Skip to main content

کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟

 

پیام حدیث:

 


کیا مسبوق کوفورا جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے؟

ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی"                                                                    


    عن أبی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال:"اذا سمعتم الإقامة فامشوا إلی الصلاۃ وعلیکم بالسکینة والوقار،ولا تسرعوا،فماأدرکتم فصلوا، وما فاتکم فأتموا"۔

    ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے(معمولی چال سے)چل پڑو،سکون  اور وقار کو (بہرحال) لاز م پکڑے رکھو، اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کرو۔(صحیح بخاری مترجم داود راز:1/607/ 636)۔

اس حدیث میں"إذاأقیمت الصلاۃ فلاتأتوھاتسعون"کے الفاظ بھی آئے ہیں یعنی "جب نماز کی اقامت ہوجائے تو تم اس کے لیے دوڑتے ہوئے نہ آیا کرو۔۔۔!!

(صحیح بخاری مترجم داود راز:2/86۔8 7/908، سنن ابوداود:572)

فقہ حدیث:اس حدیث سے درج ذیل مسائل کا استباط کیا گیا ہے:

(1) نماز کے لیے دوڑ کر آناممنوع ہے۔

(2)نماز کے لیے آتے وقت متانت،سکون اور وقارکو ملحوظ رکھنے پر ابھارا گیا ہے۔

(3) امام کے ساتھ نماز کا کوئي بھی حصہ مل جائے اس سے جماعت کی فضیلت حاصل ہوجاتی ہے۔

(4)مسبوق(جسے پوری جماعت نہ ملی ہو) جہاں سے اپنی نماز شروع کرتا ہے وہ اس کی ابتدا ہوتی ہے اور بعد ازجماعت کی نماز اس کا آخر ہوتاہے۔

(5) مسبوق پر سجدہ سہو نہیں ہے (صحیح ابن خزیمہ حدیث:1065)

(6) امام بخاری نے اس حدیث کو "باب المشي إلی الجمعة" کے تحت ذکر کر کے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ سورہ جمعہ میں فرمان الہی "فاسعوا إلی ذکر اللہ"(اللہ کے ذکر کی طرف تیزی کے ساتھ چلو) سے مراد نماز جمعہ کے لیے تیزی سے چل کر آنا نہیں ہے بلکہ آیت کا مطلوب یہ ہےکہ جب جمعہ کی اذان ہو تو اللہ کا کام کرودنیا کا کام چھوڑ دو، اور نماز کے لیے آتے وقت سکون ووقار کے ساتھ ہی آنا ہے۔(دیکھئے:صحیح بخاری مترجم داود راز:2/85۔87)

(7) امام کے ساتھ نماز کا جو حصہ چھوٹ جائے اسے سلام پھیرنے  کے بعد پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

(8) اس میں ایک انتہائي اہم مسئلہ کا بیان بھی ہےکہ مسبوق مقتدی امام کو جس حالت پر پائے اسی حالت میں اس کےساتھ شریک ہوجائے اس سلسلہ میں اس بھی زیادہ واضح اور صریح حدیث ملاحظہ ہو:

ایک انصاری صحابی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"من وجدنی راکعا أوقائماأوساجدافلیکن معی علی حالتی التی أناعلیھا"جو شخص مجھے رکوع،قیام یا سجدہ کی حالت میں پائے،اسے چاہے کہ وہ میرے ساتھ اسی حالت میں شریک ہوجائے جس پر  میں ہوں۔

(مصنف ابن ابی شیبہ:1/252۔253،مطبوعہ ہند، سنن کبری بیھقی2/89،مسائل احمد واسحاق:1/127/ 1،فتح الباری:2/118،الصحیحۃ:3/185/1188)

اور علی بن ابی طالب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"إذااتی أحدکم الصلاۃ والإمام علی حال،فلیصنع کمایصنع الإمام"

جب تم میں سے کوئي نماز پڑھنے کے لیے آئے تو امام کو جس حالت میں پائے اس میں امام کےساتھ شامل ہوجائے"۔(سنن الترمذی:4/120۔131/597 تحقیق شعیب الارنووط، صحیح ابی داود:2/425/523، الصحیحۃ:3/185/1188)۔نیزدیکھئے فتح الباری: 2/274، المنھل العذب المورود: 4/274،القول المبین فی أخطاء المصلین للشیخ مشہور حسن سلمان ص 258۔

    لہذا مقتدی کاپیچھے کھڑا رہنا اور فضول باتوں میں وقت ضائع کرنا،اس انتظار میں رہنا کہ امام قیام میں کھڑے  ہو تو شریک نماز ہوجاؤنگا،یااگر آخری تشہد میں  ہے تو انتظار کرے کہ سلام پھیردے تو تنہا پڑھ لونگا یا دوسروں کے ساتھ جماعت ثانیہ کرلونگا،یہ سب درست نہیں ہیں،بلکہ نمازی کی غلطیوں وخطاوں میں سے ہیں ، جن سے فوری طور پر ایک نمازی کو باز آجانا چاہئے، اس طرح کے انتظار میں کئي خرابیاں اور برائیاں پائي جاتی ہیں:

ا۔سجدہ کی حالت میں امام کے ساتھ شریک نہ ہونے سے سجدہ کی فضیلت سے محروم رہتا ہے حالانکہ سجدے کی فضیلت کے تعلق سے بہت سی صحیح احادیث وارد ہیں۔

ب۔آخری تشہد میں امام کے ساتھ شریک  نہ ہو کر سلام پھیر نے کا انتظارکرنے سے یہ آدمی جماعت کی فضیلت سے محروم ہوجاتا ہے۔

د۔مذکورہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے ساتھ شریک ہونے کا جو حکم دیا ہے انتظار کی صورت میں اس حکم  رسول کی مخالفت لازم آتی ہے۔ اور اللہ رب العالمین نے سورہ نور آیت(63) میں ایسی مخالفت سے ہوشیار اور چوکنا کیا ہے اپنے بندوں کو، فرمایا:(فلیحذرالذین یخالفون عن أمرہ أ تصیبھم فتنة أو یصیبھم عذاب ألیم)۔سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئي زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔ اللہ تعالی ہم سب کو حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے بچائے اور سنت کا شیدائي بنائے۔آمین۔

 

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ