معنی موجود ہے، اور اصل حدیث میں "۔۔۔ فجعلنی من خیرقبیلۃ"(قبیلہ کے نکرہ) کے ساتھ یہ عبارت مروی ہے، جس کا معنی ہے  پورے قبیلۂ رسول کو بقیہ تمام قبائل پر فضیلت حاصل ہے اور دونوں عبارت کے درمیان جو فرق ہے   وہ واضح ہے ۔

    مترجم: مؤلف نے اس حدیث کو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل فرمایا ہے حالانکہ سنن ترمذی میں  ابن عباس نہیں بلکہ عباس بن عبدالمطلب کی روایت سے موجود ہے !!واللہ اعلم

 

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ