Skip to main content

سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ {2}

 

تحقیقی مقالہ:

 


سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ

 تحریر:شیخ ابوعبدالرحمن محمود بن محمدالملاح                                         ترجمہ:ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی(قسط:2)


     (قارئین کرام!اس مضمون کی پہلی قسط گذشتہ شمارہ میں غلطی سے مضمون نگار کے نام کے بجائے صرف مترحم کے نام سے شائع ہوگئ ہے اور اس میں قسط نمبر بھی نہیں دیا گيا ہے۔ اس لئے ہم معذرت خواہ ہیں!)

صابئین کی حقیقت:

قولہ:"باقی رہا صابئي مذہب تو عراق وغیرہ کے آثار قدیمہ کی کھدائي کی دوران جو کتبات بر آمد ہوئے ہیں ، ان سے پتہ چلتا ہےکہ یہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی کلدانی قوم کا مذہب تھا،دور قدیم میں شام ویمن کے بہت سے باشندے بھی اسی مذہب کے پیروتھے،لیکن جب یہودیت اور پھر عیسائيت کا دور دورہ ہوا تو اس مذہب کی بنیادیں  ہل گئیں اور اس کی شمع فروزاں گل ہوکر رہ گئي ، تاہم مجوس کے ساتھ خلط ملط ہوکر یا ان کے پڑوس میں عراق عرب اور خلیج عربی کے ساحل پر اس مذہب کے کچھ نہ کچھ پیروکار باقی رہے"۔(تاریخ ارض القرآن: 2/193۔208،الرحیق المختوم ص61)۔

تحقیق :حقیقت صابئین

     حافظ ابن کثیر اپنی مایہ ناز"تفسیر" میں صابئین کی حقیقت کےبارے میں اختلاف ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :

"مگر بظاہر مجاہد، ان کے موافقین اور وھب بن منبہ کا قول ہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی،نہ مجوسی نہ مشرک، بلکہ یہ لوگ فطرت پرتھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی پر مشرکین، اصحاب رسول اللہ کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک  کردیئے ۔ بعض علماء کا قول ہےکہ  صابی وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی ۔ واللہ اعلم۔(تفسیر ابن کثیر :1/290۔ط:دار طیبہ،تحقیق سامی سلامہ،مترجم اردو:1/166۔ط:مکتبہ اسلامیہ، لاہور)تفسیر قرطبی میں سورہ بقرہ کی آيت(62) کی تفسیر کے تحت مذکور ہے کہ حقیقت صابئين کے سلسلہ میں سلف کا اختلاف ہے۔ ایک قوم نے کہا: یہ اہل کتاب  میں سے ہیں ۔ان کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال اور ان کی عورتوں سے نکاح جائز ہے۔ ایک قوم نے کہا: یہ کچھ لوگ تھے جن کا دین نصرانیوں سے ملتا چلتا تھا، ان کا قبلہ جنوب کی طرف تھا، یہ لوگ اپنے آپ کو نوح علیہ السلام کے دین پر بتاتے تھے ۔کچھ لوگوں نے کہا: کہ یہود ومجوس کے دین کا خلط ملط یہ مذہب تھا۔ ان کا ذبیحہ  کھانا اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا ممنوع ہے۔ اور ایک قول یہ ہیکہ  یہ کچھ ایسے لوگ تھے جو فرشتوں کے پجاری تھے،اور قبلہ کی طرف رخ کرکے  پنج وقتہ نماز پڑھتے تھے اور  زبور کی تلاوت کیا کرتے تھے۔

    پھر اس کے بعد امام  قرطبی  فرماتے ہیں : مجھے جہاں تک معلوم ہوا کہ  یہ لوگ موحد تھے، لیکن تاروں کی  تاثیراورنجوم کے معتقد تھے، اسی لئے علماء کرام نے ان پر کفر کافتوی دیا ہے۔

    اور"موسوعۃ میسرۃ" میں مرقوم ہےکہ صابئین کا آج تک باقی رہنے والا فرقہ جو  یحی علیہ السلام کو اپنا  نبی تسلیم کرتا ہے وہ طائفہ مندائیہ ہے جو   کواکب ونجوم کی تقدیس وتعظیم کرتا ہے۔ ان لوگوں کے دینی رسوم وعلامات میں سے قطب شمالی کی طرف متوجہ ہونا اور بہتے پانی میں بپتسمہ  دینا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ:" الرد علی المنطقیین"(ص454۔ ط:6) میں فرماتے ہیں :

 صابئہ دو ہیں: صابئہ حنفاء ، اور صابئہ مشرکین۔

صابئہ حنفاء : وہ لوگ ہیں جونسخ ،تحریف اور تبدیل سے پہلے شریعت توریت وانجیل کے متبع تھے اور اللہ تعالی نے انہی  لوگوں کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔

    اور صابئہ مشرکین فرشتوں کے پجاری تھے،زبور پڑھتے تھے اور نماز ادا کرتے تھے ، یہ لوگ روحانیات علویہ کی پوجا کیا کرتے تھے۔

 علامہ ابن القیم نے "احکام اھل الذمۃ"(ط:2،دارالکتب العلمیہ ، 1423ھ) میں لکھا ہےکہ صابئہ ایک بڑی قوم وامت تھی ،ان میں نیک وبرے ہر طرح کے لوگ تھے، اور یہ امت بھی مؤمن وکافردوگروہوں میں منقسم تھی۔ کیونکہ بعثت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل دو ہی طرح کی امتیں تھیں: کافر لوگ کہ سب  کے سب بدبخت وبرے، بتوں کے پجاری اور مجوسی تھے۔ اور دوسری قسم میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ تھے اور یہی لوگ یہود ونصاری اور صابئین کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر ان دونوں قسموں کی امتوں کا تذکر ہ کیا ہے چنانچہ  فرمایا:"مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاری ہوں یا صابی ہوں، جوکوئي بھی اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئي خوف ہے اور نہ اداسی"۔(بقرہ:62)

    اور سورہ مائدہ(69) میں ارشاد فرمایا:" مسلمان، یہودی، ستارہ پرست اور نصرانی  کوئي ہو، جو بھی اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ محض بے خوف رہے گا اور بالکل بے غم ہوجائے گا ۔ اور سورہ حج(17) میں ارشاد ہوا:" بیشک اہل ایمان اور یہودی اور صابی اور نصرانی اور مجوسی اور مشرکین ان سب کے درمیان قیامت کے دن خود اللہ تعالی فیصلے کردےگا۔ اللہ تعالی ہرہر چيز پر گواہ ہے "۔

    یہاں اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا کہ" ان میں سے جو اللہ تعالی پر اور یو م آخرت پرایمان لائے " کیونکہ  ان کے ساتھ ساتھ مجوس ومشرکین کا بھی ذکر کیا ہے۔لہذا چھ امتوں کا ذکر کیا ہے۔جن میں سے دو شقی وبری ہیں اور چار امتیں شقی وسعید:اچھے وبرے میں منقسم ہیں ۔     چنانچہ جہاں اللہ تعالی نے اہل ایمان اور اعمال صالحہ ا نجام دینے والوں سےاجر وثواب کا وعدہ کیا ہے وہاں صرف چار امتوں کا ذکر کیا ہے لیکن جہاں امتوں کے درمیان فیصلے کا ذکر کیاہے وہاں ان چار امتوں کے ساتھ مزید دو امتوں:مجوسی ومشرکین کو بھی ذکر کیا ۔ جبکہ اجروثواب کے وعدہ والی آيت میں ان کو داخل نہیں کیا، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ صابئین میں مؤمن وکافر اورشقی وسعیددونوں طرح کے لوگ ہیں اور یہ ایک قدیم امت ہے جو یہود ونصاری سے بھی پہلے موجود تھی، اور اس کی دو قسمیں  تھیں : صابئہ حنفاء اور صابئہ مشرکین۔

    اور عیسی علیہ السلام سے قبل" حران" میں ان کی دار الحکومت تھی ، ان کے پاس بھی کتابیں ، مؤلفات اور علوم پائے جاتے تھے  اور ان کی ایک بڑی تعداد بغداد  میں بستی تھی ۔ ابراھیم بن ھلال صابی صاحب الرسائل انہیں میں سے تھا ،اس کا دین وہی تھا ، اور یہ مسلمانوں کے ساتھ ماہ رمضان کے روزے رکھا کرتا تھا ، ان میں سے اکثر لوگ فلاسفہ تھے، ان کے معتقدات خیالات اور نظریات مشہور تھے، ان کا ذکر اصحاب المقالات نے کیا ہے۔

   تفصیل بالا کا خلاصہ یہ ھیکہ  طائفہ صابئہ کے درج ذیل فرقے ومذاہب ہیں:

(1)ان میں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو نوح علیہ السلام کے پیروکار خیال کرتے تھے۔

(2)کچھ لوگ اپنے آپ کویحی بن زکریا علیہ السلام کے متبع سمجھتے تھے۔

(3)کچھ لوگ یہودیت ونصرانیت کی ملاوٹ سےاپنے لیے مذہب بنالیےتھے۔

(4)اور کچھ لوگوں نے یہودیت ومجوسیت  کے درمیان تلفیق وملاوٹ کر کے اپنا مذہب بنالیا تھا۔

شیخ مشہور حسن آل سلمان اپنے ویب سائٹ ميں فرماتے ہیں :

    خلاصہ یہ کہ فرقہ صابئہ آج بھی موجود ہے اور وہ کافرومرتد ہے، اسی میں سے ایک فرقہ اپنے اصول کےاعتبار سے موحد ہے،لیکن  آج جو فرقہ موجود ہے وہ بت پرست ہے، اس کے ساتھ اہل کتاب جیسا معاملہ نہیں کیا جائیگا ،مثلا ان کی پاکباز عورتوں سے نکاح یا ان کے ذبیحہ کا کھانا حلال نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔

(الموسوعۃ المیسرۃ فی الادیان والمذاھب المعاصرۃ)

 میں دو ذبیح کی اولاد ہوں:

قولہ:"نبیﷺ سے آپ کا یہ ارشاد مروی ہےکہ میں دو ذبیح کی اولاد ہوں: ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے آپ کے والد عبد اللہ"(الرحیق المختوم ص81)

تحقیق: اس لفظ کے ساتھ یہ حدیث بے اصل ہے:

علامہ البانی:"سلسلہ ضعیفہ"(331) میں فرماتے ہیں: اس لفظ کے ساتھ اس کی کوئي اصل نہیں ہے "کشف" (1/199) میں ہے:زیلعی اور ابن حجرنے"تخریج الکشاف" میں کہا:" ہمیں یہ حدیث اس لفظ  کے ساتھ نہیں ملی ہے"۔ میں (البانی) کہتا ہوں : یہ حدیث"تخریج الکشاف" (4/141) میں ہے اور اس میں ابن حجر کاقول اس طرح ہے :" میں(ابن حجر) نے کہا: علامہ زیلعی نے اس حدیث کے لیے فراغ وبیاض چھوڑاہے لیکن اس کو روایت کیا ہے۔۔۔۔"،میں (البانی) نے کہا: حافظ ابن حجر نے ایسا ہی کہا ہے، جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ خودانہوں نے بھی"اخرجہ" کے بعد بیاض وفراغ چھوڑا تھا تاکہ بعد میں اس کا املا کرادے لیکن نہ کرسکے، ایسا لگتا  ہےکہ ان کا خیال تھا کہ اس حدیث کی کوئي اصل ہوگي لیکن وہ اسے پانہ سکے۔ واللہ اعلم۔

     اور امام حاکم نے اس حدیث کو صیغہ جزم کےساتھ نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے معلقا روایت کیا ہے۔ چنانچہ "مستدرک"(2/559) میں ابن عباس اور ابن مسعود سے مروی اثر  کہ ذبیح اسحاق ہیں ، اسے روایت کرنے کے بعد انہوں نے کہا: ہم نے طلب حدیث کےلیے جن جن شہروں کا سفر کیا ہے۔ ان کے شیوخ حدیث کے درمیان اس سلسلہ میں  میں نے کوئی اختلاف نہیں دیکھا کہ ذبیح اسماعیل علیہ السلام ہیں۔اور اس بارے میں ان کی بنیادی  دلیل نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ:" میں دو ذبیح کا بیٹا ہوں"، کیونکہ آپﷺ بلا کسی اختلاف کے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں اور دسرے ذبیح آپ کے والد عبد اللہ بن عبد المطلب ہیں۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ ان دلائل کے مصنفین اسحاق کے ذبیح ہونے والے قول ہی کو اختیار کررہےہیں"۔

     میں (البانی) کہتا ہوں: حدیث مذکور سے شاید امام حاکم کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جسےخود انہوں نے چند صفحات(2/551) قبل عبد اللہ بن محمد  العتبی حدثنا عبد اللہ بن سعید عن الصنابحی کے طریق سے روایت کیا ہے صنابحی نے کہا:

     "ہم امیر معاویہ بن ابی سفیان کی مجلس میں حاضر تھے، وہاں موجود لوگوں کے درمیان ابراھیم علیہ السلام کے دونوں فرزند اسماعیل واسحاق کا تذکرہ ہوا توان میں سے بعض نےکہا: ذبیح اسماعیل ہیں جبکہ  دوسرے لوگوں نے کہا کہ ذبیح ، اسحاق ہیں ۔اس پر معاویہ نے فرمایا: تم لوگ صاحب علم و باخبر شخص کے پاس آئے ہو،ایک مرتبہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ ایک دیہاتی  شخص آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے پیچھے  ایسے علاقے کو چھوڑ آیا ہے جو خشک ہو رہے ہیں ، قحط سالی ساہے، پانی نہیں ہے، مال واولاد اور اہل وعیال ہلاک وضائع ہورہے ہیں ۔

     اے دوذبیح کے فرزند! اللہ تعالی کی عطا کردہ چیزوں میں سے  مجھے  کچھ عنایت کیجئے ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اور کوئي انکار نہ کیا"۔

صنابحی کہتے ہیں : ہم سب نے کہا اے امیر المؤمنین !دو ذبیحوں سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: عبد المطلب نے جب بئر زمزم کی کھدائي کا حکم دیا تو نذرمانا کہ اللہ تعالی نے اگر اس کی کھدائي  کو آسان کردیا تو اس کی راہ میں اپنے کسی بیٹے کو قربان کردونگا، چنانچہ وفاء نذر کے لیے قرعہ اندازی کی گئي  جس میں نام عبد اللہ کا نکلا،لہذا ان کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا گيا،لیکن ان کے ننیہال  والے نبو مخزوم نے عبد المطلب کو اس ارادہ سے باز رکھا اور کہا کہ عبد المطلب  اپنے بیٹے کے بدلہ میں فدیہ دیکر اپنے رب کو  راضی وخوش کرلیجئے ۔ چنانچہ انہوں نے فدیہ میں سو اونٹووں کو ذبح کیا ، اس طرح عبد اللہ ایک ذبیح ہوئے اور اسماعیل دوسرے ذبیح "۔

     اس روایت پر امام حاکم نے سکوت اختیار کیا ہے مگر امام ذھبی نے "اسنادہ واہ"(اس کی سند واہی  وکمزور ہے) کہہ کر ان کا تعاقب کیا ہے۔

     اور حافظ ابن کثیر نے "تفسیر"(4/18) میں اسے  ابن جریر سے نقل کرنے کےبعد کہا کہ یہ حدیث سخت غریب یعنی ضعیف ہے۔(الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ التی حکم علیھا الحافظ ابن کثیر فی تفسیرہ)

    اور "شرح الزرقانی علی المواھب" سے نقل کر کے "الکشف" میں جو کہا گيا ہے کہ" یہ حدیث حسن ہے، اور حاکم وذھبی نے اسے متعدد طرق کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے" یہ سخت وہم ہے کیونکہ زرقانی کا یہ حکم حدیث (الذبیح اسحاق) کے بارے میں ہےگرچہ یہ حکم بھی محل نظر ہے جیسا کہ اسکا بیان آگے آئیگا۔

پھراس کے بعد صاحب"کشف" نے جو کہاہے کہ حلبی نے"سیرت" کے اندر سیوطی کا قول نقل کیا ہےکہ یہ حدیث غریب(ضعیف) ہے، اس کی سند میں غیر معروف ومجہول راوی ہے، تو یہ حکم ذھبی سے منقول حکم کے مخالف نہیں ہے۔

    میں (البانی ) کہتا ہوں: آپ نے ملاحظہ کیا کہ زرقانی کے کلام میں جس حدیث کے طرق کی طرف اشارہ کیا گيا ہے وہ اس حدیث کی نہیں ہیں ، لہذا ثابت ہوا کہ "الذبیح اسماعیل" والی حدیث کی تضعیف پر امام ذھبی وسیوطی دونوں متفق ہیں "۔

 نیز دیکھئے : تخریج احادیث الکشاف للزیلعی (3/177)، ط:دار ابن خزیمہ، ریاض۔ حدیث نمبر:(1089) تحقیق الشیخ عبد اللہ بن سعد،السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی (1677)،کشف الخفاء ومزیل الالباس من الاحادیث علی السنۃ الناس،(606) لا سماعیل بن محمد العجلونی۔ ط:دار احیاء الثرات العربی۔

(صفحہ29کابقیہ)  کی تشریح کرتے ہوئے بدتمیزی کے تمام حدود تجاوز کرکے یہ لوگ کہتے ہیں کہ آیت میں ایمان سے مراد حضرت علی اور کفرسے مراد حضرت ابو بکر اور فسوق سے مراد عمر  اور عصیان سے مراد حضرت عثمان  غنی رضی اللہ عنہم ہیں۔(اصول الکافی:269)۔

       جن  لوگوں کے نزدیک اس قسم کی خباثت پائي جاتی  ہو اور جوفرقہ کبار صحابہ وخلفائے ثلاثہ سے حددرجہ کی عداوت رکھتا ہو جس کے لئے قتل صحابہ جائز ومباح ہو پھر وہ کیسے دائرہ اسلام میں رہنے کا دعویدار اور مذہب اسلام کا علمبردار بن سکتا ہے ۔ حقیقت  میں یہی لوگ اسلام اور محبین اسلام کے دشمن اور طاغوتی ذھن کے حامل ہیں!!۔   

 

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ