Skip to main content

سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ {6}

 

تحقیقی مقالہ:

 


سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ

 تحریر:شیخ ابوعبدالرحمن محمود بن محمدالملاح                                         ترجمہ:ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی(قسط:6)


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کااپنے آپ کو پہاڑ کی چوٹی سے گراکر ہلاک کرنے کا ارادہ فرمانا:

قولہ:" وحی کی اس بندش کے عرصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حزین وغمگین رہے اور آپ  پر حیرت واستعجاب طاری رہا، چنانچہ صحیح بخاری  کتاب التعبیر کی روایت ہے کہ :

"وحی بند ہوگئی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر غمگین ہوئے کہ کئی بار بلند وبالا پہاڑ کی چوٹیوں پر تشریف لے گئے کہ وہاں سے لڑھک جائیں، لیکن جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے  کہ اپنے آپ کو لڑھکا لیں تو حضرت جبریل علیہ السلام  نمودار ہوتے اور فرماتے: اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کے  رسول برحق ہیں، اور اس کی وجہ سے آپ کا  اضطراب تھم جاتا ، نفس کو قرار آجاتا، اور آپ واپس آجاتے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی بندش طول پکڑ جاتی  تو آپ پھر اسی جیسے کام کے لیے  نکلتے، لیکن جب  پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے تو حضرت جبریل علیہ السلام  نمودار ہو کر پھر وہی بات دہراتے"۔

(صحیح بخاری ،کتاب التعبیر، باب اول ما بدی بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الرؤیا الصالحۃ 2/1034، الرحیق المختوم ص 107، مکتبۃ نعیمیہ ،مئو)

تحقیق: یہ واقعہ صحیح نہیں ہے !

حافظ ابن حجر۔رحمہ اللہ ۔ "فتح الباری "(12/359۔  360) میں فرماتے ہیں:

   زیر نظر  سیاق میں :(فترۃ حتی حزن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما بلغنا) اور اس کا مابعد  عقیل ویونس کی روایتوں پر معمر کی زیادت ہے! امام بخاری کے صنیع سے یہ وہم پیدا  ہوتا ہے کہ یہ زیادتی  عقیل کی روایت میں داخل ہے ، حمیدی بھی اپنی "جمع" میں اسی پر چلے ہیں اور حدیث کو ان کے قول:  (وفتر الوحی ) تک نقل کیا اور کہا: اکیلے عقیل  کی زہری سے  روایت  یہاں تک ختم ہوئی۔ بخاری نے ان کی معمر عن زہری  کی روایت کے ساتھ مقرون روایت میں مزید یہ بھی نقل کیا (وفتر الوحی فترۃ حتی حزن) پھر یہ عبارت آخر تک ذکر کی ، میرے نزدیک یہ زیادت صرف معمر کی روایت  کے ساتھ خاص ہے، عقیل کےطریق کوابو نعیم نے اپنی مستخرج میں ابو زرعہ  عن یحی بن بکیر یعنی انہی شیخ بخاری کے حوالے سے کتاب کے شروع میں اس زیادتی کے بغیر روایت کیا ہے، یہاں اسے روایت معمر کے ساتھ مقرون کر کے نقل کیا اور وضاحت کردی کہ سیاق  ہذا معمر کا ہے، اسے احمد، مسلم اور اسماعیلی وغیر ہم نے اور ابو نعیم نے بھی لیث کے تلامذہ کی ایک جماعت سے بحوالہ لیث اس  زیادت کے بغیر نقل کیا ہے۔پھر (بلغنا) کےقائل زہری ہیں اور مفہوم یہ ہےکہ اس قصہ سے متعلق جتنی تفاصیل ہمیں ملی ہیں ان میں یہ بھی ہے اور یہ ز ہری  کی بلاغات (یعنی  جن آثار وروایات کو انہوں نے بلغنی  کے صیغہ  سے بیان کیا، یعنی  مجھے یہ بات پہنچی ہے ) میں سے ہے موصول نہیں،کرمانی کہتے ہیں : یہی ظاہر ہے، اور محتمل ہےکہ انہیں یہ زیادت بھی اسی اسناد مذکور کے ساتھ پہنچی  ہو ،ابن مردویہ  کی تفسیر میں محمد بن کثیر عن معمر کی روایت (فیما بلغنا) کے اسقاط کے ساتھ ہے، اس کے الفاظ ہیں: (فترۃ حزن النبی صلی اللہ علیہ وسلم منھا حزنا غدا منہ۔۔۔(الخ) تویہ سارا کچھ روایت زہری  اور عروۃ عن عائشہ  کی روایت پر ادراج ہےاوراول ہی معتمد ہے"۔

علامہ البانی  ۔رحمہ اللہ۔ "دفاع عن الحدیث النبوی والسیرۃ" (ص40۔41) میں فرماتے ہیں :" میں نے کہا:  اس زیادتی والی  روایت  کو صحیح بخاری  سے منسوب کرنا فاش غلطی ہے کیونکہ  اس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ پہاڑ پر سے گراکر اپنے آپ کو ہلاک کرنے کا واقعہ بخاری  کی شرط پر صحیح ہے حالانکہ  بات ایسی نہیں ہے، اس کی توضیح  یہ ہےکہ امام بخاری نے اس قصہ کو "بدء الوحی" میں مذکور حدیث عائشہ ۔جسے ڈاکٹر بوطی نے  ذکر کیا ہے (1/51/53)۔ کے آخر میں روایت کیا ہے حالانکہ  اس زیادتی  کے ساتھ  عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بخاری کے یہاں "کتاب التعبیر"(12/297۔304۔ فتح) کی ابتداء میں معمر کے طریق سے مروی ہے، انہوں نے کہا: زہری  نے کہا: عروہ نے مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ سے خبردی۔۔ پھر (وفتر الوحی) تک پوری حدیث بیان کی اور زہری نے یہ اضافہ  کیا کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ  پہاڑ کی بلند چوٹی  سے اپنے آپ کو گرادینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تاکہ اس پر سے اپنے آپ کو گرادیں تو جبریل علیہ السلام  آپ کے سامنے آگئے اور کہا کہ اے محمد ! آپ یقینا  اللہ کے رسول ہیں ، اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون ہوتا اور آپ واپس آجاتے، لیکن جب وحی زیادہ دنوں تک رکی  رہی تو آپ نے ایک مرتبہ  اور ایسا ارادہ کیا لیکن جب پہاڑ کی چوٹی  پر چڑھے تو حضرت  جبریل علیہ السلام سامنے آئے  اور اسی طرح کی بات کہی "۔

اس زیادتی  کے ساتھ اسی طرح احمد (6/232۔233)، ابو نعیم (دلائل ص68۔69) اور بیھقی (دلائل: 1/393۔395) نے عبد الرزاق عن معمر کے طریق سےروایت کیا ہے،  اسی طریق سے امام مسلم (/98) نے بھی اس کی تخریج کی ہے لیکن انہوں  نے اس  کے الفاظ بیان نہیں  کیے ہیں بلکہ یونس  عن ابن شہاب کی روایت کے الفاظ پر اسکا احالہ کردیا ہے  اور اس میں یہ اضافہ نہیں ہے ، ایسے ہی اسے مسلم اور احمد (6/223) نے اضافہ کے بغیر عقیل بن خالد: قال ابن شہاب کے طریق سے روایت کیا ہے۔ خود امام بخاری نے بھی  اس حدیث  کو اپنی "صحیح" کے شروع میں عقیل کے طریق سے اضافہ کے بغیر ہی روایت کیا ہے۔

میں (البانی) کہتا ہوں : ماسبق کا حاصل یہ ہےکہ زیادتی  مذکورہ کے صحیح نہ ہونے کی دو علتیں ہیں:

(1) اسے یونس وعقیل کے بجائے  معمر نے تنہا  روایت کیا ہے لہذا یہ "شاذ " ہے۔

(2) یہ اضافہ  مرسل معضل ہے کیونکہ (فیما بلغنا) کا قائل زہری   ہیں جیسا کہ سیاق حدیث سے واضح ہے، یہی بات حافظ نے "فتح"(12/302) کے اندر جزم ویقین کے ساتھ یوں ذکر کیا ہے  کہ یہ زہری  کی بلاغات میں سے ہے موصول نہیں  ہے۔

 میں (البانی) کہتا ہوں : اس حقیقت سے ڈاکٹر بوطی نے غفلت یا جہالت  برتی  ہے، جس کی بنا پر انہوں نے گمان کیا کہ "صحیح بخاری" میں موجود ہر ہر حرف بخاری  کی شرط پر  صحیح ہے، شاید آنجناب صحیح بخاری  میں مروی حدیث مسند اور حدیث معلق کے درمیان  تفریق نہیں کرتے ہیں جس طرح بخاری  میں مروی حدیث موصول  اور اس مرسل حدیث کے درمیان تفریق نہیں کرتے ہیں جو  یو نہی اتفاقا حدیث موصول کے اندر آگئی ہو، مثال کے طور پر عائشہ رضی اللہ عنہا  کی یہی حدیث کہ جس کے اخیر میں اس مرسل اضافہ کا ذکر آگیا ہے۔

     معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اضافہ  کسی بھی قابل حجت موصول طریق سے روایت نہیں کیا گیا ہے۔(جیسا کہ میں نے سلسلہ ضعیفہ :(4858، میں بیان کیا ہے اور اس کی طرف "مختصر صحیح البخاری کی تعلیق(1/5) میں اشارہ کیاہے)۔

شیخ "سلسلہ ضعیفہ"(3/163/1053) میں رقمطراز ہیں :

  "خلاصہ کلام  یہ کہ یہ حدیث ابن عباس  سے صحیح ہے نہ ہی عا‏ئشہ رضی اللہ عنہا سے، اسی  لئے میں نے اپنی کتاب" مختصر صحیح البخاری "(1/5) کے حاشیہ میں اس بات پر  تنبیہ کی ہے  کہ زہری  کا یہ بلاغ بخاری کی شرط پر نہیں ہے تاکہ کوئی بھی شخص  اسے  صحیح بخاری  کے اندر پاکر اس کے صحیح  ہونے کا دھوکہ نہ کھائے ، واللہ الموفق"

دیکھئے :(1)السلسلۃالضعیفہ والموضوعۃ للالبانی (10/1/ 452۔454/4858)۔(2) السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ للعمری(1/127)۔(3) رد شبھات حول عصمۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی ضوء السنۃ النبویۃ الشریفۃ۔ رسالۃ دکتوراہ لعماد السید محمد اسماعیل الشر بینی۔ط: دار الیقین۔

[ مترجم: علامہ شبلی نعمانی  اور علامہ سید سلیمان ندوی ۔ رحمھما اللہ ۔"سیرت النبی "(1/127۔128) میں اضافہ مذکورہ کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:

 "حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے حصہ اول  کی شرح میں معترضین کا یہ اعتراض نقل کیا ہے کہ ایک پیغمبر کو نبوت میں کیونکر شک ہوسکتا ہے اور ہو تو کسی عیسائی کے تسکین دینے سے کیا تسکین ہوسکتی ہے ، پھر ایک مشہور محدث کا یہ جواب نقل کیا ہے کہ "نبوت  ایک امر عظیم ہے،اس کا تحمل دفعتا نہیں ہوسکتا ، اس لیے پہلے  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب کے ذریعہ  سے مانوس کیا گیا، پھر جب دفعۃ فرشتہ نظر آیا  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اقتضائے بشریت سے خوف زدہ ہوگئے، حضرت خدیجہ  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین  دی، پھر جب ورقہ نے تصدیق کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا یقین ہوگیا ، محدث مذکور کے الفاظ  یہ ہیں : "فلما سمع کلامہ ایقن بالحق واعترف بہ" جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ کا کلام  سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کا یقینا  آگیا  اور آپ نے اس کا اعتراف کیا ۔

 محدث مذکور اس کے بعد لکھتے ہیں "وحی بار بار اس لئے رک جاتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفتہ رفتہ  اس کے برداشت کرنے کے قابل ہوجائیں " (فتح الباری  شرح صحیح بخاری، کتاب التعبیر جلد 12صفحہ317،مطبوعہ مصر)۔

     لیکن  جب کہ ترمذی میں یہ حدیث موجود ہےکہ : "نبوت سے پہلے  سفر شام میں (بمقام بصری)جس درخت کے نیچے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے۔اس کی تمام شاخیں آپ  پر جھک آئیں، جس سے بحیرا نے آپ کے نبی ہونے کا یقین کیا"، جب کہ صحیح مسلم میں یہ حدیث ہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : میں اس پتھر کو پہنچا نتا ہوں جو نبوت سے پہلے مجھ کو سلام کیا کرتا تھا " جب کہ صحاح میں موجود ہے کہ نبوت  سے پہلے فرشتوں نے آپ کا سینہ چاک کیا اورجسمانی آلائشیں نکال کر پھینک دیں،تو خود ان روایتوں کے روایت کرنے والے کیونکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فرشتہ  کا نظرآنا ایسا  واقعہ تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر خوف زدہ ہوجاتے تھے کہ ایک دفہ تسکین ہو کر بھی بار بار اضطراب ہوتا تھا اور آپ اپنے آپ کو پہاڑ پر سے گرادنیے کا ارادہ کرتے تھے اور بار بار حضرت جبریل کو اطمینان دلانے کی ضرورت ہوتی تھی ، کیا اور کسی پیغمبر کو بھی ابتدائے وحی میں کبھی شک ہوا تھا ؟حضرت موسی  علیہ السلام  نے درخت سے آواز سنی کہ :" میں خدا ہوں" تو کیا ان کو کوئی شبہ پیدا ہوا؟ حافظ ابن حجر وغیرہ کی پیروی کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں، ہم کو پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ خود اصل روایت بہ سند مرفوع متصل ہے یا نہیں ؟ یہ روایت امام زہری کے بلاغات میں سے ہے یعنی سند کا سلسلہ زہری تک ختم ہوجاتا ہے اور آگے نہیں بڑھتا چنانچہ خود شارحین بخاری نے تصریح کردی ہے، یہ ظاہر ہے کہ ایسے عظیم الشان واقعہ کے لیے سند مقطوع کافی نہیں "۔

نیز دیکھئے : [ماشاع ولم یثبت فی السیرۃ النبویة لمحمد بن عبد اللہ العوشن ص25۔26]۔(جاری)

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ