Skip to main content

سترہ: تعریف، حکمت اور احکام {3}

 

Rounded Rectangle: احکام ومسائل: 


سترہ: تعریف،  حکمت اور احکام

                                                                  ابو عبد العزیزمحمدیوسف مدنی (قسط3)


ان دلائل  کی حقیقت جن کے سہارے سترہ کو سنت قرار دیا جاتا ہے!!

(1)عبد اللہ بن عباس  کی حدیث کہ"رسول اللہ ﷺ نے فضا یعنی کھلی جگہ  میں نماز ادا کی اس حال میں کہ آپ ﷺ کے سامنے کوئی چیز نہ تھی "(مسنداحمد:1/224)

ضعیف ہے ،اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ (صدوق کثیرالخطا والتدلیس ۔ تقریب:1239)ضعیف  اور مدلس ہے اور عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے۔(الضعیفہ:5814، تمام المنۃ:ص305)

(2) فضل بن عباس کی حدیث کہ " آپ ﷺ نے صحراء میں نماز پڑھی آپ ﷺ کے سامنےسترہ نہ تھا۔۔۔"(سنن ابو داود:718،سنن نسائي :753،مسنداحمد:1/211)، اس کی سند میں انقطاع ہے کیونکہ اسے عباس  بن عبید اللہ نے اپنے چچا فضل بن عباس سے روایت کیا ہے اور  عباس  بن عبید اللہ کی ملاقات ان کے چچا فضل  بن عباس سے نہیں ہے ۔ (تمام المنۃ:ص305) اور خود عباس بن عبید اللہ بن عباس مجہول الحال ہے جیسا کہ ابن القطان نے کہا ہے۔ دیکھئے : تھذیب  التھذیب لابن حجر(5/123۔ط ہند)۔

(3)مطلب بن ابی وداعہ کی حدیث کہ انہوں نے نبی ﷺ کو (مسجد حرام میں ) باب  بنی سہم کے پاس  نماز پڑھتے دیکھا  جبکہ لوگ آگے  سے گزررہے تھےاور ان کے درمیان (رسول اللہ اور کعبہ  کے مابین ) سترہ نہیں تھا ۔(سنن ابو داود:2016،سنن نسائي :758،سنن ابن ماجہ :2958،مسند احمد:6/399)، اس کی سند میں مطلب بن ابی وداعہ سے روایت کرنے  والا راوی  مبہم ہونے کی وجہ سے مجہول ہے اور اگر مان لیا جائے کہ وہ مبہم کثیر بن مطلب ہے جیسا کہ احمد (6/399) کے یہاں ابن جریج کی روایت ہے تو یہ مستور یعنی مجہول الحال ہے کیونکہ اسے صرف ابن حبان  نے "الثقات" میں ذکر کیا ہےاور اسی وجہ سے حافظ نے اسے "مقبول"کہا ہے ۔(تقریب:6324)واللہ اعلم۔

نیز دیکھئے:تمام  المنۃ ص:303۔304،فتح الباری:

1/745۔

(4) سھل  بن ابی حثمہ سے مروی حدیث کہ آپ ﷺ نے فرمایا :" جب تم میں سے کوئي  کسی سترہ کی طرف نماز پڑھے تو اس کے قریب  کھڑاہو ۔"(سنن ابو داود:695) کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کبھی انسان غیر سترہ کی طرف نماز پڑھتا ہے۔(الشرح الممتع:3/677)،لہذاسترہ واجب نہ ہوا، یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ   اس حدیث میں سترہ کا حکم  بیان کرنا  مقصود نہیں ہے بلکہ سترہ  سے متعلق ایک حکم کو بیان کرنا مقصود ہے اور وہ یہ کہ سترہ کے قریب کھڑا ہونا چاہئے، کیونکہ قریب کھڑے نہ ہونے والے کی نماز کو شیطان کے گزرنے کی وجہ سے باطل ہونے کا خطرہ در پیش ہوتا ہے،تو جب یہ سترہ  رکھ کر نماز پڑھنے والے کی بات ہے تو بغیر سترہ کے نماز پڑھنے والے  کی کیا حالت ہوگي؟(الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ:2/275)۔ اسی صیغہ کے ساتھ  وارد درج ذیل نصوص پر غور کرنے  سے بات مزید واضح ہوجائیگي :

(ا)(یاایھاالذین آمنوااذاقمتم الی الصلاۃ فاغسلواوجوھکم۔)(المائدہ:6)

اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تواپنے چہروں کو دھولو۔۔۔)

(ب)(إذاصلی احدکم الجمعة فلیصل بعدھااربعا)(صحیح مسلم:881،بروایت ابوھریرہ)(جب تم میں سے کوئي  جمعہ پڑھ لے تو اس کےبعد چار رکعت مزید پڑھے)۔

(ج)إذاقضی أحدکم حجه فلیعجل الرحلة الی اھله فانه أعظم لاجرہ"(سنن دارقطنی:  2/300،مستدرک حاکم:1/650،"1753"سنن بیھقی:5/259بروایت عائشہ )(جب تم میں سے کوئي اپنے حج سے فارغ ہوجائے تو وہ اپنے اہل کی طرف جلدی سفر کرےکیونکہ  یہ اس کے لئے زیادہ ثواب کا باعث ہے)۔نیزدیکھئے:الصحیحۃ:1379۔

(د)(إذاصلیت الصبح فامسك عن الصلاۃحتی تطلع الشمس)۔(مسند احمد:5/312،سنن ابن ماجہ :1252)(جب تم فجر پڑھ لو تو نماز سے باز رہو یہانتک کہ سورج طلوع ہوجائے)۔

(5) عبد اللہ بن عباس کی حدیث میں ہےکہ "کان رسول اللہ   یصلی  بالناس بمنی الی غیرجدار"یعنی  رسول اللہ ﷺ منی میں لوگوں کو دیوار کے علاوہ  کی طرف نماز پڑھارہے تھے ۔(صحیح بخاری:76،493) اس سے امام بیھقی(فتح الباری :1/739) اور علامہ ابن عثیمین (الشرح الممتع:3/277)وغیر  ھما کا یہ دلیل لینا کہ آپ ﷺ نے بغیر سترہ کے نماز ادا فرمایا صحیح نہیں ہے :

اولا: کیونکہ یہاں لفظ"غیر"بتلاتا ہے کہ وہاں دیوار کےعلاوہ کسی اور چیز سےسترہ کیا گیا تھا، وہ چيزعصا تھی یا کچھ اور ،بہر حال نبی ﷺ کے سامنے سترہ موجود  تھا۔(نیل الاوطار:3/428،مرعاۃ المفاتیح1/515/اولی

 شرح بخاری ازمولانا داود راز:1/519۔مکتبہ قدوسیہ)۔

      اسی لئے اس حدیث پر سید الفقہاء امام بخاری  نے یوں باب بندھا ہے:" باب: امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ ہے۔" اور امام ابن حبان  نے یہاں تک کہا  ہے کہ ابن عباس نے جس نماز کا ذکر کیا ہے وہ نماز آپ ﷺ نے منی ميں ادا کی تھی اور آپ ﷺ کے سامنے"عنزہ"

(پھل دار ڈنڈا)بطور سترہ گاڑدیا گیا تھا ۔ دیکھئے:صحیح ابن حبان:حدیث:2387،اور امام ابن الترکمانی  نے الجوھرالنقی بذیل السنن للبیھقی(2/273)میں کہاہے:

"لایلزم من عدم الجد ارعدم السترہ۔" دیوار کے نہ ہونے سے سترہ کا نہ ہونا لازم نہیں آتا ہے ۔ اور اگر کچھ دیر کے لئےیہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپ ﷺ نے بغیر سترہ کے نماز ادا فرمائي تھی  تو ایسی صورت میں یہ کہا جائیگا  کہ یہ آپ ﷺ کا فعل  ہے لہذا اس پر آپ ﷺ کا قول(سترہ کے بغیر نماز نہ پڑھو) مقدم ہے۔

ثانیا:  یہ کہا جائیگا  کہ ابن عباس  کی اس حدیث میں سترہ رکھنے اور نہ رکھنے   دونوں کا احتمال ہے البتہ رکھنے کا احتمال زیادہ قوی  ہے کیونکہ  سفر میں سترہ رکھنا آپ ﷺ کی ہمیشہ  کی عادت مبارکہ  تھی ۔ لہذا ظاہر یہ ہےکہ آپ ﷺ کے سامنے سترہ موجود تھا جیسا کہ "غیر جدار"کالفظ دلالت  کرتا ہے اور اگر اس احتمال کو قوی نہ مانا جائے  تو دونوں احتمال برابر ہوں گے اور "إذاجاءالاحتمال بطل الاستدلال"کے تحت اس سے کسی کا دلیل لینا صحیح نہیں ہوگا۔

ثالثا:امام بیھقی اورا مام ابن رجب نے لفظ"الی غیر جدار" کے صحیح نہ ہونے  اور شاذہونے کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ امام البانی نے شاذ قرار دیا ہے۔(سنن کبری بیھقی:2/273نمبر:3293،فتح الباری لابن رجب :2/608،الضعیفہ:5814)

تنبیہ : حافظ ابن حجر کا "فتح الباری "(1/226) میں بحوالہ "بزار" اس روایت :" والنبی صلی اللہ علیه وسلم یصلی المکتوبة لیس لشیء یسترہ"کو الی غیر جدار" کی تائید کے طور پر ذکر کرنا صحیح نہیں ہےکیونکہ  یہ ضعیف ہے جیسا کہ شیخ البانی  رحمہ اللہ نے "الضعیفہ :5814" میں بیان کیا ہے۔

(6)(الاصل براء ۃ الذمۃ) اصل یہ ہےکہ مکلف کہ ذمہ کوئي چیز نہیں ہے، لہذا مکلف کے لئے سترہ رکھنا واجب نہیں ہے( الشرح الممتع :3/277) ،یہ کہنا  بھی صحیح  نہیں ہےکیونکہ  متعدد صحیح اور صریح حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مکلف کا نماز میں سترہ اختیار کرنا واجب ہے۔•••

(7)حسن بن علی رضی اللہ عنہ  کی حدیث کہ رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود کے قریب بغیر سترہ  کے نماز ادا فرمایا اور مرد وعورت طواف  کررہے تھے(المعجم الکبیر للطبرانی :3/2734) سخت ضعیف ہے کیونکہ  اس کی سند میں عبد الرحمن بن محمد بن طلحہ  ضعیف ہے ابو حاتم رازی  نےکہا ہے : لیس بالقوی (الجرح والتعدیل:5/281

نمبر:1339)نیز یاسین بن معاذ الزیات متروک ہے ھیثمی نے مجمع الزوائد(2/205) میں  کہا ہے:"رواہ الطبرانی  فی الکبیر وفیہ :یاسین الزیات وھو متروک۔"

سترہ کے متعلق چند ضعیف احادیث

(1)نمازی کا سترہ کے لئےاپنے سامنے لکیر  کھینچنے  والی حدیث(ابو داود:689،ابن ماجہ:690بروایت ابو ہریرہ) کی سند میں دو راوی  مجہول ہیں : ابو عمروبن حریث اور اس کا دادحریث۔(تقریب:1307،9789

)، امام طحاوی  نے کہا ہے : ابو عمروبن محمد بن حریث مجہول ہے اور اس کا دادا بھی مجہول ہے ،ان دونوں کا اس حدیث کے علاوہ  میں ذکر نہیں ہے اور اس جیسی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاتی ہے۔ دیکھئے : التمھید لابن عبد البر:4/199۔200،نیزاس کی سند میں اختلاف ہے۔

(2)وہ حدیث جس میں ہےکہ آپ ﷺ سترہ کو ہمیشہ  اپنے دائیں  آبرو کی طرف رکھتے، بالکل عین سامنے نہ  رکھتے تھے  ۔(ابو داود:693،احمد:6/4، بروایت المقداد بن الاسود ) اس کی سند میں تین  راوی ضعیف ہیں :ضباعۃ بنت المقداد غیر معروف ہے۔(تقریب:11699)اور مہلب بن حجر بہرانی  مجہول ہے ۔(تقریب:7807) اور ولیدبن کامل لین الحدیث ہے۔(تقریب:8390)

(3)انس کی مرفوع حدیث : " امام کا سترہ ان کے پیچھے والوں کا سترہ  ہے۔"(المعجم الاوسط للطبرانی:465)کی سندمیں سوید بن عبدالعزیز ضعیف ہے اور اس نے اس کو تنہا روایت کیا ہے۔(فتح الباری :1/740،نیل الاوطار:3/411)

(4) ابوہریرہ کی حدیث:" نمازی کے آگے سے گزرنے سے سوسال تک کھڑا رہنا بہترہے"(ابن ماجہ:946،ابن حبان:2365)ضعیف ہے۔ اس کی سند میں عبید اللہ بن عبد الرحمن بن موھب "لیس بالقوی یعنی حدیث میں قوی وقابل اعتماد راوی نہیں ہے۔(تقریب :4847)اور ان کا چچا عبید اللہ بن عبد اللہ بن موھب مجہول ہے۔(ضعیف الترغیب:6/160)

(5) حدیث:" جب تم  سے کوئی شخص بغیر سترہ کے نماز پڑھے تو  کتا،خنزیر، یہودی، مجوسی  اور عورت  اس کی نماز توڑدیتے ہیں  ۔مگر جب یہ ایک پتھر پھینکنے  کے فاصلے سے گزریں تو نماز کو ٹوٹنے سے کفایت رہتی ہے۔"(ابو داود:704،بروایت ابن عباس )ضعیف ہے اس کے مرفوع ہونے میں راوی کو شک ہے ، نیز یحی بن ابی کثیر جو کہ مدلس ہےاس نے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے۔(المشکاۃ بتحقیق الالبانی:1/245)

(6)ام سلمہ کی حدیث کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے  اور آپ ﷺ کے سامنے سے زینب بنت ام سلمہ گزر گئي۔ (ابن ماجہ :948) ضعیف ہے، اس کی سند میں محمد بن قیس کا باپ قیس المدنی  مجہول ہے (تقریب:6291،انجاز الحاجہ :4/120)اور بوصیری کے بقول :محمد بن قیس کےبعد عن ابیہ  کے بجائے عن امہ ہے اور یہ یعنی محمد بن قیس کی ماں بھی مجہولہ ہے۔ دیکھئے :زوائد ابن ماجہ للبوصیری : وتھذیب الکمال للمزی :ترجمہ ام محمد والدۃ محمد بن قیس۔

(7) ابو ہریرہ کی حدیث کہ آپ ﷺ نے فرمایا:" آدمی  کی نماز نہ عورت توڑتی ہے، نہ  کتا اور نہ ہی گدھا۔"(دارقطنی:1/369)سخت ضعیف  ہے،اس کی سند میں اسحاق بن  عبد اللہ بن ابی  فروہ المدنی متروک ہے۔(تقریب:415) اس کے علاوہ  اسماعیل بن عیاش گو صدوق راوی ہے مگرمدنی راویوں سے اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔(تقریب:541)  اور یہ اسی قبیل  سے ہے کیونکہ  اس کا شیخ یہی اسحاق بن ابی  فروہ مدنی  ہے۔ نیز دیکھئے : المجر وحین لابن حبان :ترجمہ اسحاق بن عبد اللہ بن ابی فروہ۔

(8) وہ حدیث جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے  آگے گزرنے والے ایک شخص کے حق میں بد دعا کی  کہ :" اے اللہ!اس کے قدم کاٹ دے۔"(ابو داود:705،

706،707،بروایت یزید بن نمران وغزوان )بھی ضعیف ہے۔ حدیث یزید بن غزوان کی سند میں مولی یزید بن نمران مجہول ہے (تقریب:2678)، اور حدیث غزوان کی سند میں غزوان  اور اس کا بیٹا  سعید بن غزوان  جو اس سے روایت کرتا ہے  دونوں مجہول ہیں ۔(تقریب:6021،

2622)

(9)حدیث:" جب تم میں سے کوئي نماز پڑھے تو سترے کی طرف نماز پڑھے اور اس سے قریب رہے۔"(ابوداود:698،ابن ماجہ:954بروایت ابو سعید خدری)، یہ حدیث ابو سعید خدری  کی روایت سے شاذ ہے کیونکہ  اس کے سیاق میں ابن عجلان نے تمام  ثقات کی مخالفت کی ہے۔البتہ سھل بن ابی حثمہ کی روایت سے صحیح ہے۔

(10)حدیث:" تمہیں نماز میں سترہ ضرور قائم کرنا چاہئے خواہ ایک تیر ہی ہو۔"(احمد:3/404،ابو یعلی:2/239،ابن خزیمہ:810،حاکم:2/252،براویت بن معیدالجھنی)

     یہ حدیث ضعیف ہے  کیونکہ  اس کا مدار عبد الملک بن الربیع بن سبرہ جہنی پر ہے ،اس کو عجلی  نےگرچہ  ثقہ کہا ہے لیکن ابن معین نے اس کی  عن ابیہ   عن جدہ والی حدیثوں کو ضعیف  اور ابن حبان  نے اسے سخت منکرکہا ہے۔اور حاکم کی سندبظاہر صحیح ہے،لیکن  اس میں عبد الملک بن الربیع بن سبرہ ساقط ہے حیسا  کہ بیھقی کی روایت سے معلوم ہوتاہے۔ اسے پہلے  البانی  نے "الضعیفہ "(2720) میں ضعیف کہا تھا پھر بعد میں اسے "الصحیحہ "(2783)میں صحیح کہا ہے،واللہ اعلم۔

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ