Skip to main content

ماہ رمضان اور کرم الہی

 

پیام حدیث:

 


ماہ رمضان اور کرم الہی

                                                                  ابو عبد العزیزمحمدیوسف مدنی


        "عن ابی ھریرۃ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم:"اذادخل رمضان فتحت ابواب السماء،وغلقت ابواب جھنم،وسلسلت الشیاطین"(صحیح بخاری: الصوم ، باب ھل یقال رمضان اوشھر رمضان....ح1898)

" ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب رمضان کا مہینہ  آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین  کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے"

فقہ حدیث:"(1)ابواب السماء: آسمان کے دروازے ، اس سے مراد جنت کے دروازے ہیں، صحیح بخاری:کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، ح:3277 میں اسی حدیث کی ایک روایت میں "فتحت ابواب الجنۃ"(جنت کےدروازےواکر دیئے جاتے ہیں ) کے الفاظ آئے ہیں ۔ امام ابن العربی  کہتے ہیں : اس میں کوئي تعارض نہیں ہے،اس لئے کہ آسمان کے دروازے ہی سے جنت کی طرف چڑھا جاتا ہے،کیونکہ  جنت آسمان کے اوپر ہے اور اس کا چھت عرش  الہی ہے۔ اور صحیح مسلم(2548) وسنن نسائي (2100و2105) کی روایت میں "فتحت ابواب الرحمۃ"(رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے  ہیں ) کے الفاظ آئے ہیں ۔ اور "رحمت کے دروازے" کا اطلاق "جنت کے دروازے" پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ " احتجت الجنۃ والنار"( جنت اور جہنم کے جھگڑنے ) والی صحیح حدیث میں ہے۔

جنت کے دروازے رمضان میں مرنے والوں کیلئے  حقیقی  طور پر کھول دیئے  جاتے ہیں  یا اس شخص کیلئے جس نے رمضان میں نیک اعمال کر کے انہیں  برباد  نہ کیا ہو۔

یا یہاں مجازی طورپر "فتحت ابواب الجنۃ" کہا گیا ہے اور اس سے مرادیہ ہےکہ ماہ رمضان میں اعمال  صالحہ  کا انجام دینا جنت تک   پہنچنے کا سبب ہے یا یہ کہ اس ماہ میں زیادہ توبہ، کثرت مغفرت وبخشش اور بے پناہ رحمت الہی کے نزول کو  جنت کے دروازے سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔

 یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ جنت کے دروازے   پہلے بند تھے اور رمضان میں کھول دیئے گئے، لیکن یہ فرمان الہی :[ جنات  عدن مفتحۃ لھم الابواب] (ص:  50) کےمنافی نہیں کیونکہ آیت مذکورہ  ابواب  الجنۃ کے ہمیشہ  کھلے رہنے کا تقاضا نہیں کرتی ہے۔

(2)غلقت ابواب جھنم: جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، اس سے ان دروازں کا حقیقتا بند ہونا بھی مراد ہوسکتا ہے اور مجاز بھی ، جیسا کہ "فتحت ابواب السماء" کی تشریح میں گزرچکا۔

یہ فرمان نبوی اس بات کا تقاضا کرتا ہےکہ جہنم کے دروازے پہلےکھلے   تھے، تبھی تو رمضان کے دخول پر انہیں بند کردیا گیا ۔ لیکن یہ فرمان الہی (حتی اذاجاءوھا  فتحت ابوابھا)[ الزمر:71] کے خلاف نہیں ہے کیونکہ  یہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان  کے آنے سے پہلے وہ دروازے بند کردیئے گئے  تھے جو  آنے کے بعد کھول دیئے جائیں گے۔

رمضان میں آگ   کے دروازے کا بند ہونا اس ماہ میں کافروں کے مرنے اور جہنم میں آگ کے ذریعہ انہیں عذاب دیئے جانے   کا بھی منافی  نہیں ہے،اس لئے کہ ان کی تعذیب کے لئے قبر سے آگ تک جہنم کے بڑے بڑے دروازوں کو کھولنے کے بجائے ایک چھوٹا دروازہ کھول دینا کافی ہے،(مرعاۃ  المفا تیح :6/399)

(3)سلسلت  الشیاطین:شیاطین پابند سلاسل کردیئے جاتےہیں اور اس سے یا تو اس کا حقیقی معنی مراد ہے کہ واقعی اللہ تعالی  ان شیطانوں کو ماہ رمضان میں  پاپہ زنجیر کردیگاجو آسمان سے فرشتوں  کی باتوں کو اچک لینے کا کام کرتے ہیں ،یہاں اس کا مجازی معنی مراد ہے  یعنی اس مہینہ میں ان شیاطین کا لوگوں کو بہکانا اور گمراہ کرناکم ہوجاتا ہے یا شیاطین سے مراد بعض شیاطین ہیں یعنی سرکش وانتہائي  بدمعاش قسم کے شیاطین کو زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے چنانچہ مسنداحمد(31/91۔92/18794۔ط:الرسالۃ)کی ایک حدیث بروایتعرفجہ میں "ویصفد فیہ کل شیطان مرید"کے الفاظ آئے ہیں یعنی اس ماہ میں ہر سرکش شیطان کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔

اور سنن  ابن ماجہ(2/568۔569/1642۔مترجم اردو،ط:  دارالسلام) کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اذاکانت اول لیلۃ من رمضان ،صفدت الشیاطین ومردۃ الجن، وغلقت ابواب النار، فلم یفتح منھا باب وفتحت ابواب الجنۃ ، فلم یغلق منہا باب،ونادی مناد !یا باغی الخیر اقبل،،ویاباغی الشراقصر، وللہ عتقاء من النار،وذلک فی کل لیلۃ"(سنن ترمذی:682،صحیح ابن خزیمہ:3/188ح:1883،  سنن نسائي :4/129ح1207،تحقیق الشیخ زبیر علی زئي)۔

          جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑدیا جاتا ہے، جہنم کے دروازے بند  کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے  کوئي دروازہ کھلا نہیں رہتا ، اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ،ان میں سے کوئي  دروازہ  بند نہیں ہوتا ، اور ایک  اعلان کرنے والا منادی کرتا ہے: اے نیکی  کےطلب گار آگے بڑھ اور  اے برائي  کے طلب گار رک جا، اور اللہ تعالی جہنم سے (بعض )لوگوں کو آزاد کرتا ہے(رمضان میں) ہر رات اسی طرح ہوتا ہے۔

     مولانا  عطاء اللہ ساجد صاحب اس حدیث کے "فوائد ومسائل" کے تحت تحریر فرماتے ہیں :

(1)ماہ رمضان نیکیوں کا مہینہ  ہے،اس مہینے میں اللہ کی طرف سے نیکیوں کے راستے میں حائل بڑی رکاوٹیں  دورکردی جاتی ہیں۔اس کے بعدبھی اگر کوئي شخص نیکیوں سے محروم رہتا ہے  یابرائیوں سے اجتناب کر کے اللہ کی رحمت حاصل نہیں کرتا تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔(2)شیطانوں اور سرکش جنوں کے قید ہوجانے کے باوجود ماہ رمضان میں انسانوں سے جوگناہ سرزد ہوتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہوتی ہےکہ انسان گیارہ مہینوں میں گناہوں کا مسلسل ارتکاب کرنے کی وجہ سے ان کے عادی ہوجاتے ہیں ، پھر رمضان میں نفس کے اصلاح کے لیے کوشش بھی نہیں کرتے، یعنی روزے نہیں رکھتے، کثرت سے تلاوت نہیں کرتے،تراویح نہیں پڑھتے ، اس لیے ان کی نفس کی تربیت اور اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے  وہ گناہوں سے اجتناب   نہیں  کرسکتے۔(3)جنت کے دروازے کھل جانے اور جہنم  کے دروازے  بند ہوجانے  میں حقیقتا ان دروازوں کا کھلنا اور بند ہونا  بھی مراد ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہےکہ مسلمان معاشرے میں ماہ رمضان کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، اس لیے نیکیوں کی طرف عام رحجان پیدا ہوتا ہے اور مسلمان ہر قسم کی نیکی  کرنے پر مستعد ہوجاتے ہیں اور ہرقسم کے گناہ سے بچنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ گویا یہ نیکیاں جنت  کے دروازے ہیں اور گناہ جہنم کے دروازے۔(4) اللہ تعالی کی طرف سے نیکیوں میں آگے بڑھنے اور گناہوں  سے باز آنے کا اعلان بھی اس لیے ہےکہ مسلمان  نیکیاں کرنے اور گناہوں سےبچنے کا زیادہ سےزیادہ اہتمام کریں۔(5) ہر رات بعض لوگوں کو جہنم سے آزادی بھی ماہ رمضان  کا خصوصی  شرف ہے۔ گناہوں سے توبہ  کر کے ہر شخص اس شرف کو حاصل کرسکتا ہے۔

      یہ حدیث رب العالمین کی مہربانی  ،کرم وفضل، احسان ورحمت کا عظیم مظہرہے، اور اس سے بہرہ ور  ہونے کے لیے ہر مسلمان کو ایسے  اعمال انجام دینا چاہئے  کہ جو اسے جنت تک لے جانے والے ہوں اور جہنم سے دور کردینے والے  ہوں اور شیاطین کی  چالبازیوں  اور وسوسوں سے اسے دور رکھیں۔اور اس کے لیے ماہ رمضان المبارک سب سے افضل وبہترزمانہ ہے، اس لیے اس  میں غفلت  شعاری  اور سہل انگاری  باعث ستائش نہیں بلکہ باعث مذمت وخسارہ ہے! اللہ تعالی ہمیں اس ماہ کی خیروبرکات  سے مالا مال ہونے کی توفیق سے نوازے ۔آمین۔•••   

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ