Skip to main content

سترہ:تعریف،حکمت اوراحکام {1}

 


 


سترہ:تعریف،حکمت اوراحکام

                                                                  ابوعبد العزیز محمد یوسف(قسط1)


              سترہ کی تعریف: "سترہ" سین کے ضمہ کے ساتھ ، عربی لغت میں ہر اس چیز کو  کہتے ہیں جس سے پردہ (یا آڑ)کیا جائے۔(تاج العروس للزبیدی 499/11) ،اور "سترہ" شریعت میں ہر وہ آڑ ہے جس کی طرف مصلی نماز پڑھتا ہے اور اس کے آگے سے کسی کا گزرنا نماز کو نقصان نہیں پہونچاتاہے۔

شرعی سترہ کی صفت: شرعی سترہ صرف وہی چیز بن سکتا ہے جو کم از کم اونٹ کےکجاوہ کی پچھلی لکڑی کی اونچائي کے برابر یعنی ایک ہاتھ(25 سینٹی میٹر) یا اس کے لگ بھگ اونچي ہو ،قطع نظراس کےکہ اس کی چوڑائي کم ہے یا زیادہ ،مثلا:لکڑی،لاٹھی ، نیزہ بشرطیکہ انہیں گاڑدیا جائے یا کسی چیز کے سہارے کھڑا کردیا جائے۔

(1)رسول اللہﷺ سے مصلی کے سترہ کے بارے میں سوال کیا گيا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : " اونٹ کے پالان کے پچھلے حصہ کی مانند" ۔(صحیح مسلم:500،عن عائشہ)۔

(2)"کجاوہ کی پچھلی لکڑی جیسی چیز تم  میں سے کسی کے آگے (بحالت نماز) ہو تو اسے اس کے آگے سے گزرنے والے نقصان نہیں پہونچائیں گے"۔(صحیح مسلم:499،عن طلحہ)

لہذا سترہ کا کم سے کم ایک ہاتھ اونچاہونا ضروری ہے ورنہ وہ سترہ کفایت نہیں کریگا البتہ سترہ کی چوڑائي کا کوئي اعتبار نہیں ہے باریک سے باریک چیز کا سترہ بنایا جاسکتاہے۔

سترہ کی حکمت:(1) نمازی اور سترہ کے درمیان سے گزرنے والے کو باز رکھا جائے کیونکہ بعض کے گزرنے سے نمازی کے اجر وثواب میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ بعض کے گزرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔

(2)نمازی کی نظرسترہ سے آگے تجاوزنہ کرے کیونکہ اس کے آگے تجاوز کرنے سے خشوع وخضوع میں خلل پیدا ہوگا۔

(3)یہ معلوم ہو کہ کو ن نبی ﷺ کے طریقہ پر عمل کرتا ہے اور کون اس سے روگردانی اختیار کرتاہے۔

سترہ کا حکم: ہر نمازی کا خواہ وہ اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا امام بن کرسترہ کی طرف نماز پڑھنا واجب ہے ۔( نیل الاوطار:3/407/تحقیق طارق عوض اللہ ۔ تنقیح الرواۃ تخریج احادیث المشکاۃ:1/142ط دارالدعوۃ السلفیہ)،البتہ مقتدی کے لئے امام کا سترہ ہی کافی ہے۔

سترہ کے واجب ہونے کے دلائل ملاحظہ کریں:

(1)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو"۔(صحیح ابن خزیمہ:800،سنن بیھقی:2/268،بروایت ابن عمر)

(2)رسول اللہ ﷺ کا فرما ن ہے :" جب تم میں سے کوئي آدمی اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کی مانند رکھ لے تو نماز پڑھے ۔ اس لکڑی کے پیچھےسے جو گزرے اس کی  پرواہ نہ کرے"۔(صحیح مسلم:499،عن طلحہ)

(3) آپ ﷺ نے فرمایا ؛"  جب تم میں سے کوئي نماز پڑھے تو چاہئے کہ ( اپنے آگے ) سترہ رکھ لے، اور اس سے قریب کھڑا ہو کیونکہ شیطان اس کے آگے سے گزرتا ہے"۔(صحیح ابن خزیمہ:803،مستدرک حاکم:1/251،مسنداحمد:4/2، بروایت سھل بن ابی حثمہ)

        یہ ساری حدیثیں قولی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے ہر نمازی کو اپنے آگے سترہ رکھنے کا حکم دیا ہے جن کا ظاہر تو سترہ کا واجب ہونا ہی ہے لیکن اگر کوئي قرینہ مل  جائے جو ان اوامر کو وجوب سے استحباب کی طرف منتقل کردے تو  اسی کو ترجیح ہوگي۔(السیل الجرار:1/176) مگر یہاں ایسا کوئي قرینہ موجود نہیں ہےکہ آپ کےامرکووجوب کےبجائےاستحباب پرمحمول کیاجائے،پھرنہی سے مراد بھی نہی تحریمی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے لئے سترہ بنانا واجب اور اس کےبغیرنمازادا کرحرام ہے-(فتاوی اصحاب الحدیث:1/93) اور بعض علماء جن چند امور کا بطور قرائن ذکر کرتے ہیں ان کے اندر قرائن بننے کی صلاحیت نہیں ہے جیسا کہ تنبیہ نمبر؎١کے تحت بیان کیا گيا ہے ۔ اس وجوب کی تاکید اس بات سے ہوتی ہے کہ سترہ بالغ عورت ، کالا کتا اور گدھا کے گزرنے  کی وجہ سے نماز کے باطل ہونے سے محفوظ رکھنے اور گزرنے والوں کو روکنے کا شرعی سبب ہے۔(تمام المنہ:ص300)نیزاس کی تائيد آپ ﷺ  سے مروی بہت سی فعلی حدیث سے بھی ہوتی ہےکہ آپ نے سفر وحضر میں کھبی بھی بغیر سترہ کے نماز ادا نہیں فرمائي ہے بلکہ سترہ رکھنا آپ کی ہمیشہ کی عادت مبارکہ تھی۔

(1)عبد  اللہ بن عمر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خانہ کعبہ میں کھمبوں کے بیچ  اس جگہ کھڑے ہوکر نماز پڑھی کہ آپ کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا۔(سنن نسائي:693،مسنداحمد:6/13)

(2) اور کبھی آپ ﷺ ستون کی آڑ میں نماز پڑھتے ، چنانچہ یزید بن ابی عبید کہتے ہیں کہ : میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مسجد نبوی میں )  حاضر ہوا کرتا تھا ، چنانچہ سلمہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن مجید رکھا رہتا تھا ۔ میں نے ان   سے کہا: اے ابو مسلم !میں دیکھتا ہوں کہ آپ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا ، آپ ﷺ خاص طور سے اسی ستون کو سامنے کرکے نماز پڑھا کرتے تھے ۔(صحیح بخاری مترجم علامہ داؤدراز:502،صحیح مسلم:509براویت سلمہ بن اکوع)۔

(3)اور کبھی آپ ﷺ اپنی سواری کو سامنے عرض میں کرلیتے اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ اور جب سواری اچھلنے کودنے لگتی تو اس وقت آپ کجاوے کو اپنے سامنے کر لیتے اور اس کے آخری حصہ کی (جس پر سوار ٹیک لگاتا ہے )طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔(صحیح بخاری:507بروایت ابن عمر)

(4) ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک درخت کو سامنے کر کے نماز ادا فرمائي ۔(نسائي کبری:1/406/825 ،احمد:1/138،125/1023بروایت علی،قال الحافظ:اسنادہ حسن، الفتح:1/750،)

(5) کبھی آپ ﷺ چار پائي کو سامنے رکھ کر نماز پڑھتے  جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس پرلیٹی ہوئي ہوتیں۔(صحیح بخاری:508،511،صحیح مسلم:512،بروایت عائشہ)

(6) رسول اللہ ﷺ جب عید کے دن (مدینہ سے ) باہر تشریف لے جاتے تو چھوٹا نیزہ(برچھا) گاڑنے کا حکم دیتے وہ جب آپ کے آگے گاڑ  دیا جاتا تو آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ۔ اور لو گ آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے۔ یہی آپ سفر میں بھی کیا کرتے تھے(صحیح بخاری:494،972،973،صحیح مسلم:901بروایت ابن عمر)

(7)نبی کریم  ﷺ نے لوگوں کو بطحاء میں نماز پڑھائي، آپ کے سامنے عنزہ(ڈنڈا جس کے نیچے پھل لگا ہوتاہے) گاڑدیا گيا تھا۔۔۔۔۔ آپ کے سامنے سے عورتیں اور گدھے گزررہے تھے ۔(صحیح بخاری : 495بروایت ابو جحیفہ)

کیا مسجد میں بھی سترہ رکھنا ضروری ہے ؟:

مندرجہ بالا احادیث سے بصراحت معلوم ہوا کہ نمازی کو سترہ کے بغیر نماز ادا نہیں کرنی چاہئے ۔ یہ احادیث عام ہیں ، مسجد اور غیر مسجد ہر دونوں کو شامل ہیں۔

(السیل الجرار:1/176،نیل الاوطار:2/203) خواہ مکہ کی مسجد حرام یا مدینہ کی مسجد نبوی ہی کیوں نہ ہو۔(صحیح  بخاری: باب: مکہ اور اس کے علاوہ دوسری مقامات میں سترہ کا حکم (حدیث:501)

مولانا رشید احمد گنگو ہی حنفی لکھتے ہیں :" میرے نزدیک صحیح ترین توجیہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس ترجمہ باب سے یہ اشارہ فرماتے ہیں کہ سترہ صحراء کے لئے مخصوص نہیں ۔"(لا مع الدرار ی :2/502) اور یہ بات مولانا محمد زکریا کاندھلوی حنفی نے (شرح ابواب وتراجم صحیح البخاری ص:79) میں ذکر کی ہے۔ بلکہ ابن خزیمہ (800) کی صحیح حدیث میں یہاں تک ہےکہ آپ ﷺ نے عبد اللہ بن عمر کو فرمایا :" سترہ کے بغیر نماز نہ پڑھو۔" اس فرمان رسول میں مسجد اور غیر مسجد کی کوئي تفریق نہیں کی گئي ہے، اوربعض روایات سے واضح ہے کہ صحابہ کرام مسجد میں سترہ ضرور رکھتے تھے اور اگر کوئي نہ رکھا ہو تا تو دوسرا اسے پکڑکر سترہ کے سامنے کردیتا، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

(1)"عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دوستونوں کے  درمیان نماز پڑھتے  ہوئے دیکھا تو انہوں نے اسے ایک ستون کے قریب  کردیا اور فرمایا : اس کی طرف نماز ادا کر۔"(صحیح بخاری مع فتح الباری: کتاب الصلاۃ:باب الصلاۃ الی الا سطوانۃ"1/745،ط/دار السلام)

(2)عمر رضی اللہ  عنہ نے فرمایا:" نماز پڑھنے والے ستونوں کے ، ان لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں جو اس پر ٹیک لگاکرباتیں کرتے ہیں ۔"(صحیح بخاری مع فتح الباری: کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ الی الاسطوانۃ:1/745)

(3) انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :" میں نے کبار صحابہ رضی اللہ عنھم کو دیکھا کہ وہ مغرب (کی اذان) کے وقت ستونوں کی طرف جلدی کرتے ۔"(صحیح بخاری:503،625،صحیح مسلم:837)

(4) ابو صالح السلمان تابعی کہتے ہیں :" میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو جمعہ والے دن سترہ کی طرف نماز پڑھتے  ہوئے دیکھا۔ بنوابی معیط کےایک نوجوان نے ان کے آگے سے گزرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس کے سینے میں ایک گھونسا مارا۔۔۔۔۔"(صحیح بخاری:509،صحیح مسلم :505)

(5)یحی بن ابی کثیر کہتے ہیں :" میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو مسجد حرام میں دیکھا ، وہ لاٹھی گاڑکر اس کی طرف نماز ادا کررہے تھے ۔"(مصنف ابن ابی شیبہ :1/310،الاوسط لابن المنذر:5/89،الضعیفہ:تحت حدیث:928)

(6) صالح بن کیسان کہتے ہیں :" میں نے عبد اللہ بن عمر کو دیکھا کہ کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے ہیں اور آپاپنے آگے سے کسی کوگزرنے نہیں دے رہے ہیں ۔"(تاریخ ابی زرعہ الدمشقی:1/70،تاریخ دمشق لابن عساکر:23/367بحوالہ الضعیفہ:928،فتح الباری:1/752)

(7)نافع سے مروی ہے کہ " ابن عمر رضی اللہ عنہ جب مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کی جانب کوئي جگہ نہ پاتے تو مجھے کہتے کہ میری طرف اپنی پشت کردو۔"(مصنف ابن ابی شیبہ:1/313)

(8) امام ابن  ہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :" مجھے امام احمد نے ایک دن نمازپڑھتے ہوئے دیکھا اور میرے آگے سترہ نہیں تھا اور میں ان کے ساتھ جامع مسجد میں تھا تو انہوں نے مجھے کہا: کسی چیز کو سترہ بنالے ، تو میں نےایک آدمی کو سترہ بنالیا۔"(مسائل احمد لابن ہانی:1/66)

    ان مذکورہ روایات کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کیونکر درست ہوسکتا ہےکہ سلف صالحین نے سترہ رکھنے کا التزام نہیں کیا ہے؟ (کما قال فی توضیح الاحکام شرح بلوغ المرام:2/58) مزید آثار کے لئے مصنف ابن ابی شیبہ ، مصنف عبد الرزاق اور الاوسط لابن المنذر کا مطالعہ بہتر ہوگا۔

      آج بھی ہم مساجد میں اس کا اہتمام آسانی سے کرسکتے ہیں ، سب سے پہلے آنے والے اگر صف پوری کریں اور مسجد کی دیوار کے قریب ہوں اور بعد میں آنے والے ان کے پیچھے نماز ادا کریں تو اس طرح مسئلہ حل ہوجاتاہے ۔ اور ایک تو صفوں میں پہلے پہنچنے کا اجرملے گااورساتھ ہی سترے کا مسئلہ بھی جو ہو جائیگا اگر علیحدہ علیحدہ بھی نماز ادا کریں تو مسجد کی دیوار ، ستون ، یا کسی اور لکڑی وغیرہ کو سترہ بنا کر نماز ادا کریں۔(دیکھئے:آپ کے مسائل اور انکا حل از مولانا ابو الحسن مبشراحمدربانی:2/167۔128/مکتبہ قدوسیہ)

امام کا سترہ مقتدیوں کے لئے کافی ہے:

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح میں ایک باب یوں باندھا ہے"امام کا سترہ مقتدیوں کو بھی کفایت کرتا ہے" پھر اس کے تحت درج ذیل تین حدیثوں کا ذکر کیا ہے:

(1)عبد اللہ بن عباس نے فرمایا:" میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا ، اور میں اس زمانہ میں قریب البلوغ تھا۔ رسول اللہ ﷺ منی میں لوگوں کو نماز پڑھارہے  تھے۔ لیکن دیوار آپ کے سامنے نہ تھی ۔ میں صف کے بعض حصے سے گزرکرسواری سے اترا۔ اور میں نے گدھی کو چرنےکےلئے چھوڑ دیا اور صف میں داخل ہوگیا، چنانچہ کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا۔"(صحیح بخاری:493،صحیح مسلم:1124)

(2) عبد اللہ عمر کہتےہیں کہ "رسول اللہ ﷺ جب عید کے دن (مدینہ سے )باہر تشریف لے جاتے تو چھوٹا نیزہ (برچھا) گاڑنے کا حکم دیتے وہ جب آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا تو آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز  پڑھتے۔ اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے۔ یہی آپ سفر میں کیا کرتے تھے ۔"(صحیح بخاری:494،497،972،973)

(3) وھب بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ :" نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو بطحاء میں نماز پڑھائي ۔ آپ کے سامنے عنزہ(پھل لگا ہوا ڈنڈا)گاڑدیا گیا تھا۔(چونکہ آپ مسافر تھے اس لئے )ظہرکی دورکعت اور عصر کی دورکعت ادا کیں۔آپ کے سامنے سے عورتیں اور گدھے گزررہے تھے۔"(صحیح بخاری:495،187)

       امام بخاری  نے ان تینوں حدیثوں سے ثابت کیا ہےکہ امام کا سترہ نمازیوں کے لئے کافی ہے۔۔۔ آپ کے آگے بطورسترہ برچھا گاڑدیا گیا تھا۔ برچھے سے باہر آپ یا نمازیوں کے آگے سے گدھے گزررہےتھے اور عورتیں بھی ،مگرآپ کا سترہ سب نمازیوں کے لئےکافی گردانا گيا۔(شرح صحیح بخاری از مولانا داود راز:1/520)

کیا صفوں کے درمیان سے گزرنا جائزہے؟

 صفوں کے درمیان سے گزرنے  میں کوئي حرج نہیں ہے، اس سے نہ گزرنے والا گناہ گار ہوگا اور نہ ہی نمازی کی نماز میں  کوئي خلل واقع ہوگا اور نہ ہی ثواب ونیکی میں کمی ہوگي۔ اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے:

(1)وہ کہتی ہیں :"جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری زیادہ ہوگئي تو  آپ ﷺ نے اپنی (دوسری) بیویوں سے اس بات کی اجازت لے لی کہ آپ کی تیماداری میرے ہی گھرکی جائے۔انہوں نے آپ کو اجازت دے دی،(ایک روز) رسول اللہ ﷺ دو آدمیوں کے درمیان (سہارا لے کر ) گھر نے نکلے ۔ آپ کے پاؤں۔ (کمزوری کی وجہ سے ) زمین پر گھسٹتے تھے، آپ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان باہر نکلے تھے۔"(صحیح بخاری:198)

(2) ایک روایت میں ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :" گویا میں اس وقت آپ کے قدموں کودیکھ رہی ہوں کہ تکلیف کی وجہ سے زمین پر لکیربناتے جاتے تھے۔ ابو بکر نے یہ دیکھ کر چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں ۔ لیکن آپ ﷺ نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لئے کہا۔ پھر آپ ان کے قریب پہونچے اور بازو میں بیٹھ گئے۔"(صحیح بخاری:664)

(3) سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ  عنہ کہتے ہیں :" رسول اللہ ﷺ بنی عمر وبن عوف میں ( قبا میں ) صلح کرانے  کے لئے گئے  ، پس نماز کا وقت آگیا۔ مؤذن (بلال رضی اللہ عنہ) نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے آکر  کہا کہ کیا آپ نماز پڑھائیں گے تو میں تکبیر کہوں ؟ ابو بکر نے فرمایا:ہاں، چنانچہ ابو بکر نے نماز شروع کردی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے تو لوگ نماز میں تھے۔ آپ صفوں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا (تاکہ ابو بکر نبی ﷺ کی آمد پر آگاہ ہوجائیں ) لیکن ابو بکر نماز میں کسی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔الخ۔"(صحیح بخاری:684)

 ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ صفوں کے آگے  اور صفوں کے بیچ سے گزر کر امامت کی جگہ تک پہنچے تھے، جبکہ  ابو بکر رضی اللہ عنہ اس وقت امام ہو کر نماز پڑھارہے تھے ۔ پس اگر صفوں کے آگے اور بیچ سے گزرنا جائز نہ ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ ہرگزنہیں گزرتے۔

سترہ کی لمبائي:

(1)آپ ﷺ سے سترے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا :"اونٹ کے پالان کے پچھلے حصے  کی لمبائي کے برابر۔"(صحیح مسلم:1113،بروایت عائشہ)

عام طورپر کجاوہ کی لکڑی کی لمبائي ایک ہاتھ (پینتالیس سینٹی میٹر)ہوتی ہے۔(دیکھئے:فتح الباری:1/75)

 لہذا کم سے کم اتنی لمبی چیز آگے بطور سترہ رکھنا ضروری ہے،اس سے کم کافی نہیں ہے، ہاں اگر نہ ملے تو جو چیز بھی دستیاب ہوجائے اسی کو سترہ بنالے۔ البتہ سترہ کی چوڑائي کا کوئي اعتبار نہیں ہے باریک سے باریک چيز  کا سترہ بنایا جا سکتا ہے۔(نیل الاوطار:3/409)

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ