Skip to main content

سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ{8}

 

تحقیقی مقالہ:

 


سیرت نبوی سے متعلق چندروایات وواقعات کا تحقیقی جائزہ

 تحریر:شیخ ابوعبدالرحمن محمود بن محمدالملاح                                         ترجمہ:ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی(قسط:8)


قرابت داروں میں تبلیغ:

قولہ:" بہر حال اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کام یہ کیا کہ بنی ہاشم کو جمع کیا ان کے ساتھ بنی مطلب بن عبد مناف کی بھی ایک جماعت تھی ، کل پینتالیس آدمی تھے،لیکن ابو لہب نے بات لپک لی اور بولا:دیکھو یہ تمہارے چچا اور چچیرے بھائی ہیں، بات کرو۔ لیکن نادانی چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب سے مقابلے کی تاب نہیں رکھتا۔۔۔۔ابو لہب نے کہا: یہ خدا کی قسم برائی ہے۔ اس کے ہاتھ دوسروں سے  پہلے تم لوگ خود ہی پکڑ لو۔اس پر ابوطالب نے کہا: خدا کی قسم جب تک جان میں جان ہے ہم ان کی حفاظت کرتے رہیں گے"۔(فقہ السیرۃ:ص 77۔87 از ابن الاثیر الکامل فی التاریخ:1/584۔585،الرحیق المختوم ص 119۔121)۔

تحقیق: یہ طویل روایت مرسل ضعیف ہے۔

[ روایت مذکورہ کو ابن الاثیر نے جعفر بن عبد اللہ بن ابی الحکم سے نقل کی ہے۔ مترجم]

   علامہ البانی "فقہ السیرۃ للغزالی"(ص 97۔ط: دار القلم، دمشق۔طبعہ ثالثہ) کی تخریج میں فرماتے ہیں:" کتب رجال میں مجھے اس(جعفر بن عبد اللہ بن ابی الحکم) نام کا کوئی راوی نہیں ملا ۔ ایک دوسرا راوی ہے جس کا پورا نام یہ ہے "جعفر بن عبد اللہ بن الحکم" یہ انصاری اور دوسی ہیں اور ان کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ وہ حضرت انس اور تابعین سے روایت کرتے ہیں ، اگر یہی مراد ہیں تو یہ سند مرسل ضعیف ہے ، مکمل سند سے مجھے واقفیت نہیں،اور اگر یہ راوی کوئی دوسرے ہیں تو  انہیں میں نہیں جانتا"۔(روایات سیرت کا تنقیدی جائزہ ص50)۔

ڈاکٹراکر م ضیاء العمری نے بھی اسے "السیرۃ الصحیحۃ" (1/142) کے اندر ضعیف قرار دیا ہے۔

 حجاج کو روکنے کے لیے مجلس شوری:

قولہ:" بعض روایات میں یہ تفصیل بھی مذکور ہے کہ جب ولید نے لوگوں کی ساری تجویز یں رد کردیں تو لوگوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اپنی بے داغ رائے پیش کیجئے، اس پر ولید نے کہا ذرا سوچ لینے دو۔ اس کے بعد وہ سوچتا رہا سوچتارہا۔ یہاں تک کہ  اپنی مذکورہ بالا رائے ظاہر کی ۔ اسی معاملہ میں ولید کے متعلق سورہ مدثر  کی سولہ آیات(11تا 26) نازل ہوئیں"(فی ظلال القرآن پارہ 29/188 الرحیق المختوم ص125)۔

تحقیق: حدیث ضعیف ہے۔

علامہ مقبل بن ھادی الوادعی۔ رحمہ اللہ ۔ "الصحیح المسند  من اسباب النزول"(ص 251۔ط۔مکتبۃ ابن تیمیہ) میں فرماتے ہیں :

"اسی طرح امام بیھقی نے بطریق حاکم ابو عبد اللہ عن محمد بن علی الصنعانی بمکۃ عن اسحاق اس حدیث کو روایت کیا ہے، لیکن حماد بن زید نے اسے بواسطہ ایوب عکرمہ سے مرسل روایت کیا ہے"۔

ابو عبد الرحمن الملاح کہتے ہیں :بظاہر مرسل روایت ہی راحج ہے کیونکہ حماد بن زید ایوب سے روایت کرنے والوں میں سب سے زیادہ ثقہ وثبت ہیں نیز اس سند میں معمر پر اختلاف واقع ہوا ہے جیسا کہ دلائل النبوۃ للبیھقی (2/199) میں مذکور ہے۔ لہذا حدیث ضعیف ہے۔واللہ اعلم"۔

(مترجم: سند میں عبد الرزاق بن ھمام الصنعانی مدلس  ہیں اور انہوں نے "عن" کے ساتھ روایت کیاہے (الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص 45)۔ اور ان سے روایت کرنے والے اسحاق بن ابراھیم بن عباد الدبری ابو یعقوب الصنعانی ہیں۔دار قطنی نے ان کو صدوق قرار دیا ہے جبکہ  ابن عدی نے کہا ہے :" ان کی بیان کردہ حدیث میں منکر روایات واقع ہوئی ہیں" لسان المیزان: 2/43،مصباح الاریب:1/183/3442۔ دیکھئے: تخریج احادیث وآثار کتاب فی ظلال القرآن ص 180۔ 181)۔

ابو طالب کو قریش کی دھمکی:

قولہ:" اس تجویز کے بعد سرداران قریش ابو طالب کے پاس حاضر ہوئے اور بولے۔ ابوطالب! آپ ہمارے اندر سن وشرف اور اعزاز کے مالک ہیں ۔ ہم نے آپ سے گزارش کی کہ اپنے بھتیجے کو روکئے۔لیکن آپ نے نہیں روکا۔ آپ یاد رکھیں ہم اسے برداشت نہیں کرسکتے  کہ ہمارے آباء واجداد کو گالیاں دی جائیں۔۔۔۔واللہ لن یصلوا الیك بجمعھم۔۔۔حتی او سد فی التراب دفینا الخ۔ بخدا وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز نہیں پہنچ سکتے، یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کردیا جاؤں۔ تم اپنی بات کھلم کھلا کہو تم پر کوئی قدغن نہیں، تم خوش ہوجاؤ اور تمہاری آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہوجائیں"۔(مختصر السیرۃ شیخ محمد بن عبد الوہاب ص68، الرحیق المختوم ص150۔151، سیرۃ ابن اسحاق ص135۔136 فقرۃ 200و202)

تحقیق:شیخ البانی رحمہ اللہ "سلسلہ ضعیفہ"(2/311/ 909) میں فرماتے ہیں :

"یہ سند معضل ضعیف ہے ، یعقوب بن عتبہ کا شمار ثقہ اتباع  تابعین میں ہوتا ہے ان کی وفات 128ھ میں ہوئی ہے۔ مجھے اس حدیث کا ایک دوسرا طریق بسند حسن ملا ہے لیکن اس کے الفاظ یہ ہیں :" ماانا باقدر علی ان ادع لکم ذلک، علی ان تستشعلوا لی منھا شعلۃ  یعنی الشمس"۔یعنی تمہاری خاطر میں اس فریضہ سے دست بردار نہیں ہوسکتااسی طرح جس طرح تم سورج سے میرے لیے ایک ٹکرا الگ نہیں کرسکتے۔

 میں نے "احادیث صحیحہ"(1/92/194) میں اس کی تخریج کی ہے ۔

[مترجم: شیخ البانی "فقہ السیرۃ للغزالی"ص 86(روایات سیرت کا تنقیدی جائزہ ص 52۔53) کے حاشیہ میں  فرماتے ہیں :"یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی تخریج ابن اسحاق رحمہ اللہ(1/107) نے اور ان کی سند سے ابن جریر رحمہ اللہ (2/67) نے یعقوب بن عتبہ بن المغیر بن الاخنس کی سند سے کی ہے۔ یہ معضل سند ہے۔ یعقوب نے کسی صحابی کو نہیں پایا ۔ اس بنا پر تبع تابعی ہوئے۔ اس واقعہ کو مختصرا طبرانی نے الاوسط اور الکبیر میں حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی سند سے بیان کیا ہے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد"اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج۔۔۔۔" کے بجائے آپ کا یہ ارشاد ہے:" اللہ کی قسم جس طرح سورج سے آگ کا ایک ٹکڑا الگ نہیں کیا جاسکتا ، اسی طرح جس چیز کےساتھ میں بھیجا گيا ہوں اس کی دعوت وتبلیغ سے کنارہ کش نہیں ہوسکتا۔" اس روایت میں آگے یہ بھی ہے کہ اس پر ابو طالب نے وفد قریش سے کہا:" اللہ کی قسم میرے بھتیجے نے کچھ بھی غلط نہیں کہا۔ تم لوگ یہاں سے چلے چاؤ"ہیثمی نے مجمع (6/15) میں لکھا ہے:" اس کی روایت ابو یعلی نے کی ہے، البتہ اس کا ابتدائی حصہ مختصر ہے اور ابو یعلی کی سند کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں۔"

 شیخ ابو عبد الرحمن الفوزی "مشہور واقعات کی حقیقت "ص  129۔131 مطبوعہ مکتبۃ اسلامیہ لاہور، میں فرماتے ہیں : ابن جریر نے التاریخ (ج1 ص545) ابن اسحاق نے السیرۃ (ج1ص 278) اور بیہقی نے دلائل النبوۃ(ج2 ص187) میں یعقوب سے یہ روایت بیان کی ہے۔

جرح: اس کی سند (منقطع ہونے کی وجہ سے )ہلاک کردینے والی ہے، معضل ہے۔ یعقوب (حافظ ابن حجر کے نزدیک) طبقۂ سادسہ میں سے ہیں  کسی صحابی  کو انہوں نے نہیں پایا ۔ حوالہ: دیکھئے تقریب التہذیب(ص608)۔

البانی نے "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ" (ج2ص310) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

 یہ قصہ طبرانی  نے المعجم الکبیر(ج1ص192) اور المعجم الاوسط (ج8 ص252، 253 ح8548) میں بیہقی  نے دلائل النبوۃ (ج2ص186) اور ابو یعلی  نے اپنی مسند (بتحقیق ارشاد الحق الاثری: 6771 ، علامات النبوۃ للبوصیری ص 85) بخاری نے التاریخ الکبیر (ج7ص 51)[حاکم نے المستدرک 3/577ح6467، البزار نے البحر الزخار 6/115 ح 2170] میں "طلحہ بن یحی عن موسی بن طلحۃ :ثنا عقیل بن ابی طالب" کی سند سے بیان کیا ۔

اور اس میں  ان الفاظ"لووضعوا الشمس فی یمینی والقمر فی یساری علی ان اترک ھذا الامر۔۔۔" کے بجائے یہ الفاظ ہیں:

" اترون ھذا الشمس؟قالوا: نعم، قال فما انا باقدر علی ان ادع ذلک منکم علی ان تستشعلوا منھا شعلۃ" کیا تم یہ سورج دیکھ رہے ہو؟ انہوں نے کہا :جی ہاں ، تو آپ نے فرمایا : میں تمہارے مقابلہ میں اس دعوت کو چھوڑ دینے پر ایسے ہی قادر  نہیں جیسے تم اس سورج سے ایک شعلہ لے آنے پر قادر نہیں !

اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ اس میں طلحہ بن یحی بن طلحہ القرشی ہے محدثین نے اس پر کلام کیا ہے، اس سے متعلق یحی بن معین نے فرمایا : یہ قوی نہیں اور ایک بار فرمایا : ثقہ ہے ، نسائی نے کہا:یہ قوی نہیں اور ایک بار "صالح" بھی کہا۔ یعقوب بن سفیان نے کہا: معزز آدمی  ہے، اس میں کوئی ایسی بات نہیں، اس کی حدیث میں کچھ ضف  ہے،الساجی نے کہا: صدوق تھا لیکن قوی نہ تھا ، ابن حجر نے فرمایا : صدوق ہے خطائیں کرتا تھا ۔ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا اور کہا یہ غلطیاں کرتا تھا اور عقیلی نے الضعفاء الکبیر میں اسے ذکر کیا ۔

فوزی کہتے ہیں: اس طرح کے راوی جو غلطیاں کرتے ہیں، وہم ہوتا ہے تو جب یہ کسی روایت میں اکیلے ہوں تو ان سے حجت  نہیں لی جاتی ، اسی لئے امام بخاری نے اس سے روایت نہیں لی۔

حوالے: دیکھئے  تہذیب الکمال (ج13 ص441) تقریب التہذیب (ص 683) الضعفاء الکبیر للعقیلی (ج2 ص 226) ابن حبان کی الثقات(ج6ص 478) ابن الجوزی  کی الضعفاء (ج2 ص66) ذہبی کی المغنی فی الضعفاء(ج1ص317) اور علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد (ج6 ص15) میں اسے ذکر کیا اور فرمایا : اسے طبرانی  نے "الاوسط" اور "الکبیر" میں اور ابو یعلی نے معمولی سے اختصار کے ساتھ روایت کیا اور ابو یعلی  کے راوی صحیح بخاری کےروای ہیں] ۔

قریش ایک بار پھر ابو طالب کے سامنے:

قولہ:" پچھلی دھمکی کے باوجود جب قریش نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام کئے جارہے ہیں تو ان کی سمجھ میں آگیا کہ ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ نہیں سکتے، بلکہ اس بارے میں قریش سے جدا ہونے اور ان کی عداوت مول لینے کو تیار ہیں۔۔۔۔جواب میں ابو طالب نے کہا:بخدا تم لوگوں نے  مجھ سے انصاف کی بات نہیں کی ہے بلکہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر میرے مخالف لوگوں کی مدد پر تلے بیٹھے ہو تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو"۔(ابن ہشام:1/266۔267، الرحیق المختوم ص 152)۔

تحقیق: مرسل ہے، اس کی سند متصل نہیں ہے۔

فاضل برادر شیخ محمد بن عبد اللہ  العوشن حفظہ اللہ "ماشاع ولم یثبت فی السیرۃ"(ص 32) میں رقمطراز ہیں:

"یہ مرسل ہے۔ اسے ابن اسحاق نے بلا سند ذکر کیا ہے۔ البتہ ابن سعد نے"طبقات" میں اسے اپنے شیخ محمد بن عمر الواقدی  سے روایت کیا ہے،  اور ذھبی نے "السیرۃ" کے اندر ابن اسحاق کے حوالہ سے ذکر کیا ہے"۔

ظلم وجور:

قولہ:" ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جوگر وہ گھر کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیا کرتا تھا وہ یہ تھا۔ ابو لہب، حکم بن ابی العاص بن امیہ ،عقبہ بن  ابی معیط، عدی بن حمراء ثقفی، ابن الاصداء ھذلی۔ یہ سب کے سب آپ کے پڑوسی تھے، اوران میں سے حکم بن ابی العاصی کے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہ ہوا، ان کے ستانے کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو کوئی شخص بکرے کی بچہ دانی اس طرح ٹکاکر پھینکتا کہ وہ ٹھیک آپ کے اوپر گرتی۔چولہے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جاگرتی۔ آپ نے مجبور ہو کر ایک گھروندا بنالیا تاکہ نماز پڑھتے ہوئے ان سے بچ سکیں۔ بہر حال جب آپ پر یہ گندگی پھینکی جاتی تو آپ اسے لکڑی پر لے کر نکلتے اور دروازے پر کھڑے ہو کر فرماتے : اے بنی عبد مناف ! یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟ پھر اسے راستے میں ڈال دیتے"۔(ابن ہشام:1/416، الرحیق المختوم ص 134)۔

تحقیق: یہ حدیث موضوع ہے۔

شیخ البانی"سلسلہ ضعیفہ"(9/175/4151) میں فرماتے ہیں:

"کنت بین شرجارین :بین ابی لھب وعقبہ بن ابی معیط۔۔۔"

میرا گھر دو برے پڑوسی: ابو لہب وعقبہ بن ابی معیط کے گھروں کے درمیان تھا، یہ دونوں اوجھڑیاں لا کر میرے دروازے پر ڈال دیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ دشمنان اسلام اذیت ناک اور تکلیف دہ چیزیں لا کر میرے دروازے پر پھینک دیا کرتے تھے"۔

یہ روایت موضوع ہے۔ اسے ابن سعد نے "طبقات"(1/201) میں  بایں سند روایت کیا ہے : "اخبرنا محمد بن عمر:اخبرنا عبد الرحمن بن ابی الزناد، عن ہشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ مرفوعا" اس میں  اضافہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اوجھ اور تکلیف دہ چیز کو لیکر نکلتے اور فرماتے: اے بنی عبد مناف !یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟ پھر اسے راستے میں ڈال دیتے"۔

میں (البانی) کہتا ہوں: یہ سند موضوع ہے، اس کی  آفت وبلاء محمد بن عمر الواقدی ہے اسے امام احمد وغیرہ نے کذاب کہا ہے"۔(جاری)

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ