Skip to main content

سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ {7}

 

تحقیقی مقالہ:

 


سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ

 تحریر:شیخ ابوعبدالرحمن محمود بن محمدالملاح                                         ترجمہ:ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی(قسط:7)


اولین راہروان اسلام:

قولہ:" یہ اسلامی تاریخ میں سابقین اولین کے وصف سے مشہور ہیں ۔ ان میں سر فہرست آپ کی بیوی ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد، آپ کے آزاد کر دہ غلام  حضرت زید بن حارثہ  بن شر حبیل کلبی ،  آپ کے چچیرے بھائی علی بن ابی طالب  جو ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر کفالت بچے تھے اور آپ کے یار غار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم  اجمعین  ہیں، یہ سب کے سب پہلے  ہی دن مسلمان ہوگئے تھے "۔(رحمۃ للعالمین 1/50، الرحیق المختوم:ص115)۔116، زید بن حارثہ بن شرحبیل کلبی  کے سلسلہ میں حاشیہ  ؎1 میں مذکور ہے۔

"یہ جنگ میں قید ہو کر غلام بنا لیے گئے  تھے، بعد میں حضرت خدیجہ  رضی اللہ عنہا  ان کی مالک ہوئیں  اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا ۔ اس کے بعد ان کے والد اور چچا انہیں گھر لے جانے کے لیے آئے لیکن انہوں نے باپ اور چچا کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب  دستور کے مطابق انہیں اپنا  متبنی( لے پالک) بنالیا، اور انہیں زید بن محمد کہا جانے لگا ، یہاں تک کہ اسلام نے اس رسم کا خاتمہ کردیا۔ حضرت زید جنگ مؤتہ جمادی الاولی 8ھ میں شہید ہوئے۔ آپ لشکر مسلمین کے قائد تھے "۔

تحقیق:یہاں تین امور قابل  ذکر ہیں !

(1) زید بن حارثہ کا قیدی وغلام بننے اور ان کے گھر والوں  کا ان کو لینے کے لیے آنے  کے تعلق سے مروی حدیث ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے "تھذیب"(11/  79) میں کہا ہے۔ اور "سیرت ابن ھشام"(1/318۔ 319) کے محقق نے کہا : اس حدیث کو طبرانی (4651) نے اپنی سند سے ابن اسحاق  کے قول سے روایت کیا ہے ، ابن اسحاق  نے اس کو بلا سند معلق طور پر ذکر کیا ہے ، اور کلبی و حمید بن مرثد وغیرہ نے بلا سند اس واقعہ کا ذکر کیا ہے جیسا کہ "الاصابہ"(3/25) میں ہے، ابن اثیر نے " اسدالغابۃ"(2/282) میں اسے بلا سند نقل کیا ہے، اور ابن عبد البر نے "الاستیعاب"  (2/543) میں اسے سخت ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے کیونکہ  اس میں ابن الکلبی واقع ہے۔ امام دار قطنی  وغیرہ کا کہنا ہے کہ یہ متروک راوی ہے۔ اور اما م احمد بن حنبل کا فرمان ہے کہ میرے خیال میں  اس سے کوئی بھی شخص حدیث روایت نہیں کرے گا ، اور جمیل بن یزید (سند میں موجود ایک دوسرا راوی) کا شمار مجہول راویوں میں ہے۔

[تنبیہ: الرحیق المختوم مطبوعہ مکتبہ نعیمیہ، صدر بازار مئو ناتھ بھنجن کے صفحہ115 پر "حضرت زید" کے باپ  کا نام "ثابت" لکھ دیا گیا ہے جو کہ فاش غلطی ہے ، صحیح یہ ھیکہ ان کے والد کا نام حارثہ ہے آپ "زید بن حارثہ بن شرحبیل کلبی" ہیں جیسا کہ  کتب  سیرت وحدیث میں مذکور ہے خود  الرحیق المختوم مطبوعہ المکتبۃ السلفیہ،لاھور کے صفحہ108 پر "زید بن حارثہ" ہی مذکور ہے۔مترجم]

(2) زید بن حارثہ کو ان کا بھائی جبلہ لینے کے لیے آیا تھانہ کہ ان کے والد وچچا جیسا کہ مؤلف الرحیق المختوم نے ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت سنن ترمذی کی حدیث نمبر (3815) کے مراجعہ سے ہوگی، اس میں یوں مذکور ہے کہ ابو عمروشییانی نے کہا:  زید بن حارثہ کے بھائي جبلہ بن حارثہ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم کےپاس آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے ساتھ میرے بھائی زید کو بھیج دیجئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ زید ہیں ، اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہیں تو میں انہیں منع نہیں کرونگا۔ تو زید نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم میں آپ کی محبت  پر کسی اور کی محبت کو ترجیج نہیں دے سکتا ۔

 جبلہ نے کہا: میرے  بھائی زید کی رای میری رای  سے زیادہ بہتر تھی "۔

  امام ترمذی نے اس حدیث کی روایت کےبعد کہا: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ابن الرومی عن علی بن مسھر کے واسطہ سے جانتے ہیں"۔

شیخ البانی  اور ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری نے اس کو حسن قرار دیا ہے ۔

(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زید بن حارثہ کو متبنی بنانے کا ثبوت قرآن کریم  اور صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے (ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شئی علیما)[احزاب:40] (لوگو!) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نہیں لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ، اور اللہ تعالی  ہر چیز کا (بخوبی) جاننے والا ہے۔

     امام بخاری نے اپنی صحیح (کتاب التفسیر،باب: ادعوھم  لابآھم ھواقسط عند اللہ )کے اندر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو ہم لوگ زید بن محمد ہی کہہ کر پکارا کرتے تھے یہانتک کہ قرآن میں رب کا یہ فرمان نازل ہوا کہ انہیں ان کے باپ کی طرف منسوب کر کے ہی پکارو، یہی بات اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عدل وانصاف پر مبنی ہے۔اسے مسلم، ترمذی اور نسائی نے بھی روایت کیا ہے۔

[ دیکھئے : ماشاع ولم یثبت فی السیرۃ النبویۃ ص23۔24،حاشیہ السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الاصلیۃ ص 157۔مترجم]

قولہ:نماز:(1) حارث بن اسامہ نے ابن لہیعہ کے طریق سے موصولا حضرت زید بن حارثہ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتداء جب وحی آئی تو آپ کے پاس  حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ کو وضو کا طریقہ سکھایا، جب وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چلو پانی لیکر  شرمگاہ پر چھینٹا مارا۔ ابن ماجہ نے بھی اس مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ براء بن عازب اور ابن عباس سےبھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے ، ابن عباس  کی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ (نماز) اولین فرائض میں سے تھی "۔(مختصر السیرۃ از شیخ عبد اللہ ص88۔الرحیق المختوم ص117۔118 مطبوعہ  مکتبہ نعیمیہ )۔

تحقیق: حدیث مذکور ضعیف ہے۔

امام ابو الحسن ابن القطان نے اپنی کتاب "بیان الوھم والایھام فی کتاب الاحکام"(2/18، مطبوعہ  دار طیبہ ، ریاض) میں فرماتے ہیں: امام عبد الحق  اشبیلی نے بزار کے طریق سے  زید بن حارثہ کی حدیث کو ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتداء جب وحی آئی تو جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور آپ کو طریقہ  وضوء سکھایا، جب وضوء سے فارغ ہوئے تو ایک چلو پانی لیکر شرمگاہ پر چھینٹا مارا۔

اشبیلی  نے کہا: اسے عبداللہ  بن لھیعہ روایت کرتا ہے، اور وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ، یہی حدیث رشد ین بن سعد کے طریق سے زید بن حارثہ سے بھی مروی ہے مگر رشد ین ضعیف ہے"۔

   اس حدیث کو امام احمد نے "مسند"(حدیث نمبر 17515) میں روایت کیا ہے۔ مسند احمد کے محقق شیخ شعیب ارناؤوط فرماتے ہیں : حدیث ضعیف ہے ، اس کی سند میں ابن لھیعہ سئی الحفظ ہے۔

   اور امام ابن الجوزی "العلل المتنا ھیہ"(1/354 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ) میں لکھتے ہیں :" ابن لھیعہ  اور رشدین دونوں ضعیف ہیں "۔

   حافظ ابن عبد الھادی مقدسی اپنی کتاب " تعلیقۃ علی علل ابن ابی حاتم"(رقم34 ط: اضواء السلف) میں فرماتے ہیں: " ابو احمدبن عدی نے "الکامل" میں کہا : حدثنا احمد بن محمد بن خالد البراثی، ثنا کامل بن طلحه،ثنا ابن لھیعه، عن عقیل ، عن الزھری، عن عروۃ ، عن اسامة بن زید عن ابیه قال قال رسول اللہ  صلی اللہ علیه وسلم : لما ارانی  جبریل وضوء الصلاۃ اخذ کفا من ماء فنضح به فرجه" یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ  جب جبریل علیہ السلام  نے مجھے نماز کے لیے وضوء کا طریقہ دیکھایا تو انہوں نے ایک چلو پانی  لیا اور اسے اپنی شرمگاہ پر چھڑک دیا"۔

   ابن عدی نے کہا: اس حدیث کو سند مذکور کے ساتھ صرف عبد اللہ بن لھیعہ  عقیل سے اور وہ زھری سے روایت کرتا ہے۔

    اور ابن ابی حاتم کہتے ہیں: میں نےاپنے باپ امام ابو حاتم رازی سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا جسے روایت کیا ہے ابن لھیعہ نے عقیل سے ، وہ ابن شہاب زہری سے، وہ عروہ سے، وہ اسامہ بن زید سے ، اور وہ اپنے باپ زید بن حارثہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب جبریل  نے آکر طریقہ وضوء دیکھا یا تو جب وضوء سے فارغ ہوئے تو اپنی شرمگاہ پر پانی کا چھینٹا مارا؟

  تو اس حدیث کے بارے میں میرے باپ ابو حاتم رازی نے کہا: یہ حدیث جھوٹی اور باطل ہے میں (ابن ابی حاتم) نے کہا: ابو زرعہ رازی نے اس حدیث کو اپنی کتاب "المختصر" میں بطریق ابن ابی شیبہ عن الاشیب عن ابن لھیعہ روایت کیا تھا، تو میں نے سوچا کہ انہوں نے اس  (باطل) حدیث کو قدیم زمانہ میں بغرض معرفت روایت کیا ہے"

(2) قولہ: "ابن ھشام کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نماز کے وقت گھاٹیوں میں چلے جاتے تھے اور اپنی قوم سے چھپ کر نماز پڑھتے تھے ، ایک بار ابو طالب نے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی کو نماز پڑھتے دیکھ لیا ، پوچھا اور حقیقت  معلوم ہوئی تو کہا کہ اس پر بر قرار رہیں "۔(ابن ہشام1/247۔ الرحیق المختوم ص118)۔

تحقیق: یہ واقعہ ضعیف ہے۔

    "سیرت ابن ھشام"(1/3179 کے محقق نےکہا: یہ حدیث ضعیف ہے۔ ابن ھشام نے اسے معلقا روایت کیا ہے، اور طبری(2/313) نے اسے اپنی سند کے ساتھ ابن اسحاق سے روایت کیا ہے "۔(جاری)

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ