Skip to main content

سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ {4}

 

تحقیقی مقالہ:

 


سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ

 تحریر:شیخ ابوعبدالرحمن محمود بن محمدالملاح                                         ترجمہ:ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی(قسط:4)


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  بنی سعد میں:

قولہ: ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت حلیمہ بیان کیا کرتی  تھیں کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنا ایک چھوٹا سا دودھ پیتا بچہ  لے کر بنی سعد کی کچھ عورتوں کے قافلے میں اپنے شہر سے باہر دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلیں یہ قحط سالی کے دن تھے اور  قحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا، میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی  بھی تھی، لیکن  اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا۔ ادھر  بھوک سے بچہ اس قدر بلکتا تھا کہ ہم رات بھر سو نہیں سکتے تھے، نہ میرے سینے میں بچہ کے لیے کچھ تھا نہ  اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی، بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے، میں نے اپنی گدھی پر سوار ہو کر  چلی تو  وہ کمزوری اور دبلے پن کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا۔ خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے پھر ہم  میں سے کوئي عورت ایسی نہیں تھی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش نہ کیا گیا ہو مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم ہیں تو وہ آپ کو لینے سے انکار کردیتی کیونکہ ہم بچے کےوالد سے داد ودہش کی امید رکھتے تھے ہم کہتے کہ یہ یتیم ہے بھلا اس کی  بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں ، بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ کو لینا نہیں چاہتے تھے۔۔۔۔ یہاں تک کہ اس بچے کے دو سال پورے ہوگئے اور میں نے دودھ چھڑا دیا ، یہ بچہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں  اس طرح بڑ ھ رہا تھا کہ دو سال پورے ہوتے  ہوتے وہ  کڑا اور گٹھیلا ہو چلا۔ اس کے بعد ہم اس بچے کو اس  کی والدہ کے پاس لے گئے لیکن ہم اس کی جو برکت دیکھتے آئے تھے اس کی وجہ سے ہماری انتہائي  خواہش یہی تھی کہ وہ ہمارے پاس رہے۔ چنانچہ ہم نے اس کی  ماں سے گفتگو کی میں نے کہا: کیوں نہ آپ میرے بچے کو میرے پاس ہی رہنے دیں کہ ذرا مضبوط ہوجائے کیونکہ مجھے اس کے متعلق  مکہ  کی وباکا خطرہ ہے۔ عرض ہمارے مسلسل اصرار پر انہوں نے بچہ  ہمیں واپس دے دیا۔(سیرت ابن ہشام 1/162۔164، الرحیق المختوم ص 85۔87 ،ط:مکتبہ نعیمیہ)۔

 تحقیق : یہ طویل قصہ ضعیف ہے

     شیخ البانی رحمہ اللہ "دفاع عن الحدیث النبوی والسیرۃ"  (ص39۔40) میں رقمطراز ہیں: یہ قصہ کسی ایسی سند سے روایت نہیں کی گئي ہے جو لائق حجت ہو، اور اس کی مشہور ترین سند وہ ہے  جسے محمد بن اسحاق نے "عن جھم بن ابی جھم، عن عبد اللہ بن جعفر عن حلیمۃ بنت الحارث السعدیۃ" کے طریق سے روایت کیا ہے۔

    اس قصہ کو ابن اسحاق سے ابو یعلی(ق128/1)[6/  343۔347/127 تحقیق شیخ ارشاد الحق اثری، مطبوعہ دار القبلہ جدہ] اور ان کے طریق سے ابن حبان(2094۔موارد)[صحیح ابن حبان:14/243۔  247/6335۔ط: الرسالۃ] ابو نعیم(دلائل النبوۃ:  1/47) اور بیھقی نے(دلائل النبوۃ:1/180) میں روایت کیا ہے۔

   بیھقی کے یہاں ابن اسحاق نے کہا:" حدثنا جھم بن ابی الجھم ۔ مولی لا مراۃ  من بنی تمیم کانت عند الحارث بن حاطب، وکان یقال: مولی الحارث بن حاطب۔ قال: حدثنا من سمع عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب یقول: حدثت عن حلیمة بنت الحارث" میں (البانی )نے کہا: یہ سند ضعیف ہے اس میں دو علتیں ہیں:

پہلی علت: اس سند میں اضطراب کا ہونا واضح ہے، پہلی سند میں تمام راویوں نے ابن اسحاق کا عنعنہ ذکر کیا ہے، جبکہ دوسری سند میں ابن اسحاق کی تحدیث کی  صراحت موجود ہے۔ مگر جھم نے تصریح کردی ہےکہ اس نے عبد اللہ بن جعفر سے نہیں سنا ہے اسی طرح عبد اللہ نے حلیمہ سعدیہ سے نہ سننے کی صراحت کر رکھی ہے۔  لہذا پہلی روایت کے مطابق ابن اسحاق اور جہم کے درمیان  انقطاع ہے کیونکہ ابن اسحاق مشہور مدلس ہیں، اور دوسری روایت کے مطابق سند میں دو جگہ انقطاع ہے۔

     اسی سے آپ کو معلوم ہوجانا چاہئے کہ حافظ ابن حجر نے" الاصابہ"(4/266) میں جو یہ کہا ہےکہ "ابن حبان نے اپنی "صحیح" کے اندر عبد اللہ بن جعفر اور حلیمہ کے درمیان تحدیث کی صراحت کردی ہے ، یہ حافظ کا وہم ہے، حالانکہ  اس تحدیث کا وجود نہ ابن حبان کے یہاں ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے یہاں ، اور عبد اللہ بن جعفر کا  دایہ رسول حلیمہ کے زمانہ کو پانا مستبعد ہے، کیونکہ  وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے وقت عبد اللہ دس سال کے بچے تھے، اور اگر چہ علماء نے حلیمہ کی وفات کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن یہ مقرر ہےکہ ان کی وفات ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ واللہ اعلم۔

 بہر حال پہلی روایت راحج ہو یا دوسری روایت ، سند یقینی طور پر منقطع ہے۔

دوسری علت: سند کا مدار جھم  بن ابی جھم پر ہے اور یہ مجہول  الحال راوی ہے، امام ذھبی نے "میزان"[1/   426/1583۔ تحقیق علی  البجاوی] میں کہا کہ " یہ غیر معروف ہے اور اس کے توسط سے صرف حلیمہ سعدیہ کا قصہ مروی ہے"۔ اور ابن حبان نے "توثیق المجاھیل" کے سلسلہ میں اپنے معروف قاعدہ کے تحت جھم کو "ثقات"(/31) میں ذکر کیا ہے۔

    ابو نعیم کے یہاں اس قصہ کے دو اور طریق ہیں جن کا مدار واقدی پر ہے جو کہ پرلے درجہ کا جھوٹا راوی ہے۔

طریق اول: اس طریق میں واحدی نے اپنے شیخ موسی بن شیبہ سے روایت کیا ہے، اور موسی "لین الحدیث" یعنی ضعیف ہے جیسا کہ حافظ نے "تقریب"[3/432/ 1976۔ تحریر التقریب] میں کہا ہے۔

طریق ثانی: اسے واقدی نے بطریق عبد الصمد بن محمد السعدی عن ابیہ عن جدہ قال: حدثنی بعض  من کان یرعی غنم حلیمۃ، روایت کیا ہے، اور اس سند کے سارے رواۃ مجہول ہیں۔

   ڈاکٹر اکر م ضیاء العمری"السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ"(1/102) میں لکھتے ہیں: اس قصہ کی سند میں موجود علتوں کے باوجود ناقدین حدیث نے اس کی تحسین کی ہے جوکہ تساہل پر مبنی ہے، چنانچہ امام ذھبی نے فرمایا:" اس حدیث کی سند جید (اچھی) ہے، اور  امام ابن کثیر نے کہا:" یہ حدیث دوسرے کئی طرق سے مروی ہے اور یہ اہل سیرت  کے یہاں مشہور ومعروف روایات میں سے ہے!!

     بیھقی کی"دلائل النبوۃ" میں ابن عباس سے مروی اس کے کئي واہی کمزور شواہد بھی ہیں، البتہ امام ابن عساکر(تاریخ دمشق:3/478۔479۔ط: دار الفکر 1995ء) نے کہا  ہےکہ  یہ انتہائي  غریب (ضعیف) حدیث ہے اس کے اندر کچھ ایسے  الفاظ موجود ہیں جو صحیح معلوم نہیں ہوتے ہیں" دیکھئے: سیرۃابن ہشام(1/211) تحقیق مجدی فتحی السید، مطبوعہ دار الصحابۃ ، تحذیر الداعیۃ من القصص الواھیۃ للشیخ علی بن ابراھیم حشیش ص 42۔48۔

ماں کی آغوش محبت میں:

(1)قولہ:" اس واقعہ کے بعد حلیمہ کو خطرہ محسوس ہوا اور انہوں نے آپ کو آپ کی ماں کے حوالے کردیا، چنانچہ آپ چھ سال کی عمر تک والدہ ہی کی آغوش محبت میں رہے"۔تلیقح الفہوم ص7 ،ابن ہشام 1/168، الرحیق المختوم ص87)۔

تحقیق: ڈاکٹر اکرم العمری"السیرۃ الصحیحۃ) (1/105) میں رقمطراز ہیں:

      اس حدیث کو احمد ،دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے، اور اس کا مدار بقیہ بن الولید پر ہے جوکہ مدلس ہیں اور انہوں نے سند کے کسی بھی طبقہ میں سماع کی صراحت نہیں کی ہے، بلکہ ان  تمام میں بحیر بن سعد اور خالد بن  معدان کے درمیان عنعنہ کررکھا ہے، اگر وہ تحدیث کی صراحت کردیتے تو سند حسن درجہ کی ہوجاتی، البتہ مصنف عبد الرزاق میں مروی امام زھری کی مرسل روایت اس حدیث کی تائید کرتی ہے"۔

(2)قولہ: " ادھر حضرت آمنہ کا ارادہ ہوا کہ وہ اپنے متوفی شوہر کی یاد وفا میں  یثرب جاکر ان کی قبر کی زیارت کریں، چنانچہ وہ اپنے یتیم بچے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، انپی خادمہ ام ایمن اور اپنے سرپرست عبد المطلب کی معیت میں کوئي پانچ سو کیلو میٹر کی مسافت طے کر کے مدینہ تشریف لے گئیں اور وہاں ایک ماہ تک قیام کر کے واپس ہوئیں۔لیکن ابھی ابتداء راہ میں تھیں کہ بیماری  نے آلیا، پھر یہ بیماری شدت اختیار کرتی گئي یہاں تک کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ابواء  میں پہنچ کر رحلت کر گئیں۔ (ابن ہشام 1/168، تلقیح الفہوم ص87۔88)۔

تحقیق: یہ واقعہ ثابت نہیں ہے۔

      ڈاکٹر اکرم العمری نے "السیرۃ الصحیحۃ"(1/105) میں کہا کہ یہ باتیں کسی بھی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہیں، لیکن ان جیسی چیزوں کے بارے میں عام طور پر تساہل سے کام لیا جاتا ہے۔

       میں (الملاح) نے کہا: مؤلف نے جو  یہ کہا ہےکہ آمنہ اپنے متوفی شوہر کی یاد وفا میں ان کی قبر کی زیارت کے لیے گئي تھی ، تو اس تاریخ میں جانے کی دلیل  کیا ہے؟  اور اس کا ثبوت کہاں ہےکہ وہ اسی دن ان کی قبر کی زیارت کے لیے گئي تھی جس دن ان کی وفات ہوئي تھی؟ مزید برآں  کیا عربوں کے یہاں  متوفی شوہر کی یاد وفا  منانے جیسے رسوم ورواجات معروف تھیں؟

دادا کے سایہ شفقت  میں:

 قولہ:" ابن ہشام کا بیان ہےکہ عبد المطلب کے لیے خانہ کعبہ  کے سائے میں فرش بچھایا جاتا، ان کے سارے لڑکے فرش کے اردگرد بیٹھ جاتے، عبد المطلب تشریف لائے تو فرش پر بیٹھے ان کی عظمت کے پیش نظر ان کا کوئي لڑکا فرش پر نہ بیٹھتا ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو فرش   ہی پر بیٹھ جاتے، ابھی آپ کم عمر بچے تھے، آپ کے چچا حضرات آپ کو پکڑ کر اتار دیتے، لیکن جب عبد المطلب انہیں  ایسا کرتے  دیکھتے تو فرماتے: میرے اس بیٹے  کو چھوڑ دو بخدا اس کی شان  ہے، پھر انہیں اپنے ساتھ اپنے فرش پر بیٹھا لیتے، اپنے ہاتھ سے پیٹھ سہلاتے اور ان کی نقل وحرکت دیکھ کر خوش ہوتے"۔(ابن ہشام :1/168، الرحیق المختوم ص88)۔

 تحقیق: سند منقطع ہے۔

       فاضل برادر شیخ محمد بن عبد  اللہ  حفظہ اللہ نے اپنی کتاب "ماشاع ولم یثبت فی السیرۃ"(ص10) میں کہتے ہیں:  (ابن اسحاق نے روایت  کرتے ہوئے کہا :حدثنی العباس بن عبد اللہ بن معبد عن بعض اھلہ قال: فذکرہ۔۔۔)

       عباس بن  عبد اللہ بن معبد  بن عباس بن عبد المطلب طبقہ سادسہ کا ثقہ راوی ہے ، کمافی التقریب(2/185/3173۔تحریر التقریب)  اور وہ اس حدیث کو اپنے خاندان کے بعض لوگوں سے روایت کرتا ہے جبکہ ان لوگوں کا صحابہ ہونا ممکن ہی نہیں بلکہ یہ لوگ مجہول ہیں، لہذا سند میں انقطاع ہے،  ابن اسحاق ہی کے طریق سے بیھقی نے  اسے "دلائل" (2/21)  اور ابن سعد نے "طبقات"(1/117) میں اپنے شیخ واقدی سے جو کہ  متروک  ہے روایت کیا ہے۔

ذھبی" السیرۃ  من تاریخ الاسلام"(ص53) میں کہتے ہیں: (عبد اللہ بن شبیب۔ ضعیف ۔ نے  کہا: ثنا احمد بن محمد  الازرقی سمعت ابن عباس یقول: سمعت ابی یقول۔۔۔"

      ابن شبیب  کے بارے میں حافظ ذھبی نے کہا ہےکہ وہ تاریخ داں علامہ  ہے لیکن واہی  وکمزور ہے۔(لسان المیزان:3/299، السیرۃص 64)۔

   اس قصہ کو ابن کثیر نے "البدایۃ والنھایۃ"(2/281) کے اندر ابن اسحاق کے حوالہ سے ذکر  کر کے اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔

(3) قولہ:" آپ کی عمر   ابھی 8سال دو مہینے دس دن کی ہوئي تھی کے دادا عبد المطلب کا بھی سایۂ شفقت اٹھ گیا ۔  ان کا انتقال مکہ میں ہوا اور وہ وفات سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےچچا ابو طالب کے ۔ جو آپ کے والد عبد اللہ کے  سگے بھائي تھے ، آپ کی کفالت  کی وصیت کر گئے تھے"۔(تلیقح الفہوم ص7، ابن ہشام:1/149، الرحیق المختوم :ص 88)

تحقیق: سند ضعیف ہے۔

ڈاکٹر اکرم العمری حفظہ اللہ "السیرۃ الصحیحۃ"(1/105۔  106) میں فرماتے ہیں: "اسے ابن اسحاق نے منقطع سند کے ساتھ روایت  کیا ہے، اور امام ذھبی نے "السیرۃ" میں سخت ضعیف سند کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ابن سعد نے "طبقات"(1/117۔119) میں اپنے شیخ واقدی   متروک سے روایت کیا ہے۔

   نیز "سیرۃ ابن ہشام"(1/220) مطبوعہ دار الصحابۃ  کے محقق نے اس کی سند کوضعیف قرار دیا ہے۔(جاری)

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ