Skip to main content

کیاھارون علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کی دعا پر"آمین"کہا تھا؟

 

تحقیقی مقالہ:

 


کیاھارون علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کی دعا پر"آمین"کہا تھا؟

                                                                  ابو عبدالعزیزمحمدیوسف مدنی


    " فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر اجتماعی  شکل میں دعا کرنا "ایک ایسا مسئلہ بن چکا  ہےکہ بہت سے لوگوں کے یہاں اس کے سامنے ترک نماز، سودخوری، زناکاری، بے پردگي ، حرام خوری اور شراب نوشی جیسے عظیم جرائم وبھیانک گناہ کے  کام  ہیچ نظر آتے ہیں ، کئي علاقوں میں دیکھا  جارہا ہےکہ عوام وخواص اب تک دعا ہی  کے مسئلہ میں الجھے ہوئے ہیں اور کئي حضرات اسی تعلق سے سؤالات کرتے ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے  مذکورہ جرائم وگناہ کے اعمال خاص اہمیت کے حامل  نہیں ہیں ، خود ان کے گھروں میں کئي افراد بے نمازی ہیں، سودی لین دین کرتے ہیں ، اور دیگر کئی اعمال بد میں   لت پت وملوث ہیں مگر ان کے تعلق سے پوچھنے وسؤالات کرنے اور ان سے باز آنے کی  زحمت نہیں ہوتی ہے، جبکہ اگر کوئي شخص فرض نماز کے بعد یا دفن  میت یا خطبہ نکاح کے بعد اجتماعی  دعا نہ کرے توایسے لوگ اس کے خلاف آسمان کو سرپراٹھا لیتے ہیں اور فتنه  کھڑاکر دیتے ہیں  گویا  دین اسلام  ان کے ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے، یہ انتہائي افسوسناک صورتحال ہے، شیطان  نے ان کے دل ودماغ پر اتنا  مضبوط قبضہ  جمارکھا ہے  کہ انہیں دین کے اصول وبنیادی  امور کے بجائے فروعی  وثانوی اور جزوی امور کا زیادہ اہتمام کرنے والا بنا  دیا ہے، حالانکہ  ایک سچےمسلمان کا ہر وقت نصب العین اور مقصد زندگی اتباع  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہونا چاہئے کہ اسی میں  سر نجات پنہا ں ہے!!

      فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی شکل میں  دعا کے قائلین ، فاعلین اور حامیوں  کو دیکھنے سننے اور ان کی تحریروں کو پڑھنے کے بعد جو نتیجہ ہمارے سامنے آیا ہے وہ یہ هے کہ یہ حضرات مسئلہ مذکورہ کے اثبات کے لیے یہاں وہاں سے دلائل  یکجا کرتے ہیں  حالانکہ  ان کا تعلق مختلف احوال سے ہوتا ہے مثال کے طورپر " فرض نماز کے بعد" کے لیے کچھ دلیلیں ذکر کرتے ہیں تو "ہاتھ اٹھانے "کے لیے  کچھ دوسری دلیلیں ، "آمین کہنے" کیلئے  کچھ دلیلیں ذکر کرتے ہیں تو" اجتماعی  شکل "کیلئے  کچھ دوسری دلیلیں اور اسی طرح "دونوں ہاتھوں کو چہرہ پر پھیر نے" کیلئے کچھ دوسری دلیلیں دیتے ہیں ۔ یوں  کھینچ تان کر مسئلہ ومدعی کو ثابت کیا جاتا ہے گویا یہ لوگ  تنکے كا سہارا لینے اور  تار  عنکبوت پر نشیمن بنانے والے ہیں۔

بہر کیف  ان میں سے بعض حضرات نے "غیرکی دعا پر آمین "کہنے  اور اسی ضمن میں اجتماعی شکل میں  دعا کرنے کے اثبات کے لیے سورہ یونس آیت نمبر(89)(قد اجیبت دعوتکما) کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہتے ہیں کہ اس آیت کی  یہ تفسیر کی گئي ہےکہ موسی علیہ  السلام نے  دعا  کی اور  ھارون علیہ السلام  نے آمین کہا اور یہی کچھ فرض نماز کے بعد اجتماعی  دعا میں ہوتا  ہے لہذا مسئلہ  قرآن مجید سےثابت ہے ،چنانچہ  محترم مولانا مشتاق احمد کریمی  سلفی صاحب حفظہ اللہ (مؤسس ورئیس الھلال ایجو کیشنل سوسائٹی کٹیہار) تحریر فرماتے ہیں :" مجمع میں سے ایک شخص دعا کرے اور دوسرے لوگ آمین کہیں تو اس کے جوازپر بھی کسی  بھی عالم کا اختلاف نہیں ہے ۔ دیکھئے آیت(قد اجیبت دعوتکما) (یونس 89) کی تفسیر کہ موسی علیہ السلام نے دعا کی اور ہارون علیہ السلام  نے آمین کہی(تفسیر طبری وابن کثیر)۔ اور مولوی زبیر احمد  اصلاحی کورسیلوی کٹیہاروی صاحب لکھتے ہیں  کہ " غیر کی دعاپرآمین کہنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے لہذا اسے بدعت کہنے والا بھی کافر ہے (قال: قد اجیبت دعوتکما) الآیۃ : یونس 89۔ قال ابو العالیۃ وابو صالح وعکرمۃ ومحمد بن کعب القرظی والربیع بن انس رحمھم اللہ : دعا موسی  وامن ھارون  ای قد اجبنا کما فیما سالتما من تدمیرآل فرعون"(تفسیر ابن کثیر رحمہ اللہ )

     معزز قارئین ! دیکھا آپ نے اس اصلاحی  صاحب کو کہ  كيا لکھ رہے ہیں ؟  جناب تو "فرض نماز کے بعد  اجتماعی شکل میں ہاتھ اٹھا کر دعا"  کے منکرین کو بدعتی اور کافر قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں !! جبکہ مذکورہ شکل میں دعا کا انکار  اور اسے  بدعت قرار دینا صرف اس لئے نہیں ہے کہ اس میں غیر کی دعا پر آمین  کہنے  کا ثبوت نہیں ہے بلکہ  در حقیقت صورت مذکورہ میں کئي چیزوں کو یکجا کرکے انجام دینا اس کےبدعت ہونے کا متقاضی ہے  اگر آپ اس مذکورہ صورت وشکل میں غور وفکر سے کام لیں گے تو آپ کو درج ذیل کئی  متفرق چیزیں نظرآئیں گی :

(1)فرض نماز کے بعد کی تخصیص(2) ہرفرض نماز کی تخصیص(3) امام کا بلند آواز سے دعاکرنا(4)مقتدیوں کا بلند آواز سے آمین کہنا(5) دونوں ہاتھوں کو اٹھانا(6) اختتام دعا پر دونوں ہاتھوں کو چہرہ پر پھیرنا (7) اس  دعا کو نماز کا حصہ وجزو تصور کرنا ورنہ جھگڑا ، فتنہ وفساد اور مسجد الگ بنانا  چہ معنی دارد؟(8) اس دعا کی وجہ سے فرض نماز کے بعد کے مسنون اذکار وو  ظائف کا عدم اہتمام وغیرہ جیسی کئي چیز یں اس شکل میں انجام دی جاتی ہیں  اور انہی کے مجموعے کا انکار کیا جاتا ہے اور  ان میں سے کئي امور کی  الگ الگ  دلیل موجود ہے  جبکہ کئ ایک کی کوئي  دلیل نہیں ہے البتہ ان تمام کو  یہاں وہاں سے اکٹھا کر کے ایک  خاص  شکل دیکر انجام   دینے کا ثبوت بہر حال اس رو‎ئے زمین پر  نہیں ہے۔

     مقصد تحریر  یہ ھیکہ کیا سورۂ یونس کی آیت (89) سے "غیر کی دعا پر آمین کہنے " کا ثبوت ملتا ہے؟ اور کیا یہ ثبوت قطعی ہے کہ اس کے انکار سے انسان کافر ہوجائیگا ؟ تو آئیے  آئندہ سطور میں آیت مذکورہ کی تفسیر سے متعلق ایک تحقیقی تحریر ملا حظہ کریں :

اولا: سب سے پہلے ہم دیکھیں گے کہ مفسرین  کرام نے آیت مذکورہ کی تفسیر کے تحت کتنے اقوال ذکر کیے ہیں اور ان اقوال کے دلائل کیا ہیں ؟

 اس آیت کی تفسیر میں تین اقوال ذکر کیے گئے ہیں :

(1)پہلا قول :موسی علیہ السلام نے دعا کی اور ھارون علیہ السلام نے اس پرآمین کہا ۔ اسے مفسرین  کی ایک جماعت  نے اختیار کیا ہے اور اس قول کی دلیل یہ ھیکہ کہ بعض صحابہ (ابو ھریرہ وابن عباس ) اور بعض تابعین (عکرمہ، ابو صالح، محمد بن کعب قرظی، ابو العالیہ ، ربیع بن انس اورابن زید) سے یہ تفسیرمنقول ومروی ہے ۔ دیکھئے : تفسیر طبری:12/270۔272۔تحقیق ترکی،  الدر المنثور للسیوطی:/697۔698،تحقیق ترکی ، تفسیرعبد الرزاق:1/297،سنن سعید بن منصور:5/331۔  332/1075تحقیق ڈاکٹر سعد آل حمید، معالم التنزیل للبغوی:4/147مطبوعہ دار طیبہ،تفسیرقرطبی:11/  42، المحرر ابو جیز فی تفسیر الکتاب العزیز:4/520،البحر   المحیط لابی  حیان:5/186،تفسیر الرازی:17/159،   اللباب فی  علوم القرآن :10/401۔غرائب القرآن ورغائب الفرقان لنظام الدین الحسین القمی النیسا بوری :3/607 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، تفیسر الامام مجاھدبن جبرص383مطبوعہ دار الفکرالاسلامی الحدیثۃ، التفسیرالبسیط للواحدی:11/297،الجواھرالحسان فی تفسیر القرآن للثعالبی:3/263مطبوعہ بیروت،زاد المسیر لابن  الجوزی :ص635 مطبوعہ دار ابن حزم، الکشاف للزمخشری:3/168مطبوعہ مکتبۃ  العبیکان، تفسیر ابن کثیر:  7/394 مطبوعہ مؤسسۃ قرطبہ،تفسیرالبیضاوی:3/122 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، تفسیر الجلالین ص218 مطبوعہ دار ابن کثیر۔ البرھان فی علوم القرآن للزرکشی:2/239۔240 مطبوعہ دار احیاء التراث العربیۃ، فتح القدیر للشوکانی :2/656، فتح البیان فی مقاصد القرآن:6/114،مطبوعہ دار طوق النجاۃ، روح المعانی للآلوسی:11/174،دفع ایھام الاضطراب عن آیات الکتاب لمحمد الامین الشنقیطی ص114 مطبوعہ ابن تیمیۃ ، تفسیر ثنائي:2/37، تفسیر محمد عبدہ الفلاح ص263مطبوعہ نئي دہلی  وغیرہ کتب تفاسیر۔

دلائل مذکورہ کا جائزہ: ابو ھریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو ابو الشیخ نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام سیوطی کی "الدر المنثور" میں ہے لیکن نہ ابو الشیخ‍ کی تفسیر کا پتہ ہے اور نہ ہی "درمنثور " میں ان دونوں قول کی سند ہی مذکور ہے  مگر اس کے باوجود ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کی  صحت اس لئے محل نظرہے کہ اس میں "آمین"کو اللہ تعالی کے اسماء حسنی  میں سے شمار کیا گیا ہے جبکہ محققین نے اس کا انکار کیا ہے ، اس لئے ظن غالب یہ ھیکہ اس کی سند قابل حجت نہیں ہے(التبیان  فی آداب حملۃ القرآن للنووی:ص133  تحقیق محمدالحجار،مطبوعہ دار ابن حزم،التبیان فی علوم القرآن للعکبری 1/13 مطبوعہ دار الیقین) ۔اور ابن عباس کا قول بھی  صحیح  نہیں معلوم  ہوتا ہے کیونکہ امام واحدی نے اپنی تفسیر(11/297) میں اسے عطاء کی روایت سے نقل کیا ہے مگر عطاء کے طریق سے مروی یہ سند کمزور وضعیف ہے ۔ دیکھئے مقدمہ التحقیق للتفسیر البسیط(1/146۔149)العجاب فی بیان الاسباب لابن حجر1/208۔209 دار ابن الجوزی ، یوں یہ تفسیر موقوف طریق سے ثابت نہیں ہے۔

    رہی بات اقوال تابعین  کی ، تو انہیں امام ابن جریر الطبری نے اپنی تفسیر میں مع اسانید روایت کیا ہے جن کی استنادی حیثیت حسب ذیل ہے۔

1۔اثر عکرمہ (104 ھ) : اسے سفیان الثوری نے عن ابن جریج عن رجل عن عکرمۃ کی سند سے روایت کیا ہے اور اس میں تین علتیں ہیں :سفیان ثوری مدلس کا عنعنہ ہے ۔(  الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص39 – 40 )۔ اور ابن جریج=  عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج المکی مدلس کا بھی عنعنہ ہے(الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص55۔56)

    اور ابن جریج کا شیخ "رجل"مجہول ہے (ابن جریج :مرویاتہ واقوالہ فی التفسیر للدکتورۃ امیرۃ بنت علی الصاعدی الحربی:1/964/1139)

     اس اثر کی  ایک دوسری سند میں سفیا ن ثوری مدلس کا عنعنہ ہے نیز ان کا شیخ "رجل"مجہول ہے۔•••

2۔اثرابو صالح ذکوان السمان الزیات(101 ھ): اسے ابن المبارک نے عن اسماعیل بن ابی خالد عن ابی صالح کی سند سے روایت کیا ہے اور   اس میں بھی دو علتیں ہیں:

   طبری کا شیخ سفیان بن وکیع ضعیف ہے(الکاشف للذ ھبی1/449/2005) اور اسماعیل بن ابی خالد مدلس کا عنعنہ  ہے ۔(الفتح المبین ص33۔34)

3۔اثر محمد بن کعب قرظی (120 ھ) : اسے وکیع اور زید بن حباب نے عن موسی بن عبیدۃ عن محمد بن کعب کے طریق سے روایت کیا ہے اور اس  میں موسی بن عبیدۃ الربذی ضعیف ہے (الکاشف للذھبی 2/306/  5715،تقریب التہذیب ص618/6989)،اس  کی دوسری سند  ہے جسے ابو معاویہ نے عن شیخ لہ عن محمد بن کعب کے طریق سے روایت کیا ہے اور اس میں "شیخ " مجہول ہے ، جبکہ ایک تیسری  سند جسے سعید بن منصور نے :نا ابو معشر عن محمد بن کعب کے طریق سے روایت کیا ہے لیکن اس میں ابو معشر نجیح بن عبد الرحمن السندی ضعیف ومختلط ہے (سنن سعید بن منصور:5/331۔332/ 1075،   التقریب:ص627/7100) سنن سعید کے محقق ڈاکٹر سعد بن عبد اللہ آل حمید نےبھی اس اثر  کو ضعیف قرار دیا ہے۔

4۔ اثر ابو العالیہ رفیع بن مھران الریاحی (90او93 ھ ): اسے ابو جعفر نے عن الربیع عن ابی العالیۃ کی سند سے روایت کیا ہے اور اس میں دو علتیں ہیں :

 1۔ ابو جعفر الرازی التمیمی مولاھم= عیسی بن ابی عیسی  مروزی ہے، حافظ ذھبی  "الکاشف"( 2 / 416  /  6563) میں فرماتے ہیں :"قال ابو زرعہ  یھم کثیرا، وقال النسائي : لیس بالقوی، ووثقہ ابو حاتم" یعنی  ابو زرعہ نے کہا کہ ابو جعفر رازی روایت حدیث میں بہت زیادہ وہم کا شکار ہوجاتا ہے ،اور نسائي  نے کہا کہ وہ قوی ومضبوط (ثقہ) راوی  نہیں ہے جبکہ  ابو حاتم نے اسے ثقہ " کہا ہے۔ اور حافظ ابن حجر نے کہا کہ "صدوق سئی الحفظ خصوصا عن مغیرۃ" صدوق، حافظہ کا خراب وکمزور ہے  خصوصا مغیرہ سے روایت کرنے میں (التقریب ص697/8019) نیز وہ مختلط بھی ہے (الکواکب النیرات  نسخہ محققہ ص444۔448/69)

2۔ابو جعفررازی کا شیخ ربیع  بن انس گرچہ ثقہ ہے لیکن امام ابن حبان کہتے ہیں :"الناس یتقون حدیثہ ما کان من روایۃ ابی جعفرعنہ لان فیھا اضطرابا کثیرا"  یعنی محدثین کرام ربیع کی ان حدیثوں سے بچتے ہیں  جنہیں اس سے ابو جعفر رازی روایت کرتا ہے ، کیونکہ  ان میں بکثرت اضطراب پایا جاتا ہے (الثقات:4/228)

5۔اثرربیع بن  انس البکری (140 ھ) :اسے عبد الرحمن بن سعد القرظ الموذن المدنی اور عبد اللہ بن ابی جعفر نے عن ابی جعفر عن الربیع بن انس کے طریق سے روایت کیا ہے اور اس  میں تین علتیں ہیں !

1۔اس میں ابو جعفر رازی واقع ہے اور اس پر کلام گزرچکاہے۔

2۔ ابو جعفر سے اس کا بیٹا عبد اللہ بن ابی جعفر روایت کرتا ہے ، امام ذھبی  نے اس کے بارے میں "وثق وفیہ شئ" کہا ہے (الکاشف:1/543/167) اور حافظ ابن حجر نے "صدوق یخطئ" قرار دیا ہے (تقریب مع التحریر :2/199/3257) اور اما م ابن حبان  کہتے ہیں کہ "یعتبر حدیثہ من غیر روایتہ عن ابیہ " اس کی روایت کردہ  ان حدیثوں کا اعتبار  کیا جائیگا  جنہیں اپنے باپ کے علاوہ سے روایت کرے ۔(الثقات:8/335 ، التہذیب:    5/177) اور یہاں  وہ اپنے باپ  سے روایت کرتا ہے  لہذا اس کی یہ روایت قابل اعتبار نہ ہوگی !

3-عبد الرحمن بن سعد القرظ الموذن المدنی ضعیف ہے۔ ( التقریب ص 363/3873)                             

       یہاں یہ بات واضح رہےکہ سند مذکور"عبد اللہ بن ابی جعفر الرازی عن ابیہ عن الربیع بن انس" حسب کلام سابق ضعیف ہے ، اسی لیے کئي علماء  محققین  نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے مثلا دیکھئے  التمہید لابن عبدالبر(3/307)لکھتے ہیں :" واما حدیث ابی بن کعب  فانما یدور علی ابی جعفر الرازی عن الربیع عن ابی  العالیۃ ولیس ھذا الاسناد عند ھم بالقوی"  یعنی یہ سند محدثین کرام کے نزدیک  قوی  وصحیح  نہیں ہے ۔ نیز دیکھئے :سنن بیھقی :3/329، زاد المعاد لابن القیم:1/438۔455،  تلخیص المستدرک للذھبی :1/333،فتح الباری :2/523، مسنداحمد:35/148۔149/21225۔  ط الرسالۃ ،سنن ابی داود:2/383/1182۔ط الرسالۃ۔ ظلال الجنۃ للالبانی :1/297۔663، انوار الصحیفۃ للحافظ زبیر علی زئي  ص51، سنن ابی داود مترجم  بتحقیق علی زئي  :1/829۔830۔ط دار السلام ۔

      سطور بالا سے یہ بات عیاں  ہے کہ سند مذکور ضعیف ہے مگر اس ضعف  کاتعلق اس حالت سے کہ جب سند میں مذکور روات اپنی یاد داشت وحافظہ سے روایت کریں اور اگر کسی کتاب یا نسخہ  سے روایت کریں تو اس وقت یہ سند حجت وقوی ہوگي  اور معاملہ  یہاں ایسا ہی ہے کہ ابو العالیہ  رفیع بن مھران الریاحی اور الربیع  بن انس کا اثر مذکور ان کے "تفسیری نسخہ" سے بسند مذکور منقول ہے اور علماء عظام  نے اس "نسخہ" کو سند مذکور کے ساتھ  صحیح قرار دیا ہے۔

      چنانچہ  امام سیوطی  کہتے ہیں :" واما ابی بن کعب فعنہ نسخۃ کبیرۃ یرویھا ابو جعفر الرازی عن الربیع بن انس عن ابی العالیۃ عنہ وھذا اسناد  صحیح" یعنی  ابی بن  کعب  رضی اللہ عنہ سے  ایک بڑا نسخہ(تفسیری روایات کا) منقول ہے جسے  ابو جعفر رازی ، الربیع  بن انس  عن ابی العالیہ  عن ابی بن کعب   کے طریق سے روایت کرتا ہے اور یہ سند صحیح ہے (الاتقان فی علوم القرآن :6/2338۔ط مجمع الملک فھد)۔

   اور شیخنا  شیخ التفسیر علامہ  حکمت بشیر بن یاسین حفظہ اللہ رقمطراز ہیں : " وبما ان الروایۃ من  نسخۃ فلا یضرسوءحفظ ابی جعفر ولا  اوھام الربیع  لا ن نقلھم ھنا عن طریق السطور لا الصدور، لما یروونہ عن کتاب ، ولھذا صححہ الحاکم والذھبی  والسیوطی وجوّدہ ابن حجر واعتمدہ ابن عبد البر وشیخ  الاسلام ابن تیمیہ  کماتقدم" یعنی چونکہ روایت نسخہ سے ہے اس لئے ابوجعفر رازی کا سوء حفظ اور ربیع  بن انس کے اوہام  نقصان دہ نہیں ہیں ، کیونکہ وہ یہاں سطور یعنی  کتاب  سے روایت کرتے ہیں نہ کہ صدور یعنی حافظہ سے ، یہی وجہ ہےکہ اس سند کو حاکم، ذھبی  اور سیوطی  نے "صحیح" اور ابن حجر نے "جید" کہا ہے اور ابن عبد البر وشیخ  الاسلام  ابن تیمیہ  نے اس پر اعتماد کیا ہے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے :  التفسیر الصحیح المسبور :1/34۔37،العجاب فی بیان الاسباب لابن حجر:1/215۔ط دار اندلس ، التفسیر والمفسرون لمحمد حسین الذھبی  :1/70،الاسرائیلیات و والموضوعات فی کتب التفسیر لمحمد ابو شہبہ ص 67، 153 و 157، اسانید نسخ التفسیر والا سانید المتکررۃ فی التفسیر لعطیۃ الفقیہ ص88۔94و123۔125۔

       بنا بریں سورہ یونس  کی آیت مذکورہ (89) (قد اجیبت دعوتکما) کی تفسیر میں مروی  ابو العالیہ  وربیع  بن انس کے اثر کی سند صحیح ہے ، لیکن یہاں سوا ل یہ ہے کہ یہ دونوں تابعین میں سے ہیں اور اثر مذکور کی کوئي  سند رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  یا کسی صحابی  تک ذکر نہیں کئے ہیں اور ماقبل میں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں کوئي موقوف روایت صحیح نہیں ہے چہ جائیکہ مرفوع روایت  ثابت ہو، جبکہ  اس طرح کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی  ہے!لہذا اس اثر کا کوئي مستند معلوم نہ ہونے کیوجہ  سے قابل حجت نہیں ہے،خصوصا  مقام اختلاف میں ، زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جاسکتی  ہےکہ یہ صحیح سند کے ساتھ مروی  تابعی  کی تفسیر ہے جسے مفسرین  کی ایک جماعت  نےاختیار کیا ہے۔

6۔اثر ابن زید =عبد الرحمن بن زید بن اسلم (182 ھ) : اسے اس سے ابن وھب نے روایت کیا ہے اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ  خود ابن زید سخت ضعیف راوی ہے(رجال تفسیر الطبری :ص344/1567)

     خلاصہ یہ کہ اس آيت کی تفسیر  میں کوئي بھی تفسیر ی روایت  نہ مرفوعا  ثابت ہے اور نہ ہی  موقوفا ، البتہ مقطوعا  یعنی  ابو العالیہ اور ربیع بن انس سے ثابت ہے۔•••

دوسرا قول:  ابن جریر الطبری  نے آیت مذکورہ  کی تفسیر میں ایک قول یہ ذکر کیا ہےکہ یہاں اللہ تعالی  نے صیغہ تثنیہ (کما) کے ذریعہ  واحد یعنی موسی  علیہ السلام  کو خطاب کیا ہے اور اس طرح کا اسلوب کلام عرب میں موجود ہے ، اس تفسیر کی روسے ھارون علیہ السلام کے آمین کہنے کا مسئلہ  ہی نہیں رہتا ، لیکن امام ابو حیان اور ابن عطیہ نے اس قول  کی تضعیف کی ہے۔ دیکھئے  تفصیل کیلئے : تفسیر ابن جریر الطبری :12/27۔ تحقیق ترکی ، البحر المحیط:   5/ 186،المحررا الوجیر :4 / 520 ،تفسیر القرطبی:11/42، اللباب فی علوم القرآن :10/401،  البرھان فی علوم القرآن :2/239۔240۔

تیسراقول: کئی مفسرین نے اس آيت کی تفسیر میں  یہ ذکر کیا ہےکہ موسی علیہ السلام  کے ساتھ ساتھ انہی کی طرح  ھارون علیہ السلام  نے بھی دعا کی تھی نہ کہ ان کی دعا پر آمین  کہا تھا اور علامہ  آلوسی  نے اسی کو ظاہر قرار دیا ہے چنانچہ تحریر فرماتے ہیں :

  "ھو خطاب لموسی وھارون علیھما  السلام ، وظاھرہ ان ھارون علیہ السلام دعا بمثل ما دعا موسی علیہ السلام حقیقۃ لکن اکتفی بنقل دعاء موسی علیہ السلام لکونہ  الرسول  بالاستقلال عن نقل دعائہ واشرک بالبشارۃ اظھارا لشرفہ علیہ السلام ..."۔

    ڈاکٹر محمد لقمان سلفی  حفظہ اللہ  لکھتے ہیں : " یہاں دعا کی  نسبت موسی اور ہارون  دونوں کی طرف کی گئي ہے ، اس لئے کہ ممکن ہےکہ دعا دونوں نے کی ہو، لیکن اوپر  والی آیت میں اس کی نسبت صرف موسی  کی طرف اس لئے کی گئي   کہ صاحب رسالت در اصل  وہی تھے ، ہارون ان کے تابع تھے..."

(روح المعانی :11/174،تیسیر الرحمن لبیان القرآن للدکتور محمد لقمان  السلفی ص 625 حاشیہ  58، نیز دیکھئے :معانی القرآن للزجاج :3/31، تفسیر القرطبی :11/42، تفسیر الرازی:17/159، اللباب فی علوم القرآن :10/401،غرائب القرآن ورغائب الفرقان:  3/607، البحر المحیط:5/186،الکشاف للزمخشری:   3/168، تفسیر التحریر و التنویرلابن  عاشور:11/272،  فتح القدیر:2/656،فتح البیان:9/114)۔

اس قول کی صحت کے لیے دو  دلیلیں  ذکر کی ‏گئي ہیں :

(1)قال النحاس:سمعت علی بن سلیمان یقول:"الدلیل علی ان الدعاء لھما  قول موسی  علیہ السلام :"ربنا" ولم یقل "رب" یعنی نحاس نے کہا کہ میں نے علی بن سلیمان  کو کہتے ہوئے  سنا کہ  دعاء مذکور موسی وھارون دونوں کی  تھی  اس کی دلیل خود موسی علیہ السلام  کا "ربنا" کہنا ہے  کہ انہوں نے "جمع  متکلم" کا صیغہ استعمال کیا  اور "رب" واحد  متکلم  کے ساتھ  نہیں کہا ۔( تفسیر قرطبی :11/42،فتح القدیر :2/656،فتح البیان:6/114)۔

(2) اور دوسری دلیل ربیع کی قرات ہےکہ انہوں نے(اجبت دعوتیکما ) ( میں نے تم دونوں کی دونوں دعائیں  قبول  کی ) پڑھا ہے "تاء متکلم" اور "دعوتیکما" کے تثنیہ  کے ساتھ  جو اس بات کی دلیل  ہےکہ ھارون  نے بھی موسی کے ساتھ انہی جیسی  دعا کی تھی (البحر المحیط:5/186،اللباب فی علوم القرآن:10/401،  تفسیر حدائق  الروح و الریحان فی روابی علوم القرآن :12/349،معجم القراءات للدکتور عبد اللطیف الخطیب:  3/611،ط:دار سعد الدین)

     تفصیل  سابق کا خلاصہ  یہ کہ آیت مذکورہ  کی تفسیر میں منقول پہلا قول نہ مرفوعا  ثابت ہے اور نہ ہی موقوفا  زیادہ سے زیادہ یہ کہ یہ قول دو تابعی  : ابو العالیہ اور ربیع بن انس سے صحیح سند کےساتھ منقول ہے لیکن چونکہ اس کا کوئي  مستند مذکور نہیں ہے اس لئے مقام اختلاف میں قابل حجت نہیں ہے اور دوسرے  قول کی  کئي مفسرین نے تضعیف کر رکھی ہے اس لئے وہ بھی  لائق احتجاج نہیں ہے  رہا تیسرا قول اس آيت کی تفسیر میں تو یہی راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ  ظاہر ارشاد  الہی اسی پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ  علامہ آلوسی کے حوالہ سے گزرچکا ہے اور اس  کی تائيد  ربیع کی قرات   اور علی بن سلیمان کے قول وتفسیر  سے ہوتی ہے   لہذا یہی قول اختیار وترجیح کے زیادہ لائق ہے ۔

ثانیا: اگر ہم اثر ابو العالیہ و ربیع بن انس کو حجت مانتے ہیں تو سوال یہ ھے کہ ھارون علیہ السلام نے ایک بار آمین کہا تھا یا ایک سے زائد بار؟ اور انہوں نے بلند آواز سے کہا تھا یا پست آواز سے ؟ اور پھر یہ اتفاقی طور پر تھا یا دائمی طور پر ؟ استنادی حیثیت کے اثبات کے ساتھ ساتھ ان تمام امور کے اوپر سے بھی پردہ اٹھانا ہوگا تبھی یہ قول دلیل بن سکتاہے   و دون ذلک خرط القتاد ! ۔

ثالثا :یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ بعض لوگوں کا اس آيت کی تفسیر سے  غیر کی دعا پر آمین کہنے کی دلیل اخذ کرنا صحت سے بعید  تر عمل ہے جو عدم تحقیق وقلت تدبر  کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم۔•••

 

 

Comments

Popular posts from this blog

جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق

تحقیقی مقالہ:   جمعہ کے دن   سورہ کہف پڑھنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیث کی تحقیق … شیخ عبد اللہ بن فوزان بن صالح الفوزان   / اسسٹنٹ پروفیسر کلیۃ المعلمین ،ریاض                                                      ترجمہ : ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                        تلاش وجستجو کے بعد   اس مسئلہ میں صرف سات حدیثیں مل سکی ہیں، ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہی اصل ہے اور یہ دیگر چھ حدیثوں کی بہ نسبت زیادہ قوی ہے ، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :                   " وھو اقوی ماورد فی سورۃ الکہف"   یعنی سورۂ کہف کے بارے میں مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ قوی ومضبوط ہے۔ (دیکھئے : فیض القدیر:6/198)۔ آئندہ سطور میں ان احادیث پر تفصیلی کلام   پیش خدمت ہے: پہلی حدیث : ابو سعید خدروی رضی اللہ عنہ   کی حدیث:   اس حدیث   کی سند کا دارومدار ابو ھاشم(2) عن ابی مجلز (3)عن قیس بن عباد(4) عن ابی سعید(5) پر ہے۔ اور ابو ھاشم پر اس کے مرفوع وموقو

قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین

  قنوت وتر کا محل اور دعاء میں رفع یدین                                                                     ◙ … ابو عبدالعزیزمحمد یوسف مدنی   گزشتہ ماہ ، ماہ رمضان المبارک   میں بارہا یہ سوال آیا کہ ایا قنوت   الوتر رکوع سے قبل   یا بعد، اور دعاء القنوت میں رفع یدین کا ثبوت ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب بعض محققین علماء کی تحقیق کی بناپر یہی دیا گیا تھا کہ قنوت الوتر رکوع سے قبل ہی ثابت ہے اور اس میں رفع یدین کا کوئي   ثبوت نہیں ہے پھر خیا ل آیا   کہ کیوں نہ بذات خود اس مسئلہ   کی تحقیق کی جائے چنانچہ   اس سلسلہ میں سب سے پہلے   الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ :34/58۔64 میں مذاہب اربعہ   کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان مذاہب کے فقہاء   وائمہ اس بارے میں مختلف رای رکھتے ہیں ، پھر علماء اہلحدیث کی تحریرات وفتاوی پر نظر ڈالا   تو یہاں بھی اختلاف پایا ، ان میں سے چند فتوے افادہ   کی خاطر پیش کی جاتی ہیں : (1)اخبار اہلحدیث دہلی جلد:2 شمارہ :4 میں ہے :" صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے،دعا   ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اولی ہے

فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک

تاریخ وسوانح:   فرائضی تحریک بنگال کےاہلحدیث مسلمانوں کی پہلی تحریک … ابوعبدالعزیزمحمدیوسف مدنی "                                                                          ہندوستان   میں اسلام تو پہلی صدی ہجری   ہی میں فاتحانہ آب وتاب کے ساتھ داخل   ہوگیا تھا ۔ البتہ حدود   بنگال   میں کب داخل ہوا ،اس کی تعیین ہمارے لئے ایک مشکل امر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرورزمانہ   کے ساتھ ساتھ اسلام کے تابناک چہرے کو مسلمان صوفیوں   سنتوں نے داغدار ومسخ کر کے مسلم عوام کے دلوں سے دینی   روح اور اسپرٹ کو بالکل بے دخل کردیا ،   اور ایک زمانہ تک ہندوستان میں ان کا اثر ورسوخ رہا ،اس لئے عوام عموما ہندومت سے تائب ہو کر صوفیا   کے توسط سے مسلمان ہوئے، لیکن تبدیلی   مذہب سے ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں فرق رونما نہیں ہوا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی   توحید کو تہہ وبالا کردیا ، جاہل عوام اگر پہلے مندروں میں بتوں کے سامنے سر   بسجود تھے، تو اب مقابر سجدہ گاہ بن گئے، پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست دعا دراز کیا جاتا تو اب صوفیا   اور پ