Skip to main content

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین


Rounded Rectangle: احکام ومسائل 

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین
                                                                  ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی

 گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک  میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت  الوتر رکوع سے قبل  یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي  ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا  کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ  کی تحقیق کی جائے چنانچہ  اس سلسلہ میں سب سے پہلے  الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ  کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء  وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا  تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ  کی خاطر پیش کی جاتی ہیں :
(1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا  ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے،رکوع کےبعد قنوت  پڑھنا مستحب ہے ،بخاری شریف  میں رکوع کے بعد ہے، اگر پہلے پڑھ لے تب بھی جائز ہے، کیونکہ بعض روایات میں قبل الرکوع  بھی آیا ہے، ہاتھ اٹھا کر باندھ لینے کا کوئی ثبوت  نہیں ہے"(قنوت وتر ونازلہ کے سلسلہ میں ایک استفتاءکا جواب۔  فتاوی  علماء حدیث:2/206)۔
(2)علامہ عبد الجبار غزنوی (م1913ء) فرماتے ہیں :" دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ  وتابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے "۔(فتاوی غزنویہ  ص51، بحوالہ فتاوی  علماء حدیث:3/283۔284)
(3) محدث عبد الرحمن مبارکپوری  "تحفۃ الاحوذی "(2/566و567۔دارالفکر) میں رقمطراز ہیں :
"قلت: یجوز القنوت فی الوتر قبل الرکوع وبعدہ، والمختار عندی کونہ بعد الرکوع،  قال العراقی: ویعضد کونہ بعد الرکوع اولی فعل الخلفاء الاربعۃ لذلک والاحادیث الواردۃ فی الصبح  انتھی " وقال:"۔۔۔ بل الظاھر منہا ثبوت رفع الیدین کرفعھما فی الدعاء فان القنوت دعاء ۔انتھی "۔
(4) علامہ محدث شمس الحق عظیم  آبادی  بھی قبل الرکوع  وبعد الرکوع  کے قائل ہیں ۔ دیکھئے : عون المعبود ص694۔ط:دار ابن حزم2005ء۔
(5)علامہ  عبید اللہ مبارکپوری  فرماتے ہیں :"قلت یجوز القنوت فی الوتر قبل الرکوع وبعدہ، والاولی  عندی ان یکون قبل الرکوع  لکثرۃ الاحادیث فی ذلک وبعضھا جید الاسناد"(مرعاۃ المفا تیح:4/287) مزید لکھتے ہیں :" قال شیخنا  فی شرح الترمذی۔۔۔۔بل الظاھر منھا ثبوت رفع الیدین کر فعمھا فی الدعاء، فان القنوت دعاء ۔انتھی ۔ قلت: الامر کما قال الشیخ فلیس فی ھذہ الآثار دلالۃ علی مطلوبھم بل ھی ظاھرۃ فی رفع الیدین فی القنوت حال الدعاء ، کما یرفع الداعی  فیجوز ان ترفع الیدان حال الدعاء فی قنوت الوتر عملا بتلک الآثار کما ترفعان فی قنوت النازلہ فی غیر الوتر لثبوتہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کما سیاتی "(مرعاۃ:4/299۔300)
(6)شیخ حسین بن محسن انصاری عینی فرماتے ہیں :" قدثبت الرفع من فعله صلی اللہ علیہ وسلم فی قنوت غیر الوتر فالو ترمثلہ لعدم الفارق بین القنوتین اذھما دعاءان ، ولھذا قال ابو یوسف: انه یرفعھما فی قنوت الوتر الی صدرہ ویجعل  بطو نھما الی السماء واختارہ الطحاوی والکرخی ،قال الشافعی : والظاھر انه یبقیھما کذلك الی  تمام الدعاء علی ھذہ الروایة ۔ انتھی قال: والحاصل : ان رفع الیدین فی قنوت الوتر (کرفع الداعی ) ثبت من فعل ابن مسعود وعمر وانس وابی ھریرۃ کما ذکرہ الحافظ فی التلخیص۔ وکفی بھم اسوۃ وثبت من فعل البنی  صلی اللہ علیه وسلم فی غیر الوتر۔ھ(مجموعة فتاوی  الشیخ حسین بن محسن الانصاری ص160 مرعاۃالمفاتیح :4/300)۔
(7)حافظ محمد گوندلوی کہتے ہیں :"۔۔۔۔ اور دعاء قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح صحابہ  سے مروی ہے۔(جزء رفع  الیدین) اور رکوع سے پہلے ہاتھ باندھ کر دعاکرنا بھی بعض صحابہ سے آیا ہے۔(قیام اللیل)۔14/2/1963ء۔ھ(فتاوی  علماء خدیث:    2/193)
(9) علامہ  محمد اسماعیل گوجرانوالہ  فرماتے ہیں:" رکوع کے بعد قنوت پڑھے۔ اس میں ہاتھ اٹھانا  مستحب ہے، اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بخاری  رحمہ اللہ کے جزء رفع الیدین میں ذکر فرمایا ہے۔ عون المعبود(1/54) میں ہے۔" ویستحب رفع الیدین فیہ" یعنی قنوت میں ہاتھ اٹھانا  مستحب ہے" 18رمضان 1382ھ۔(فتاوی  علماء حدیث:2/193)
(10)شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :"شریعت کا حکم ہے کہ قنوت وتر میں بھی رفع الیدین کیا جائے کیونکہ  یہ قنوت بھی قنوت نازلہ  ہی کے جنس میں سے ہے، اور یہ نبی صلی اللہ  علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ " انہ رفع یدیہ حین دعائہ فی قنوت النوازل"(السنن الکبری للبیھقی۔کتاب الصلاۃ،باب رفع الیدین فی القنوت ح  3229)" آپ نے قنوت نازلہ میں دعاء کیلئے ہاتھ اٹھائے تھے، (امام بیھقی نے اس حدیث کو صحیح سند کیساتھ بیان فرمایا ہے ) (فتاوی  اسلامیہ  1/451۔  452 ط:دار السلام الریاض)۔
(11) علامہ  ابن عثیمین رقمطراز ہیں :" والصحیح انه یرفع یدیه، لان ذلك صح عن عمربن الخطاب رضی اللہ عنه وعمر بن الخطاب رضی اللہ عنه احد الخلفاء الراشدین الذین لھم سنة متبعة بامرالنبی صلی اللہ علیه وسلم، فیرفع یدیه"(الشرح الممتع:4/18)۔
مزید لکھتے ہیں:" ولکن المشہور من المذھب :انه یجوز القنوت قبل الرکوع وبعد القراءۃ، فاذا انتھی من قراءته قنت ثم رکع، وبعد الرکوع، لانه ورد ذلك عن النبی  علیه الصلاۃ والسلام فی قنوته فی الفرائض وعلیه، فیکون موضع القنوت من السنن المتنوعة التی یفعلھا احیانا ھکذا، واحیانا ھکذا (الشرح الممتع:4/20)۔
(12) حافظ عبد اللہ محدث رو پڑی لکھتے ہیں :" مستدرک حاکم(3/173) میں اس دعا کا محل بھی  بتایا ہے۔ "عن الحسن بن علی قال: علمنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔" یعنی  حسن بن علی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وتر میں جب میں رکوع سے سراٹھا ؤں اور صرف سجدہ باقی رہ جائے  یہ دعا ء سکھائی  ۔ اللھم اھدنی۔۔۔۔۔ قیام اللیل مروزی133 وغیرہ میں بعد رکوع کے دعاء قنوت میں ہاتھ اٹھانا  سلف سے روایت کیا ہے۔(فتاوی  اہلحدیث:2/295۔298)۔
(13)حافظ عبد المنان نور پوری جامعہ محمدیہ  گوجرانوالہ  لکھتے ہیں :" قنوت  وتر ہاتھ اٹھا کر اور ہاتھ  اٹھائے بغیر دونوں طرح درست ہے، رکوع سے پہلے اور بعد دونوں طریق سے صحیح ہے "۔ 7/7/1411ھ۔(احکام ومسائل :1/225نیز222۔223)
(14) مفتی محمد عبید اللہ خان عفیف لکھتے ہیں :" اس دعاء میں رفع  یدین اس طرح ہوگی جس طرح دعا مانگتے وقت ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں اور درج ذیل آثار صحابہ  رضی اللہ عنہم  وتابعین  وغیرہ سے یہی رفع الیدین ثابت ہے"(فتاوی  محمدیہ ص512)۔
(15)مولانا  محمود احمد میرپوری تحریر فرماتے ہیں  :" وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے  اور رکوع  کے بعد دونوں طرح سے ثابت ہے اور رکوع کے بعد ہاتھ  اٹھا کر دعا کرنا  بہتر ہے"(فتاوی  صراط مستقیم ص228ط:مکتبۃ قدوسیہ ، لاہور)
(16)شیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی لکھتے ہیں :" تاہم بعض علماء دعائے قنوت  وتر رکوع کے بعد پڑھنے کے قائل ہیں  اور وہ بھی جائز ہے۔۔۔افضل اور اولی  یہی  ہےکہ قنوت وتر رکوع سے قبل پڑھی جائے (واللہ اعلم )۔۔۔۔ تاہم  ہاتھ اٹھاکر دعائے قنوت  پڑھنا  اس لیے راجح ہے کہ ایک تو قنوت نازلہ میں نبی صلی اللہ  علیہ وسلم  سے ہاتھ اٹھانا ثابت ہے ، تو اس پر قیاس کرتے ہوئے  قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھا نے  صحیح ہوں گے۔۔۔ دوسرے بعض صحابہ سے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے  کا ثبوت ملتا ہے"۔(سنن ابو داود (اردو) ترجمہ وفوائد :2/146۔147۔ط: دار السلام ۔ ریاض )
(17) شیخ عطاء اللہ ساجد"سنن ابن ماجہ"  کے ترجمہ  وفوائد میں لکھتے ہیں :"۔۔۔ البتہ دعائے قنوت نازلہ میں (جو رکوع کے بعد آپ نے مانگی ہے) آپ کا ہاتھ اٹھانا ثابت ہے ، اس لیے اس پر قیاس کرتے ہوئے دعا قنوت وتر میں بھی ہاتھ  اٹھانے  صحیح ہوں گے ۔ علاوہ ازیں بعض صحابہ سے دعائے  قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کا ثبوت ملتا ہے اس لیے ہاتھ  اٹھا کر دعائے قنوت  پڑھنا بہتر ہے، گو جواز بغیر ہاتھ اٹھا ئے  بھی ہے ۔۔۔ مختلف روایات میں رکوع سے پہلے بھی قنوت مذکور ہے اور رکوع کے بعدبھی ، اس لیے دونوں طرح  جائز ہے، چاہے پہلے پڑھ لیں ، چاہے بعد میں، لیکن  زیادہ بہتر اور افضل یہی  ہےکہ دعائے قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھی  جائے کیونکہ   بعد میں پڑھنے والی روایت میں ضعف ہے۔۔۔۔"(سنن ابن ماجہ  اردو2/247۔248نیز ص245۔ط:دار السلام ۔ ریاض)
(18) علامہ  محمد بن  آدم ولوی اثیوبی:" ذخیرہ العقبی  شرح سنن النسائي  "(18/71و124) میں لکھتے ہیں : الذی یترجح عندی ان الامرفی ھذا واسع، فیجوزالقنوت قبل الرکوع لصحة حدیث الباب، ویجوز بعدالرکوع لکثرۃ الاحادیث الصحیحة انه صلی اللہ علیہ وسلم  کا یقنت بعد الرکوع فی الصبح"۔مزید فرماتے ہیں :" الذی یظھرلی ان الاولی عدم رفع الیدین فی دعاء قنوت الوتر لعدم ثبوته عن  النبی صلی اللہ  علیه وسلم "۔
(19)حافظ زبیر علی زئي"ھدیۃ المسلمین "ص 75 میں لکھتے ہیں :
(3)سنن نسائی (1/248ح1700) میں ہے کہ "ویقنت قبل الرکوع " اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے ( اور یہی راحج ہے)۔
(5)قنوت نازلہ  پر قیاس کرتے ہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھانا  جائز ہیں ،اس بارے میں بعض ضعیف آثار بھی مروی ہیں لیکن  ہاتھ نہ اٹھانا  راجح ہے۔ واللہ اعلم۔
(6)جن آثار میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے اس سے مراد دعا والا رفع یدین ہے،شروع نماز، رکوع سے پہلے اور بعد والا  رفع یدین نہیں ، لہذا بعض مقلدین کا خلط مبحث کرنا صحیح نہیں ہے "ھ
(20) شیخ عبد الرؤف بن عبد الحنان سندھو" القول المقبول  فی تخریج صلواۃ الرسول" ص398 میں رقمطراز ہیں :" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل ، قول اور صحابہ رضوان اللہ علیھم کے عمل سے دعاء قنوت رکوع سے قبل ہی ثابت ہے۔" اورص401 میں لکھتے ہیں :
" رہا ہاتھ اٹھانا تو اس بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ میں بعض آثار تو ضرور ملتے ہیں ۔مگر کوئي  مرفوع روایت نہیں ہے، لہذا قراءت سے فراغت کے بعد بغیر تکبیر کہے اور ہاتھ اٹھائے قنوت پڑھنی چاہئے  ۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب"۔
(21)شیخ حافظ ابو الحسن مبشر احمد ربانی  " احکام ومسائل (ص258۔259 ) میں لکھتے ہیں :
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے ثابت ہے اور اکثر روایات رکوع سے پہلے ہی قنوت  پر دلالت کرتی ہیں ۔۔۔۔ اور قنوت وتر میں ہاتھوں کا اٹھانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، رکوع سے پہلے قراءت سے فارغ ہونے کے بعد اسی طرح بغیر ہاتھ  اٹھائے  دعا مانگنی چاہئے ۔ جو لوگ قنوت  وتر میں ہاتھ  اٹھا کر دعا کرتے ہیں وہ اسے قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہیں "
(22)ہمارے شیخ علامہ  محمد رئیس ندوی رحمہ اللہ  سابق شیخ الحدیث ومفتی جامعہ  سلفیہ بنارس "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ  نماز" ص631۔632 میں فرماتے ہیں :" متعدد صحیح سندوں سے مروی ہےکہ  ابی ابن کعب وتر میں رکوع کے بعد دعائے  قنوت پڑھتے تھے (مصنف عبد الرزاق ج3ص120) اور ابی بن کعب فاروقی دور میں مسجد  نبوی   میں حکم فاروقی  سے تراویح  مع الوتر پڑھاتے تھے جس کا مطلب ہوا کہ اس پر صحابہ کا اجماع ہے۔۔۔۔مگر اس سے یہ لازم  نہیں آتا کہ رکوع سے پہلے وتر میں دعائے  قنوت مشروع نہیں کیونکہ اسی روایت میں منقول ہےکہ حضرت عثمان غنی  رکوع سے پہلے  قنوت پڑھ لیا کرتے تھے ، جس سے معلوم ہوا کہ یہ اختیاری  بات ہے،خواہ وتر میں قنوت رکوع  کے بعد پڑھے یا پہلے۔۔۔ متعدد آثار صحابہ اور بعض مرفوع احادیث کے مجموعہ  سے مستفاد  ہوتا ہےکہ  دونوں ہی طرح وتر میں دعائے قنوت  پڑھنی مشروع ہے۔۔۔ کیونکہ  حدیث نبوی سے دونوں طرح دعائے قنوت وتر میں پڑھنے کا ثبوت ہے اور صحابہ  سے بھی ۔۔۔۔" اورص639۔640 میں رقمطراز ہیں :"۔۔۔ رکوع کے پہلے  اور بعد دونوں طرح وتر میں قنوت پڑھنے کا ثبوت حدیث نبوی  وآثار صحابہ سے ہے۔۔۔جن بعض آثار صحابہ میں بوقت قنوت رفع الیدین کا ذکر ہے ان سے مراد دعا کے وقت والا رفع الیدین ہے یعنی کہ دعا مانگتے  وقت جس طرح دونوں ہاتھ سینے  تک اٹھائے  جاتے ہیں اسی طرح  وتر والے دعائے  قنوت اور قنوت نازلہ میں بعض صحابہ  دونوں ہاتھ اٹھاکر دعائے قنوت پڑھتے تھے نہ کہ تحریمہ  کے وقت رفع الیدین کی طرح رفع الیدین کرتے تھے "۔ اورص641 میں فرماتے ہیں :" ہمارے نزدیک بوقت  قنوت دعا کی طرح ہاتھوں کا اٹھانا اختیاری  ہے جی چاہے اٹھائے ورنہ نہیں البتہ  اٹھانا  افضل ہے مگرتحریمہ  والا رفع الیدین شرعا ثابت  نہ ہونے کے باعث غلط ہے ۔
    مذکورہ فتاوی وتحریرات کا حاصل یہ ھیکہ محل قنوت وتر کے سلسلہ میں اکثر علماء اس طرف گئے  ہیں کہ قبل از رکوع  اور بعد از رکوع  دونوں ہے جبکہ بعض علماء نے قبل از رکوع کو افضل واولی قرار دیا ہے اور بات بھی  یہی صحیح ودرست ہے کہ دونوں طرح جائز ہے مگر رکوع سے پہلے دعائے قنوت وتر پڑھنا  زیادہ بہتر وسنت رسول کے موافق ہے۔ اور اس دعاء میں ہاتھوں کو اٹھانے  کے سلسلہ میں بھی اکثر علماء اس کے جواز کے قائل ہیں جبکہ  بعض علماء  اس کے عدم جواز کے قائل ہیں اور یہی بات حق وصواب  ہے۔ اب سطور ذیل میں دونوں مسئلے کےدلائل ملاحظہ ہوں :
قبل از رکوع افضل ہونے کے دلائل :(1) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :"ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقنت قبل الرکوع"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  رکوع جانے سے پہلے دعائے  قنوت پڑھا کرتے تھے۔(سنن نسائي مع ذخیرۃ العقبی  :18/67/1699،سنن ابن ماجہ :  2/254۔255/1182۔ط الرسالۃ،صفۃ الصلاۃ ۔  الاصل۔3/968،الارواء :426)
(2) حسن رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :" علمنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اقول اذا فرغت من قراءتی فی الوتر"۔مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے قنوت سکھائي  کہ میں وتر ادا کرتے وقت  جب قراءت سے فارغ ہو جاؤں تو اسے پڑھوں، (التوحید لابن مندہ:2/191/  343،صفۃ الصلاۃ ۔ الاصل۔3/973و975وانظر ص972)
(3)عاصم بن سلیمان نے کہا:"سالت انس بن مالك عن القنوت فقال: قدکان القنوت۔ قلت: قبل الرکوع اوبعدہ؟قال:  قبله۔ قال:فان فلانا اخبرنی عنك انك قلت: بعد الرکوع۔  فقال: کذب،انماقنت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بعدالرکوع شھرا، اراہ کان بعث قوما۔۔۔" میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ دعائے قنوت (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ) پڑھی جاتی تھی ۔ میں نے پوچھا کہ رکوع سے پہلے یا اس کے بعد؟آپ نے فرمایا  کہ رکوع سے پہلے۔ عاصم نے کہا کہ آپ ہی کے حوالہ سے فلاں شخص نے خبردی ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد فرمایا  تھا ۔ اس کا جواب انس نے یہ دیا کہ انہوں نے غلط سمجھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینہ  دعائے قنوت پڑھی تھی ،  ہوایہ تھا کہ آپ نے صحابہ  میں سے ستر قاریوں کے قریب مشرکوں کی ایک قوم(بنی عامر) کی طرف ان کو تعلیم  دینے کے لیے بھیجے تھے ۔۔۔۔"(صحیح بخاری  مع ترجمہ داود راز2/154/1002،باب القنوت قبل الرکوع وبعدہ ، فتح الباری :2۔498۔490۔السلفیہ)
(4)قال عبد العزیز: وسال رجل انسا عن القنوت: ابعد  الرکوع، او عند فراغ من القراءۃ؟قال:لا بل عند فراغ من القراءۃ"(صحیح بخاری  مع الفتح:7/385/4088کتاب   المغازی ، باب غزوۃ الرجیع ورعل وذکوان۔۔ ترجمه داود راز:5/414)
     عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا کہ ایک صاحب (عاصم احول) نے انس رضی اللہ عنہ سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ یہ دعا رکوع کے بعد پڑھی جائے گی یا قرات قرآن سے فارغ ہونے کے بعد؟(رکوع سے پہلے) انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ قرات قرآن سے فارغ ہونے کے بعد(رکوع سے پہلے )۔
    اس روایت اور اس  سے پہلی والی روایت میں انس رضی اللہ عنہ  نے جس قنوت کو رکوع  سے پہلے بیان کیا ہے وہ  ہنگامی حالات کے پیش نظر نہیں بلکہ وہ قنوت وتر ہے۔ کیونکہ  جو قنوت ہنگامی حالات کے پیش نظر نہیں ، بلکہ عام حالات میں مانگی  جاتی ہے وہ صرف قنوت وتر ہے"(ارواء الغلیل:3/161)
(5)علقمہ بیان کرتے ہیں :"ان ابن مسعود واصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نوا یقنتون فی الوتر قبل الرکوع "۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتر میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت  پڑھتے تھے "(مصنف ابن ابی شیبہ 2/97/6910۔مجمع الزوائد:2/137،صفۃ الصلاۃ۔ الاصل۔3/970)
(6) اسود بن یزید نے کہا:"ان عمر قنت فی الوترقبل الرکوع"۔ عمررضی اللہ عنہ نے وتر میں رکوع سے پہلے قنوت کہا۔(مصنف ابن ابی شیبہ :4/519۔520/  6972۔ط عوامہ )
ان احادیث وآثار مذکورہ وغیرہ  کے پیش نظر قنوت وتر کا قبل الرکوع  ہونا ہی افضل واولی  ہے۔ اسی لئے شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  :
"وکون قنوت الوتر قبل الرکوع ھومذھب الحنفیة،وھوالحق الذی لا ریب فیه،اذ لم یصح عن صلی اللہ علیہ وسلم خلافه، وھو المروی عن عمربن الخطاب وابن مسعود فی "قیام اللیل"(133)(صفة الصلاۃ ۔ الاصل:3/970)۔
     قنوت وتر کا قبل الرکوع ہونا یہ احناف کا مذہب ہے  اور بلا شک وشبہ  یہی حق ہے، کیونکہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  اس کا خلاف ثابت نہیں ہے، اور یہی عمر وابن مسعود رضی اللہ عنہما  سے مروی ومنقول ہے۔
     اور "فقہ الحدیث"(1/460) میں ہےکہ " قنوت وتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف رکوع سے پہلے ثابت ہے، اور "نماز نبوی" ص236 میں ڈاکٹر سید شفیق الرحمن لکھتے ہیں :" وتر میں رکوع کے بعد قنوت کی تمام  روایات ضعیف ہیں اور جو روایات صحیح ہیں ان میں صراحت نہیں کہ آپ صلی اللہ  علیہ وسلم  کا رکوع کے بعد والا قنوت ، قنوت وتر تھا یا قنوت نازلہ ۔ لہذا صحیح طریقہ یہ ہےکہ وتر میں قنوت رکو ع سے قبل کیا جائے "۔
دعاء قنوت میں ہاتھ اٹھانا :دعائے قنوت  وتر میں دونوں ہاتھوں کے اٹھانے  کا ثبوت نہ کسی صحیح مرفوع حدیث سے ہے اور نہ ہی کسی اثر صحابی  سے ، لہذا یہاں دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرنا صحیح نہیں ہے، علامہ سید بدیع الدین  شاہ راشدی رحمہ اللہ "نشاط العبد بجھر ربنا ولک الحمد" کے ص36۔37 میں تحریر فرماتے ہیں  کہ :" وتر کے قنوت میں ہاتھ اٹھانے کے لیے صحابہ  سے صرف دو اثروارد ہیں اور وہ بھی ضعیف  ہیں ، ایک حضرت ابن مسعود کا ہے جس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ہے اور دوسرا حضرت ابو ھریرہ کا ہے جس میں ابن لھیعہ ہے، یہ دونوں راوی ضعیف ہیں ، دیکھیں  تقریب وتہذیب، بلکہ جس طریقہ  سے تراویح  کے بعد وتر میں قنوت پڑھی جاتی ہے مثلا ہاتھ اٹھا کر  اما م جہرا پڑھے اور مقتدی  آمین کہیں ہم علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ اس کا  کسی حدیث میں ثبوت نہیں ہے،،ہاں فرض نماز میں قنوت نازلہ کے لیے ایسا ذکر ہے۔۔۔"۔
     اور فقہ الحدیث"(1/460) میں مرقوم ہے" کسی صحیح حدیث میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قنوت وتر کیلئے ہاتھ اٹھانا  ثابت نہیں ۔۔"
     امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" لم تکن ترفع الایدی فی الوتر فی رمضان" یعنی ماہ رمضان  میں دعائے قنوت وتر میں ہاتھ  اٹھائے نہیں جاتے تھے ،(مصنف عبد الرزاق:3/38/5012۔ط دار الکتب العلمیۃ)۔ اور حافظ خطیب بغدادی  ناقل ہیں کہ :"  امام ابو حاتم رازی نے کہا کہ مجھ سے امام ابو زرعہ رازی نے کہا کہ آپ دعائے  قنوت میں رفع الیدین  کرتے ہیں ؟ تو میں نے کہا کہ نہیں ۔ پھر میں نے ابو زرعہ سے پوچھا کہ آپ کرتے ہیں تو موصوف نے کہا کہ ہاں ۔ میں نے کہا:  اس پر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ ابو زرعہ نے کہا ابن مسعود وابوھریرہ و ابن عباس  سے مروی شدہ آثار دلیل ہیں ۔ میں نے کہا کہ ان میں سے ہر  ایک ساقط الاعتبار ضعیف ہے، البتہ  میرے موقف پردلیل انس والی  حدیث مذکور ہے۔ اس پر ابوزرعہ  خاموش ہوگئے "۔(تاریخ بغداد:  2/76،ترجمہ ابو حاتم رازی ، جلاء العینین ص174۔  175)
    بعض صحابہ مثلا حضرت انس بن مالک سے استسقاء  کے علاوہ قنوت وتر  یا کسی بھی موقع پر ہاتھ اٹھانے اور رفع الیدین کی نفی  مروی ہے چنانچہ امام نسائي  نے اور ابن ماجہ نے اپنی  اپنی سنن میں اسی بنا پر یہ تبویب  ہی کی ہے کہ قنوت وتر میں رفع الیدین نہ کیا جائے،  امام نسائي  کی تبویب کے الفاظ یہ ہیں :" باب ترک رفع الیدین فی الدعاء فی الوتر" اور ابن ماجہ نے کہا: " من کان لا یرفع یدیہ فی القنوت" پھر اس کے تحت ان لوگوں نے یہ مشہور حدیث انس نقل کی کہ :"کان البنی صلی اللہ علیه وسلم لا یرفع یدیه فی شیئ من  دعائه الافی الاستسقاء"
(سنن نسائي مع ذخیرۃ العقبی :18/123/1748،سنن ابن ماجه:2/253/1180۔الرسالۃ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ  نماز ص640)۔
    مذکورہ تراجم ابواب کے ذکر کا مقصد یہ ھیکہ امام نسائي  وغیرہ بھی دعائے قنوت وتر میں رفع یدین کے قائل   نہیں ہیں ۔
 اور جن علماء نے دعاء قنوت وتر میں رفع یدین کے جواز کو اختیار کیا ہے  ان لوگوں نےیاتو بعض آثار سے تمسک کیا ہے جبکہ وہ صحیح نہیں ہیں ،یا تو دعائے قنوت نازلہ  میں رفع یدین پر قیاس کیا  ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ مبارکپوری  رحمہ اللہ نے "مرعاۃ المفاتیح"(4/287) میں لکھا ہے :"ولا حاجة الی قیاس قنوت الوترعلی قنوت الصبح مع وجودالاحادیث المرویة فی الوترمن الطرق المصرحة بکون القنوت فیه قبل الرکوع، وکیف یقاس الوترعلی الصبح ولیس بینھما معنی مؤثریجمع به بینھما"۔
     یعنی قنوت وتر کو قنوت نازلہ پر قیاس کرنے کی کوئي ضرورت نہیں ہے جبکہ  قنوت وتر کے سلسلہ میں ایسے طرق سے احادیث مروی ہیں جن میں اس قنوت کا رکوع سے پہلے ہونے کی صراحت موجود ہے،اور وتر کو صبح (نازلہ) پر کیوں کر قیاس کیا جائے حالانکہ  دونوں  کے درمیان جمع کرنے کیلئے کوئي مؤثر علت ومعنی موجود نہیں ہے"۔گویا دونوں الگ الگ  چیزیں ہیں اور دونوں کے احکام بھی مختلف  ہیں لہذا ایک کو دوسرے پر قیاس کرنے کی کوئي حاجت نہیں ہے !! واللہ اعلم۔
     مذکورہ  دونوں مسئلے کی مزید تحقیق کیلئے درج ذیل مصادر ومراجع  کی طرف رجوع مفید ہوگا۔
(1)مصنف ابن ابی شیبہ:4/519۔523،باب:  584۔فی القنوت قبل الرکوع او بعدہ۔4/531،باب:  94۔فی رفع الیدین فی قنوت الوتر۔تحقیق شیخ محمد عوامہ۔
(2)مصنف عبد الرزاق:3/26۔39،باب:351۔  باب القنوت۔ط: العلمیۃ،
(3)الاشراف علی مذاھب العلماء لابن المنذر:2/271  ۔باب اختلافھم فی القنوت قبل الرکوع وبعدہ ،الخلاف فی ذلک ۔نیز2/73۔باب رفع الایدی فی القنوت ۔
(4) الاوسط لابن المنذر:5/208،مسالۃ:776،ذکر اختلاف اھل العلم فی القنوت قبل الرکوع وبعدہ۔ 5/212مسالۃ:778،ذکر رفع الایدی فی القنوت ،۔
(5) ماصح من آثار الصحابہ لزکریا غلام قادر پاکستانی :1/409۔412۔موضع القنوت 1/412۔413۔  رفع الیدین ۔
(6) الاحادیث والآثار الواردۃ فی قنوت الوتر روایۃ ودرایۃ ۔ازڈاکٹر محمد بن عمر بن سالم بازمول۔ص8۔39۔
(7)نماز وتر وتہجد از شیخ ابو عدنان محمد منیرقمر نواب الدین ص32۔41۔
(9) القول المقبول فی تخریج احادیث صلاۃ الرسول ص394۔401۔
(10) احکام ومسائل از حافظ ابو الحسن مبشر احمد ربانی ص 258۔259۔
(11) نصب الرایۃ للزیلعی :2/123۔131
(12) التلخیص الحبیر لابن حجر :2/696۔715و  879۔881۔ط: اضواء السلف۔
(13) التبیان فی تخریج احادیث بلوغ المرام:4/121۔ 127
(14) بلوغ المرام تحقیق وتعلیق ابو محمد سراج الحق المدنی ص116۔







Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ