Skip to main content

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق


تحقیقی مقالہ:
 

جمعہ کے دن  سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق
شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان  / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                     ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی"                                                                    

 تلاش وجستجو کے بعد  اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
                 " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"
 یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔
آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام  پیش خدمت ہے:
پہلی حدیث: ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ  کی حدیث:
  اس حدیث  کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقوف ہونے کے تعلق سے اختلاف  واقع ہوا ہے  جس کی تفصیل  حسب ذیل ہے:
اس حدیث  کو ابو ھاشم سے ان کے صرف چھ تلامذہ  روایت کرتے ہیں  جو درج ذیل ہیں:
(1) روایت سفیان ثوری(6): اسے عبد الرزاق(7) نے  - اور ان کے طریق سے طبرانی (8)نے-  اور ابن ابی شیبہ(9) ونعیم بن حماد (10)نے وکیع بن الجراح سے، اور نعیم بن حماد (11) ، نسائی(12) اور حاکم (13)نے عبد الرحمن بن مھدی کے طریق سے، نسائی(14) نے  عبد اللہ بن المبارک کے طریق سے اور بیھقی(15) نے قبیصہ بن عقبہ کے طریق سے روایت  کیا ہے۔ اور یہ پانچوں  راوی: عبد الرزاق، وکیع، ابن مھدی، ابن المبارک ، قبیصہ نے  اس حدیث کو سفیان عن ابی ھاشم  کی سند سے ابو سعید  رضی اللہ عنہ  سے موقوفا  بایں لفظ روایت کیا ہے:
"من توضا، ثم فرغ من وضوئہ فقال: سبحانک  اللھم وبحمدک ، اشھد ان لا الہ الا انت، استغفرک ، واتوب الیک، ختم علیھا بخاتم، ثم وضعت تحت العرش، فلم تکسر الی یوم القیامۃ ، ومن قرا سورۃ الکھف کما انزلت، ثم ادرک الدجال لم یسلط علیہ، ولم یکن لہ علیہ سبیل، ورفع لہ نور من حیث یقراھا الی مکۃ"۔
(  جس نے وضو کیا ، پھر وضو سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھی:" اے اللہ! تو اپنی تعریف کے  ساتھ پاک ہے اور میں گواہی  دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئي معبود بر حق نہیں، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف توبہ (رجوع) کرتا ہوں "، اس پر ایک مہر لگا  دی جاتی ہے پھر وہ عرش کے نیچے  رکھ دی جاتی ہے جسے قیامت تک توڑا نہیں  جائیگا ۔ اور جس نے سورۂ کہف اسی طرح پڑھی  جس طرح اتاری گئی ہے  ، پھر  اس نے دجال کو   پالیا  تو  وہ  اس پر مسلط  نہیں ہوگا  اوردجال  اس تک کسی بھی طریقہ سے پہنچ نہیں پائيگا، اور اس کے لیے ایک نور پڑھنے  کی جگہ سے مکہ تک بلند کیا جائيگا)۔
 یہ عبد الرزاق کے الفاظ ہیں، اور وکیع وابن المبارک  نے وضو والے جملہ پر اور  ابن مھدی  اور قبیصہ  نے قراءت سورت کے ذکر پر اکتفا کیا ہے ،نیز قبیصہ  کے ذکر کردہ الفاظ میں کچھ اختلاف  بھی واقع ہے۔
 امام حاکم نے کہا: " اس حدیث کی سند صحیح ہے اس کے باوجود امام بخاری  وامام مسلم نے اسے روایت نہیں کیا ہے"۔
 سفیان ثوری  کے ایک شاگرد  یوسف بن اسباط نے ان مذکورہ پانچوں  شاگردوں کی مخالفت کرتے ہوئے  اس حدیث کو ان سے صرف وضو کے الفاظ کے ساتھ مرفوعا روایت کیا ہے۔
اس روایت کو معمری(16) ، ابن السنی(17)-   ان کے طریق سے  حافظ ابن حجر (18)نے-  اور بیھقی (19) نے مسیب  بن واضح  سے اور اس نےیوسف بن اسباط سےروایت کیا ہے۔ لیکن یوسف بن اسباط کی روایت شاذ ہے کیونکہ مسیب بن واضح گرچہ صدوق ہے لیکن کثرت سے خطا کرتا ہے ۔ امام ابو حاتم  کہتے ہیں : " یہ صدوق  ہے لیکن بکثرت خطائیں کرتا تھا ، اور جب تنبیہ کی جاتی تو  اسے قبول نہ کرتا "۔(20)
 اور  یہی حال اس کے شیخ یوسف بن اسباط  شیبانی  زاہد کا ہے، وہ بھی متکلم  فیہ راوی ہے ، حدیث میں وہم کا شکار  ہوتا ہے،  کیونکہ  وہ کتابوں کو دفن  کردینے کے بعد اپنے حافظہ سے حدیث بیان کیا کرتا تھا ۔
 ابن ابی حاتم کہتے ہیں :" میں نے اپنے والد ابو حاتم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ یوسف عبادت گزار آدمی تھا ، اس نے اپنی کتابوں  کو زیر زمین  دفن کردیا تھا ، اور بکثرت غلطی  کیا کرتا تھا ، وہ صالح  ونیکوکارشخص تھا  لیکن اس کی حدیث لائق  حجت نہیں ہے"۔(21)
 ابن عدی کہتے ہیں :" یوسف میرے نزدیک صدوق راوی ہے، لیکن جب  اس نے اپنی کتابوں کو کھودیا  یعنی دفن کردیا تو اپنے حافظہ سے حدیث بیان کرنا شروع  کردیا جس  کی وجہ سے غلطیاں  کرنے لگا اور حدیثیں  گڈ  مڈ ومشتبہ  ہونے لگیں  البتہ جان بوجھ  کر جھوٹ نہیں بولتا"۔(22)
      یہ جرح مفسر ہے جو   ابن معین  کا یوسف کو ثقہ قرار دینے پر مقدم ہے(23)  اور یہ بھی ممکن  ہے کہ امام ابن معین  کی توثیق عدالت  دینیہ  پر محمول ہو۔
ہاں امام دار قطنی(24)  کے  بیان   کے مطابق  اس حدیث کو  سفیان ثوری  سے مرفوع  روایت  کرنے میں ابو اسحاق  فزاری اور عبد الملک  ذماری نے یوسف بن اسباط  کی متابعت کی ہے۔
 ابو اسحاق  فزاری ابراھیم بن محمد بن بنی حارث کوفی  ثقہ مامون  اور حافظ ہیں(25)  اور عبد الملک  ذماری  بن عبد الرحمن  بن ھشام ابو ہشام ابناوی  صدوق ہیں لیکن تصحیف  کیا کرتے تھے ۔(26)
      بنا بریں  یہ دونوں راوی ثقہ تو ہیں لیکن ان دونوں تک کی سند معلوم نہیں ہے تاکہ یہ دیکھا  جاسکے کہ اس میں ان دونوں کے نیچے طبقہ میں کوئی علت  اور سبب ضعف ہے یا نہیں ؟۔
     بہر صورت  جن راویوں نے اس حدیث کوثوری  سے موقوف روایت کیا ہے وہ زیادہ ثقہ ہیں اور انہیں مرفوع  روایت کرنے والے  پر مقدم  کرنا  اولی اور زیادہ بہتر ہے ۔ اور کیوں ایسا نہ ہو؟جبکہ موقوف  روایت  کرنے والوں میں ابن مھدی،  وکیع  اور ابن المبارک  جیسے  اساطین  روایت  موجود  ہیں۔ رحمھم اللہ  تعالی۔
     اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ثوری سے اس حدیث کا موقوفا مروی  ہونا ہی محفوظ ہے ، یہ اور بات ہے کہ ان کی روایت  میں سورۂ کہف کا جمعہ  کے دن پڑھنے کی تخصیص کا  ذکر نہیں ہے۔
2- روایت ھشیم بن بشیر(27): اسے ابو عبید القاسم بن سلام نے (28)-  اور ان کے طریق سے  ذھبی  نے تاریخ  اسلام میں (29)-  اور دارمی نے (30)ابو النعمان محمد بن الفضل سدوسی سے ، ابن الضریس (31) نے -  اور ان کے طریق سے خطیب بغدادی (32) نے  احمد بن خلف  بغدادی سے- ** ، عبد اللہ بن احمد (33) نے اپنے والد امام احمد سے ، اور بیھقی  نے سنن کبری  میں – معلقا-  اور شعب الایمان  (34) میں بطریق  سعید بن منصور  روایت کیا ہے۔ اور ان پانچوں  راویوں  (ابو عبید، ابو النعمان ، احمد، ابن خلف  وسعید) نے ھشیم  سے اور اس نے ابو ھاشم  سے موقوفا بایں لفظ روایت  کیا ہے:         "من قرا  سورۃ الکھف یوم الجمعۃ  اضاء لہ من النور  ما بینہ  وبین البیت العتیق
   یہ الفاظ ابوعبید کے ذکر کردہ ہیں اور باقی راویوں کے الفاظ بھی  قریب قریب یہی ہیں سوائے محمد بن الفضل کی روایت  کے کہ اس میں " لیلۃ الجمعۃ"  (35) کا ذکر ہے ، اور امام احمد  کے الفاظ میں صرف وضو کا ذکر ہے۔
         " اذا تؤضا الرجل  فقال : سبحانک  اللھم وبحمدک
امام احمد کہتے ہیں : " ابو ھاشم سے ھشیم  نے اس حدیث کو نہیں سنا ہے"  ۔ لیکن مجھے ابو عبید ، دارمی اور بیھقی  کے یہاں ایسے الفاظ ملے ہیں جن  سےھشیم  کی  تحدیث کی صراحت  معلوم ہوتی ہے اور یہ الفاظ عموما سماع کا احتمال  رکھتے ہیں ، اور ھشیم  تک ان کی سند بھی صحیح ہے ۔ البتہ ھشیم  سے ان کے دیگر  چند شاگردوں نے ان مذکورہ  پانچوں شاگردان کی مخالفت  کرتے ہوئے اس حدیث کو مرفوعا  روایت کیا ہے، جسے حاکم(36) نے اور ان سے بیھقی(37) نے بطریق  نعیم بن حماد، اور بیھقی نے سنن کبری  میں معلقا  اور شعب الایمان  وفضائل  الاوقات   (38) میں موصولا  یزید بن مخلد بن یزید کے طریق سے روایت کیا ہے اور نعیم  ویزید  کی متابعت  حکم بن  موسی  نے کی ہے جیسا کہ امام دار قطنی  نے ذکر کیا ہے۔ (39)
 اور یہ تینوں (نعیم ، یزید وحکم) اسے ھشیم  سے مرفوعا روایت  کرتے  ہیں البتہ نعیم  نے اپنی روایت میں "اضا ء لہ من النور  ما بین الجمعتین" کے الفاظ ذکر کئےہیں۔
امام حاکم کہتے ہیں :" اس حدیث  کی سند صحیح  ہے اور اما م  بخاری  وامام مسلم  نے صحت سند  کے باوجود  اسے روایت نہیں کیا ہے"۔
لیکن ھشیم  سے اس کا موقوف  مروی ہونا ہی محفوظ ہے کیونکہ موقوف  روایت کرنے والے  راوی ، مرفوع روایت کرنے والے کی بہ نسبت زیادہ ثقہ ہیں، چنانچہ  نعیم بن حماد صدوق  مگر  کثرت سے خطا کرنے والا ہے(40)۔ اور یزید بن مخلد کو ابن ابی حاتم نے ذکر تو کیا ہے مگر جرح وتعدیل  سے متعلق  خاموشی  اختیار کی ہے(41)، اور حکم بن موسی ابو صالح  قنطری بغدادی صدوق ہے(42)۔
  امام دار قطنی  حکم بن موسی کی روایت  کے بارے میں کہتے ہیں : "حکم کے علاوہ دیگر راویوں نے اسے ھشیم  سے موقوفا روایت  کیا ہے اور یہی صورت درست ہے "(43)۔
بیھقی کہتے ہیں :" یہ حدیث موقوفا ہی محفوظ ہے"(44)۔
 حافظ ذھبی   امام حاکم  کی تصحیح مذکور  کا یوں تعاقب فرماتے ہیں :" نعیم منکر حدیثیں روایت کرنے والا ہے"۔
3- روایت  شعبہ بن الحجاج(45): اسے نسائی(46) ، طبرانی(47)-  اور ان کے طریق سے ابن حجر نے " نتائج   الافکار میں(48)- ، حاکم(49) اور ان سے بیھقی(50) نے متعدد طرق  کے ساتھ یحیی  بن کثیر سے نیز بیھقی نے عبد الصمد  بن عبد الوارث (51) کے طریق سے اور دار قطنی   نے ربیع بن یحیی (52) سے معلقا  اور ان تینوں (یحیی، عبد الصمد، ربیع) نے شعبہ سے سفیان ثوری کی روایت کی طرح مرفوع روایت کیا ہے ۔
حاکم کہتے ہیں : "یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن امام بخاری  وامام مسلم  نے اسے روایت نہیں کیا ہے۔ اور ابو ھاشم سے سفیان  ثوری نے اسے موقوفا روایت کیا ہے۔"
لیکن مذکورہ تینوں  راویوں  کی مخالفت کرتے ہوئے شعبہ کے  دیگر تلامذہ نے اسے ان سے  موقوف  طور پر ہی روایت کیا ہے۔
    چنانچہ نسائی نے بطریق  غندر محمدبن جعفر(53) ، طبرانی نے"الدعاء" میں بطریق  عمروبن مرزوق (54)اور بیھقی  نے معلق طور پر بطریق  معاذ بن معاذ (55)روایت کیا ہے، اور ان تینوں (غندر، عمرو ، معاذ) نے شعبہ سے موقوفا روایت کیا ہے، اور یہی طریق محفوظ ہے کیونکہ موقوف روایت کرنے والے مرفوع روایت کرنے والوں کی بہ نسبت زیادہ ثقہ ہیں ۔ چنانچہ  غندر محمد بن جعفر جمہور  ناقدین حدیث کے قول کے مطابق شعبہ کے شاگردوں میں سب سے زیادہ ثقہ ہیں اور معاذ بن معاذ بھی شعبہ کے ثقہ شاگردوں میں سے ہیں (56)۔ اور جن روایوں نے شعبہ  سے اس حدیث کو مرفوع  روایت کیا ہے وہ ان کے کبار تلامذہ میں سے نہیں ہیں ، لہذا از روئے فن حدیث مرفوع روایت کرنے والوں کی روایت کو موقوف روایت کرنے والوں کی روایت  پر مقدم نہیں کیا جائیگا۔
    یحیی بن کثیر بن درہم العنبری  مولا ھم ابو غسان البصری  ثقہ ہیں (57) اور عبد الصمد بن عبد الوارث التمیمی العنبری مولاھم ابو سہل البصری  صدوق ہیں نیز شعبہ سے روایت کرنے والوں میں ثبت ( سب سے زیادہ لائق اعتماد ) (58) ہیں ،لیکن ان تک سند ہی صحیح نہیں ہے اور ربیع بن یحیی بن مقسم الاشنانی ابو الفضل البصری صدوق تو ہیں لیکن ان کے کچھ اوہام بھی ہیں (59)، امام ابو الحسن  دار قطنی فرماتے ہیں :"کہا گیا ہے کہ یہ حدیث شعبہ سے بطریق ربیع بن یحیی مرفوعا  روایت کی گئی ہے لیکن یہ صحیح وثابت نہیں ہے" ۔ (60)
      بنابریں ائمہ ناقدین  حدیث نے شعبہ  کے طریق سے اس حدیث پر موقوف ہونے کا حکم لگا یا ہے ،چنانچہ امام نسائی  فرماتے ہیں : "یہ حدیث (مرفوعا)خطا ہے اور اس کا موقوف ہونا صحیح  ہے"(61)، طبرانی  نے فرمایا : "شعبہ سے یحیی بن کثیر نے مرفوع روایت کیا ہے جبکہ ديگر راویوں نے موقوف روایت کیا ہے"(62)، دار قطنی  کہتے ہیں : " شعبہ  سے  اسے غندر اور دیگر شاگردوں نے موقوفا بیان  کیا ہے"۔(63)
4- روایت روح بن القاسم(64): اسے ابو اسحاق المزکی(65) نے اپنی کتاب "الفوائد(66) میں اور ان کے طریق سے حافط ابن حجر نے(67) ، بطریق  عیسی بن شعیب عن روح عن ابی ھاشم بہ مرفوعا روایت کیا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
            "من قال حین یفرغ من وضوئہ:سبحانک اللھم وبحمدک ، اشھد ان لا الہ الا اللہ ، استغفرک واتوب الیک ، کتب فی رق وطبع بطابع ووضع تحت العرش حتی تدفع الیہ یوم القیامۃ
امام دارقطنی  نے "جزء فوائد المزکی" کی تخریج میں  فرمایا : "روح بن القاسم سے یہ حدیث غریب ہے جسے روایت کرنے میں عیسی بن شعیب متفرد ہے"۔(68)
   حافظ ابن حجر" نتائج الافکار"(69) میں کہتے ہیں:    " عیسی صدوق ہے جیسا کہ امام بخاری نے فلاس  کے حوالہ سے نقل کیا ہے"۔
 اور عیسی  بن شعیب النحوی ابو الفضل البصری  الضریر کے بارے میں الفلاس  کہتے ہیں :"  بصرہ کارہنے والا صدوق  راوی ہے"۔
ابو حاتم  ابن حبان   کہتےہیں:" خطا کرنے والوں میں سے تھا یہانتک کہ  اس کی خطائیں  بہت زیادہ  ہوگئیں ،پس جب  اس کے اوہام حدیثوں پر غالب آگئے  تو قابل ترک بن گیا "(70)۔
   اور ابن الجوزی نے اسے "الضعفاء" میں اور ذھبی نے " المغنی" (71) میں ذکر کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے اس کے متعلق" صدوق لہ اوھام" (72) کہاہے۔
          اس سند میں عیسی بن شعیب  کے نیچے طبقہ میں ایک اور علت  ہے اور وہ ہے ابو اسحاق المزکی کے شیخ ابن الازھراحمد بن محمدبن  الازھر  الازھری  السجزی کا وجود ، جس کے بارے میں ابن حبان نے کہا ہے: "یہ حفظ حدیث کا اہتمام  کرنے والوں میں سے تھا اور محدثیں کے دوش بدوش چلتا تھا  اور ابواب  حدیث میں جس باب کا  بھی اس کے لیے ذکر کیا جاتا وہ اس باب میں ثقہ راویوں کے حوالہ سے غریب حدیثیں بیان کرتا اور ثقہ وثبت راویوں سے ایسی حدیثیں روایت کرتا کہ ان  پراس کی متابعت نہیں کی جاتی "(73)۔
 ابن عدی نے کہا:"  اس نے منکر حدیثیں بیان  کررکھی ہے " (74) ، ابو الحسن الدارقطنی  کہتے ہیں :" یہ منکر الحدیث سے لیکن مجھے ابن خزیمہ کے سلسلہ میں یہ بات پہنچی ہے  کہ وہ اس کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے ۔   اور یہ بات اس کے فخر کیلئے کافی ہے "۔(75)
          تفصیل بالا سے  یہ واضح  وظاہر  ہے کہ ابو ھاشم  سے روح کی روایت صحیح نہیں ہے ۔
5- روایت ولید بن مروان:اسے ابو بکر شافعی(77-76) اور طبرانی (78) نے عمروبن عاصم الکلابی عن الولیدعن ابی ھاشم  کے طریق سے  مرفوعا بایں لفظ روایت کیا ہے:" من قال  اذا توضا: بسم اللہ  واذا فرغ قال : سبحانک اللھم وبحمدک ، اشھد ان لا الہ الا انت ، استغفرک،واتوب الیک، طبع علیھا بطابع ثم وضعت تحت العرش فلم تکسر الی یوم القیامۃ
 یہ سند ضعیف ہے کیونکہ ولید بن مروان  مجہول ہے ۔ ابو حاتم نے اسے  مجہول  قرار دیا ہے(79) اور ابن الجوزی نے اسے "الضعفاء" اور ذھبی نے" المغنی"  اور"الدیوان" میں ذکر کیا ہے، ذھبی نے کہا:" یہ مجہول راوی ہے"۔(80)
6- روایت قیس بن الربیع: اسے طبرانی(81)نے بطریق یحیی بن  عبد الحمید - اور ابو نعیم نے "عمل الیوم واللیلۃ "(82) میں معلقا- قیس عن ابی ھاشم کی سند  سے مرفوعا بایں لفظ روایت کیا ہے:
"من قال  اذا توضا: بسم اللہ  واذا فرغ قال : سبحانک اللھم وبحمدک ، اشھد ان لا الہ الا انت ، استغفرک،واتوب الیک، طبع  علیھا  بطابع  ثم وضعت تحت العرش فلم تکسر الی یوم القیامۃ
       یہ طریق بھی ضعیف ہے کیونکہ یحیی  بن عبد الحمید  باوجود یکہ حافظ حدیث تھا مگر اس پر سرقۂ حدیث (حدیث چرانے) کا الزام تھا(82) ، اور قیس بن الربیع کے بارے میں حافظ ابن حجر  کا کہنا ہے: " صدوق ہے لیکن سن رسیدہ  ہونے کیوجہ سے تغیر حفظ کا شکار  ہوگیا تھا ،چناچہ  اس کے بیٹے  نے دوسروں کی حدیثوں  کو اس کی حدیثوں میں داخل  کردیا تھا اور اس نے  انہیں (اپنی سمجھ کر )روایت  بھی کردیا"۔ (83)
         خلاصہ کلام یہ کہ اس حدیث کا ابو سعید  خدری  پر موقوف ہونا ہی راحج ہے ، اور اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ہے ، امام نسائی  نے موقوف  ہی کو ترجیح دی ہے۔ جیسا کہ ماسبق  میں منقول ہوا ۔ اور بیھقی  نے کہا: "مشہور یہ ہیکہ  یہ حدیث موقوف ہے" (84) ۔ امام ابو نعیم  نے مرفوع  حدیث کو ذکر  کرنے کے بعد فرمایا : "سعید بن منصور نے اسے ابو سعید خدری  سے موقوفا روایت کیا ہے اور یہی اشبہ (زیادہ صحیح) ہے (85)۔ امام ذھبی  کہتے ہیں :" اس حدیث کا موقوف  ہونا ہی زیادہ صحیح ہے"۔ (86) ،حافظ ابن حجر نے کہا:" اس حدیث کے مرفوع وموقوف ہونے کے بارے میں اختلاف  ہے، نسائی نے موقوف  کو صحیح قرار دیا ہے اور حازمی نے مرفوع روایت کی تضعیف  کی ہے.... اور دارقطنی نے بھی "العلل" میں موقوف  ہی کو ترجیح  دی ہے"۔
حافط ابن حجر ، امام نووی  کا اس بات پر کہ حدیث موقوف ومرفوع  دونوں حالت میں ضعیف ہے ، رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " رہی بات مرفوع حدیث کی تو اسے اختلاف  وشذوذ کی بنا پر ضعیف قرار دینا ممکن ہے  موقوف  روایت  بلاشبہ صحیح ہے"(87)۔
 حافظ نے یحیی  بن کثیر عن شعبہ  کے طریق کے متعلق  فرمایا: "بلا شبہ سندصحیح ہے  اور حقیقت میں  اختلاف  تو متن حدیث کے مرفوع اور موقوف ہونے کے بارے میں ہے، چنانچہ امام نسائی   نے اپنی ردش پر چلتے ہوئے  راویوں  کی کثرت  تعداد اور زیادتی حفظ کے لحاظ سے ترجیح  دیتے ہوئے مرفوع  روایت کے غلط وخطا ہونے کا حکم لگا ہے ۔لیکن ابن الصلاح  وغیرہ کی پیروی  میں نووی کے طریقہ کے مطابق حدیث کا مرفوع ہونا مقدم ہے کیونکہ  مرفوع روایت کرنے والے راوی   کے پاس زیادتی  علم ہے ۔ اور دوسرے طریقہ (موقوف  کو ترجیح دینے کی صورت) پر عمل کی صورت  میں چونکہ اس موقوف روایت میں رائے واجتہاد  کا کوئی دخل نہیں ہے اس لیے وہ مرفوع کے حکم  میں ہوگا واللہ اعلم"۔(88)
دمیا طی کہتے ہیں :"گرچہ (اسنادی حیثیت سے ) موقوف  ہے مگر مرفوع  کے حکم میں ہے۔ کیونکہ اس  طرح کی بات رائے واجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی ہے "۔(89) واللہ اعلم۔
میں کہتا ہوں: ان ائمہ  کے کلام کا تعلق "الدعاء  بعد الوضوء" (وضو  کے بعد کہی جانے والی دعا) والے جملہ پر حکم لگانے  سے ہے اور بلاشبہ  یہ جملہ اور باقی الفاظ حدیث ایک ہی سند سے مروی ہیں۔ البتہ سورۂ کہف پڑھنے کی فضیلت  کی تخصیص جمعہ کے دن یا رات کے ساتھ کرنے والی بات کو ابو ھاشم سے روایت کرنے میں ھشیم   اپنے دیگر ساتھیوں  کے مقابلہ میں تنہا ہے۔ اس کی وضاحت  کے لیے اجمالی طور پر ہر راوی  کے الفاظ ذکر کئے جارہے ہیں:
1-2 روایت  ثوری  کے الفاظ: "من توضا، ثم فرغ من وضوئہ فقال: سبحانک اللھم وبحمدک ، اشھد ان لا لہ الا انت، استغفرک ، واتوب الیک، ختم علیھا بخاتم، ثم وضعت تحت العرش، فلم تکسر الی یوم القیامۃ ، ومن قرا سورۃ الکھف کما انزلت، ثم ادرک الدجال لم یسلط علیہ، ولم یکن لہ علیہ سبیل، ورفع لہ نور من حیث یقر ھا الی مکۃ"  اور شعبہ کے الفاظ  بھی   اسی جیسے ہیں ۔
3 - روایت ھشیم کے الفاظ: " من قرا سورۃ  الکھف یوم الجمعۃ اضاء لہ من النور ما بینہ وبین  البیت العتیق
4- روایت  روح بن القاسم  کے الفاظ: سبحانک اللھم وبحمدک ،اشھد ان لا الہ الا انت ، استغفرک واتوب الیک ، کتب فی رق وطبع بطابع ووضع تحت العرش حتی تدفع الیہ یوم القیامۃ
5-6 روایت  ولید بن مروان  کے الفاظ: من قال  اذا توضا: بسم اللہ  واذا فرغ قال : سبحانک اللھم وبحمدک ، اشھد ان لا الہ الا انت ، استغفرک،واتوب الیک، طبع  علیھا  بطایع  ثم وضعت تحت العرش فلم تکسر الی یوم القیامۃ
قیس بن الربیع کےالفاظ بھی  یہی ہیں ۔
خلاصہ  یہ کہ ھشیم کی روایت میں وارد"یوم الجمعۃ" کی قید کے سلسلہ میں دل مطمئن  نہیں ہے  جو ہمیں اس کے ثبوت کا قطعی  فیصلہ  کرنے سے  روک رہا ہے۔ اور اسے ثقہ کی زیادتی کہنا بھی ممکن نہیں ہے کہ جسکا قبول  کرنا واجب ہو کیونکہ یہ  نہ متقدمین  ائمہ فن  کے طریقہ  کے مطابق ہے  اور نہ ہی ان پختہ  کار ماہرین  علل حدیث کے قواعد  واصول   کے موافق ہے جو راوی کی حدیث پر طعن  کرتے ہیں اور اس کی روایت کو مخالفت کی صورت میں معلول  قرار دیتے ہیں ، اور پھر کیا ثقہ کے ضبط واتقان کی معرفت اس سے  بہتر واعلی یا اسی طرح کے روای کی موافقت  کے بغیر ممکن   بھی ہے؟ واللہ تعالی اعلم۔
دوسری قسط
دوسری حدیث: حدیث علی ابن ابی طالب: اسےابن مردویہ (90) نے - اور ان کے طریق سے ضیاء مقدسی  نے مختارہ میں (91)-  محمد بن احمد بن الحسن  بن اسحاق کے طریق سے ، اور ابو الفضل  عبید اللہ  بن عبد الرحمن الزھری نے (92)-  ان کے طریق  سے ضیاء  مقدسی نے مختارہ میں (93)-  روایت کیا ہے اور ان دونوں (محمد و ابو الفضل) نے اسے بطریق  ابراھیم بن عبد اللہ بن ایوب المخرمی ثنا  سعید بن محمد الجرمی ثنا عبد اللہ بن مصعب  بن منظور بن زید بن خالد عن علی بن الحسین عن ابیہ عن علی قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :"من قرا سورۃ الکھف یوم الجمعۃ ، فھو معصوم الی ثمانیۃ ایام، من کل فتنۃ تکون، وان خرج الدجال عصم منہ" روایت کیا ہے۔
( جس نے جمعہ کے روز سورۂ کہف پڑھی وہ آٹھ دن تک ہر ہونے والا فتنہ  معصوم ومحفوظ رہیگا، اور اگر دجال کا ظہور ہوجائے تو اس  کے فتنہ سے بھی محفوظ رہیگا )۔
    یہ سند ضعیف ہے کیوکنہ اس کا مدار عبد اللہ بن مصعب پر ہے اور وہ  مجہول ہے، عبد الحق اشبیلی کہتے ہیں : اس کی سند مجہول ہے (94)۔ حافظ عراقی نے ابن عساکر سے نقل کیا کہ عبد اللہ بن مصعب اور اس کا باپ مصعب دونوں مجہول ہیں (95)۔ اسے ابو الحسن ابن القطان (96)، ذھبی(97) اور ابن حجر(98) نے بھی مجہول قرار دیا ہے۔ ضیاء مقدسی  نے اس حدیث کی روایت کے بعد کہا ہے کہ اس کی سند میں  ایسا راوی ہے جس سے میں واقف نہیں ہوں۔ (99)
تیسری حدیث:حدیث عبد اللہ بن عمر: اسے روایت کیا  ہے ابن مردود (101)-  ان کے طریق  سے ضیاء مقدسی (102)- نے بطریق محمد بن علی بن یزید بن سنان عن اسحاق  بن ابراہیم المنجنیقی عن اسماعیل بن خالد المقدسی  عن محمد بن خالد البصری  عن خالد بن سعید بن ابی مریم عن نافع عن ابن عمر  رضی اللہ  عنہما قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من قرا سورۃ الکھف فی یوم الجمعۃ سطع لہ نور من تحت قدمہ الی عنان السماء، یضئ یوم القیامۃ وغفرلہ ما بین الجمعتین"۔
( جو شخص جمعہ کے دن  سورۂ کہف پڑھے گا اس کے قدم کے نیچے سے لیکر بلندی  آسمان تک ایک نور چمکے گا ، جو روز قیامت روشن ہوگا اور اس کے لیے دو جمعہ کے درمیان کے گناہ بخش دیئے جائیں گے)۔
حافظ ذھبی نے(103) نے اسے معلقا بطریق اسماعیل  بن ابی خالد المقدسی حدثنا محمد بن خالد البصری(104) حدثنا خالد بن سعید بن ابی مریم ذکر کیا ہے۔
    یہ سند ضعیف ہے کیونکہ  اس کا مدار خالد بن سعید بن ابی مریم  پر ہے اور یہ مجہول ہے۔ ابن حجر نے ابن المدینی سے ان کا یہ قول نقل کیا ہےکہ ہم  اس راوی کو نہیں پہنچانتے ہیں (105)۔ اور ابو الحسن ابن القطان نے بھی مجہول قرار دیا ہے۔(106) اور اگر ذھبی  کی ذکر کردہ معلق سند ابن مردویہ  والی ہی سند ہو تو اس میں ایک اور علت ہے اور وہ یہ کہ محمد بن خالد البصری الختلی کو محدثین نے کذاب(پرلے درجہ کا ردغ گو )کہا ہے۔ (107)
   ابن حجر نے ذکر کیا ہے کہ ذھبی نے" تلخیص المستدرک  "  میں کہا ہے کہ " احسب محمد بن خالد  وضعہ" میرے خیال میں محمد بن خالد نے اس حدیث کو گھڑا  ہے !۔(108)
    بہر حال یہ حدیث موضوع نہیں تو سخت ضعیف ضرور ہے! اس لیے حافظ منذری  کا یہ قول تعجب خیز ہےکہ اسے ابو بکر بن مردویہ نے "لا باس بہ" سند یعنی ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس میں کوئی خرابی نہیں ہے، (109) نووی نے اسے "مجموع"(110) میں ضعیف کہا ہے۔ اور ابن کثیر نے فرمایا : حافظ ابو بکر بن مردویہ نے اسے غریب  اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کا مرفوع ہونا محل نظر ہے اور اس کی سب سے اچھی حالت موقوف ہونا ہے۔(111)  ، مناوی کہتے ہیں : ضیاء مقدسی  نے ابن عمر سے جو مرفوع روایت" من قرا یوم الجمعۃ" روایت  کی ہے اس کی سند میں محمد بن خالد ہے جسے ابن مندہ وغیرہ نے  مطعون  ومجروح قرار دیا ہے جبکہ منذری پر "ترغیب" میں اس کا حال مخفی  رہا  تو انہوں  نے اسے "لا باس بہ" قرار دیدیا، اور یہ احتمال  بھی ہے کہ انہوں نےشواہد کےپیش نظر ایسا  کہہ دیا ہو۔ (112)
شیخ البانی نے بھی ابن کثیر کے  قول  پر اعتماد کرتے ہوئے منذری کے کلام  کا رد کیا ہے (113)۔
چوتھی حدیث: حدیث ام المؤمنین عائشہ: اسے ابن مردویہ(114) نے عائشہ سے روایت کیا  ہے انہوں نے کہا:"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : الا اخبرکم بسورۃ ملا عظمتھا ما بین السماء والارض، ولکاتبھا من الاجر مثل ذلک، ومن قراھا یوم الجمعۃ غفرلہ ما بینہ وبین الجمعۃ الاخری، وزیادۃ ثلاثۃ ایام، ومن قرا الخمس الاواخر منھا عند نومہ بعثہ اللہ من ای اللیل شاء؟ قالوا: بلی یا رسول اللہ ، قال: سورۃ  اصحاب الکھف"۔
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایک ایسی سورت کی خبر نہ دوں جس کی عظمت نے آسمان وزمین کے خلاکو پر کردیا ہے اور اس کے لکھنے والے  کو اسی کے مثل اجر ملے گا ۔ اور جو شخص اسے جمعہ کے دن پڑھے گا تو اس کے وہ گناہ معاف  کردیئے جائیں  گےجنہیں وہ اس جمعہ سے لیکر اگلے جمعہ تک انجام دے گا ،بلکہ مزید تین دنوں کے گناہ بھی بخش دیئے جائیں گے۔ اور جو شخص اس سورت کی آخری پانچ آیتوں کو سونے کے وقت  پڑھے گا  اسے اللہ تعالی  رات کے جس حصہ میں چاہیگا اٹھائیگا؟صحابہ کرام نے کہا! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائیں! فرمایا : وہ سورہ غار والوں کی سورت ہے)۔
 اس کی سند سے میں واقف نہ ہوسکا کہ اس پر حکم لگا سکوں! البتہ اس کے الفاظ میں کچھ خرابیاں ہیں۔
پانچویں  وچھٹی  حدیث: حدیث ابن عباس وابوھریرہ:
غزالی  نے "احیاء العلوم  " میں  کہا کہ ابن عباس  وابوھریرہ کی حدیث میں ہے: " من قرا سورۃ الکھف لیلۃ الجمعۃ، او یوم الجمعۃ اعطی نورا ، من حیث یقراھا الی مکۃ ، وغفرلہ الی یوم الجمعۃ الاخری، وفضل ثلاثۃ ایام ، وصلی علیہ سبعون الف ملک حتی یصبح، وعوفی من الداء ، والدبیلۃ، وذات الجنب، والبرص، والجذام، وفتنۃ الدجال"۔(115)
   (جس نے جمعہ کی شب یا دن میں سورۂ کہف  پڑھی اسے پڑھنے کی جگہ  سے مکہ تک  ایک نور عطا ہوگا ، اور دوسرے جمعہ بلکہ مزید تین دنوں تک  کے گناہ  معاف کردیئے جائیں گے اور اس کے لیے  صبح تک  سترہزار فرشتے مغفرت  کی دعائیں  کرتے رہیں گے ۔ اور اسے بیماری ، بڑی آفت ومصیبت ، نمونیا، سفید داغ ،  کوڑھ اور دجال  کے فتنہ  سے عافیت  نصیب ہوگی)۔
حافظ عراقی  کہتے ہیں :یہ حدیث مجھے نہیں ملی(116) ، زبیدی  نے حدیث ابو ھریرہ  کے بارے میں کہا:  اس کی سند میں اسماعیل بن ابی زیاد متروک راوی ہے ، اسے دارقطنی نے کذاب کہا ہے ، اور حدیث ابن عباس کو ابو الشیخ اصبہانی  نے روایت کیا ہے ۔ (117) اور پٹنی نے ابن عباس  کی حدیث کے بارے میں کہا: اس کی سند میں اسماعیل کذاب  راوی ہے ، اس کے علاوہ  اس میں دو اور مجروح وضعیف راوی ہیں۔(118)
    مجھے نہیں معلوم کہ  حدیث ابن عباس  کی سند میں یہ اسماعیل کونسا راوی ہے؟ اور شوکانی  نے صحابی  کے ذکر کے  بغیر اسی طرح   کی ایک حدیث کے بارے میں فرمایا : یہ ایک طویل موضوع  حدیث ہے۔ (119)
ساتویں حدیث: حدیث اسماعیل  بن رافع: اسے ابن الضریس  نے"فضائل القرآن"(120) میں عن  یزید بن عبد العزیز الطیالسی عن اسماعیل  بن عیاش  عن اسماعیل  بن رافع  قال: بلغنا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  قال: فذکر نحوہ۔ کہہ کر روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں : یہ معضل سند ہے۔(121)
ابو المھلب الجرمی کا اثر(122):اسےابن الضریس(123) نے عن محمد بن مقاتل  المروزی عن خالد الواسطی عن الجریری عن ابی المھلب قال: من قرا سورۃ الکھف فی یوم الجمعۃ کان لہ کفارۃ الی الجمعۃ الاخری" کی سند ومتن کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
(ابو المھلب نے کہا: جو شخص جمعہ  کے دن سورۂ کہف پڑھے گا  اس کے لیے دوسرے جمعہ تک کفارہ  ہوگا)
   اس کی سند "لا باس بہ " ہے یعنی اس میں کوئي خرابی  نہیں ہے۔
(مترجم :تحقیق مذکور کا خلاصہ یہ ہیکہ جمعہ کے دن کی قید کے ساتھ مذکورہ فضیلت ثابت نہیں ہے ۔)
.............................................حوالہ جات:
(1) دیکھئے: فیض القدیر؛6/198
(2) یہ رمانی واسطی ہے ۔ ابن معین، احمد، ابوزعہ، نسائی اور دارقطنی وغیرہ نے ثقہ کہا ہے۔ (تاریخ کبیر:8/271، جرح وتعدیل:9/140، تھذیب الکمال:34/362،سیراعلام النبلاء:6/152، تھذیب التھذیب: 12/261، تقریب :8492)
(3)لا حق بن حمید سدوسی ثقہ حافظ ہیں۔ (تاریخ کبیر: 8/258، جرح وتعدیل:9/124، ثقات:5/518، تھذیب الکمال:3/176، تھذیب التھذیب:11/ 171، تقریب :7540)
(4) قیس ضبعی ابو عبد اللہ بصری ثقہ مخضرم صالحین  میں سے ہیں۔ (تاریخ کبیر:7/145، جرح و تعدیل: 7/101 ، ثقات:5/308، تھذیب الکمال:24/ 64، تھذیب التھذیب:8/400، تقریب:5617)
(5) سعد بن مالک بن سنان خزرجی انصاری مشہور صحابی رسول ہیں ۔ (تاریخ کبیر:4/44، جرح وتعدیل :4/93، استیعاب:2/602، تھذیب الکمال:10/ 294، السیر:3/168،تھذیب التہذیب:3/479، تقریب:2266، الاصابۃ:3/78)
(6) امام حافظ حجۃ، امیر المؤمنین فی الحدیث۔ (تاریخ کبیر: 4/92، جرح وتعدیل :1/55، تھذیب الکمال: 11/ 154، تذکرۃ الحفاظ:1/203، السیر:7/229، تھذیب التھذیب :4/111، تقریب :2458)
(7)المصنف:1/186ح:730، اور 3/378 ح: 6023۔
(8) الدعاء: 1/141ح:391
(9) المصنف:1/3،نیز10/450۔
(10) الفتن:2/264ح:1579
(11)الفتن:2/264ح:1582
(12)9/348ح:10724، عمل الیوم واللیۃ رقم: 954
(13) المستدرک:1/564- 565 نیز4/511
(14) السنن الکبری:9/37ح:9831 ، عمل الیوم واللیلۃ رقم:83
(15)شعب الایمان :2/112 ح:3038
(16)یہ امام حافظ  علامہ ابو علی حسین بن علی بن شبیب معمری بغدادی  ہیں۔ دارقطنی  نے "صدوق حافظ" کہا ہے۔ خطیب  کہتے ہیں : حاملین علم  میں سے تھے ۔ فہم وحفظ کے ساتھ مشہور ومتصف تھے ۔ ان کی حدیثوں میں غرائب  اور کچھ ایسی چیزیں  ہیں جنہیں روایت  کرنے میں  وہ منفرد ہیں ۔(تاریخ بغداد:7/369،تذکرۃ الحفاظ:2/667)۔  ان کی روایت کے لیے دیکھئے:  النکت الظراف:3/447)
(17) عمل  الیوم  واللیلۃ:ص17- 18 ح:30
(18) نتائج  الافکار:1/247- 248۔
(19)  الدعوات  الکبیر:1/42ح:59۔
(20) دیکھئے: الجرح والتعدیل؛8/294۔
(21) الجرح والتعدیل:9/218۔
(22) الکامل  فی ضعفاء  الرجال:7/159، دیکھئے : الضعفاء  للعقیلی:4/454، المغنی فی الضعفاء: 7228، تھذیب التھذیب:11/407۔
(23) دیکھئے :سوالات عثمان الدارمی لابن معین رقم:874
(24) علل الدارقطنی :11/308۔
(25) دیکھئے : تھذیب الکمال:2/167، تقریب التھذیب:232۔
(26) دیکھئے : تھذیب الکمال:18/335، تقریب التھذیب:4219۔
(27) ھشیم  بن بشیر سلمی ابو معاویہ واسطی ثقہ حافظ کثیر التدلیس والارسال الخفی ہیں۔ (تاریخ کبیر:8/242، جرح وتعدیل:9/115، تھذیب الکمال:3/272، تذکرۃ الحفاظ:1/148، سیر اعلام النبلاء:8/287، تھذیب التھذیب :11/59، تقریب :7362)۔
(28) فضائل  القرآن ص 131
(29)7/693۔
(30) 4/2143ح:3450
(31) فضائل القرآن ص99 رقم 211
(32) تاریخ بغداد:4/134
 احمد بن خلف بغدادی کے بارے میں خطیب نے کہا: "یہ ہمارے نزدیک  غیر معروف  شیخ ہے " ،اس کی روایت  میں ابو ھاشم  کا ذکر  ساقط ہے ، شاید  تصحیف ہوگئی ہوگی۔
(33) العلل ومعرفۃ الرجال:2/251رقم:2153
(34) السنن الکبری:3/249، شعب الایمان:2/ 474 ح2444،
(35) فیض القدیر (6/199) میں کہا ہے کہ حافظ ابن حجر نے "امالی" میں فرمایا :" کچھ روایات  میں اسی طرح "یوم الجمعۃ " اور کچھ  روایتوں  میں "لیلۃ الجمعۃ" واقع ہے اور دونوں میں جمع وتطبیق یوں ہے کہ یوم  (دن ) سے رات سمیت  اور رات سے دن سمیت  مراد ہے۔ نیز دیکھئے : الفتوحات الربانیۃ:4/229۔
(36) المستدرک : 2/368۔
(37) السنن الکبری:3/249، السنن الصغری:1/ 235ح:606۔
(38) السنن الکبری:3/249، شعب الایمان :2/ 475 ح:2445، نیز 3/112 ح:3039،فضائل الاوقات : 1 / 502 ح :279
(39) العلل: 11/308
(40) دیکھئے: تھذیب الکمال:29/466، تقریب التھذیب:7215
(41) دیکھئے : الجرح والتعدیل:9/291
(42) دیکھئے:تھذیب الکمال:7/136، التقریب: 1470۔
(43) العلل:11/308۔
(44) شعب الایمان :2/474۔
(45) شعبہ بن الحجاج عتکی  ازدی ابو بسطام  واسطی  ،ثقہ، حافظ، متقن، امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ۔ (تاریخ کبیر:4/244،جرح وتعدیل:1/126، تھذیب الکمال:12/479، تذکرۃ الحفاظ:1/193، السیر:7/202 ، تھذیب التھذیب:4/338، التقریب:2805۔
(46) السنن الکبری :9/348 ح10722 ، عمل الیوم واللیلۃ :952
(47) المعجم الاوسط:2/271ح:1478۔
(48) (1/248)
(49) المستدرک:1/564
(50)شعب الایمان:3/21ح 2754۔
(51) شعب الایمان:2/21 ح 2754
(52) العلل :11/308
(53) السنن الکبری 9/348 ح 10733، عمل الیوم واللیلۃ 953۔
(54) الدعاء 1/140 ح  388۔
(55) شعب الایمان  3/21
(56)دیکھئے : شرح علل الترمذی:2/702- 705
(57) دیکھئے : تھذیب الکمال:31/499، التقریب: 7679۔
(58) دیکھئے ؛ تھذیب الکمال:18/99، التقریب: 4108
(59) دیکھئے : تھذیب الکمال:9/106، التقریب: 1913
(60) العلل 11/308
(61) السنن الکبری 9/348، عمل الیوم واللیلۃ ص528 ، حاشیہ نمبر:953۔
(62) الدعاء: ص 141
(63) العلل : 11/308۔
(64) روح بن القاسم تمیمی عنبری  ابو غیاث بصری۔ انہیں ابن معین، احمد، ابو زرعہ، ابو حاتم، دارقطنی اور ابن شاھین وغیرہ نے ثقہ کہا ہے۔(تاریخ کبیر:3/309، جرح وتعدیل: 3/495، تھذیب الکمال: 9/252، تذکرۃ الحفاظ11/188، السیر: 6/404۔ تھذیب التھذیب:3/298، التقریب:1981۔
(65) محدث ، حافظ ابراہیم بن محمد بن یحیی بن سختویہ ابو اسحاق  المزکی النیسابوری ہیں ،خطیب   کہتے ہیں : آپ ثقہ ثبت تھے، بہت سی حدیثیں  روایت کرنے والے  ، بار بار حج  کرنے والے تھے ، امام دار قطنی  نے ان کی چنند ہ حدیثوں کو لیا ہے ۔ اور لوگوں نے ان سے بہت سارا  علم  قلمبند  کیا ہے " ۔ (تاریخ بغداد:6/168، سیر اعلام النبلاء:16/163)
(66) الفوائد  المنتقاۃ الغرائب العوالی ، تخریج  الحافظ الدار قطنی ق (51 /ا)
(67) نتائج الافکار (1/258- 259)
(68) الفوائد  المنتقاۃ  ق (51/ا)
(69) نتائج الافکار (1/259)
(70)دیکھئے :تاریخ کبیر:6/407
(71) المجروحین:2/120
(72) دیکھئے: ضعفاء ابن الجوزی:2/239، المغنی فی الضعفاء(4804)
(73) التقریب: 5333
(74) المجروحین :1/163۔
(75) الکامل : 01/202
(77 - 76) سوالات  السلمی  للدار قطنی (61) دیکھئے : المیزان: (1/130) ، المغنی  فی الضعفاء (406)
   ابو بکر شافعی محدث عراق محمد بن عبد اللہ  بغدادی  بزار  ہیں ، دار قطنی نے کہا :"ثقہ مامون اور علم کے پہاڑ ہیں ۔ ان کے وقت میں ان سے زیادہ کوئی ثقہ نہ تھا " ۔ (تاریخ بغداد: 5/456، تذکرۃ الحفاظ:3/880، السیر:16/39)۔
(78) الفوائد (3/1/257/1)
(79) الدعاء (1/141 ح :389)
(80)دیکھئے :  الجرح والتعدیل(9/18)
(81) دیکھئے : ضعفاء  ابن الجوزی  (3/187) ، دیوان الضعفاء (4567)، میزان  الاعتدال 4/347، المغنی (6889)، لسان المیزان(8/390)
(82) الدعاء (1/140) ح (388)
(83) دیکھئے :  النکت الظراف (3/447)
(84) دیکھئے : تھذیب الکمال (31/419)، التقریب (7641)
(85) التقریب رقم(5608) ، دیکھئے : تھذیب الکمال 24/25)، تھذیب التھذیب :8/391
(86) الدعوات الکبیر (1/42)
(87) زاد المعاد (1/376)
(88) المھذب فی اختصار السنن الکبیر  (3/1181)
(89) التلخیص الحبیر (1/102) ، دیکھئے : نتائج الافکار (1/247)، الفتوحات الربانیۃ (2/19- 21)
(90) نتائج الافکار (1/250) دیکھئے : النکت الظراف (3/447)
(91) المتجر الرابح ص(48) ح(82)
(92) دیکھئے: تفسیر ابن کثیر (9/101) ، الدر المنثور (9/475)، تخریج  الاحیاء  (1/447)۔
(93) الاحادیث المختارۃ (2/50-51)ح(430)
(94) جزء حدیث ابی الفضل الزھری تخریج الجوھری (1/173) ح(127)
(95) دیکھئے : تخریح  الاحیاء (1/447)
(96) ذیل المیزان ص(422) رقم(700) مجھے تاریخ دمشق میں ابن عساکر   کا کلام نہیں ملا ۔
(97) بیان الوھم والایھام (4/605)
(98) میزان الاعتدال  (2/506)
(99) لسان المیزان (5/16)
(100) الاحادیث المختارۃ(2/50)
(101) دیکھئے : الترغیب  والترھیب (1/513)، تفسیر ابن کثیر(9/100) ، الدر المنثور (9/477)، تخریج  الاحیاء  (1/447)، التلخیص الحبیر) (2/72)۔
(102) المختارۃ -  مخطوط (226/ا)
(103) میزان الاعتدال (3/534)، دیکھئے : لسان المیزان(7/112)
(104) میزان میں یوں ہے:"حدثنا محمد بن خالد المقدسی ، حدثنا محمد بن خالد البصری حدثنا  خالد بن سعید بن ابی مریم......."  اس میں محمد  ابن خالد المقدسی کی زیادتی  ہے اور شاید یہ تصحیف ہے۔
(105) تھذیب التھذیب(3/95)
(106) بیان الوھم والایھام (3/537)
(1079 دیکھئے  الموضوعات الکبری (2/45)، المیزان (3/534)، المغنی  فی الضعفاء (5364)، اللسان (7/111-112) ، الکشف الحثیث (227)
(108) لسان المیزان (7/112)
(109) الترغیب  والترھیب (1/513)
(110) (4/423)
(111) تفسیر  القرآن  العظیم (9/100)
(112) فیض القدیر (6/199)
(113) تمام المنۃ ص324
(114) دیکھئے : الدر المنثور (9/477) ، فتح  القدیر (3/268)، تخریج الاحیاء (1/448)
(115) احیاء علو الدین (1/187)
(116) تخریج  الاحیاء (1/143)
(117) تخریج الاحیاء (1/143)
(118) تذکرۃ الموضوعات(1/565)
(119) الفوائد  المجمو عۃ ص (311)
(120) ص (96) رقم(203)
(121)دیکھئے : الفتوحات  الربانیۃ (4/229- 230)
(122)  ابو مھلب جرمی بصری ابو قلابہ  کے چچا ہیں ، نام عمرو یا عبد الرحمن  بن معاویہ ہے، ثقہ اور تھوڑی حدیثیں  روایت کرنے والے ہیں ۔ (دیکھئے : طبقات کبری  (7/126)، تھذیب الکمال: 34/329، الاصابۃ:7/400)
(123) فضائل القرآن ص98 رقم 208)





Comments

Popular posts from this blog

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

کیاھارون علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کی دعا پر"آمین"کہا تھا؟

  تحقیقی مقالہ:   کیاھارون علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کی دعا پر"آمین"کہا تھا؟                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمدیوسف مدنی      " فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر اجتماعی   شکل میں دعا کرنا "ایک ایسا مسئلہ بن چکا   ہےکہ بہت سے لوگوں کے یہاں اس کے سامنے ترک نماز، سودخوری، زناکاری، بے پردگي ، حرام خوری اور شراب نوشی جیسے عظیم جرائم وبھیانک گناہ کے   کام   ہیچ نظر آتے ہیں ، کئي علاقوں میں دیکھا   جارہا ہےکہ عوام وخواص اب تک دعا ہی   کے مسئلہ میں الجھے ہوئے ہیں اور کئي حضرات اسی تعلق سے سؤالات کرتے ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے   مذکورہ جرائم وگناہ کے اعمال خاص اہمیت کے حامل   نہیں ہیں ، خود ان کے گھروں میں کئي افراد بے نمازی ہیں، سودی لین دین کرتے ہیں ، اور دیگر کئی اعمال بد میں    لت پت وملوث ہیں مگر ان کے تعلق سے پوچھنے وسؤالات کرنے اور ان سے باز آنے کی   زحمت نہیں ہوتی ہے، جبکہ اگر کوئي شخص فرض نماز کے بعد یا دفن   میت یا خطبہ نکاح کے بعد