Skip to main content

رؤیت ھلال میں اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں ؟


تحقیقی مقالہ:
 

رؤیت ھلال میں اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں ؟
 تحریر: الشیخ احمدبن عبد اللہ بن محمد الفریح                        …ترجمہ:ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی                   

اولا: محل اختلاف کی تعیین: اماکن بعیدہ میں مطلع ہلال مختلف ہونے کی صورت میں جس شہروالوں نے چاند نہیں دیکھا ہے کیا ان پر دوسرے شہر والوں کی رؤیت پرعمل کرناضروری ہے ؟
ثانیا:اختلاف کا ذکر:زمانۂ قدیم ہی سے اس مسئلہ  میں اختلاف موجود ہے، اوریہ ان اجتہادی  مسائل میں سے ہے  جن میں اختلاف کرنے کی گنجائش وجواز ہے جبکہ ہر  قول کی اپنی اپنی  دلیل موجود ہے۔
قول اول: چنانچہ اس سلسلہ میں فقہاء کی ایک جماعت  کا کہنا ہےکہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائیگا  یہ قول بعض احناف وموالک اور جمہور شوافع کا ہے، اور حنابلہ کا بھی یہ ایک قول ہے۔
ان فقہاء کے چند نصوص واقوال ملاحظہ ہوں:
 علامہ زیلعی حنفی کہتے ہیں :ایک قول کے مطابق اختلاف مطالع کا کوئي اعتبار  نہیں ہے جبکہ دوسرے قول کے مطابق  اعتبار ہے ۔ اور اشبہ یعنی  زیادہ صحیح بات یہ ھیکہ اختلاف مطالع معتبر ہے، کیونکہ ہر قوم کو ان کے پاس موجود امور ہی کے ذریعہ  مخاطب کیا گیا ہے، اور ہلال کا سورج کی کرنوں سے منفصل ہونا قطروں کے اختلاف سے مختلف ہوتا ہے جیسا کہ  نمازوں  کی ابتدائي  وانتہائي  اوقات علاقائي  اختلاف کی بناپرمختلف ہوتے ہیں حتی کہ جب مشرق میں زوال ہوتا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ مغرب میں بھی زوال ہو۔ایسے ہی طلوع فجر وغروب آفتاب کا معاملہ  ہے، چنانچہ سورج جب ایک درجہ  حرکت کرتا ہےتو کہیں طلوع فجر ہوتا ہے تو کہیں طلوع آفتاب اور کسی علاقہ  میں غروب ہوتا ہے تو دوسرے علاقہ  میں نصف شب ۔(تبیین الحقائق :  1/321،فتح القدیر:2/213)۔
علامہ  ابن عبد البر مالکی فرماتے ہیں : "میں قول اول یعنی اختلاف مطالع کا  اعتبار کیے جانے کواختیار کرتا ہوں، کیونکہ اس سلسلہ میں ایک مرفوع اثر موجود ہے جو کہ قابل حجت حسن درجہ  کی حدیث ہے نیز یہ ایک بڑے صحابی کا قول ہےاور  صحابہ میں ان کا کوئي مخالف نہیں ہے اور تابعین  کی ایک جماعت  اسی کی قائل ہے، مزید برآں میرے نزدیک نظری دلیل بھی اسی پر دلالت کرتی ہے" (التمھید :7/159۔160،المنتقی شرح الموطا:2/37)۔
 علامہ نووی شافعی کا کہنا ہے:" جب کسی شہر کے لوگ چاند دیکھ لیں  اور دوسرے شہر والے نہ دیکھ پائیں اور دونوں شہروں کے درمیان قریبی  مسافت ہو، تو دونوں ایک ہی شہر کے حکم  میں ہوں گے ،لہذا دوسرے شہروالوں پر بالا تفاق روزہ  رکھنا لازم ہوگا۔ لیکن اگر دونوں شہروں کے بیچ مسافت بعیدہ ہو تو کیا دوسرے شہر کی رؤیت کا اعتبارہوگا یا نہیں ؟اس بارے میں اختلاف ہے ۔ البتہ  صحیح تر رائے یہ ھیکہ دوسرے  شہر والے روزہ نہیں رکھیں گے ۔(المجموع :6/280۔281)۔
علامہ مرداوی حنبلی:"الانصاف"(7/335۔336) میں فرماتے ہیں :" جب ھلال نظر آجائے  تو تمام لوگوں پر روزہ رکھنا لازم ہوگا ۔ جس نے چاند دیکھا ہے  اس پر وجوب صوم کے سلسلہ میں  کوئي اختلا ف نہیں ہے،البتہ جن لوگوں نے چاند نہیں دیکھا ہے اور دیکھنے والوں کے مطلع کے ساتھ ان کا مطلع متحد ومتفق ہے تو ان پرروزہ رکھنا لازم ہے ، لیکن اگر مطالع میں اختلاف ہے تو صحیح مذہب کے مطابق روزہ رکھنا ضروری ہے ،اسی قول کو "فروع"،"فائق" اور "رعایہ" میں مقدم رکھاہےاور یہ مفردات مذہب میں سے ہے۔"فائق" میں مذکور ہے کہ ایک شہر کی رؤیت تمام مسلمانوں کو لازم ہوگی ، اورایک قول یہ بھی ھیکہ صرف انہیں لوگوں کے لیے یہ رؤیت لازم ہوگی  جن کے مطالع باہم متقارب ہیں ، اسے ہمارے  شیخ تقی الدین (ابن تیمیہ )نے اختیار کیا ہے۔
اور "فروع" میں مرقوم ہےکہ ہمارے شیخ تقی الدین نے کہا ہےکہ باتفاق اہل معرفت مطالع مختلف ہوتے ہیں ، پس اگر مطالع متفق ہوجائیں تو روزہ لازم ہوگا ورنہ نہیں "۔•••
دلائل کا ذکر:اس قول کے دلائل حسب ذیل  ہیں :
(1)امام مسلم رحمہ اللہ کی روایت کردہ واقعہ  کریب جس میں ہےکہ ام الفضل بنت الحارث نے کریب کو ملک شام معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس کسی حاجت  کے لیے بھیجا، پھر کہتےہیں کہ پس میں شام آیا، اور میں نے اس  کام کو انجام دیا ،میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا ہلال نظرآگیا، اور جمعہ کی رات کو خود میں نے ہلال دیکھا۔ پھر میں مہینہ  کے آخر میں مدینہ واپس آیا ۔عبد اللہ بن عباس نے مجھ سے (وہاں کا حال) پوچھا۔ اس کے بعدانہوں نے ہلال کا تذکرہ کیا ، اور پوچھا کہ : تم نے ہلال کب دیکھا تھا؟میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو ہلال دیکھا تھا۔ انہوں  نے پوچھا : کیا تم نے خود دیکھا تھا ؟ میں نے کہا: ہاں۔ میں نے خود دیکھا اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا ۔ ان لوگوں نے روزہ رکھا اور معاویہ نے بھی روزہ رکھاتھا ۔ ابن عباس نے کہا: لیکن ہم نے توہفتہ کی رات کو ہلال دیکھا ہے،لہذا ہم تو روزہ رکھیں گے ،حتی کہ تیس روزے پورے ہوجائیں ، یا اس سے پہلے ہلال دیکھ لیں۔
     میں نے پوچھا :کیا آپ معاویہ کی رؤیت ، اور ان کے روزوں  پر اکتفا نہیں کرتے ؟ انہوں نے جواب دیا :نہیں  کیونکہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایسا ہی حکم دیا ہے"۔
وجہ استدلال: ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے اہل شام کی رؤیت کا اعتبار نہیں کیا بلکہ "ھکذاامرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" کہا جو اس بات کی دلیل ہےکہ یہ ان کا اجتھاد نہ تھا بلکہ امرنبوی تھا،لہذا اس میں"لکل بلد رؤیتھم"(ہرشہر والوں کیلئے ان کی اپنی رؤیت ہے) کی دلیل واضح طور پر موجود ہے۔

     قرطبی کہتے ہیں کہ ابن عباس کے دونوں قول:"  فلا نزال نصوم حتی نکمل ثلاثین اونراہ" اور "ھکذا امرنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " میں صراحت ہےکہ اسے انہوں نے مرفوع بیان کیا ہے ، لہذا یہ حجت ودلیل ہے اس امر کیلئے  کہ ایک بلد جب دوسرے  بلدسے شام وحجاز جیسے یا اس سے قریب  قریب  دورواقع ہو تو ہر بلد کی اپنی ہی رؤیت پر عمل کرنا واجب ہے نہ کہ دوسرے شہروالوں کی رؤیت پر "۔(المفہم لمااشکل من تلخیص کتاب مسلم:3/ 142،تفسیر القرطبی :2/295)
دلیل ثانی:فرمان رسولﷺ:"لاتصومواحتی تروا الھلال،ولاتصومواحتی تروہ،فان غم علیکم فاقدرواله"
یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھو ،اور چاند دیکھ کر افطار کرو ، اگر (ابروغیرہ کی وجہ سے) نہ دیکھ سکو تو اندازہ کرلو"۔
وجہ استدلال:رسول اللہ ﷺ نے صوم وافطار کے وجوب کو رؤیت ہلال پر معلق فرمایا ہے ۔ اور یہ ہر مخاطب کے لیے ہے لیکن ایک شہر وملک میں تمام لوگوں کے لیے شہادت ہی کافی ہے، ورنہ ہرفرد پر رؤیت واجب ہوگي ۔ البتہ ان کے علاوہ دوسرے بلاد بعیدہ والے رؤیت نہ ہونے کی وجہ سے عدم صوم کی اصل پرباقی رہیں گے ،  یہاں بلادقریبہ والوں کے ساتھ اس رؤیت کو جس چیز نے خاص کیا ہے وہ  ہے اجماع "۔(الفقہ الاسلامی المقارن ص563)۔
(3) دلیل ثالث:اجماع: امام ابن عبد البر کہتےہیں: علماء کا اجماع ہے اس بات پر کہ بہت دور والے شہروں میں   ایک دوسرے کی رؤیت کا اعتبار نہیں کیا جائیگا جیسا کہ خراسان اور اندلس کے مابین دوری ہے۔ کیونکہ ہر علاقہ کا ایک خاص حکم ہے جو اسی سے مخصوص ہے، ہاں اگر مصر کبیر ہے اور شہر قریب قریب ہوں تو ان کے لیے ایک ہی رؤیت کا فی ہوگي '(الاستندکار:10/30) یعلی نے "حاشیہ ابن قندس علی الفروع"(4/514) میں کہا کہ ابن عبد البر کی مراد یہ ھیکہ دور والوں کے حق میں رؤیت ثابت نہ ہوگي ۔اور ابن رشد کا کہنا ہےکہ علماء کا اجماع ہے کہ اندلس وحجاز جیسے بلاد بعیدہ میں رؤیت کا اعتبار نہ ہوگا۔(ہدایۃ المجتھد:1/288)۔
(4) دلیل رابع :قیاس:مطالع قمرکو مطالع شمس پر قیاس کیا گیا ہے کیونکہ  آفتاب کے مطالع کا اختلاف بالاجماع معتبر ہے تو اسی طرح مطالع قمر کا اختلاف بھی معتبر ہوگا (العلم المنشور ص15)(یہاں علامہ زیلعی کا کلام سابق  مذکورہے)۔
(5) دلیل خامس:عمل صحابہ: اس بات کا عدم ثبوت کہ زمانہ صحابہ  میں جب کسی ایک بلد میں رؤیت ہوجاتی تو صحابہ کرام  دوسرے شہروں کی طرف پیغام رؤیت بھیجنے  کا اہتمام کرتے تھے ، کیونکہ اگر دوسرے شہروالوں کو رؤیت کی خبر دینا ضروری ہوتا تو وہ لوگ ضرور لکھ بھیجتے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔(العلم المنشور ص15)
دوسراقول: اتحاد رؤیت ھلال:
 یعنی رؤیت ھلال کے سلسلہ میں  اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں کیا جائیگا  بلکہ اگر کسی ایک بلد میں رؤیت ثابت ہوجائے  تو یہی رؤیت پوری دنیا کے  مسلمانوں کےلیے معتبر ہوگي ۔ اسی کے قائل ہیں جمہور  حنفیہ،مالکیہ، حنابلہ او ربعض شوافع ۔ذیل میں ان میں سے بعض فقہاء کے اقوال ملاحظہ ہوں:
    احناف کے نزدیک  جب کسی ایک شہر میں رؤیت ثابت ہوجائے تو باقی تمام لوگوں پر صوم لازم ہوگا ،بنابریں ظاہر مذہب میں اہل مشرق پر اہل مغرب کی رؤیت لازم ہوگي۔
علامہ ابن  عابدین کہتے ہیں : ہمارے نزدیک راحج  وقابل اعتماد قول یہی ہےکہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہے، یہی ظاہر روایت ہے اور اس پر  کتب فتوی جیسے کنزوغیرہ کے نصوص دلالت کرتے ہیں ۔(رسائل ابن عابدین :1/251)
    ابن عبد البر فرماتے ہیں : جب ایک شہر ميں چاند نظر آجائے اور دوسرے شہروں میں نظر نہ آئے تو اس  سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔۔۔اس میں ایک قول لیث بن سعد،شافعی  اور احمد بن حنبل سے مروی ہےکہ جب کچھ لوگوں کے  نزدیک کسی شہروالوں کا چاند دیکھنا ثابت ہوجائے تو ان پر فوت شدہ روزہ کی قضا واجب ہوگي اور ابن قاسم کی روایت میں امام مالک کا بھی یہی قول ہے۔
   منتقی باجی (2/37) میں ہے:"جب اہل بصرہ کو ہلال رمضان نظرآجائے اور یہ خبر اہل  کوفہ ، مدینہ اور یمن والوں کو پہنچ جائے تو ابن قاسم وابن وھب کی روایت میں امام مالک کا قول ہےکہ ان تمام لوگوں پر صوم اور روزہ فوت ہونے کی صورت میں قضا واجب ہوگي ۔
امام نووی"المجموع"(6/280۔281) میں فرماتے ہیں :" جب کسی ایک شہر میں رمضان کا چاند نظرآجائے  اور دیگر شہروں میں نظر نہ آئے تو اگر  یہ بلد ایک دوسرکےقریب واقع ہیں تو سب کے سب ایک شہر وبلد کے حکم میں ہوں گے اور دوسرے شہر والوں پر صوم لازم ہوگا ، اس میں کوئي اختلاف نہیں ہے۔ البتہ اگر یہ بلاد دور دور واقع ہوں تو ایسی صورت  میں دو وجوہ ہیں : صحیح  تر بات یہ ھیکہ دوسرے شہر والوں  پر صوم واجب نہ ہوگا جبکہ دوسرے قول کے مطابق واجب ہوگا"۔
علامہ عراقی  "طرح التثریب"(4/116) میں رقمطراز  ہیں :"۔۔۔ دوسرے علماء کا کہنا ہےکہ جب کسی شہر میں ہلال دکھ جائے تو تمام شہر والوں پر روزہ رکھنا واجب ہوگا ، یہ شوافع کا قول ہے، اور قاضی ابو الطیب اور رویانی اسی طرف گئے ہیں ، رویانی نے کہا: یہی قول ظاہر مذہب ہے جسے ہمارے اصحاب نے اختیارکیا ہے اور بغوی نے خود امام شافعی   سے اس کی حکایت کی ہے"
    امام ابن قدامہ فرماتے ہیں :" جب کسی ایک ملک والے کو چاند نظر  آجائے  تو تمام بلا د میں  صوم لازم آئیگا "(المغنی :2/105)۔ •••
کتاب الفروع (4/314) میں ہے: " رؤیت ھلال خواہ قریب کے بلد میں ثابت ہویا دور کے بلد میں ، تمام لوگوں پر روزہ رکھنا لازم ہوگا- اس سلسلہ میں ھلال نہ دیکھنے والے  کا حکم ،  دیکھنے والے کا ہوگا گرچہ  مطالع میں اختلاف  ہو۔اس  پر نص ہے"۔
علامہ  مرداوی "الانصاف"(7/336) میں لکھتے ہیں:  اگر مطالع میں اختلاف ہوتو مذہب حنبلی میں صحیح قول یہ ہے کہ  (تمام لوگوں پر) صوم لازم ہوگا ، اس قول کو "فروع" "فائق" اور "رعایہ" میں مقدم کیا گیا ہے اور یہ "مفردات" میں سے ہے۔
قول ہذا کے  دلائل :
دلیل اول :فرمان الہی :{فمن شھدمنکم الشھرفلیصمه} (بقرہ:185)
 تم میں سے جو شخص اس مہینہ  کو پائےاسے روزہ رکھنا چاہئے ۔
وجہ استدلال: نفس مہینہ کے ثبوت کا اعتبار ہے خواہ کسی بھی مطلع سے ہو، کیونکہ شارع نے حکم کے عموم یعنی وجوب صوم کو نفس مہینہ  کے ثبوت کے ساتھ وابستہ کیا ہے بشرطیکہ  ثبوت ماہ کا اسے علم ہو اور وہ موجود ہو۔  (الفقہ المقارن مع المذاہب ص571وانظر المغنی:3/  605)
دلیل ثانی: فرمان نبوی:"صوموالرؤیته وافطروالرؤیته"
چانددیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔
وجہ دلالت: شارع حکیم نے  حکم یعنی صوم کو رؤیت ہلال پر معلق رکھا ہے اور یہ رؤیت مطلق ہے کسی جگہ کے ساتھ اسے مقید نہیں کیا گیا ہے۔
دلیل ثالث:فرمان الہی:{یسئلونك عن الاھلة،قل ھی مواقیت للناس والحج}(بقرہ:189)
لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں،آپ کہہ دیجئےکہ یہ لوگوں (کی عبادت)کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہے"۔
وجہ دلالت: اگر ہر قوم کا اپنا ہلال ہوتا اور ہر شہروبلدکااپنا مہینہ توضبط امور کا مقصد فوت ہوجاتا اور کوئي متعین وقت باقی نہ رہتا بلکہ  اوقات میں اختلاف رونما ہوجاتا۔(توجیہ الانظار ص33)
دلیل رابع:عقل: دو ہلالوں کے درمیان  وقفہ  زمانہ کا نام مہینہ  ہے اور ان کے نزدیک ثقہ لوگوں کی  شہادت کے ذریعہ  یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آج کا دن رمضان کا ہے، تواسی طرح ہرجگہ آج کا دن رمضان کا دن ہونا چاہئے ۔
 اور عام اصول وضابطہ  یہ ھیکہ اسلامی  ممالک پر شرعی  احکام کے تئیں  ایک دوسرے کی خبر وشہادت پر عمل کرنا واجب ہےجبکہ وہ ان تک  محفوظ ومامون اور قابل وثوق ذریعہ سے پہنچ جائے ۔ اور انہی احکام میں سے ایک حکم رؤیت ہلال کا بھی ہے۔(لہذا جب ایک ملک کی رؤیت کی خبروشہادت دوسرے ممالک تک قابل وثوق ذرائع سے پہنچ جائے  تو ان کو اس پر عمل کرنا واجب ہے  ورنہ احکام میں بلادلیل )تفریق کرنا تحکم ومن مانی ہے جبکہ تخصیص کیلئے یہاں  کوئي دلیل بھی موجود نہیں ہے۔  (الفقہ المقارن مع المذاہب ص572)۔
دلائل مذکورہ کا تجزیہ ومناقشہ:
اختلاف مطالع کے معتبر ہونے پر دلالت کرنے والے دلائل کا جائزہ:
دلیل اول:حدیث کریب:
ا۔ جو شخص دقت نظر کے ساتھ حدیث کریب میں غور وتامل کریگا وہ اسے مجمل ہی پائیگا  ۔اس میں اختلاف مطالع کے معتبر ہونے پر فرمان رسول سے کوئي دلیل نہیں ہے ،اس لئے کہ  ابن عباس نے "ھکذا امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ " کہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں کسی خاص چیز کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ اس بارے میں زیادہ سے زیادہ آپ کا یہ فرمان ہے "صوموالرؤیته وافطروالرؤیته"(چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو )اور اس معنی  کی دیگر روایات ۔
 امام ابن دقیق العید فرماتے یں :"ممکن ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے قول "ھکذا امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" سے اس عام حدیث "لاتصوموا حتی تروا  الھلال "کومراد لیا ہونہ کہ اس مسئلہ سے متعلق کوئي خاص حدیث، یہی بات میرے نزدیک زیادہ صحت کے قریب ہے "۔(احکام الاحکام:2/9)
   لہذا ابن عباس کے قول"ھکذاامرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" سے جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہ کہ اس سے مراد حدیث "صوموا لرؤیتہ" ہے، کیونکہ ان کا قول مجمل ہےجس کی تفسیر کسی معلوم  ہی کے ذریعہ  کیجانی چاہئے  اور جو معلوم ہےاس باب میں وہ  یہی عام حدیث ہے ۔
ب۔ یا تو حدیث کریب میں ابن عباس کو رؤیت  ہلال رمضان کی خبرایسے وقت میں دی گئي ہے کہ اس رؤیت کے مطابق روزہ رکھنے کا وقت فوت ہوچکا تھا، یہ نہیں کہ ابن عباس نے اس خبرکو محض اہل شام کے دیکھنے کی وجہ سے رد کردیا ،یہاں  تک کہ اگر اسی دن خبر آجاتی  توبھی رد کردیتے، بات ایسی نہیں ہے بلکہ اصل معاملہ  یہ ہےکہ جب ابتداء مہینہ میں اس خبرپر عمل کرنا فوت ہوگيا تو انہوں نے  مہینہ کے آخر پر اعتبار واعتماد کیا، چنانچہ  انہوں نے کہا:"فلا نزال نصوم حتی نکمل ثلاثین اونراہ" یعنی ہم  روزے سے رہیں گے یہاں تک کہ  تیس کی عدد مکمل کرلیں یا چاند دیکھ لیں خواہ ابتداء کیسی ہی کیوں نہ ہوئي ہو۔لہذا اگر کریب کی حکایت  کردہ رؤیت کے دن سے  تیس دن گزرجانےکےبعدان کو  ہلال نظر آئے تو یہ چیز کریب کی بیان کردہ بات کے باطل ہونے کی دلیل ہوگي بنابریں وہ اپنی رؤیت کے حساب سے تیس دن کے روزے رکھیں گے ۔اور اگر کریب کی بیان کردہ رؤیت سے 29دن یا اس سے کم دن گزرے ہوں پھر ہلال نظر آئے  تو حدیث کریب پر عمل کرتے ہوئے  فوت شدہ روزہ کی قضا کریں گے (مشکل الآثار:1/425)۔
ج۔ ابن عباس نے کریب کی شہادت کو قبول نہیں کیا کیونکہ  وہ تنہا تھے جبکہ ان کا مذہب ہےکہ دخول مہینہ کے بارے میں دو گواہ ہونے چاہئے ۔
    لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہےکہ حدیث ہی میں تو مذکور ہےکہ ابن عباس نے کریب سے پوچھا کہ کیا آپ نے دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے دیکھا ہے اور لوگوں نے بھی ،تو اس میں صرف ایک آدمی کی شہادت نہیں بلکہ ایک سے زائد  کی شہادت کا ذکر ہے البتہ اسکا یہ جواب  دیا جاسکتا  ہےکہ ابن عباس  شہادت پر شہادت قبول نہیں کرتے ہیں ۔ فاللہ اعلم۔
دلیل ثانی:حدیث"لا تصوموا حتی تروا الھلال" کا جواب:
 حدیث میں (لکل مطلع رؤیتھم) یعنی ہر مطلع والوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہے، اس کی کوئي دلیل موجود نہیں ہے،  یہ بلادلیل تخصیص  ہے بلکہ اس میں زیادہ سے زیادہ یہ بات ہےکہ رؤیت ہلال کے ثبوت نہ ہونے تک صوم رکھنے سے منع کیا گیا  ہے۔ لہذا جب دوسرے مطلع والوں کے یہاں رؤیت ثابت ہوچکی ہے تویہاں بھی ثابت ہوگي ۔
دلیل ثالث: اجماع کا جواب یہ ھیکہ  اس سلسلہ میں  مخالفت کرنے والے  موجود ہیں لہذا اجماع نہ رہا، خواہ مخالفت کرنے والے  ابن عبد البر کے زمانہ سے پہلے   کے ہوں  یا بعد کے ، اور یہ  مخالفت معتبر ہے (نیل الاوطار: 4/231)
دلیل رابع: قیاس کا جواب یہ  ہےکہ یہ قیاس مع الفارق ہے، درج ذیل  اسباب کی وجہ سے :






ا۔ آفتاب کے مطالع، چاند کے مطالع  سے مختلف ہوتے ہیں ، چنانچہ سورج کرہ ارض پر روزانہ  چکر کاٹتا ہے برخلاف چاند کے کہ وہ پورے مہینہ  میں کرہ ارض پر چکر لگاتا ہے۔ تو مطالع  شمس کے اختلاف کا اعتبار کیا گیا ہے تاکہ روزانہ  مشقت وپریشانی  لاحق نہ ہو، لیکن چاند کے مطالع کے اختلاف کا اعتبار نہیں کیا گیا ہےکہ وہ تو مہینہ  میں ایک بار ہی رونما ہوتا ہے۔
_____________________________________________________________________________________________
ب۔سیارے جن سے فلکی وجود کے اثرات مرتب ہوتے ہیں،ان کے کائناتی وجود کی حقیقت ایسی ہے جو ان سیاروں میں ایک یعنی  سورج کیلئے(ہرمنطقہ پر) نسبتی وجود کی شکل (یعنی اثبات وقت ادائيگي عبادت)  متعین کرتی ہے، بخلاف چاندکے کہ سورج کی بہ نسبت اس کی وجودی شکل یا ثبوت مطلق ہے۔(یعنی کسی منطقہ میں ثابت ہونے سے دنیا کے تمام مناطق میں مطلقا ثابت ہوجائیگا)۔(ترجمہ :ازشیخ محمدعطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ(1)
(1)اس کی توضیح یہ ہے کہ سورج اپنی  فلکیاتی  ہیئت وپوزیشن میں  روزانہ براہ راست زمین کا  مواجہ کرتا ہے لیکن زمین کے کروی اور اپنے مدار میں  گردش کرنے کی وجہ سے یہ سامنا بتدریج واقع ہوتا ہے لہذا خط طول یا خط عرض کے اعتبار سے  کرہ ارضی پر  قطروں کے مواقع  کے اختلاف کی وجہ سے  سورج کا طلوع ،زوال اور غروب مختلف ہوتا ہے جس کی بناپر بالاجماع ان ممالک کے اندر اوقات عبادت  کے اختلاف میں  اس کا اثر رونماہوتا ہے۔ رہی بات چاند کی  تو علم فلکیات کی  رو سے یہ بات طے شدہ ہے کہ  اس کی ولادت محاق سے نکلنے کے ساتھ ہی  شروع ہوجاتی ہے یعنی  سورج  و زمین کے بیچ سے  نکلنے کے ساتھ ہی  اس کی ولادت کی ابتداء ہوجاتی ہے، اور ان دونوں میں سے ہر ایک کو ایک ایسا افقی خط پروتا ہے جو تینوں کے دائروں کے  مراکز کے درمیان  نقطۂ توصل ہے ، اور یہ  مطلق کائناتی  ہیئت ہےجو اختلاف بلدان سے  مختلف نہیں ہوتی ہے  اور  ایک کائناتی  مظہر وکیفیت ہے جو  قرب وبعد کے اعتبار سے  اجزاء زمین  کے اختلاف سے  متاثر نہیں ہوتی ہے اس لئے  نسبتی کیفیت وہيئت  کے مفروضہ کا کوئي مطلب نہیں ہوتا۔(دیکھئے الفقہ الاسلامی المقارن ص :579، 580،ثبوت الاھلۃ فی الشریعۃ الاسلامیہ ص:226)

 







دلیل خامس: عمل صحابہ  کا جواب یہ ہےکہ اس زمانہ میں وسائل نقل وحرکت متوفر نہ تھے اور مواصلات کی صعوبت ودشواری  تھی اور یہاں گفتگو تو ممکنہ صورت کے تعلق سے ہے۔ (توحید بدایۃ الشہور القمر یہ للشیخ محمد علی السایس ،مجلہ الفقہ الاسلامی ، العدد الثانی:2/944)۔
رؤیت۔
     اور اگر اس عقلی دلیل کو تسلیم کر لیا جائے تو ایک حدیث یعنی حدیث ابن عباس اس مفروضہ عقلی دلیل کی تخصیص کرتی ہے (لہذا اس مخصص کےمطابق عمل کیا جائیگا )۔
اختلاف مطالع کے عد م اعتبار پر دلالت کرنے والے
 دلائل کا جائزہ:
مزیدبرآں کریب کی مجمل حدیث کی تفسیر وتوضیح خود انہی کی حدیث سے جسے بیھقی نے روایت کیا ہے، ہوتی ہے، چنانچہ کریب نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ"امرنارسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان نصوم لرؤیتہ ونفطرلرؤیته فان غم علینا ان نکمل ثلاثین" (سنن کبری: 4/247ح:7973)  یعنی  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے ، پس اگر بدلی (یاگردوغبار کیوجہ ہے ) نہ دیکھ پائیں تو تیس روزے پورے کریں گے ۔
2۔ اتحاد رؤیت کے قائلین کی اصل دلیل عام شرعی  دلیل اور عقلی وکونی دلائل ہیں ۔ لیکن عام شرعی  دلیل کو حدیث کریب اور بشرط صحت اجماع نے مقید کردیا ہے ۔ اور عقلی دلیل کی کوئي شرعی  مستند نہیں ہے، یہ تو محض عقلی استدلال ہے، اور جو شخص عقل کو حکم تسلیم کرے تو اس کی لغزشیں زیادہ ہوں گی اور اسکا قول ناقص ٹھہرے گا ۔ لہذا کونی دلیل کے علاوہ کوئي دوسری دلیل نہ بچی، تو اس سلسلہ میں کوني دلیل کے  ماہرین کی طرف رجوع کیا جائیگا  اور شرعی دلیل نے  بھی اس کی وضاحت کردی ہے۔
راجح قول: میں کہتا ہوں : یہ ان اجتہاد ی  مسائل میں سے ہے جن میں اختلاف روا اور جائز  ہے،  جبکہ ہر ایک کے پاس اپنی دلیل ہے، لہذا اس شخص پر کوئي  عتاب نہیں جو کسی ایک قول کو دوسرے  پر ترجیح دے، اور مخالف راے رکھنے والے کو  قابل ملامت نہیں گردانا جائیگا  بلکہ یہ مسئلہ  ان فرعی امور میں سےہے جن میں مسلمان کیلئے زیادہ غور وخوض مناسب نہیں ہے، کیونکہ اس سے دلوں میں نفرت  جنم لیتی ہے، کیوں نہیں ؟ جبکہ مسلمان تو ان اصولی مسائل میں اس قدر مشغول نہیں ہوئے جن پر دین اسلام کا دار ومدار ہے،اور جن میں اختلاف کرنے والا قابل ملامت قرار پاتاہے  بلکہ دائرہ اسلام سے کبھی خارج بھی ہوجاتا ہے۔
     بہر حال اگر ترجیح دیئےبغیر چارۂ کار نہیں تو دل کا میلان اختلاف مطالع کے معتبر نہ ہونے کی طرف ہے۔ لیکن درج ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے۔•••
(1)سورج وقمراوردیگر کواکب جب شمال سے جنوب کی طرف ممتدہو کر خط طول پر واقع کسی بلد میں طلوع ہوں تو اس خط پر واقع تقریبا  تمام بلاد پر طلوع ہوں گے۔
(2)اور اس خط کے مغرب میں واقع تمام بلاد والوں کے نزدیک ہلال ثابت ہوگا چاہے مطالع میں اختلاف کتنا ہی کیوں نہ ہو۔ اور ممالک جہت مغرب سے جس قدر دور ہوں گے ھلال اتنا ہی زیادہ ظاہر ہوگا۔
(3) اور جب خط طول پر رؤیت ہلال کی ابتداء ہوگي  تو اس سے مشرق میں واقع تمام بلاد  میں ھلال ظاہر نہ ہوگا اور نہ ہی دوسری رات سے قبل دیکھا جائیگا  ۔اس کی دلیل حدیث کریب میں بھی ملتی ہے اس طرح کے انہوں نے جمعہ کی رات کوھلال دیکھا تھا جبکہ مدینہ  والوں نے سنیچر  کی رات کو دیکھا تھا ۔ اور دمشق گرینچ سے (45) ڈگری خط طول شرقی پر  واقع ہے اور مدنیہ منورہ (50) ڈگری خط طول شرقی پر واقع ہے۔
(4) پوری دنیا میں ھلال کے سلسلہ میں ایک رات سے زیادہ اختلاف نہیں ہے ،کیونکہ ھلال جب کسی شہر وبلد میں ظاہر ہو اور اس سے قبل والے شہروں  میں ظاہرنہ ہوا ہو تو چوبیس گھنٹے  کے بعد  مکمل ہونے پر پوری دنیا میں نظر آجائیگا ۔•••
    بنابریں ہم کہتے ہیں: کہ جب کسی شہر مثلا مکہ  والے چاند دیکھ لیں تو مکہ سے مغرب میں  واقع تمام بلاد اس کے تابع ہوں گے، اس لئے کہ مکہ میں رؤیت ھلال سے اس سے مغرب میں واقع  بلاد میں رؤیت کا ہونا لازم ہے،لیکن یہ اہل مشرق کے لیے لازم نہ ہوگا۔البتہ 24 گھنٹے گزرنے کے بعد رؤیت لازم ہوجائيگي  ، کیونکہ  مشرقی جہت کے سطح زمین پر واقع آخری شہر اورمغربی جہت کے سطح زمین پر واقع آخری بلد کے درمیان پوری ایک رات (24گھنٹے) کا فرق ہے، اور وہ ہے اس مکان سے سورج کا طلوع ہونا جس  پرکل طلوع ہوا تھا  بنابریں پوری سطح ارضی پر سورج کا گزرنا ضروری ہے سوائے ان مناطق کے کہ جن سے ایک زمانہ تک سورج محجوب رہتا ہے۔ جیسے قطبیہ کا علاقہ اور اختلاف مطالع کے غیر معتبر ہونے کی طرف جو میرا میلان ورجحان ہے وہ محض نظری اعتبار سے ہے!البتہ عملی اعتبار سے اس کی تنفیذ نہایت دشوار ہے۔ خصوصا موجودہ زمانہ میں کیونکہ مسلمان تو اصولیات کے سلسلہ میں فرقوں میں بٹے ہوئے  ہیں تو فرعیات کی بات ہی کیاہے ؟!
(احکام الاھلۃ والآثارالمترتبۃعلیھا"للشیخ احمدبن عبد اللہ بن محمد الفریح ص15۔165،ط:دارابن الجوزی)۔ •••



















Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        ت...

کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟

  پیام حدیث:   کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟ … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          عن أبی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال:"اذا سمعتم الإقامة فامشوا إلی الصلاۃ وعلیکم بالسکینة والوقار،ولا تسرعوا،فماأدرکتم فصلوا، وما فاتکم فأتموا"۔     ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے(معمولی چال سے)چل پڑو،سکون   اور وقار کو (بہرحال) لاز م پکڑے رکھو، اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے...