Skip to main content

سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ {3}

 

تحقیقی مقالہ:

 


سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ

 تحریر:شیخ ابوعبدالرحمن محمود بن محمدالملاح                                         ترجمہ:ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی(قسط:3)


ساتویں دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ختنہ کیا جانا:

قولہ:" ولادت کے بعد آپ کی والدہ نے عبد المطلب  کے پاس پوتے کی خوشخبری بھجوائي۔ وہ شاداں وفرحاں تشریف لائے اور آپ کو خانہ کعبہ  میں لے جاکر اللہ تعالی سے دعا کی ، اور اسکا شکر ادا کیا اور آپ کا نام محمدتجویز کیا ، یہ نام عرب میں معروف نہ تھا، پھر عرب وستور کے مطابق ساتویں دن ختنہ کیا"(ابن ہشام:1/ 159، 160، تاریخ خضری:1/62،الرحیق المختوم: ص83۔84)۔

تحقیق: ساتویں دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ختنہ کیے جانے کے سلسلہ میں علامہ البانی رحمہ اللہ "سلسلہ ضعیفہ"(13/1/583)(6270) میں فرماتے ہیں:

 یہ بطریق یحی بن ایوب العلاف قال:نامحمد بن ابی السری العسقلانی:نا الولید بن مسلم، عن شعیب بن ابی حمزہ عن عطاء الخراسانی،عن عکرمة، عن ابن عباس مروی ہے، ابن عباس نے کہا:"ان عبد المطلب ختن النبی صلی اللہ علیه وسلم یوم سابعه،وجعل له مأدبة، وسماہ محمدا"۔

     یعنی عبد المطلب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتویں دن ختنہ کیا،اوردسترخوان لگا کر دعوت کی ، اور آپ کا نام محمدرکھا۔

   یحی بن ایوب کا کہنا ہےکہ ہمیں یہ حدیث ابن ابی السری کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ملی۔

میں (البانی) نے کہا: حافظ ابن حجر نے"تقریب" (3/312/6263۔تحریر التقریب) میں ابن ابی  السری کے بارے میں"صدوق عارف ،لہ اوھام کثیرۃ" کہا ہے یعنی وہ صدوق عارف ہے لیکن اس کے بہت سے اوہام ہیں،اور"تھذیب"(7/425۔مطبوعہ ہند) میں کہا کہ ابن عدی نے اس کی  منکر حدیثوں میں سے بطور نمونہ "من سئل عن علم فکتمه۔۔۔" والی حدیث ذکر کی ہے جسے اس نے معتمر عن أبیہ عن عطاء عن ابی ھریرہ کے طریق سے مرفوع روایت کیا ہے۔ اور ذھبی نے بھی اسے "میزان"(4/23۔24 تحقیق علی البجاوی) میں ذکر کیا ہے۔ اور ذھبی اور حافظ ابن حجر دونوں نے نقل کیا ہےکہ  ابن عدی نے ابن ابی السری کے بارے میں "کثیر الغلط" کہا ہے۔

 میں (البانی )کہتا ہوں: الکامل ابن عدی کے مطبوعہ نسخہ سے محمد بن ابی السری کا ترجمہ اور اس  کی روایت کردہ حدیث"من سئل عن علم" ساقط ہے، میں نے  "کامل" میں"باب من اسمہ محمد" کا اور اسماء واحادیث کی فہرست کا مراجعہ کیا مگر کچھ نہ پاسکا، لہذا کامل ابن عدی کے مخطوطات کا مراجعہ کیا جاناچاہئے۔

مزید براں حدیث زیر بحث کی سند میں دیگردوعلتیں ہیں:

(1) پہلی علت: ولید بن مسلم کی تدلیس ہے،اور یہ تدلیس التسویہ کیا کرتے تھے۔

(2)دوسری علت: عطاء  ابن ابی مسلم خراسانی ہے، حافظ نے کہا:"صدوق یھم کثیراویرسل ویدلس"صدوق ہے، لیکن بہت زیادہ وہم کا شکار ہوتا ہے، نیز ارسال وتدلیس بھی کرتا ہے۔(خلاصہ یہ کہ یہ حدیث مذکورہ تین علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے)

اس سلسلہ میں"تحفۃ المولود"سے امام ابن القیم رحمہ اللہ کی ایک تفصیلی گفتگو ملاحظہ ہو:

تیرھویں فصل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ختنہ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں:

1۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختون پیدا ہوئے تھے۔

2۔شق صدر کے وقت جبریل نے آپ کا ختنہ کیا تھا۔

3۔عرب دستور کے مطابق دادا عبد المطلب نے آپ کا ختنہ کیا۔

ہم ذیل میں ان اقوال مذکورہ کے قائلین اور ان کے دلائل کا ذکر کرتے ہیں:

قول اول کے قائلین نے درج ذیل  کئي حدیثوں سے حجت پکڑی ہے:

(1) ابو عمر بن عبد البر کی روایت کردہ حدیث سے، انہوں نے کہا: "نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مختون پیداہوئے تھے"۔ اسےعبد اللہ بن عباس نے اپنے باپ عباس بن عبد المطلب سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اس حال میں ہوئي کہ آپ کا ختنہ کیا ہوا تھا اور نال بھی کٹی ہوئي تھی، اور یہ چیز داداعبد المطلب کے لیے باعث تعجب وخوشی تھی چنانچہ انہوں نے کہا: میرا یہ پوتا ضرور بالضرور عظیم شان والا ہوگا۔

 ابن عبد البر نے کہا: عباس کی اس حدیث کی سند صحیح ودرست نہیں ہے، اور یہی حدیث ابن عمر سے موقوفا مروی ہے مگر وہ بھی ثابت وصحیح نہیں ہے۔

میں (ابن القیم) نے کہا: حدیث ابن عمر کو ہم نے ابو نعیم کے طریق  سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا:حدثنا ابو الحسن أحمد بن محمد بن خالد الخطیب،حدثنامحمد بن محمد بن سلیمان،حدثنا عبد الرحمن بن أیوب الحمصی، حدثناموسی بن أبی موسی المقدسی،حدثنا خالد بن سلمة،عن نافع عن ابن عمرقال:"ولدالنبی مسرورا مختونا"

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم مختون پیدا ہوئے تھے اور آپ کی نال کٹی ہوئی تھی ۔ لیکن محمد بن سلیمان یہ باغندی ہے اور محدثین نے اسے ضعیف قراردیا ہے،دارقطنی نے کہا: یہ بہت زیادہ تدلیس کرتا تھا ، ایسی حدیثوں کو بیان کیا کرتا تھا جنہیں وہ سنانہ ہوتا تھا ، اور کبھی دوسرے راویوں سے حدیثوں کا سرقہ (چوری)کرلیا کرتاتھا۔

(2)دوسری دلیل وہ حدیث جسے خطیب بغدادی (1/329/237۔مکتبۃ شاملہ) نے اپنی سند سے سفیان بن محمد مصیصی سے روایت  کیا ہے،مصیصی نے کہا:حدثناھشیم عن یونس بن عبید عن الحسن،عن أنس بن مالك قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم :"من کرامتي علی اللہ أني ولدت مختونا، ولم یرسوءتي أحد"یعنی میری عزت وکرامت یہ ہیکہ میں مختون پیدا ہوا ہوں، کسی نے میری شرمگاہ نہیں دیکھی ہے۔

خطیب کہتے ہیں: کہا جاتا ہےکہ اس حدیث کو یونس سے ھشیم کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے، اور یونس سے روایت کرنے میں سفیان بن محمد مصیصی متفرد ہے اور یہ منکر الحدیث ہے۔

خطیب(9/185۔تاریخ بغداد۔مکتبۃ شاملہ)نے کہا: ازھری نے مجھ سے بیان کیا کہ امام دارقطنی سے سفیان بن محمد مصیصی کےبارے میں دریافت کیا گیا،اور ابو الطیب طبری نے مجھ سے کہا کہ امام دار قطنی نے ہم سے فرمایا: اہل مصیصہ کا ایک شیخ ہے جسے سفیان بن محمد فزاری کہاجاتا ہے، یہ ضعیف ہے اور حدیث میں اس کا حال  براہے، اور صالح بن محمد حافظ نے کہا:سفیان بن محمد مصیصی "لاشئی"یعنی ہیچ ہے۔

اور حافظ ابو القاسم بن عساکر (تاریخ دمشق:3/413۔ 414،مطبوعہ دارالفکر)نے اسے حسن بن عرفہ کے طریق سے روایت کیا ہے، حسن نے کہا: حدثنا ھشیم عن یونس عن الحسن عن أنس قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم :"من کرامتي علی ربي عزوجل أني ولدت مختونا لم یرأحد سوءتي"۔ حسن بن عرفہ تک اس کی سند میں کئي مجہول راوی ہیں۔ حافظ ابن عساکر نے کہا: ابو بکر محمد بن عبد الرحمن بن الجارود الرقی نے اس حدیث کا سرقہ کر کے اسے حسن بن عرفہ سے روایت کردیا ہے۔

(3)تیسری دلیل: وہ روایت ہے جسے محمد بن علی ترمذی نے معجزات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ذکر کیا ہے،انہوں نے کہا: ایک معجزہ یہ ہےکہ صفیہ بنت عبد المطلب نے کہا:(ولادت باسعادت کے بعد) میں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ کیا بچہ پیدا ہوا ہے یا بچي؟ تو دیکھا کہ آپ مختون پیدا ہوئے ہیں۔ مگر یہ حدیث ثابت وصحیح نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئي معروف سند ہے۔۔۔نیز ترمذی نے صفیہ کا قول کہ " میں نے ان کو مختون دیکھا"نقل کیا ہے، یہ ان دیگر حدیثوں کے خلاف بھی ہے جن میں ہےکہ "لم یرسوء تي احد"(کسی نے  میری شرمگاہ نہیں دیکھی ہے)۔

    اس سلسلہ میں مروی ساری  حدیثیں ایک دوسرے کے خلاف ہے، اور ان میں  سے کوئي بھی ثابت نہیں ہے، اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ آپ مختون پیدا ہوئے تھے، تو بھی یہ چیز آپ کے خصائص میں سے نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ بہت سے لوگ ایسے پیدا ہوتے ہیں کہ انہیں  ختنہ کی  ضرورت نہیں رہتی ہے۔

ابن القیم نے کہا: ابو الغنائم النسابہ الزیدی نے ذکر کیا ہے کہ ان کے باپ قاضی ابو محمدحسن بن محمد بن حسن زیدی ایسے پیداہوئے تھے کہ انہیں ختنہ کی ضرورت نہ تھی۔اسی وجہ سے ان کو "المطھر" کے لقب سے ملقب کیا گیا تھا۔ابو الغنائم نے لکھا ہے کہ "ابو محمد حسن مختون پیدا ہوئے تھے، بعد میں ان کا ختنہ نہیں ہوا تھا، اور اسی حالت میں ان کی وفات ہوئی تھی ۔۔۔۔"

انہوں نے کہا:سیف بن محمد ابن اخت سفیان الثوری عن ھشام عن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ کی حدیث میں ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ابن صیاد ولد مسرورا مختونا"ابن صیاد پیداہوا تو اس کی نال کٹی ہوئي تھی اور مختون تھا۔ لیکن سیف بن محمد حدیث میں مطعون ومجروح ہے۔

    اور کہا گیا ہےکہ ختنہ ان کلمات میں سے ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالی نے اپنے خلیل ابراھیم علیہ السلام کو آزمایا تھا توانہوں نے ان کوپورا کیا تھا ۔ اور سب سے کڑی اور سخت آزمائش انبیاءکی ہوتی ہے۔اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ختان کو فطرت میں سے شمار کیا ہے،اور معلوم ہے کہ صبر کے ساتھ ختنہ کی آزمائش وابتلاء سے انسان  کو دوگنا اجروثواب نصیب ہوتا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کے لائق ومناسب یہ ہےکہ  یہ فضیلت ان سے نہ چھینی  جائے اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالی انہیں اسی طرح عزت وشرافت سے نوازے جس طرح اپنے خلیل ابراھیم علیہ السلام کو نوازا تھا ۔ اور آپ کے خصائص دیگر نبیوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ اعلی وارفع ہیں۔ اور جبریل امین نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ختنہ کیا تھا اسے آپ کے خصائص میں سے ہونا چاہئے۔

مذکورہ تفصیل میں سب سے بہتر کلام، ابن العدیم کاکلام ہے۔

فرشتہ کے ختنہ سے مراد خطیب کے طریق سے مروی وہ روایت ہے جس میں ابو بکرہ نے کہا کہ "ان جبریل ختن النبی حین طھرقلبه" جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو جب پاک کیا اس وقت انہوں نے آپ کا ختنہ بھی کیا۔باوجود یکہ یہ روایت موقوف ہے، اس کی سند بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ خطیب بغدادی نے کہا:"أنبأنا أبو القاسم عبد الواحد بن عثمان بن محمد البجلی،أنبأناجعفر بن محمد بن نصیر،حدثنامحمد بن عبد اللہ بن سلیمان حدثناعبد الرحمن بن عیینه البصری، حدثناعلی بن محمد المدائنی، حدثںا مسلمة بن محارب بن سلیم بن زیاد،عن أبیه، عن أبی بکرۃ"لیکن یہ سند قابل حجت نہیں ہے۔

     اور شق صدر کی حدیث متعدد سندوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع روایت کی گئي ہے۔ لیکن ان میں سے کسی بھی روایت میں اس بات کا ذکر نہیں ہےکہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ختنہ کیا تھا،سوائے اس مذکور حدیث کے ، لہذا یہ شاذ وغریب یعنی ضعیف ہے۔

 ابن العدیم کا کہنا ہےکہ بعض روایت میں  ہےکہ دادا عبد المطلب نے ساتویں دن آپ کا ختنہ کیا تھا ۔انہوں نے کہا: یہی بات۔ گر چہ اس میں کلام ہے ۔صحت وحقیقت کے قریب تر ہے۔ پھر ابن عبد البر کے طریق سے نقل کیاہےأ کہ:حدثناابوعمرواحمد بن محمد بن احمد۔قراءۃ منی علیه۔أن محمد بن عیسی حدثه قال: حدثنا یحی بن أیوب بن زیاد العلاف،حدثنا محمد بن أبی السری العسقلانی، حدثنا الولید بن مسلم، عن شعیب بن أبی حمزة عن عطاء الخراسانی عن عکرمة عن ابن عباس: ان عبد المطلب ختن النبی یوم سابعه وجعل له مأدبة وسماہ محمدا"۔یعنی ابن عباس نے کہا کہ عبد المطلب نے ساتویں دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ختنہ کیا اور دعوت کی اور آپ کا نام محمد رکھا۔

یحی بن ایوب نے کہا: یہ حدیث ہمیں صرف محمد بن المتوکل ابن ابی السری کے پاس ہی ملی ہے  ۔واللہ اعلم۔

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کمال بن العدیم رحمہ اللہ نے جو بات کہی ہے وہی قابل اطمینان ہے،اور اسی کے لئے شرح صدر ہوتا ہے، اور بظاہر اسی طرف ابن عبد البر کا میلان ہے، کیونکہ  حدیث مشار الیہ کےبعد انہوں نے کہا ہے: ہر قل کے ساتھ ابو سفیان کے قصہ والی حدیث ابن عباس جس کی سند صحیح ہے۔اس بات کی دلیل ہےکہ عرب ختنہ کیا کرتے تھے ، اور میرا خیال ہے کے ان کے اندرختنہ کی چلن حجاز میں یہودیوں کی مجاورت کیوجہ سے تھی۔

    میں (محمود الملاح) نے کہا:حدیث ابو سفیان صحیح بخاری(رقم:7۔ فتح الباری) میں ہے،اس میں ہےکہ ھرقل نے ابو سفیان سے عربوں کے (ختنہ) کے بارے میں دریافت کیا توانہوں نے کہا: عرب ختنہ کیا کرتے ہیں ۔

دیکھئے:(1) "السلسلہ الضعیفہ"از شیخ البانی حدیث (6270)

(2)"السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ " ازعمری(1/100)

(3)"العلل المتنا ھیۃ فی الاحادیث الواھیۃ" از ابن الجوزی (1/171) از مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، ط:1، 1403ھ،تحقیق خلیل المیس (4)"سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد" از محمد بن یوسف الصالحی الشامی (1/347 ) ۔

(5)"زاد المعاد"از ابن القیم (1/80)۔(جاری)

 

(صفحہ 33کابقیہ) "کان للخلفاء الفاطمین فی طول السنۃ أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنۃ وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومولدعلی بن ابی طالب ومولد فاطمۃ الزھراومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفۃالحاضر"(المواعظ والاعتباربذکر الخطط والآثار:ج1 ص490)

"فاطمی حکمران سال بھر میلاد،تہوار اور جشن مناتے رہتے۔ اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز(new year) پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا ۔ اسی طرح میلاد النبیﷺ، میلاد علی، میلاد فاطمۃ الزہرا،میلاد حسن ، میلاد حسین اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا ہے۔"

3۔علامہ ابو العباس احمدبن قلقشندی بھی اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

"فاطمی حکمران 12/ربیع الاول کو تیسرا جلوس نکالتے تھے اور اس جلوس کے موقع پر ان کا معمول یہ تھا کہ دار الفطرۃ (مقام) میں 20قنطار(پیمانہ)عمدہ شکر سے  انواع واقسام کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے 300خوبصورت برتنوں میں ڈال لیا جاتا۔ پھر جب میلاد کی رات ہوتی تو شریک میلاد مختلف لوگ مثلا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) داعی ومبلغ اور خطباء وقراء حضرات،قاہرہ اور مصر کی دیگریونیورسٹیوں کے اعلی عہدیداران اور مزاروں وغیرہ کے دربان ونگران حضرات میں تقسیم کیا جاتا۔" (دیکھئے: صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ،ج3/ص498تا 499)۔

بدعت میلاد سے متعلقہ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :

الابداع فی مضار الابتداع(ص126) از شیخ علی محفوظ، البدعۃ ضوابطھا واثرھا السیئۃ فی الامۃ(ص16تا21) ازڈاکٹر علی بن محمد ناصر،القول الفصل فی حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل(ص64تا72)از شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری المحاضرات الفکریۃ،ص84 ازسید علی فکری۔۔۔وغیرہ۔

 

 

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ