Skip to main content

سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ {5}

 

تحقیقی مقالہ:

 


سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ

 تحریر:شیخ ابوعبدالرحمن محمود بن محمدالملاح                                         ترجمہ:ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی(قسط:5)


جنگ فجار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت:

قولہ:" اسے حرب فجار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں حرم اورحرام مہینے دونوں کی حرمت چاک کی گئی۔ اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی تشریف لے گئے تھےاور اپنے چچاؤں کو تیر تھماتے تھے"۔

(ابن ہشام1/84تا86، قلب جزیرۃ العرب ص  360، تاریخ خضری1/63، الرحیق المختوم ص91، سیرت النبی 1/115)

تحقیق: ڈاکٹر اکرم العمری ۔حفظہ اللہ۔ "السیرۃ الصحیحۃ " (1/111) میں کہتے ہیں :" اور یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنگ میں شرکت کی تھی "۔

"السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1/24، ط: دار الصحابۃ "کے  محقق نے کہا کہ اس کی سند معضل ہے، اسے ابن کثیر نے ابن اسحاق اور ابن ہشام سے سند ضعیف کے ساتھ نقل کر کے"البدایۃ" (2/189) میں ذکر فرمایا ہے۔

 اسے ابن سعد (1/126۔128)نے واقدی کی روایت سے کئی سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے مگر سب کے سب ضعیف ہیں، واقدی متروک راوی ہے۔

مترجم: شیخ البانی رحمہ اللہ نے "التعلیق علی فقہ السیرۃ للغزالی"(ص71،ط:1407ھ) میں،اس پر سکوت اختیار کیا ہے  لیکن "صحیح السیرۃ النبویۃ" میں  اسی طرح شیخ محمد بن رزق الطرھونی نے "صحیح السیرۃ" (1/111) میں اسے ذکر نہیں کیا ہےجو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت ان دونوں کے نزدیک  صحیح نہیں  ہے "۔(دیکھئے : ماشاع ولم یثبت فی السیرۃ النبویۃ للشیخ محمد بن عبد اللہ العوشن ص16)۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی :

قولہ:" اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی "(الرحیق المختوم ص93)

قولہ:" خانہ نبوت: ہجرت سے قبل مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گھرانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر مشتمل تھا۔ شادی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  کی عمر چالیس سال"۔ (الرحیق المختوم ص634)

تحقیق: عمر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اختلاف:

فاضل برادر شیخ محمد بن عبد اللہ العوشن حفظہ اللہ اپنی کتاب "ماشاع ولم یثبت فی السیرۃ"(ص18) میں فرماتے ہیں:

"امام بیھقی نے "دلائل النبوۃ" (2/70) میں کہا ہےکہ امام ابو عبد اللہ الحاکم نے کہا کہ میں نے ابو بکر بن ابی خیثمہ  کی خود  نوست تحریر پڑھی ہے انہوں نے کہا : ہم سے مصعب بن عبد اللہ الزبیری نے بیان کیا ، انہوں نےکہا۔۔۔۔۔ پھرخدیجہ  رضی اللہ عنہا پینسٹھ سال کی عمر  کو پہنچی تھیں (وفات کے وقت) ، اور کہا جاتا ہےکہ پچاس سال کی عمر کو پہنچی تھی  اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ "البدایۃ والنہایۃ"(2/295) میں فرماتے ہیں:" ایسے ہی بیھقی نے حاکم سے نقل کیا ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس سال تھی اور خدیجہ کی پینتیس سال تھی ، اور ایک قول یہ ہےکہ وہ بھی پچیس سال کی تھیں "۔

حافظ ابن کثیر   رحمہ اللہ نے (البدایۃ والنھایۃ:5/293) ازواج مطہرات کے تذکرہ میں کہا ہے :" حکیم بن حزام کا قول ہے کہ اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی جبکہ ابن عباس  کا قول ہےکہ ان کی عمر اٹھائیس سال تھی ، ان دونوں قول کو امام ابن عساکر  نے روایت کیا ہے"۔(تاريخ دمشق : 4 / 193 – 194 ط دار الفكر)

ڈاکٹر اکرم العمری حفظہ اللہ"السیرۃالصحیحۃ"(1/111) میں کہتے ہیں : حضرت خدیجہ  رضی اللہ عنہا  کے بطن سے رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم  کے دوبیٹے  اور چار بیٹیاں پیدا ہوئی ہیں اور اس سے ابن اسحاق کی روایت کو   کہ شادی  کے وقت خدیجہ کی عمر اٹھائیس  سال تھی ، ترجیح ہورہی ہے۔ کیونکہ  عام طور پرعورت پچاس سال کی عمر سے پہلے ہی ولادت کی قابلیت سےمایوس ومحروم ہوجاتی ہے "۔

نبوت سے پہلےکی  اجمالی سیرت:

 قولہ:" ابن اثیر کی ایک روایت  ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : اہل جاہلیت  جو کام کرتے تھے مجھے  دو دفعہ کے علاوہ کبھی ان کا خیال نہیں گزرا لیکن  ان دونوں میں سے بھی ہر دفعہ اللہ تعالی  نے میرے  اور اس کام کے درمیان  رکاوٹ ڈال دی۔۔۔۔ اور اس کے بعد پھر کبھی  غلط ارادہ نہ ہوا"۔

 اس حدیث کو حاکم وذہبی  نے صحیح کہا ہے لیکن ابن کثیر نے البدایۃ والنہایۃ (2/278 میں اس کی تضعیف کی ہے۔ (الرحیق المختوم ص96۔97)

تحقیق: واقعہ مذکور ضعیف ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ اپنی کتاب "دفاع عن  الحدیث النبوی والسیرۃ" (ص41) میں رقمطراز ہیں:

"اسے ابن اثیر اور حاکم نے علی بن ابی طالب سے روایت کیا ہے۔اور حاکم نے اسے امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے ۔  اور طبرانی  نے عمار بن یاسر کی حدیث سے روایت کیا ہے۔

   میں (البانی)کہتا ہوں : یہ حدیث ضعیف  ہے، اور ڈاکٹر محمد سعید رمضان  البوطی کا امام حاکم کی تصحیح علی شرط مسلم سے دھوکہ کھانا اس بات کی  دلیل ہےکہ مستدرک کے اندر تصحیح احادیث کے سلسلہ میں  امام حاکم  کے متساہل ہونے کا علم اس ڈاکٹر کو نہیں ہے، جبکہ یہ چیز فن حدیث سے دلچسپی رکھنے  والوں کے نزدیک مشہور ومعروف ہے۔اور کتب مصطلح الحدیث میں اس پر کافی تنبیہ کی گئی ہے۔امام سیوطی نے اپنے "الفیہ" میں کہا:

وکم بہ تساھل حتی ورد                                                                                     فیہ مناکر وموضوع یرد

     یعنی مستدرک کے اندر تصحیح حدیث کے تعلق سے امام حاکم سے بہت زیادہ تساہل واقع ہوا ہے،اسی وجہ سے اس کے اندر بہت سی  منکر وموضوع حدیثیں بھی جگہ  پائی  گئی ہیں جو مردود ہیں ۔

  اسی وجہ سے حافظ ذھبی  نے مستدرک کی "تلخیص" کی ، اور اس میں امام حاکم  کی روایت کردہ کئی سو موضوع احادیث کے سلسلہ میں ان کا تعاقب کیا ہے، جبکہ امام ذھبی کبھی بعض ایسی حدیثوں کی تصحیح  میں امام حاکم  کی  ہمنوائی کر جاتے ہیں جن کے ضعیف ہونے کی صراحت  خود  انہوں اپنی دوسری کتابوں میں کر رکھا ہے۔

   واقعہ مذکورہ  کی سند میں دو علتیں ہیں جنہیں میں نے "تخریج فقہ السیرۃ للغزالی "(ص32۔33) میں بیان کیا ہے اور وہیں حافظ ابن کثیر  کا یہ قول نقل کیا ہےکہ یہ حدیث سخت غریب (ضعیف) ہے، اور یہ ممکن ہے کہ یہ خود علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہو"۔

    اور طبرانی  کی روایت کردہ حدیث عمار کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں جو پہنچانے  نہیں جاتے ہیں یعنی مجہول ہیں جیسا کہ ھیثمی نے "مجمع الزوائد" میں کہا ہے اور میں نے اسے کتاب مذکور میں بیان کیا ہے (مزید برآں: حدیث عمار  حدیث علی کی مخالف بھی ہے )، ڈاکٹربوطی۔  اللہ تعالی  ہمیں اورانہیں معاف کرے۔ اس کتاب پر واقف ہوئے ہیں  اور اسی سے حدیث کی تخریج کو ملخص کیا ہے سوائے اپنے قول  "رواہ ابن الاثیر" کے ، یہ ٹکڑا  انکا اپنا اضافہ ہے، اور ان کا مقصد یہ ہےکہ اسے ابن اثیر نے اپنی "تاریخ" میں روایت کیا ہے۔ میں اس طرح کے حوالہ سے اپنا دامن بچاتا ہوں کیونکہ علماء ومحققین کی یہ عادت نہیں ہےکہ وہ مرسل ومعضل اور بلا سند مروی اخبار وروایات پر اعتماد کریں  خصوصا  جبکہ اس طرح کی حدیث ہو جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال  اور عصمت سے مکمل میل نہ کھاتی ہو۔ گرچہ محترم ڈاکٹر (ص39۔40) نے اس کی توجیہ  وتاویل کی ہے مگر تاویل وتوجیہ تصحیح  کی فرع ہے۔ اور ضرورت اس بات کی ہے  کہ  ہم ان شگافوں اور رخنوں کو اصول حدیث پر مبنی صحیح علمی تنقید کےذریعہ بند کر دیں جہاں سے مختلف  آراء ومذاہب کے خود غرض لوگ دراندازہوتے ہیں لہذا جب حدیث ہی صحیح نہیں ٹھہری تو بالا تفاق تاویل وتوجیہ کی  کوئی گنجائش  رہی نہ وجہ جواز۔ واللہ اعلم۔

[مترجم:"تخریج فقہ السیرۃ للغزالی"(ص 72۔73 ط1965ء) میں شیخ البانی کا کلام حسب ذیل  ہے :

   "یہ حدیث ضعیف ہے ، اسے حاکم(4/245) نے بطریق  ابن اسحاق حدثنی محمد بن عبد اللہ بن مخرمۃ عن الحسن بن محمد بن علی عن جدہ علی بن ابی طالب ۔رضی اللہ عنہ ۔ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:۔۔۔ فذکرہ،  روایت کیا ہے۔ حاکم نے کہا:  یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور امام ذھبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ میں (البانی) نے کہا: حدیث مذکور کو مسلم کی شرط پر صحیح قرار دینا ان دونوں اماموں کا وہم ہے دو اسباب کی بنا پر :(1) امام مسلم ابن اسحاق کی روایت دوسرے راوی  کے ساتھ ملا کر لاتے ہیں جیسا کہ خود ذھبی  نے "میزان" میں ذکر کیا ہے ۔ اور حاکم نے یہاں ان سے دوسرے راوی  کے ساتھ ملاکر روایت نہیں کی ہے بنابریں شرط مسلم کے مطابق نہیں ہے۔

(2) محمد بن عبد اللہ بن قیس کی عدالت مشہور  نہیں ہے، ابن حبان کے علاوہ کسی اور نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔ اور ابن حبان کی تنہا توثیق لائق اعتماد نہیں  ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے معروف قاعدہ کے مطابق  مجہول راویوں کی بھی توثیق کر ڈالتے ہیں یہ بات ان کے تعلق سے علماء محققین ۔ جیسے حافظ ابن حجر نے "لسان المیزان" میں۔ کہا ہے۔

   یہی وجہ ہےکہ جب حافظ  نے "تقریب" میں ابن قیس کا ذکر کیا تو اس کی توثیق نہیں کی بلکہ مقبول کہا ،یعنی عدم متابعت کے وقت لین الحدیث(ضعیف) ہوگا۔ جیسا کہ انہوں نے مقدمہ تقریب کے اندر اس کی صراحت کی ہے، پھر وہ صحیح مسلم کے رواۃ میں سے نہیں ہے بر خلاف ان کے جنہیں اس سلسلہ میں وہم ہوا ہے۔

     حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کو " البدایۃ والنھایۃ" (2/287) کے اندر بیھقی کی روایت سے سند مذکور کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد یہ کہہ کر ضعیف قرار دیا ہے کہ "ھذا حدیث غریب جدا" یہ حدیث انتہائی غریب /ضعیف ہے۔ اور اس حدیث کا خود علی سے موقوفا مروی ہونا  بعید نہیں ہے اور ایسی صورت میں "حتی اکرمنی اللہ عزوجل بنبوتہ" یہ حصر حدیث میں زائد ہوگا واللہ  اعلم۔

     ابن اسحاق کے اس شیخ  کو ابن حبان نے "الثقات" میں ذکر کیا ہے، اور بعض لوگوں نے اسے رجال  صحیح میں  سے سمجھ رکھا ہے، ہمارے شیخ حافظ مزی نے "تھذیب" میں کہا ہے کہ اس راوی کے سلسلہ میں مجھے کوئی جانکاری  حاصل نہ ہوسکی ۔ واللہ اعلم۔

      پھر یہ حدیث صحیح "تاریخ  مکہ للفاکھی ص:7"، اور "تاریخ ابن جریر:2/34" میں مذکورہ سند کے ساتھ ملی۔اور طبرانی نے اسے "معجم صغیر"(ص19) میں عمار بن یاسر کی حدیث سے روایت کیا ہے۔ اور اس کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں جنہیں میں نے پہنچان نہ سکا ۔ حافظ ھیثمی نے "مجمع الزوائد"(8/226) میں اسی طرح کی بات ذکر کی ہے۔]

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ