سترہ:تعریف،حکمت
اوراحکام
◙…ابو عبد العزیزمحمدیوسف(قسط2)
سترہ
اور نمازی کے درمیان فاصلہ:
(1)"نبیﷺنے
کعبہ میں داخل ہوکر نماز پڑھی تو قبلہ کی دیوار اور آپ ﷺ کے درمیان
تقریبا"ثلاثہ اذرع"تین ہاتھ کا فاصلہ تھا ۔"(صحیح
بخاری:506،مسنداحمد:6/13،بروایت عبد اللہ بن عمر)
(2)"جب تم میں سے کوئي سترہ کی طرف نماز پڑھے تو اس کے
قریب کھڑاہو، کہیں شیطان اس پر اس کی نمازباطل نہ کردے۔"(سنن ابو
داود:696،بروایت سھل)،معلوم ہوا کہ نمازی کوسترہ کے اتناقریب کھڑاہوناچاہئےکہ اس
کےاور سترہ کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہونا چاہئے۔
(3)"رسول
اللہ ﷺ کے سجدہ کرنے کی جگہ اور دیوار کے مابین ایک بکری کے گزرنے کے بقدرفاصلہ
تھا۔"(صحیح بخاری:496،بروایت سھل بن سعد)یعنی سجدہ کی جگہ اور سترہ کے درمیان
زیادہ سے زیادہ ایک بالشت یا دو بالشت کا فاصلہ ہوناچاہئے۔
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ:
رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا :" اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس کام
کا کتنا گناہ ہے تو اسے نمازی کے آگے سے گزرنے کے مقابلے میں چالیس(دن یا مہینہ یا
سال) وہاں کھڑا رہنا زیادہ پسند ہو۔"(صحیح بخاری:510،بروایت ابو جھیم)، معلوم
ہوا کہ نمازی کے آگے سے گزرنا کبیرہ گناہ ہے ۔یاد رہے کہ یہ حرمت اس وقت ہے کہ جب
نمازی اور سترے کے درمیان سے کوئي گزرنا
چاہے اور اگر کوئي سترے کے پیچھے سے گزرنا چاہے تواس میں کوئي حرج نہیں ۔(صحیح مسلم:499،سنن ابو
داود:685،براویت طلحہ بن عبید اللہ)
نمازی پر واجب ہےکہ اپنے سامنے سےگزرنے
والے کوروکے:
اگر گزرنے والا نہ مانے تو نمازی اس کے سینہ میں دھکادے کر اس کو باز رکھے
پھربھی نہ مانے تو پہلے سے زیادہ زور سے دھکادے اور اب بھی اصرار کرے تو بلا
ہتھیار کے لڑائي کرے، اور اگر اس اثناء میں گزرنے والا ہلاک ہو جائے تو نمازی پر
کوئي چيزنہیں ہے نہ قصاص نہ دیت اور نہ ہی کفارہ۔(شرح صحیح مسلم للنووی:4/447،فتح
الباری :1/754)
(1)رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: " جب تم میں سے کوئي سترہ قائم کر کے نماز پڑھنے لگے اور کوئي آدمی اس کے سامنے (یعنی سترہ اور
نمازی کے درمیانی فاصلہ) سےگزرنے لگے تو نمازی کو چاہئے کہ اسے روکنے کی کوشش کرے
اور اگر باز نہ آئے تو اس سے لڑائي کرے کیونکہ وہ شیطان ہے۔"(صحیح بخاری:509بروایت
ابوسعیدالخدری)
(2)فرمایا:"
جب تم میں سے کوئي کسی ایسی چیزکی طرف نماز پڑھ رہا ہو، جو اس کے لئے لوگوں سے
سترہ ہو اور کوئي اس کے آگے سے گزرنے کی کوشش کرے تو اس کے سینے کے آگے ہاتھ کر کے
اس کو روک دے۔ اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑائي کرے، بلاشبہ وہ شیطان ہے"۔(صحیح
مسلم : 1129، بروایت ابوسعید الخدری)
(3) ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ
نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری کا بچہ دوڑتا ہوا آیا اور آپ کے سامنے سے گزرنا
چاہا تو آپ اسے آگے بڑھ کر روکتے رہے یہاں تک کہ آپ کا پیٹ دیوار سے جالگا اور وہ
بچہ آپ کے پیچھے سے گزرگیا۔(سنن ابوداود:708،مسنداحمد:2/196،بروایت عبد اللہ بن
عمروبن العاص)
نمازی
اور سترہ کے درمیان کن چيزوں کے ہونے سے نماز باطل ہوگي:
(1)رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا:" جب تم میں سے کوئي نمازپڑھنے کھڑاہوتو اس کے سامنے پالان
کے پچھلے حصہ جیسی چیزاس کا سترہ ہے ، لیکن جب نہ ہو تو اس نماز کو عورت ، گدھا
اور کالا کتا قطع(کاٹ) کردیتا ہے۔"۔صحیح مسلم:510)
(2)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" جب تم میں سے کوئي سترہ کی
طرف نماز پڑھے تو اس کےقریب کھڑاہو، تاکہ شیطان اس پر اس کی نماز قطع (کاٹ )نہ کر
سکے۔"(سنن ابو داود :695بروایت سھل بن ابی حثمتہ)
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اگر نمازی کے آگے عورت،
گدھا،کالا کتا اور شیطان ہوتو نمازی کی نماز باطل ہوجائے گي گزرے یا نہ گزرے۔
البتہ
عورت اگر نمازی کے سامنے لیٹی ہوتو کوئي حرج نہیں درج ذیل دلیلوں کی بناپر:
(1)عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی
ہیں :"نبی کریم ﷺ کھڑےہوکر رات میں نماز پڑھتے اور میں آپ کے سامنے آپ کے اور
قبلہ کے درمیان عرض( چوڑائي )میں بسترپر لیٹی رہتی تھیں۔"(صحیح
بخاری:511،514،515،صحیح مسلم:1140)
(2) اور فرماتی ہیں :" میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سوئي
رہتی تھی اور میرے دونوں پاؤں آپ ﷺ کے سامنے قبلہ کی طرف یعنی سامنے ہوتے۔ جب آپ ﷺسجدہ
کرتے تو مجھے دباتے تو میں انہیں سمیٹ لیتی پھرجب قیام فرماتے تو میں انہیں پھیلا
لیتی ۔ انہوں نے کہا: اور اس زمانہ میں گھروں کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے ۔"(صحیح
بخاری:513،صحیح مسلم:512)
اور ابو سعید خدری کی وہ حدیث جس میں ہے کہ "نماز کو کوئي چيز نہیں توڑتی ہے
۔"(ابو داود:719،بیھقی:2/278)ضعیف ہے، اس کی سند میں مجالد بن سعید ضعیف ہے۔
(لیس بالقوی وقد تغیرفی آخرعمرہ:تقریب:7303،تمام المنۃ ص306ص نیزدیکھئے فتح الباری
لابن رجب :2/697،698،نصب الرایۃ للزیلعی:2/77)۔اور اگر اس کی صحت کو تسلیم کر لیا
جائے تو یہ کہا جائیگا کہ یہ حدیث عام
ہے،اس عموم سے وہ تین چیزیں (گدھا،کالا کتااور عورت)خارج ہوں گی کہ جن کے
گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے،اور اسکا اعادہ
ضروری ہوگا۔ البتہ ان کےعلاوہ کسی کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹے گي ، ہاں نمازی کو
نقصان ہوگا۔ یعنی اس کے خشوع وخضوع اور اجر میں کمی ہوتی ہے یا کم از کم اتباع امر
کی تقصیرکانقصان تو واضح ہے۔(دیکھئے:ابو داود مع ترجمہ وفوائدازشیخ
ابوعمارعمرفاروق سعیدی:1/525،ط/دارالسلام،فتاوی اسلامیہ:1/352،ط/دار السلام)
باتوں
میں مشغول یا سونے والوں کی طرف منہ کر کے نمازپڑھنا:
نبی کریم ﷺنے
فرمایا:"نہ سونے والے کے پیچھے نماز پڑھواور نہ باتوں میں مشغول شخص کے
پیچھے۔"(سنن ابو داود:694)
شیخ ابو عمارعمرفاروق سعیدی سنن ابو داود کے
ترجمہ وفوائد(1/529۔530) میں لکھتے ہیں:"صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھتے
اور (بعض اوقات)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاآپ ﷺ کے سامنے سوئي ہوئي ہوتی تھیں ۔(دیکھئے:صحیح
بخاری:382،وصحیح مسلم:512)معلوم ہوا کہ یہ جائزہے اور جہاں کہیں لوگ باتوں میں
مشغول ہوں اور وہ قبلہ رخ پرہوں تو بظاہرنمازی کو اس سےتشویش ہوسکتی ہے اور اس کے
خشوع میں خلل آئیگا ،لہذا ایسی صورتوں میں
بھی احتیاط کرنا اچھاہے۔" نیزدیکھئے:انجازالحاجۃ شرح سنن ابن ماجہ للشیخ محمد
علی جانباز4/130۔131،ط/مکتبہ قدوسیہ۔
Comments
Post a Comment